• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا جواز…!

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا جواز…!

محمد عطاء اللہ صدیقی
انسانی حقوق کے نام نہاد علمبر داروں کی طرف سے عورتوں اور مردوں کے فطری دائرہ کار سے قطع نظر غیر فطری مساوات ِمرد و زن کی جو عالمی سطح پر تحریک برپا ہے، پاکستان میں ا س کے متاثرین میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ آج سے دو سال قبل جب حزب ِاختلاف کی طرف سے قومی اسمبلی میں عورتوں کی نشستیں بحال کرنے کا جو بل پیش کیا گیا تھا، میاں نوازشریف کی حکومت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ بل کو پاس کرانے میں ناکامی کے باوجودNGOsکی بیگمات نے پارلیمنٹ میں ’’مساوی حقوق‘‘ کے لئے پراپیگنڈہ مہم جاری رکھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مہم جوئی رنگ لائی ہے۔ چند ہفتے پہلے پنجاب اسمبلی نے عورتوں کی نشستیں بحال کرنے کی قرارداد پیش کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے اس قرار داد کا پیش کیا جانا قدرے تعجب انگیز امر ہے۔ اور یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ قومی اخبارات میں اس مطالبہ کے حق میں کھل کر آراء کا اظہا رکیا گیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز بھی ہے؟ ہمارے خیال میں اس مطالبے کا کوئی معقول جواز سامنے نہیں آیا۔ اگر اس کو ’’عورت دشمنی‘‘ کے زمرے میں شمار نہ کیا جائے تو درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں:
1۔ عورتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے مطالبے کی فکری بنیاد ہی غلط ہے۔ اس مطالبے کی بنیاد مرد و زن کی تفریق پر مبنی ہے۔ اس ’’تفریق‘‘ پر اصرار گذشتہ چند دھائیوں میں ’’آزادی نسواں‘‘ کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ یورپ میں ایک مخصوص طبقے نے اپنے خاص ذوق کی تسکین کے لئے عورتوں کو ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی ترغیب دی۔ جس کے نتیجے میں عورتیں گھر کی چار دیواری کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں آئیں۔ دفتروں، کارخانوں اور بازاروں کی رونق تو بن گئیں لیکن ان کی ان مردانہ مصروفیات کی وجہ سے ان کے اپنے گھر ویران ہوگئے اور خاندانی نظام تباہ ہوگیا۔
2۔ یہ تصور نہایت مبالغہ آمیز مفروضات پر مبنی ہے کہ عورتوں کے حقوق کا تحفظ صرف عورتیں ہی کرسکتی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو بعض معاملات میں عورت ہی عورت کی بدترین دشمن نہ ہوتی۔ خاندانی تنازعات میں ساس اور بہو کی روایتی حریفانہ کشمکش اس کی واضح مثال ہے۔ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی خواتین مردوں کو بلا استثناء ظالم اور جابر کے روپ میں پیش کرتی ہیں۔ ان کا نقطہ نظر انتہا پسندی اور مجنونانہ صنف پرستی پر مبنی ہے۔ جبکہ عام زندگی میں عورتوں کے حقوق کے محافظ مرد ہی نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے درست فرمایا تھا: ع
عزت نسواں کا نگہباں ہے فقط مرد​
3۔ عورتوں کی مخصوص نشستیں ہوں یا نہ ہوں؟ یہ پاکستان کی عام عورت کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ مسئلہ ہے اصل میں ان چند مٹھی بھر افرنگ زدہ بیگمات کا، جو گذشتہ دس سالوں میں نامزدگی کی بنیاد پر اسمبلیوں میں رونق افروز رہی ہیں یا وہ متحرک خواتین جنہیں کسی بھی وجہ سے سیاست کا ’’لپکا‘‘ لگا ہوا ہے، مردوں کی مخلوط مجالس میں شریک ہونا جن کا نظریہ حیات ہے۔ ایسی خواتین اخبارات کے صفحات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اسمبلیوں میں نہ پہنچ پانے کا غم انہیں بے چین کئے رکھتا ہے۔
یہی خواتین مرد و زن کی مساوات کے پرجوش نعرے لگاتی ہیں۔ لیکن عام انتخابات میں مساویانہ جدوجہد کی بجائے مردوں سے رعایتی نشستیں لینے کی درخواست بھی کرتی ہیں۔
4۔ اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ قومی اسمبلی میں 20 نامزد خواتین کو بٹھا دینے سے عورتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوسکتا ہے تو پھر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ظاہر ہے اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ہمارا موقف یہ ہے گذشتہ دس بارہ سالوں میں جو خواتین ہماری اسمبلیوں میں جلوہ افروز رہی ہیں۔ اگر ویسی 200 خواتین بھی اسمبلی کی ارکان نامزد کردی جائیں، پاکستانی عورت کی موجودہ حالت کے بدلنے کے امکانات پیدا نہیں ہوسکتے کیونکہ قومی اسمبلی میں بیٹھنے کی خواہشمند خواتین پاکستان کی عام عورت کی ہر گز نمائندہ نہیں ہیں۔ ان کا طرز حیات، ان کی سوچوں کا دائرہ، ان کی ترجیحات، ان کے ثقافتی میلانات غرضیکہ کسی بات میں بھی قدر مشترک نظر نہیں آتی۔ وہ جس چکا چوند چلت پھرت کی عادی ہیں پاکستان کی 99 فیصد خواتین اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
