• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قنوت وتر میں دعاء کی طرح ہاتھ اٹھانا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ذاتی پیغام میں محترم بھائی @Shanif Baig نے سوال کیا ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کی کیا دلیل ہے ،

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب ::
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
محترم بھائی ::
دینی مسائل میں شرعی دلیل کی تلاش کا جذبہ قابل تحسین ہے ،
اس مسئلہ میں مختصراً عرض ہے :
وذكر البخاري في "جزء رفع اليدين " (ص 68 ) من طريق أبي عثمان ، قال : كان عمر يرفع يديه في القنوت '
ترجمہ :امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء رفع الیدین میں صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ :
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہاتھ اٹھا کر دعاءِ قنوت پڑھتے '
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعن أبي رافع قال : " صليت خلف عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - فقنت بعد الركوع ، ورفع يديه ، وجهر بالدعاء " . أخرجه البيهقي في " السنن الكبرى " (2/212) ، وقال " هذا عن عمر صحيح "

ترجمہ ' ابو رافع کہتے ہیں :میں نے جناب عمر کے پیچھے نماز پڑھی ،انہوں نے رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر جہری آوازسے دعاء قنوت پڑھی '
(اس روایت کو امام بیہقی نے نقل فرمایا ،اور ساتھ لکھا کہ یہ بات جناب عمر سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ؛

اور علامہ محی الدین نووی "المجموع " (3/490 ) میں فرماتے ہیں :
" وعن أبي عثمان ، قال : كان عمر - رضي الله عنه - يرفع يديه في القنوت . وعن الأسود أن ابن مسعود - رضي الله عنه - كان يرفع يديه في القنوت .. رواها البخاري في كتاب "رفع اليدين" بأسانيد صحيحة ، ثم قال في آخرها - يعني البخاري - : هذه الأحاديث صحيحة عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه ". أهـ
یعنی امام بخاریؒ نے 'جزء رفع الیدین ' میں صحیح اسانید سے نقل کیا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب اور جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہاتھ اٹھا کر دعاءقنوت پڑھتے تھے '


اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قال البيهقي -رحمه الله – في "السنن الكبرى " ( 2 / 211 ) : " إن عدداً من الصحابة - رضي الله عنهم - رفعوا أيديهم في القنوت مع ما رويناه عن أنس بن مالك عن النبي - صلى الله عليه وسلم – " . أهـ
یعنی کئی صحابہ کرام سے دعاءِ قنوت میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں
" قنوت نازلہ کے لیے ہاتھ اٹھانا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
وہ حدیث مبارکہ درج ذیل ہے :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا صَلَّى الْغَدَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ
" میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ جب بھی فجر کی نماز پڑھاتے تو ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے بد دعاء کرتے۔ ( أخرجه أحمد بإسناد صحيح ) مسند احمدبسند صحیح
اور یہ بات واضح ہے کہ وتر کی دعاء قنوت بھی قنوت نازلہ کی طرح قنوت ہی ہے
اور
عامر بن شبل الجرمی(ثقہ راوی) سے روایت ہے کہ ‘‘رأیت أبا قلابۃ یرفع یدیہ فی قنوتہ’’ میں ابو قلابہ (ثقہ تابعی) کو دیکھا، وہ اپنے قنوت میں ہاتھ اُٹھاتے تھے(السنن الکبریٰ للبیھقی ج۳ ص۱ ۴ و سندہ حسن) قنوت نازلہ میں (دعا کی طرح) ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔ (مسند احمد ۳؍۱۳۷ح ۱۲۴۲۹ و سندہ صحیح)
عن الثوري ، عن منصور ، عن مغيرة ، عن إبراهيم ، قال : يكبر إذا فرغ من القراءة من الركعة الآخرة من الوتر ، ثم يقنت ، ويرفع صوته ..... قال المغيرة : عن إبراهيم ، ويرفع يديه في الوتر .
(روى عبد الرزاق في "المصنف" ( 3 / 122)
مشہور تابعی جناب ابراہیم نخعیؒ : نماز وتر کی آخری رکعت کی قراءت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہہ کر ہاتھ اٹھا کر بلند آواز کے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے '


امام اہل سنت احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ بھی قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کے قائل تھے "
(دیکھئے مسائل ابی داود ص ۶۶ و مسائل احمد و إسحاق راویۃ إسحاق بن منصور الکوسج ۱؍۲۱۱ت۴۶۵ ، ۵۹ ت ۳۴۶۸)


سئل الإمام أحمد – رحمه الله - عن القنوت في الوتر قبل الركوع أم بعده ، وهل ترفع الأيدي في الدعاء في الوتر ؟
فقال : القنوت بعد الركوع ، ويرفع يديه ، وذلك على قياس فعل النبي - صلى الله عليه وسلم - في القنوت في الغداة مختصر قيام الليل (ص318 ) .
وقال أبو داود : سمعت أحمد سئل ، يرفع يديه في القنوت ؟ قال: نعم يعجبني . قال أبو داود : فرأيت أحمد يرفع يديه في القنوت . مسائل الإمام أحمد لأبي داود ( ص 66 ) .
وقال الأثرم : كان أحمد يرفع يديه في القنوت إلى صدره ، واحتج بأن "ابن مسعود رفع يديه إلى صدره في القنوت"، أنكره مالك .
المغني(2/584) ، والإنصاف(2/172) .
 
Last edited:
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
ذاتی پیغام میں محترم بھائی @Shanif Baig نے سوال کیا ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کی کیا دلیل ہے ،

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب ::
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
محترم بھائی ::
دینی مسائل میں شرعی دلیل کی تلاش کا جذبہ قابل تحسین ہے ،
اس مسئلہ میں مختصراً عرض ہے :
وذكر البخاري في "جزء رفع اليدين " (ص 68 ) من طريق أبي عثمان ، قال : كان عمر يرفع يديه في القنوت '
ترجمہ :امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء رفع الیدین میں صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ :
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہاتھ اٹھا کر دعاءِ قنوت پڑھتے '
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعن أبي رافع قال : " صليت خلف عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - فقنت بعد الركوع ، ورفع يديه ، وجهر بالدعاء " . أخرجه البيهقي في " السنن الكبرى " (2/212) ، وقال " هذا عن عمر صحيح "

ترجمہ ' ابو رافع کہتے ہیں :میں نے جناب عمر کے پیچھے نماز پڑھی ،انہوں نے رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر جہری آوازسے دعاء قنوت پڑھی '
(اس روایت کو امام بیہقی نے نقل فرمایا ،اور ساتھ لکھا کہ یہ بات جناب عمر سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ؛

اور علامہ محی الدین نووی "المجموع " (3/490 ) میں فرماتے ہیں :
" وعن أبي عثمان ، قال : كان عمر - رضي الله عنه - يرفع يديه في القنوت . وعن الأسود أن ابن مسعود - رضي الله عنه - كان يرفع يديه في القنوت .. رواها البخاري في كتاب "رفع اليدين" بأسانيد صحيحة ، ثم قال في آخرها - يعني البخاري - : هذه الأحاديث صحيحة عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه ". أهـ
یعنی امام بخاریؒ نے 'جزء رفع الیدین ' میں صحیح اسانید سے نقل کیا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب اور جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہاتھ اٹھا کر دعاءقنوت پڑھتے تھے '


اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قال البيهقي -رحمه الله – في "السنن الكبرى " ( 2 / 211 ) : " إن عدداً من الصحابة - رضي الله عنهم - رفعوا أيديهم في القنوت مع ما رويناه عن أنس بن مالك عن النبي - صلى الله عليه وسلم – " . أهـ
یعنی کئی صحابہ کرام سے دعاءِ قنوت میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں
" قنوت نازلہ کے لیے ہاتھ اٹھانا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
وہ حدیث مبارکہ درج ذیل ہے :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا صَلَّى الْغَدَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ
" میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ جب بھی فجر کی نماز پڑھاتے تو ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے بد دعاء کرتے۔ ( أخرجه أحمد بإسناد صحيح ) مسند احمدبسند صحیح
اور یہ بات واضح ہے کہ وتر کی دعاء قنوت بھی قنوت نازلہ کی طرح قنوت ہی ہے
اور
عامر بن شبل الجرمی(ثقہ راوی) سے روایت ہے کہ ‘‘رأیت أبا قلابۃ یرفع یدیہ فی قنوتہ’’ میں ابو قلابہ (ثقہ تابعی) کو دیکھا، وہ اپنے قنوت میں ہاتھ اُٹھاتے تھے(السنن الکبریٰ للبیھقی ج۳ ص۱ ۴ و سندہ حسن) قنوت نازلہ میں (دعا کی طرح) ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔ (مسند احمد ۳؍۱۳۷ح ۱۲۴۲۹ و سندہ صحیح)
عن الثوري ، عن منصور ، عن مغيرة ، عن إبراهيم ، قال : يكبر إذا فرغ من القراءة من الركعة الآخرة من الوتر ، ثم يقنت ، ويرفع صوته ..... قال المغيرة : عن إبراهيم ، ويرفع يديه في الوتر .
(روى عبد الرزاق في "المصنف" ( 3 / 122)
مشہور تابعی جناب ابراہیم نخعیؒ : نماز وتر کی آخری رکعت کی قراءت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہہ کر ہاتھ اٹھا کر بلند آواز کے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے '


امام اہل سنت احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ بھی قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کے قائل تھے "
(دیکھئے مسائل ابی داود ص ۶۶ و مسائل احمد و إسحاق راویۃ إسحاق بن منصور الکوسج ۱؍۲۱۱ت۴۶۵ ، ۵۹ ت ۳۴۶۸)


سئل الإمام أحمد – رحمه الله - عن القنوت في الوتر قبل الركوع أم بعده ، وهل ترفع الأيدي في الدعاء في الوتر ؟
فقال : القنوت بعد الركوع ، ويرفع يديه ، وذلك على قياس فعل النبي - صلى الله عليه وسلم - في القنوت في الغداة مختصر قيام الليل (ص318 ) .
وقال أبو داود : سمعت أحمد سئل ، يرفع يديه في القنوت ؟ قال: نعم يعجبني . قال أبو داود : فرأيت أحمد يرفع يديه في القنوت . مسائل الإمام أحمد لأبي داود ( ص 66 ) .
وقال الأثرم : كان أحمد يرفع يديه في القنوت إلى صدره ، واحتج بأن "ابن مسعود رفع يديه إلى صدره في القنوت"، أنكره مالك .
المغني(2/584) ، والإنصاف(2/172) .


عن أنس رضي اللّه عنه ( أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان لا يرفع يديه في شيء من دعائه إلافي الاستسقاء )رواه البخاري

محترم اسحاق بھائی آپ یہ درج بالا حدیث سمجھادیں کیونکہ میں نے اس کی شرح پڑھی ہے مگر صحیح طرح سمجھ نہیں آیا.. اور اس حدیث میں باقی احادیث کے ساتھ ظاہرا تعارض ہے.. جزاکم اللہ أحسن الجزاء
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عن أنس رضي اللّه عنه ( أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان لا يرفع يديه في شيء من دعائه إلافي الاستسقاء )رواه البخاري

