• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قوت باہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
ان روایات کی تخریج و صحت درکار ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
تخيير 2.jpg
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ان دو روایات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک واقعہ بتایا گیا ،
ان روایات کی صحت و ضعف بتانے سےپہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ کی کچھ تفصیل بتادی جائے،
یہ سنۃ 9 ہجری کا واقعہ ہے ؛
مفسر قرآن جناب اور ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ اپنی تفسیر "تیسیر الرحمن " میں لکھتے ہیں :
مفسرین لکھتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے دیکھا کہ انصار و مہاجرین کی بیویاں دنیاوی اعتبار سے ان سے اچھی حالت میں ہیں تو انہوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اخراجات میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس وقت ان کی تعداد نو (٩) تھی،
آپ ﷺ چونکہ مالی طور پر اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے، اس لئے آپ کو اس سے تکلیف ہوئی، اور اپنی تمام بیویوں سے ایک ماہ کے لئے الگ ہوگئے، یہاں تک کہ (سورۃ الاحزاب کی )یہ آیات نازل ہوئیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم کے مطابق ان سب کو اختیار دے دیا،
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (سورہ الاحزاب 28)
ترجمہ :
اے نبی! اپنی ازواج مطہرات سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیبائش ہی چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں ٭​
“ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے میرے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دنیا کا عیش و آرام چاہئے، اچھا کھانا پینا، عمدہ کپڑے، زیورات اور دیگر سامان عیش چاہئے تو آؤ تمہیں طلاق دے دوں اور مطلقہ عورتوں کو ہر آدمی کے حسب حال جو مال و متاع دینا چاہئے وہ دے کر تمہیں آزاد کر دوں اور اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور جنت چاہئے تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں اس یقین کے ساتھ زندگی گذارو کہ اللہ نے تم میں سے بھلائی کرنے والیوں کے لئے جنت میں میری معیت میں بہت ہی اونچا مقام تیار کر رکھا ہے۔
(ماخوذ از :تفسیر تیسیر الرحمن کچھ تدوین کے ساتھ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آتے ہیں ان دو روایات کی طرف جو آپ کے سوالیہ سکین میں موجود ہیں ،
تو عرض ہے کہ یہ روایات اسناد کے لحاظ سے ضعیف ہیں لیکن ان میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ صحیح سے ثابت ہے

صحیح مسلم ،باب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لاَ يَكُونُ طَلاَقًا إِلاَّ بِالنِّيَّةِ:
باب: تخییر (اختیار دینے )سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو۔

أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فقَالَ: " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَت: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا { 28 } وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا { 29 } سورة الأحزاب آية 28-29 ، قَالَت: فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَت: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ " .
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اپنی بیبیوں کو اختیار دے دو کہ وہ دنیا چاہیں تو دنیا لیں اور آخرت چاہیں تو آخرت لیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سےپہلے مجھ سے اس کو بیان کرنا شروع کیا۔ اور فرمایا: کہ ”میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا جب تک مشورہ نہ لے لینا اپنے ماں باپ سے۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑنے کا مجھے حکم نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ٭ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا» (۳۳-الأحزاب: ۲۸-۲۹) یعنی ”اے نبی! آپ اپنی بیبیوں سے کہہ دوکہ اگر وہ دنیا اور اس کی زینت چاہیں تو آؤ میں تم کو دنیا کے اسباب حیات دوں اور اچھی طرح سے تم کو رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضامندی چاہو اور اس کے رسول ﷺ کی اور آخرت کا گھر چاہو تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نیک بختوں کے لیے بہت بڑا ثواب تیار کیا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اس میں کون سی بات ایسی ہے جس کے لیے میں مشورہ لوں اپنے ماں باپ سے میں چاہتی ہوں اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے گھر کو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے ایسا ہی کیا جیسا میں نے کیا تھا۔

عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَت عَائِشَةُ : " قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَعُدَّهُ طَلَاقًا " .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے اختیار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تھا پھر ہم نے اس کو طلاق نہیں سمجھا۔
(صحیح مسلم ،کتاب الطلاق )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم کی ان دو احادیث کے پیش نظر سکین میں موجود طبقات ابن سعد کی روایات کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سائل کی طرف سے ایک مزید سکین موصول ہوا ہے!