5۔ اگر قومی اسمبلی کی 20 نشستیں بحال بھی کردی جائیں تب بھی مردوں کے تعاون کے بغیر نامزد خواتین کسی قسم کی قانون سازی میں موثر کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ وہ ہمیشہ مردوں کی غالب اکثریت کے رحم و کرم پر رہیں گی۔ اگر ان کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو پھر چند زیبائشی مہروں کے لئے آئین میں ترمیم کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔
6۔قومی اسمبلی منتخب نمائندوں کا ایوان ہے۔ اس کے تمام ارکان براہ راست عوام سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اگر اس میں نامزدگی کی بنیاد پر ارکان کو بھیجنے کے طریقہ کار کی منظوری دے دی جائے تو اس کا نمائندہ تشخص مجروح ہوگا۔ برطانیہ اور امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں کہیں بھی ایوان زیریں میں نامزدگی کی بنیاد پر نمائندے نہیں بھیجے جاتے۔ پاکستان میں بھی ایسے نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی میں چھ خواتین ارکان ہیں جو عام انتخابات میں منتخب ہوکر آئی ہیں۔ ان میں سے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی ہیں جو دو مرتبہ اس ملک کی وزیراعظم رہ چکی ہیں، اپنے سیاسی تجربے اور اثرورسوخ کی بنیاد پر وہ سینکڑوں خواتین پر بھاری ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور دیگر پانچ تجربہ کار خواتین ارکان کی موجودگی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کو بحال کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے یہ خواتین موثر طریقے سے خواتین کے مسائل کو عوام میں اٹھا سکتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ اس وقت قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی موجودگی میں کسی قسم کی نامزدگیوں کی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہئے۔ سیدہ عابدہ حسین اور تہمینہ دولتانہ بارہا خواتین کی مخصوص نشستوں کی مخالفت کرچکی ہیں۔
7۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے لئے سب سے زیادہ مطالبہ ’’لاہوری خواتین‘‘ کے ایک مخصوص حلقے کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مٹھی بھر خواتین اپنے سیاسی قدومامت کے تناسب سے بڑھ کر ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنتی رہتی ہیں۔ مغرب پسندی، مذہب بیزاری، مخلوط مجالس میں شرکت کی تڑپ، آزادی نسواں، نسوانیت سے بغاوت، مردانہ اعمال سے رغبت ان کا طرہ امتیاز ہے۔
خواتین کے حقوق کے نام پراسلام اور قومی ثقافت کو تضحیک کا نشانہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کی یہ روشن خیال عورتیں، پاکستان کی غریب عورتوں کی بات محض فیشن اور ذہنی عیاشی کے طور پر کرتی ہیں۔ ورنہ ان کو سوائے اپنی تشہیر کے کسی بات سے غرض نہیں ہے۔
انہیں معلوم ہے کہ اسمبلی کی رکن بن جانے کے بعد معاشرے میں ان کے مقام و منزلت میں اضافے کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں ان کی پذیرائی بھی بڑھ جائے گی۔ اسی لئے وہ عورتوں کے حقوق کے نام پر اپنے استحقاق کی بات کرتی ہیں۔ اگر ان بیگمات کو دوبارہ اسمبلیوں میں جانے کا موقع مل گیا تو یہ اسمبلی کے ایوان کو اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں کے لئے استعمال کریں گی۔ ان کے بے باکانہ اور باغیانہ طرز حیات نے پہلے ہی ہماری نوجوان پڑھی لکھی لڑکیوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
8۔ یورپ اور امریکہ میں عورتوں کے حقوق کا تذکرہ 1800ء کے لگ بھگ شروع ہوا۔ نیوزی لینڈ پہلا ملک تھا جس نے 1893ء میں عورتوں کے ووٹ کے حق کو تسلیم کیا۔ دیگر ممالک میں عورتوں کو اس حق کو تسلیم کرانے میں طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ چند ممالک کے متعلق تفصیلات حسب ذیل ہیں:
1۔ ناروے 1915ء میں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا……2۔ امریکہ 1920ء …
3۔ جرمنی 1919ء …4۔ روس1917ء…5۔ برطانیہ 1928ء …6۔ سپین 1931ء …
7۔ ترکی1935ء …8۔ رومانیہ1935ء …9۔ فلپائن 1937ء …
10۔ تھائی لینڈ1932ء میں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔
برطانیہ میں عورتوں کے لئے شروع میں شادی شدہ ہونے اور ایک خاص عمر کے ہونے کی شرط کو شامل کیا گیا بعد میں اسے ختم کردیا گیا۔ اگرچہ مغرب میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر عورتوں کو مساوی سطح پر ووٹ کا حق دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ میں ان کی رکنیت کا تناسب شروع سے بہت کم رہا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا )صفحہ (912 کے مطابق برطانیہ کے دارالعوام میں خواتین ارکان کا تناسب 3 فیصد، امریکہ کے ایوان نمائندگان میں 2 فیصد، جرمن پارلیمنٹ میں 7 فیصد، سوویت یونین )سابقہ( میں 30 فیصد رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار اگرچہ چند سال پہلے کے ہیں لیکن موجودہ تناسب بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہ ان ممالک کا حال ہے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی شرکت کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور جہاں آزادی نسواں عروج پر ہے، جہاں تعلیم یافتہ خواتین کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ممالک میں بھی سیاسی عہدوں کے لئے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں موزوں خیال کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا جواب سوائے اس بات کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ سیاست عورت کے فطری فرائض سے مطابقت نہیں رکھتی۔ امور مملکت کی انجام دہی، قانون سازی اور دیگر اداروں کے مناصب کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
مغربی ممالک میں عورتوں کی سیاسی نمائندگی کے تناسب کی روشنی میں اگر ہم پاکستان میں عورتوں کے تناسب کا جائزہ لیں تو پاکستانی خواتین کا عمل دخل بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اپنی ترقی کے لحاظ سے مغربی ممالک سے سو سال پیچھے ہے۔ لیکن یہاں کی خواتین کو ان ممالک سے زیادہ سیاسی حقوق حاصل ہیں۔ امریکہ میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی، پاکستان میں بے نظیر بھٹوصاحبہ دو مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کرچکی ہیں۔ پاکستان کی وہ مغرب زدہ خواتین جو اپنے ہی وضع کردہ مساوات کے معیار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلیوں میں نامزدگی کی بنیاد پر جانے کے لئے بے چین ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ یورپ اور امریکہ میں خواتین کو ملنے والے سیاسی حقوق کے ارتقاء کا جائزہ لیں۔ ان کا موجودہ رویہ بے صبری پر مبنی ہے۔ پاکستانی معاشرہ، ابھی جمہوری اقدار کے بہت سے مراحل سے نہیں گزرا جن سے مغربی معاشرہ گزر چکا ہے۔ ہماری ان روشن خیال خواتین کو چاہئے کہ وہ پکی پکائی کھیر کھانے کی بجائے ایثار و قربانی اور جدوجہد کے عمل سے گزر کر اپنا استحقاق ثابت کریں۔
9۔ مغرب کی تحریک آزادی نسواں کی گذشتہ دو سو سالہ تاریخ پر غور کیا جائے تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مغرب میں عورتوں کے حقوق کی مبلغات نے کسی ایک بات پر اکتفا نہیں کیا۔ ایک حق کے تسلیم کئے جانے کے بعد انہوں نے نئے اہداف مقرر کرلئے۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے ووٹ کاحق، جائداد کا حق اور تعلیم کا حق، ان کے مطالبات میں شامل تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ملازمتوں میں برابر کا حصہ، شادی کے معاملات میں برابر کے حقوق وغیرہ پر خاص توجہ دی گئی۔ اب نوبت باایں جارسید کہ انہی عورتوں نے مردوں کی برابری کے شوق کی تسکین کے لئے ’’عورت‘‘ رہنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ بچوں کی پیدائش کا فریضہ نبھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہر معاملے میں آبادی کے تناسب سے اپنی شرکت کا حق مانگ رہی ہیں۔ یہاں تفصیلات بیان کرنے کا محل نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اگر آزادی نسواں کی پرچارک خواتین کا ہر مطالبہ مان لیا جائے تو پھر عورت، عورت نہیں رہے گی۔ پاکستان میں جو خواتین آج 20 مخصوص نشستوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں، یہی خواتین بہت ہی جلد قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کی تعداد کا تعین عورتوں کی آبادی کے تناسب سے کریں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ان کے اس مطالبے کو بھی مان لیا جائے گا؟
10۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ یہ بیگمات اپنے حقوق کے حصول کے لئے بے حد عجیب فکری تضادات میں مبتلا ہیں۔ وہ مساوات مرد و زن کی بات کرتی ہیں۔ لیکن جہاں انہیں فائدہ پہنچ رہا ہو وہاں اس اصول کو توڑنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے سابقہ دور میں عورتوں کے لئے سزائے موت کو ختم کردیا گیا تو ان بیگمات نے اسے روشن خیالی تصور کیا۔ وہ صرف ’’امتیازی سلوک‘‘ وہاں دیکھ پاتی ہیں جہاں ان کے مزعومہ حقوق پر زد پڑتی ہو ورنہ وہ اسے اپنا نسوانی استحقاق سمجھتی ہیں۔ چند سال پہلے میڈیکل کالجوں میں طالبات کے لئے نشستیں مخصوص تھیں تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ عدالت نے ان کے موقف کو تسلیم کیا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے پاکستان کو مرد ڈاکٹروں کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ وہ فیلڈ میں جاکر کام کرسکتے ہیں۔ یہ روشن خیال بیگمات اپنے گھروں میں مردوں کی سربراہی کو قبول نہیں کرتیں لیکن اسمبلی میں پہنچنے کے لئے فوراً ہی عورت کی مظلومی کا رونا رونا شروع کردیتی ہیں۔ چونکہ وہاں اس طرح کے جذباتی نعروں کی بنیاد پر ہی ان کے مطالبات کے تسلیم کئے جانے کا امکاں ہوتا ہے۔
11۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اگر مرد ارکان اسمبلی خواتین کے ’’حقوق‘‘ کا تحفظ کرتے آئے ہیں تو اب بھی ہوسکتا ہے۔ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں اسمبلی نے فیملی لاء ز آرڈیننس منظور کیا تھا تو اس وقت کتنی خواتین ایوان کی رکن تھیں؟ اس قانون کی وجہ سے عورتوں کو طلاق دینے کا حق، مردوں کی دوسری شادی پر پابندی وغیرہ لاگو کی گئی تھی جو کہ اسلام کی واضح تعلیمات کے منافی ہے اور پھر جب ضیاء الحق نے اس آرڈیننس کو فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھا، تو تب بھی مرد حضرات نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اس ملک کی یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کو آج تک ختم نہیں کیا جاسکا، حالانکہ عورتوں کو اسمبلیوں میں خاطر خواہ تناسب کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔ اس ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں خواتین جج مقرر کی گئی ہیں۔ حالانکہ اسلامی فقہ کے مطابق عورت قاضی نہیں بن سکتی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد بیگم شائستہ اکرام اللہ کو بیرون ملک سفیر مقرر کیا گیا۔ اس وقت عورتوں کی آزادی کی تحریک کا وجود تک نہیں تھا۔ آج کل عورتوں کے الگ بنک اور تھانے بن چکے ہیں۔ آخر وہ کونسا عورتوں کا حق ہے کہ جس کے حصول کے لئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی 20 مخصوص نشستوں کو بحال کرنا ضروری ہے۔
1973ء کے آئین میں جب عورتوں کے متعلق محض صنف کی بنیاد پر کسی قسم کے امتیاز کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو اس وقت کتنی عورتیں ایوان میں موجود تھیں۔ یہ تصور گمراہ کن اور بے بنیاد ہے کہ مرد عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔
12۔ ’’اگر تو خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کا اصل مقصد مغربی رنگ میں رنگی ہوئی معاشرے میں اپنی خوب چلت پھرت دکھانے والی چند ایسی روشن خیال خواتین کو ایوان میں لاکر بٹھانا ہے جو مرد اراکین کی پسند پر پورا اترتی ہوں اور اسمبلی کے خشک ماحول میں کچھ سامان دل بستگی بھی فراہم کرسکیں‘‘ )بقول سید وصی مظہر ندوی( تو پھر اس سے زیادہ عورت ذات کا استحصال اور توہین کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ مرد اگر اپنے ذوق جمال کی تسکین کے لئے ایسے اقدام کے لئے تیار ہوجائیں تو کیا وہ عورتیں جو مردوں کے استحصال کے خلاف بزعم خویش ’’جنگ‘‘ برپا کئے ہوئے ہیں۔ وہ اس استحصال کو محض قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے لئے قبول کرلیں گی؟ مردوں کی دل بستگی کا ساماں کرنے والی عورتوں کو اس ملک کی کروڑوں عورتوں کی نمائندگی کا حق کیونکر دیا جاسکتا ہے؟