محترم اسحاق بھائی آپ یہ درج بالا حدیث سمجھادیں کیونکہ میں نے اس کی شرح پڑھی ہے مگر صحیح طرح سمجھ نہیں آیا.. اور اس حدیث میں باقی احادیث کے ساتھ ظاہرا تعارض ہے.. جزاکم اللہ أحسن الجزاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم بھائی :
اس کی وضاحت صحیح بخاری دو "فتح الباری " یعنی حافظ ابن رجبؒ کی فتح الباری ۔۔اور حافظ ابن حجر کی " فتح الباری "
میں درج ذیل دی ہے ؛؛
(1) فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر
قَوْلُهُ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ ظَاهِرُهُ نَفْيُ الرَّفْعِ فِي كُلِّ دُعَاءٍ غَيْرِ الِاسْتِسْقَاءِ وَهُوَ مُعَارَضُ بِالْأَحَادِيثِ الثَّابِتَةِ بِالرَّفْعِ فِي غَيْرِ الِاسْتِسْقَاءِ وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّهَا كَثِيرَةٌ وَقَدْ أَفْرَدَهَا الْمُصَنِّفُ بِتَرْجَمَةٍ فِي كِتَابِ الدَّعَوَاتِ وَسَاقَ فِيهَا عِدَّةَ أَحَادِيثَ فَذَهَبَ بَعْضُهُمْ إِلَى أَنَّ الْعَمَلَ بِهَا أَوْلَى وَحمل حَدِيث أنس علىنفى رُؤْيَتِهِ وَذَلِكَ لَا يَسْتَلْزِمُ نَفْيَ رُؤْيَةِ غَيْرِهِ وَذَهَبَ آخَرُونَ إِلَى تَأْوِيلِ حَدِيثِ أَنَسٍ الْمَذْكُورِ لِأَجْلِ الْجَمْعِ بِأَنْ يُحْمَلَ النَّفْيُ عَلَى صِفَةٍ مَخْصُوصَةٍ أمَّا الرَّفْعُ الْبَلِيغُ فَيَدُلُّ عَلَيْهِ قَوْلُهُ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ وَيُؤَيِّدُهُ أَنَّ غَالِبَ الْأَحَادِيثِ الَّتِي وَرَدَتْ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ إِنَّمَا الْمُرَادُ بِهِ مَدُّ الْيَدَيْنِ وَبَسْطُهُمَا عِنْدَ الدُّعَاءِ وَكَأَنَّهُ عِنْدَ الِاسْتِسْقَاءِ مَعَ ذَلِكَ زَادَ فَرَفَعَهُمَا إِلَى جِهَةِ وَجْهِهِ حَتَّى حَاذَتَاهُ " الخ
خلاصہ :حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے علاوہ اپنی کسی دعاء میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ، تو بظاہر تو یہ حدیث استسقاء کے علاوہ دعاء میں رفع یدین کی نفی کرتی ہے ،
لیکن یہ بات ان صحیح ثابت احادیث کے معارض ہے جن میں استسقاء کے علاوہ بھی دعاء کیلئے ہاتھ اٹھانا ثابت ہیں ،
اور جیسا کہ پہلے بھی یہ بات گذری کہ دعاء میں ہاتھ اٹھانے کی کئی روایات موجود ہیں ؛
اور خود امام بخاری نے ان احادیث کیلئے کتاب الدعوات میں باب منعقد کیا ہے ،اور کئی احادیث اس ضمن میں نقل کی ہیں، اسی لئے کئی اہل علم کا کہنا ہے کہ دیگر مواقع کیلئے دعاء میں اٹھانے کی احادیث پر عمل اولی و افضل ہے،
اور حدیث انس رضی اللہ عنہ میں دیگر مواقع پر ہاتھ اٹھانے کی نفی کو سیدنا انس کی عدم رؤیت پر محمول کیا جائے
اور اس بات پر محمول کیا جائے کہ سیدنا انس نے نہیں دیکھا تو لازم نہیں کہ دوسروں نے بھی دیگر مواقع پر دعاء میں ہاتھ اٹھانا نہیں دیکھا ،(یعنی دیگر صحابہ کرام دوسرے مواقع پر دعاء میں ہاتھوں کا اٹھانا دیکھا اور نقل کیا ہے )

اور کچھ اہل علم نے جمع وتطبیق کیلئے حدیث انس کی یہ تاویل کی ہے کہ : نفی سے مراد ایک خاص صفت کی نفی ہے
یعنی یا تو مطلب یہ ہے کہ جیسا میں استسقاء میں ہاتھ اٹھنے میں مبالغہ دیکھا اتنے مبالغہ سے کسی دوسر دعاء میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ،جیسا کہ خود اسی حدیث میں ہے کہ دعاء کیلئے ہاتھ اتنے بلند کئے کہ مجھے آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دی ، اور اس تاویل کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے اکثر احادیث میں دعاء کیلئے ہاتھوں کا لمبا کرنا اور پھیلانا ہی مذکور ہوتا ہے ،لیکن استسقاء کیلئے دعاء میں ہاتھوں کو چہرہ انور کی طرف اٹھانے کی ہیئت نمایاں ہے ،یہاں تک کہ ہاتھ چہرہ کے مقابل آگئے ،
_______________________
اور تقریباً یہی بات دوسری
فتح الباري شرح صحيح البخاري " میں بھی ہے
جو امام عبد الرحمن بن أحمد بن رجب الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ) کی تصنیف ہے ؛