21201 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں حدیث روایت کی ہے کہ :​

عن قتادة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا انس بن مالك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "كان النبي صلى الله عليه وسلم يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار وهن إحدى عشرة"، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قلت لانس:‏‏‏‏ اوكان يطيقه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كنا نتحدث انه اعطي قوة ثلاثين، ‏‏‏‏‏‏وقال سعيد:‏‏‏‏ عن قتادة، ‏‏‏‏‏‏إن انسا حدثهم:‏‏‏‏ تسع نسوة.(صحیح بخاری ،کتاب الغسل ح268 ۔نیز حدیث 5068 )
ترجمہ :
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس جاتے ، اور یہ گیارہ ازواج مطہرات تھیں۔ اس حدیث کے راوی جناب قتادہ فرماتے ہیں، میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے۔ تو سیدنا انس نے کہا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے نقل کیا کہ جناب انس نے نو(9) ازواج کا ذکر کیا "
http://mohaddis.com/SearchByTopic/4176

اس حدیث کی شرح میں علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ :
اس موضوع پر کچھ دیگر روایات میں مروی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو " چالیس جنتی مردوں کے برابر قوت عطا کی گئی "
اور ، اور امام احمد ؒ اور امام نسائیؒ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جنت میں مرد کو کھانے پینے اور جماع و شہوت میں سو مردوں کے برابر قوت عطا کی جائے گی "
تو اس لحاظ سےہمارے عظیم نبی ﷺ کو چار ہزار مردوں کے برابر قوت عطا کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بابن سعد (المتوفى: 230ھ) نے
طبقات ابن سعدؒ (طبع المکتبۃ الخانجی ، القاہرہ جلد 10 ص182 )میں نبی کریم ﷺ کی قوت جماع کے متعلق جو روایات درج اور نقل کی ہیں
https://archive.org/stream/A66aba9at_/A66aba9at_10#page/n181/mode/2up
ان سب روایات کا راوی محمد بن عمر الواقدی ہے تو اس کی حالت اور تعارف ملاحظہ فرمائیں :
امام نسائی ؒ فرماتے ہیں :​
محمد بن عمر الواقدي قال يحيى بن معين كان الواقدي يضع الحديث وضعاً "
یعنی امام یحیی بن معین ؒفرماتے ہیں کہ واقدی حدیثیں گھڑا کرتا تھا "
مشیخۃ النسائی )
امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:​
كتب الواقدي كذب
واقدی کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”متروک” راوی ہے ۔ اور اس کا استاذ ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرہ ”وضّاع”(جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا)اور کذاب(جھوٹا) راوی ہے۔
امام عبدالرحمن ابن ابی حاتم ؒ(م 327ھ) لکھتے ہیں :
عبد الرحمن نا يونس بن عبد الأعلى قال قال الشافعي: كتب الواقدي كذب.
حدثنا عبد الرحمن نا أحمد بن سلمة النيسابوري نا إسحاق بن منصور قال قال أحمد بن حنبل: كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا، قال اسحاق ابن راهويه كما وصف وأشد لانه عندي ممن يضع الحديث.
حدثنا عبد الرحمن أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: لا يكتب حديث الواقدي ليس بشئ نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن عمر الواقدي المدينى فقال: متروك

امام شافعیؒ(م204ھ) فرماتے ہیں کہ واقدی کی تمام کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں "
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : واقدی احادیث اھادیث کو الٹتا پلٹتا رہتا تھا ،
اور امام اسحاق ؒبن راہویہ فرماتے ہیں : واقدی "یضع الحدیث ۔ ” حدیثیں گھڑتا تھا۔”
اور امام يحيى بن معين فرماتے ہیں :واقدی کی احادیث نہ لکھی جائے ،وہ ہمارے نزدیک کوئی شئے نہیں "(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 8/20)

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:​
أجمعوا على تركه
اس کے متروک ہونے پر محدثین کا اجماع ہے[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:​
قد انعقد الإجماع اليوم على أنه ليس بحجة، وأن حديثه في عداد الواهي
آج اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ واقدی حجت نہیں ہے اور اس کی حدیث سخت ضعیف میں شمار ہوگی[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔

ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال اور امام علي بن المديني رحمہ الله (المتوفى234)سے تو یہ بھی نقل کیا گیا ہے واقدی حدیث ، انساب یا کسی بھی چیز میں قابل اعتماد نہیں ، چنانچہ:

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُوسَى السِّيرَافِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُهَلَّبِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ: الْهَيْثَمُ بْنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الْوَاقِدِيِّ , وَلَا أَرْضَاهُ فِي الْحَدِيثِ , وَلَا فِي الْأَنْسَابِ , وَلَا فِي شَيْءٍ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 108 ، شیخ العقیلی لم اعرفہ وباقی الرجال ثقات ، ومن طریق العقلیلی اخرجہ الخطیب فی تاريخ : 14/ 52 و ابن عساکر فی تاريخ دمشق 54/ 452 و ذکرہ المزی فی تهذيب الكمال: 26/ 187]۔
ترجمہ :
امام علي بن المدينيؒ فرماتے ہیں کہ واقدی نہ تو ہمیں حدیث میں پسند ہے ، اور انساب یا کسی بھی چیز میں بھی قابل اعتماد نہیں ،​

علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته
محمدبن عمر یہ واقدی کذاب ہے اس لئے اس کی روایت کسی کام کی نہیں "
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب روایات کو ایک ہی شخص محمد بن عمر واقدی نقل کرنے والا ہے ، پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ سب مرسل روایات ہیں ،علامہ البانیؒ ان روایات کے متعلق واضح طور پر فیصلہ دیتے ہیں کہ :​

قلت: وهذه أحاديث موضوعة؛ لأنها مع كونها كلها مرسلة، فهي من رواية محمد بن عمر - وهو الواقدي -؛ وهو كذاب.
وشيخه في الإسناد الأول موسى بن محمد بن إبراهيم - وهو التيمي -؛ منكر الحديث.
وشيخه في الإسناد الثاني ابن أبي سبرة - وهو أبو بكر بن عبد الله بن محمد ابن أبي سبرة -؛ متهم بالوضع.
وشيخه الآخر فيه عبد الله بن جعفر - وهو أبو جعفر والد علي بن المديني -؛ ضعيف.​

علامہ البانیؒ فرماتے ہیں : یہ تمام روایات موضوع (گھڑی ہوئی ،خود ساختہ ) ہیں ،کیونکہ یہ تمام روایات مرسل ہونے کے ساتھ محمد بن عمر الواقدی جیسے مشہورکذاب راوی نے بیان کی ہیں ،ان میں پہلی روایت میں واقدی کا شیخ موسیٰ بن محمدالتیمی ہے جو منکر الحدیث ہے ،
اور دوسری روایت میں واقدی نے یہ روایت ابو بکر ابن ابی سبرہ سے نقل کی ہے جو احادیث گھڑنے کی تہمت سے متہم ہے ،
اور اگلی روایت میں واقدی یہ روایت عبداللہ بن جعفر سے نقل کی ہے اور عبداللہ بن جعفر ضعیف راوی ہے ،

دیکھئے "سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ "( جلد9 ،ص 124 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخری روایت :
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى مَوْلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ لَيْلَةَ التِّسْعِ اللَّاتِي تُوُفِّيَ عَنْهُنَّ وَهُنَّ عِنْدَهُ كُلَّمَا خَرَجَ مِنْ عِنْدِ امْرَأَةٍ ، قَالَ لِسَلْمَى : صُبِّي لِي غُسْلًا فَيَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ الْأُخْرَى . فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَا يَكْفِيكَ غُسْلٌ وَاحِدٌ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذَا أَطْيَبُ وَأَطْهَرُ.
پانچویں روایت بھی واقدی کی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی بی بی سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ ﷺ ایک ہی رات میں اپنی نو 9 بیویوں کے پاس جاتے ،جب بھی کسی زوجہ سے نکل کر آتے تو خادمہ سے غسل کا پانی منگواتے ۔اور دوسری زوجہ کے پاس جانے سے قبل غسل کرتے ،سلمیٰ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ کیا ایک غسل کافی نہیں ،تو فرمایا :(ہر ایک کے بعد ) غسل کرلینا بہتر اور بہت پاکیزہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حدیث بھی محمد بن عمر الواقدی کذاب کی روایت سے ہے ،اس روایت کے متعلق دوسری بات یہ کہ اس میں واقدی کے استادمعاویہ بن عبداللہ کا ترجمہ میں تلاش نہیں کرسکا ۔ اسلئے یہ اسناد بھی ضعیف و ناکارہ ہے ۔
٭٭٭٭
 
Last edited:
Top