13۔ مندرجہ بالا دلائل کے ضمن میں راقم نے شعوری طور پر اسلام کا نام نہیں لیا۔ مذہب کا نام سنتے ہی یہ روشن خیال بیگمات ’’رجعت پسندی‘‘ اور دقیا نوسی‘‘ کا فتویٰ صادر فرما دیتی ہیں۔ وہ مذہب کی محض ان تاویلات کو ماننے پر آمادہ ہیں جو ان کی ’’آزادیوں‘‘ کو سند جواز عطا کرتی ہوں اور ایسے ’’روشن خیال‘‘ علماء کی کمی نہیں ہے جو ان کے لئے ان ’’تاویلات‘‘ کو تلاش کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات ابدی ہیں۔ اگر مٹھی بھر عورتوں کا یہ مغرب زدہ گروہ انہیں صدق دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس سے اسلامی تعلیمات کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی، اسلام نے عورت کا اصل مقام اس کا گھر قرار دیا ہے۔ جس انداز میں پاکستان کی عورتیں اسمبلی کے ایوانوں میں شریک ہوتی رہی ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔ صائمہ کیس میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے اسلام میں عورت کے مقام و حیثیت کے بارے میں جو مفصل دلائل نقل کئے ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو عورت کی کارکردگی کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ اسلام مردو زن کے ہر قسم کے اختلاط کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ مغرب زدہ خواتین کو اسلام کی ان تعلیمات سے چڑ ہے وہ ہر صورت میں یورپ کی عورتوں کی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ہر اس شخص کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جو ان کو اس طرح کی اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کرے۔ گذشتہ چند سالوں میں بے چارے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا جو انہوں نے حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے یہی وجہ ہے ان کی مخالفت مول لینے کی جرات بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مذہبی دانشوروں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر مفصل روشنی ڈالنی چاہئے۔ انہیں کلمہ حق کہہ دینا چاہئے خواہ مغرب زدہ خواتین کو ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔
14۔ تقریباً دوسال پہلے میاں نوازشریف صاحب کی حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کی طرف سے عورتوں کی نشستوں کی بحالی کا پیش کردہ بل مسترد کردیا تھا۔ یہ ایک قابل تعریف اقدام تھا۔ اب شنید یہ ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سے اس موضوع پر بل پیش کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ مغرب زدہ خواتین اور ان کے حواریوں کی طرف سے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ عورتوں کی نشستیں بحال کرانے کا بل پاس کرے۔ جناب میاں نوازشریف صاحب کو اس ضمن میں بے حد سوچ و بچار کے بعد قدم اٹھانا چاہئے۔ مذکورہ مخصوص نشستوں کی بحالی چند شہرت پسند اپوائی بیگمات کی محض خوشنودی پر منتج نہیں ہونی چاہئے۔
15۔اسلام انسان کی حیثیت سے مرد وزن کی مساوات کا درس دیتا ہے۔ اچھے اور برے اعمال کی سزا وجزا کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق کو روا نہیں رکھتا۔ اسلام نے بعض عالمی مذاہب اور دور جاہلیت کے اس تصور کو مسترد کر دیا کہ جس میں عورت کو ’’گناہوں کی پوٹلی‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے عزت، توقیر اور تکریم کے حصول کے لئے ’’تقویٰ‘‘ کو معیار ٹھہرایا۔ خالق کائنات کی نگاہ میں ایک نیکو کار عورت، کا مرتبہ ایک فاسق وفاجر مرد سے بدرجہا بلند ہے۔ اس فکری اور قانونی مساوات کے باوجود معاشرے کے ایک مفید رکن کی حیثیت سے اور فرائض کے تعین کے اعتبار سے دائرہ کار کی ’’مساوات‘‘ کا تصور اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عورت اور مرد کے ’’مساوی حقوق‘‘ کا جو پراپیگنڈہ اس وقت مغرب میں کیا جارہا ہے، وہ ایک عظیم فتنہ سے کم نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ عورت کو زندگی کے میدان میں مرد کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے اور اسے ہر وہ کام کرنا چاہئے جسے مرد انجام دیتا ہے، مجرد حیاتیاتی حقیقتوں کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے۔ وہ گھر کی ملکہ اور چراغ خانہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے خاندان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، اسی لئے اس کی سرگرمیوں کا اصل دائرہ گھر کی دہلیز کے باہر سے شروع ہوتا ہے۔
16۔خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے متعلق سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عورتیں پاکستان کی آبادی کا 52 فیصد ہیں۔ بعض حلقوں سے تو دبے لہجوں میں یہ مطالبہ بھی داغا جارہا ہے کہ عورتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ میں نشستیں دی جائیں۔ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس جذباتی دلیل کے قائل بلکہ گھائل نظر آتے ہیں، حالانکہ اگر وہ عورت کے فطری فرائض اور معاشرے میں اس کے اصل کردار پر غور فرمائیں، تو یہ دلیل محض ایک جذباتی نعرے سے زیادہ نہیں ہے۔ محض صنفی تفریق کے اعداد وشمار کو ہی نشستوں کی تخصیص کے لئے بنیاد ماننے پر اکتفا کیوں کیا جائے۔ دیگر تعصبات مثلاً، زبان ونسل اور ذات پات، دیہاتی وشہری، صنعت کار وکاشتکار وغیرہ کو نظر انداز کیوں کر دیا جائے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 45 فیصد حصہ بچوں پر مشتمل ہے، عورتوں کی مخصوص نشستوں کے جواز کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بچوں کو ان کے تناسب سے بھی نمائندگی ملنی چاہئے۔ پاکستان کی 70 % سے زیادہ آبادی زراعت پیشہ چھوٹے درجے کے کاشتکاروں پر مشتمل ہے، اگر وہ یہ کہیں کہ وڈیرے، جاگیردار اور صنعت کار ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے لہٰذا انہیں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے، تو بظاہر یہ بات نا معقول نہیں ہوگی۔ اس وقت قومی اسمبلی کا شاید ہی کوئی رکن ’’غریب کاشتکار‘‘ کے زمرے میں شامل ہو۔ پاکستان کے %74 پاشندے ان پڑھ ہیں، کل کلاں وہ اپنی ’’جہالت‘‘ کو پارلیمنٹ میں نمائندگی کے جواز کے طور پر پیش کریں، تو ان کی بات کو رد کرنے کا ’’معقول‘‘ جواز کیا ہوگا؟ امور جہاں داری، سیاست وحکومت سے متعلق امور کی انجام دہی ایک ہمہ وقتی ذمہ داری ہے، عورت بچوں کی نگہداشت اور گھریلو امور کی اہم ذمہ داریوں کو نظر انداز کیے بغیر سیاسی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں جب مرد حکومت وسیاست کے معاملات کو عورتوں سے بہتر انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو عورتوں کی طبع نازک کو ان گراں بار ذمہ داریوں کے زیر بار کیوں کیا جائے۔
17۔’’مساوی حقوق‘‘ کا مطالبہ ’’مساوی فرائض‘‘ کے تصور کے بغیر بے معنیٰ ہے۔ اسی لئے مساوی حقوق کا مطالبہ عورتوں کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے۔ ’’مساوی نمائندگی‘‘ کا مطالبہ صرف پارلیمنٹ تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ وہ تمام پیشے اور امور جن میں سخت جانفشانی کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں بھی عورتوں کو ’’مساوی نمائندکی‘‘ ملنی چاہئے۔ ’’سیاچین‘‘ کے برف پوش سنگلاخ پہاڑوں کی جگر پاش فضا میں ارض وطن کا دفاع صرف مردوں کی ذمہ داری آخر کیوں ہو؟ پاکستان کی %52 آبادی کو بھی اس قومی فریضے کی ادائیگی میں ’’شانہ بشانہ‘‘ شامل ہونا چاہئے۔ لوہے اور سٹیل کے کارخانوں کے انگارے برساتے ماحول میں خون پسینہ ایک کرنے والے مردوں کی مشقت میں بھی خواتین کو شریک ہونا چاہئے۔ پشاور سے کراچی تک مال بردار ٹرک اور ٹرالر ڈرائیوروں میں ایک بھی خاتون نہیں ہے، اس جفاکش پیشے میں بھی خواتین کو ’’مساوی حق‘‘ مانگنا چاہئے۔ یورپ کی عورتیں یہ کام کر رہی ہے پاکستان کی مغرب زدہ خواتین کو ان کی ’’اتباع‘‘ کرنی چاہئے چونکہ یہ عورتوں کو گھروں میں چین سے رھتے دیکھ کر بے حد بے چینی کا شکار ہیں۔ انہیں عملی مثال کے ذریعے ثابت کرنا چاہئے کہ عورتیں ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو بظاہر مردوں کے کام کہلاتے ہیں۔


عاصمہ جہانگیر … فکروعمل کے آئینے میں

ابتدائیہ عاصمہ جہانگیر ایڈوکیٹ نے انسانی حقوق کے ’’ چمپئن ‘‘ کی حیثیت سے بہت نام کمایا ہے۔ وہ آزادی رائے ، آزادی مذہب ، آزادی ضمیر ، پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے وہ ایک روشن خیال اور لبرل خاتون ہے اس نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات اور مشرقی روایات کو دقیانوسی اور رجعت پسندانہ سمجھتے ہوئے مغربی تہذیب کی اعلی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ وہ آزادی اظہار پر کسی قسم کی قدغن کو انسانی حقوق کے منافی سمجھتے ہے۔ توہین رسالت کے قانون کوبھی وہ انسانی حقوق کے خلاف سمجھتی ہے کیونکہ اس کے خیال میں یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ وہ ایک روایت شکن اور باغی عورت ہے جس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اسلامی اقدار اور مشرقی روایات کی خلاف ورزی کی جائے۔ اسے فخر ہے کہ وہ ایک بے باک ، جرات مند اور منہ پھٹ قسم کی خاتون ہے۔ اس کی فکر کا سر چشمہ تہذیب مغرب ہے۔اس کا رنگ رنگ فرنگی تہذیب کا دلداہ دکھائی دیتاہے۔
وہ ’’ حقوق نسواں ‘‘ کی انتھک چمپیئن ہے۔ اسے ہمیشہ افسوس رہاہے کہ پاکستان خواتین ، مغربی معاشرے کی مادر پدر آزادیوں سے آخر کیوں محروم رکھی جارہی ہیں۔ اس نے عورتوں کو معاشرتی پابندیوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہے ، وہ سرتاپا ایک باغی اور انقلابی خاتون ہے جو پاکستانی معاشرے میں اتھل پتھل مچا کر مرد و زن کی تفریق کو مٹا دینا چاہتی ہے۔ وہ مرد و زن کی مکمل اور غیر مشروط مساوات پر ایمان رکھتی ہے۔