وقول أنس: ((كان لا يرفع يديه إلا في الاستسقاء)) ، في معناه قولان:
أحدهما: أن أنسا اخبر عما حفظه من النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وقد حفظ غيره عن النَّبيّ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أنه رفع يديه في الدعاء في غير الاستسقاء - أيضا.
وقد ذكر البخاري في ((كتاب الأدعية)) : ((باب: رفع الأيدي في الدعاء)) :
وقال أبو موسى، دعا النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ثم رفع يديه، ورأيت بياض إبطيه.
وقال ابن عمر: رفع النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يديه، وقال: ((اللهم إني أبرأ إليك مما صنع خالد)) .
ثم ذكر رواية الأويسي تعليقاً، وقد ذكرناها في الباب الماضي.
والثاني: أن أنساً أراد أنه لم يرفع يديه هذا الرفع الشديد حتى يرى بياض إبطيه، إلا في الاستسقاء.
وقد خرّج الحديث مسلم، ولفظه: كان النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لايرفع يديه في شىء من دعائه الا في الاستسقاء حتى يرى بياض إبطيه. ومع هذا؛ فقد رأه غيره رفع يديه هذا الرفع في غير الاستسقاء - أيضا.
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم بھائی :
اس کی وضاحت صحیح بخاری دو "فتح الباری " یعنی حافظ ابن رجبؒ کی فتح الباری ۔۔اور حافظ ابن حجر کی " فتح الباری "
میں درج ذیل دی ہے ؛؛
(1) فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر
قَوْلُهُ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ ظَاهِرُهُ نَفْيُ الرَّفْعِ فِي كُلِّ دُعَاءٍ غَيْرِ الِاسْتِسْقَاءِ وَهُوَ مُعَارَضُ بِالْأَحَادِيثِ الثَّابِتَةِ بِالرَّفْعِ فِي غَيْرِ الِاسْتِسْقَاءِ وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّهَا كَثِيرَةٌ وَقَدْ أَفْرَدَهَا الْمُصَنِّفُ بِتَرْجَمَةٍ فِي كِتَابِ الدَّعَوَاتِ وَسَاقَ فِيهَا عِدَّةَ أَحَادِيثَ فَذَهَبَ بَعْضُهُمْ إِلَى أَنَّ الْعَمَلَ بِهَا أَوْلَى وَحمل حَدِيث أنس علىنفى رُؤْيَتِهِ وَذَلِكَ لَا يَسْتَلْزِمُ نَفْيَ رُؤْيَةِ غَيْرِهِ وَذَهَبَ آخَرُونَ إِلَى تَأْوِيلِ حَدِيثِ أَنَسٍ الْمَذْكُورِ لِأَجْلِ الْجَمْعِ بِأَنْ يُحْمَلَ النَّفْيُ عَلَى صِفَةٍ مَخْصُوصَةٍ أمَّا الرَّفْعُ الْبَلِيغُ فَيَدُلُّ عَلَيْهِ قَوْلُهُ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ وَيُؤَيِّدُهُ أَنَّ غَالِبَ الْأَحَادِيثِ الَّتِي وَرَدَتْ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ إِنَّمَا الْمُرَادُ بِهِ مَدُّ الْيَدَيْنِ وَبَسْطُهُمَا عِنْدَ الدُّعَاءِ وَكَأَنَّهُ عِنْدَ الِاسْتِسْقَاءِ مَعَ ذَلِكَ زَادَ فَرَفَعَهُمَا إِلَى جِهَةِ وَجْهِهِ حَتَّى حَاذَتَاهُ " الخ
خلاصہ :حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے علاوہ اپنی کسی دعاء میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ، تو بظاہر تو یہ حدیث استسقاء کے علاوہ دعاء میں رفع یدین کی نفی کرتی ہے ،
لیکن یہ بات ان صحیح ثابت احادیث کے معارض ہے جن میں استسقاء کے علاوہ بھی دعاء کیلئے ہاتھ اٹھانا ثابت ہیں ،
اور جیسا کہ پہلے بھی یہ بات گذری کہ دعاء میں ہاتھ اٹھانے کی کئی روایات موجود ہیں ؛
اور خود امام بخاری نے ان احادیث کیلئے کتاب الدعوات میں باب منعقد کیا ہے ،اور کئی احادیث اس ضمن میں نقل کی ہیں، اسی لئے کئی اہل علم کا کہنا ہے کہ دیگر مواقع کیلئے دعاء میں اٹھانے کی احادیث پر عمل اولی و افضل ہے،
اور حدیث انس رضی اللہ عنہ میں دیگر مواقع پر ہاتھ اٹھانے کی نفی کو سیدنا انس کی عدم رؤیت پر محمول کیا جائے
اور اس بات پر محمول کیا جائے کہ سیدنا انس نے نہیں دیکھا تو لازم نہیں کہ دوسروں نے بھی دیگر مواقع پر دعاء میں ہاتھ اٹھانا نہیں دیکھا ،(یعنی دیگر صحابہ کرام دوسرے مواقع پر دعاء میں ہاتھوں کا اٹھانا دیکھا اور نقل کیا ہے )