انسانی حقوق میں آزادی اظہار کو وہ اولین درجہ دیتی ہے۔ اپنی تحریر وتقریر میں اس ’’ حق ‘‘ کو وہ بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ نجی محفلوں میں جنسی چٹکلے چھوڑنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔اپنے مخالفین کے خلاف زبان درازیوں کو وہ انسانی حقوق کا جزو لاہتک سمجھتی ہے۔ مذہبی طبقہ بالخصوص اس کی آزادی اظہار کا تختئہ مشق بنا رہتا ہے۔ ملاوئں کے خلاف اس کے بیانات زہر میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ اپنے مخالفین کی عزت نفس کو مجروع کرنا یا ان کے بارے میں اہانت آمیز بیانات دینے میں اس کا شاید ہی کوئی ہم پلہ ہو۔
مغرب آزادی اظہار کے ’’ حق ‘‘ کے متعلق بڑا حساس واقع ہواہے۔ برطانوی شاہی خاندان کی آبرو کو اچھالنے کے لئے اسی ’’ حق ‘‘ کو جواز بنایاگیا۔ عاصمہ جہانگیر بھی دوسروں کی کردار کشی کو عین ترقی پسندانہ اقدام سمجھتی ہے۔ وہ ایک بے حس عورت ہے جو کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا تو جانتی ہے لیکن کسی کی عزت کرنا اس کے باغیانہ مزاج کا حصہ ہرگز نہیں ہے۔
بہت عرصہ تک عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے حوالے سے لوگوں کے دلوں پر دھاک بیٹھی رہی۔ وہ یہودی لابی کے عزائم کو انسانی حقوق کے نام سے بڑی مکاری ، چالاکی اور بے حد کامیابی سے آگے بڑہاتی رہی۔ اس نے اپنا اصل چہرہ اور عزائم چھپاکے رکھے۔ پاکستان کا پریس اسکے ’’ کارناموں ‘‘ کو مسلسل تشہیر دیتا رہا۔ اس بے جا تشہیر نے اسے بددماغ بنا دیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ بے حد دھڑے سے توہین رسالت کے مجرمان اور خاندانی نظام کے باغیوں کی سرپرستی پر اتر آئی۔
اس کا اصل چہرہ شاید ابھی پردہ خفا رہتا کہ یکایک اس کا نام صائمہ کیس کے حوالے سے سامنے آنا شروع ہوا۔ اس نے عورت کی آزادی کے نام پر معاشقے اور رومان کے جواز پر تقاریر شروع کیں۔ پریس میں بیانات داغے۔ عدالتوں میں وکلاء کے ایک گروہ کے ساتھ خم ٹھونک کر اتری۔
مغربی ذرائع ابلاغ کو اپنی حمایت میں متحرک کیا۔ بالآخر صائمہ کیس کا جب عدالتی فیصلہ سامنے آیا تو اسے عاصمہ جہانگیر کی عظیم کامیابی قرار دیاگیا۔ لیکن اس کوتاہ فکر اور بے بصیرت عورت کو معلوم نہیں تھاکہ اس کی ’’ عظیم کامیابی ‘‘ اس کے لئے بالآخر گلے کا پھندا بن جائے گی۔ صائمہ کیس ایک سال چلتا رہا۔ اس دوران بہت سے تحقیق طلب لوگوں میں تجسس پیدا ہواکہ ’’ عاصمہ جہانگیر کیا چیز ہے ‘‘؟ اس کے ذاتی حالات اور اس کی سرگرمیوں کا سراغ لگانے کیلئے بہت سے صحافیوں نے ’’ خفیہ مشن ‘‘ شروع کئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا عاصمہ جہانگیر کے چہرے سے انسانی حقوق کا پاؤڈر پسینہ بن کر بہنا شروع ہوا۔ اس نے اپنی شخصیت کے گرد جو خول چڑھا رکھا تھاوہ جب اتر گیا تو اس کے نیچے سے بے حد بھیانک اور مکروہ چہرہ نمودار ہوا ، جو عاصمہ جہانگیر کا اصل چہرہ تھا۔ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں دبائیں کہ ہم تو اسے کیا سمجھتے تھے اور یہ کیا نکلی۔
اس کے اصل عزائم جب سامنے آئے تو لوگ ششدر رہ گئے کہ ایک اسلامی مملکت میں ایک یہودی ایجنٹ عورت اس قدر بھیانک کھیل کھیلتی رہی ہے اور کسی نے آج تک اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ اس کی زیر پرستی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کے لئے چلنے والے ادارے ’’ دستک ‘‘ کے بارے میں جب خفیہ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک ’’ ماڈرن چکلہ ‘‘ ہے جسے عاصمہ جہانگیر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ اسلام پسند نوجوانوں کا ایک گروہ اس انکشاف پر آپے سے باہر ہو گیا اور جاکر ’’ دستک ‘‘ پر دھاوا بول دیا۔ حکومتی مشینری حرکت میں نہ آتی تو وہ شایہ فحاشی کے اس جدید اڈے کی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ عاصمہ جہانگیر کا سارا غرور خاک میں مل گیا۔ اپنے آپ کو معزز ترین عورت سمجھنے والی عاصمہ اب منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔ ملاؤں کی ننگی گالیوں سے تواضع کرنے والی عاصمہ جہانگیر بالآخر مولانا مودودی کے خاندان سے ذاتی مراسم تلاش کرتی نظر آئی۔ ’’ دستک ‘‘ پر شباب ملی کے دھرنے کے خلاف اس کی زبان سے ایک بھی حرف احتجاج ادانہ ہوا۔
اسکو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس کو اپنے جرم کا احساس مسلسل کچو کے لگارہاتھا۔ کسی اور کو پتہ ہویانہ ہو وہ تو خوب سمجھتی ہے کہ وہ اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو تباہ کرنے کے لئے کیاکیا حرکات کرتی رہی ہے۔ اس کی دور شباب کی جنسی بے اعتدالیوں کے افسانے بھی اب راز نہ رہے تھے۔ کچھ دن تو وہ برفانی ریچھ کی طرح دبکی رہی۔ جب دیکھا کہ اب خطرات کے بادل ٹل گئے ہیں تو پھر سینہ پھلا کر میدان میں نکل آئی۔
گذشتہ ایک سال میں مختلف اخبارات اور رسائل میں عاصمہ جہانگیر کے اپنے بیانات اور اس کے خلاف بیانات مسلسل چھپتے رہے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا جامع مواد اب تک شائع نہ ہو سکتا تھا جو اس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا۔ بالاخر چند نوجوان طالب علموں اور صحافیوں نے بے حد دیدہ ریزی کے ساتھ مختلف اخبارات ورسائل کی فائلیں گھنگال کر اور عاصمہ جہانگیر کے متعلق جاننے والے لوگوں سے ذاتی رابطے استوار کر کے ان کو ایک ایک رسالے کی صورت میں منضبط کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش بے حد قابل تعریف ہے کہ انہوں نے ایک شائمہ رسول اور اسلام دشمن عورت جو بے حد متحرک ہے، اس کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لائے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر ایک عورت کا نام نہیں ہے یہ ایک تحریک کا نام ہے جو یہودی قادیانی لابی پاکستان کے مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے اور یہاں مغرب کی تہذیب کو رواج دینے کے لئے عرصہ دراز سے چلائی جا رہی ہے۔
عاصمہ جہانگیر اپنے خصوصی انداز میں، ہمیں یقین ہے، اس رسالے کو اپنے خلاف کردار کشی کی مہم کا حصہ سمجھے گی۔ وہ حسب معمول اسے اپنے خلاف ’’بازاری زبان‘‘ کا نام دے گی چونکہ وہ صرف اپنے خلاف استعمال ہونے والی زبان کو ہی ’’بازاری‘‘ گردانتی ہے ورنہ اس کی زبان کی کمان سے نکلنے والا ہر تیر اسے پھول ہی لگتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر تو اس مضمون کے خلاف احتجاج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ ہم نے اپنے اظہار رائے کے انسانی حق کو استعمال کرتے ہوئے یہ معلومات جمع اور شائع کی ہیں۔ اگر وہ ان حقائق کی اشاعت پر چیخے چلائے گی تو ہم سمجھیں گے کہ وہ اپنے انسانی حقوق کے چیمپئین ہونے کے دعوے میں سچی نہیں ہے۔ ہم نے اس کی شخصیت پر اپنی طرف سے بے لاگ تبصرہ کیا ہے جو حقائق کے عین مطابق ہے۔ ہم نے آزادی رائے کا عین وہی ’’حق‘‘ استعمال کیا ہے جو برطانوی صحافیوں نے لیڈی ڈیانا کے ذاتی حالات اور اس کے رومانوی واقعات کو منظر عام پر لانے کے لئے استعمال کیا… لیڈی ڈیانا نے بے حد فراخ دلی اور روشن خیالی سے اپنے متعلق ان نادر کتب کا استقبال کیا۔ وہ آج تک انہیں چیلنج کرنے کے لئے عدالت میں نہیں گئی۔
ہم پاکستان کی انسانی حقوق کی چمپئین، لبرل قانون دان، روشن فکر خاتون دانشور سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ لیڈی ڈیانا کی پیروی کرتے ہوئے اپنی شخصیت کے اس اصل رنگ کو فراخ دلی سے قبول کرے۔ ہم اس سے یہ بھی درخواست کریں گی کہ وہ سچائی کا راستہ اپنائے ہوئے اپنی پراسرار شخصیت کے ان خفیہ گوشوں کو بھی عوام الناس کے استفادے کے لئے منظر عام پر لائے جنہیں ہم تمام تر کوشش کے باوجود ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
اس ’’رسالے‘‘ کو دیکھتے ہی اسے چاہیے کہ آئینے کے روبرو ہو کر اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھے۔ اپنی زندگی کی ان لطف انگیز راتوں کا حساب کرے جو اس نے ’’آزادی عمل‘‘ کا حق استعمال کرتے ہوئے گزاریں۔
عاصمہ جہانگیر کو ہمیں اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے ایک بے حد تابعدار اور پیروکار سمجھنا چاہیے۔ چونکہ ہم نے یہ رسالہ لکھتے ہوئے اسی کے زریں اصولوں کی پیروی کی ہے۔ اس رسالے کے بعد ہم بھی اپنے آپ کو ’’انسانی حقوق ‘‘ کے چیمپیئن سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہمیں بے حد مسرت ہے کہ اس گھٹن سے بھرپور معاشرے میں نے حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے آزادی اظہار کے حق کو استعمال کیاہے۔
عاصمہ جہانگیر کے انسانی حقوق کے دھڑے میں ہماری یہ شمولیت ہمارے بعض احباب کرام پر اگر شاق گزرے گی تو ہم پیشگی طور پر ان سے معذرت طلب کرتے ہیں۔ اب ہم روشن خیال ، روشن فکر اور روشن دماغ ہو گئے ہیں اس کایا پلٹ پر جس قدر بھی خوشی کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ خدا سے ہم دعا گو ہیں کہ روشن خیالی کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے میں ہمارا معاون و مددگار ہے۔
 
Top