اور کچھ اہل علم نے جمع وتطبیق کیلئے حدیث انس کی یہ تاویل کی ہے کہ : نفی سے مراد ایک خاص صفت کی نفی ہے
یعنی یا تو مطلب یہ ہے کہ جیسا میں استسقاء میں ہاتھ اٹھنے میں مبالغہ دیکھا اتنے مبالغہ سے کسی دوسر دعاء میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ،جیسا کہ خود اسی حدیث میں ہے کہ دعاء کیلئے ہاتھ اتنے بلند کئے کہ مجھے آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دی ، اور اس تاویل کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے اکثر احادیث میں دعاء کیلئے ہاتھوں کا لمبا کرنا اور پھیلانا ہی مذکور ہوتا ہے ،لیکن استسقاء کیلئے دعاء میں ہاتھوں کو چہرہ انور کی طرف اٹھانے کی ہیئت نمایاں ہے ،یہاں تک کہ ہاتھ چہرہ کے مقابل آگئے ،
_______________________
اور تقریباً یہی بات دوسری
فتح الباري شرح صحيح البخاري " میں بھی ہے
جو امام عبد الرحمن بن أحمد بن رجب الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ) کی تصنیف ہے ؛

وقول أنس: ((كان لا يرفع يديه إلا في الاستسقاء)) ، في معناه قولان:
أحدهما: أن أنسا اخبر عما حفظه من النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وقد حفظ غيره عن النَّبيّ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أنه رفع يديه في الدعاء في غير الاستسقاء - أيضا.
وقد ذكر البخاري في ((كتاب الأدعية)) : ((باب: رفع الأيدي في الدعاء)) :
وقال أبو موسى، دعا النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ثم رفع يديه، ورأيت بياض إبطيه.
وقال ابن عمر: رفع النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يديه، وقال: ((اللهم إني أبرأ إليك مما صنع خالد)) .
ثم ذكر رواية الأويسي تعليقاً، وقد ذكرناها في الباب الماضي.
والثاني: أن أنساً أراد أنه لم يرفع يديه هذا الرفع الشديد حتى يرى بياض إبطيه، إلا في الاستسقاء.
وقد خرّج الحديث مسلم، ولفظه: كان النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لايرفع يديه في شىء من دعائه الا في الاستسقاء حتى يرى بياض إبطيه. ومع هذا؛ فقد رأه غيره رفع يديه هذا الرفع في غير الاستسقاء - أيضا.
جزاكم الله خيرا
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
حضرت انس کی وہ روایت جس میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے وہ منفرد یے اور ثابت سے سلیمان بن المغیرہ کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی، نیز وہ صحیح روایات کے خلاف ہے۔
 
Top