• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قومی اسمبلی کااجلاس‘اپوزیشن جماعتوں کارویہ اورعوامی توقعات((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
((ظفر اقبال ظفر))
قومی اسمبلی اجلاس‘اپوزیشن جماعتوں کارویہ اورعوامی توقعات
قومی اسمبلی عام انتخابات کے نتیجے میں وفاقی سطح پر قائم ہونے والا قانون ساز ادارہ جس کے اراکین براہ راست عوام کی آراء سے منتخب ہوتے ہیں۔ دو ایوانی مقننہ کا اعلیٰ حصہ ہے۔اس ایوان کے قیام کی بنیادی وجہ تمام وفاقی اکائیوں اور طاقتوں کو ایک جگہ پر نمائندگی دینا ہے۔1971 میں جب پاکستان ٹوٹ گیا تو اس کےٹوٹنے کی وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومتیں چھوٹے صوبوں کو توجہ نہیں دیتی تھیں۔ جب ملک ٹوٹا تو 1971 کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ بنایا گیا تاکہ تمام چھوٹے صوبوں کو بڑے صوبوں کے طرح نمائندگی مل جائے۔قومی اسمبلی میں عوام کی بھلائی و ملکی ترقی اور پر امن و خوشحال معاشرے کے لیے قانون سازی اور مشاروت ہونی چاہیےجس کے لیے معزز ارکان کو لاکھوں کی تنخواہ اور کروڑوں کی مراعات مل رہی ہیں قومی خزانہ ان کی تنخواہوں اورمراعات سے خالی ہوتا جاتاہے۔کہیں موبائل بیلنس تو کہیں سکیورٹی اور پروٹوکول ۔کہیں سرکاری خرچ پر بہترین رہائش گاہیں تو کہیں پراڈوں سے لے کر مرسڈیز اور بلٹ پروف گاڑیوں کے شاہانہ بہترین سفری سہولیات ۔کہیں میڈیکل کی سہولت تو کہیں فضائی سفر کے لیے سرکاری خرچہ سے بیسیوں فضائی ٹکٹس کی مفت فراہمی ۔جو جماعت بھی برسر اقتدار آئی اس نے آتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا وہ بیرونی قرضوں کےحصولکےلیے جدوجہد سے لیکر مہنگاہی اور عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کاکام کیا۔الیکشن سےقبل عوامی فلاح وبہبود‘انصاف‘کرپشن ورشوت اور دہشت گردی کے خاتمے سےلیےکر بے روز گاری جیسے کھوکھلے نعروں سے عوام کو بیواقوف بناتے نہیں تھکتے‘جوالیکشن جیت جانے کے ساتھ ہی من مانی اور عوامی مسائل سے تہیے دامن یا تو چپ کی گولی کھا کر آنکھوں پر بے حسی کی پٹیاں باندھ کر اگلے پانچ سال تک نظر ہی نہیں آتے ۔ جو الیکشن ہار جاتے ہیں وہ چوری ‘ڈاکہ زنی ‘اغواء برائے تاوان سے اپنی الیکشن مد میں خرچ دولت کے حصول میں عوام کے جان و مال کے دشمن بن جاتے ہیں ۔عوام ہے کہ بیوا قوفی و بے حسی کی انتہاء کر دیتی ہے۔جو کل رات جن لوگوں کےجان و مال کے لٹیرے تھے وہ الیکشن آتے ہی ہمدرد و مسیحا بن کر انہی لوگوں کے در پے ووٹ کی بھیک ماننگے ‘بعض تو دھمکیوں وغیرہ کے ذریعے ووٹ کےحصول کے لیے ناکام کوششیں کرتے ظر آتے ہیں ۔نا جانے یہ چوری وچور بازاری اور سینہ زوری کب ختم ہو گی ۔جو الیکشن جیت کر قومی و صوبائی اسمبلی اور حکومت میں وزارت کی کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں وہ قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری، اپوزیشن بینچوں پر اسٹرٹیجک حملے، تقریر کے آغاز سے ہی چور چور کی گردان، نہیں چھوڑیں گے کی دھمکیاں، اپوزیشن جماعت بھی طبل جنگ بجا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔ 2018 کا الیکشن،پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں 115 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر آئی جس نے سینٹ الیکشن جیت کر اپنی حکومت بنا لی ۔پاکستان مسلم لیگ(ن) 64 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت کے طورپرایوان زیریں میں براجمان ہوگی۔پاکستان پیپلزپارٹی 43 نشستوں کے ساتھ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے کے نعرہ لگاتی تیسری بڑی جماعت بن گی۔آئینی و قانونی اعتبار سے وفاق میں حکومت تشکیل دینے کے لیے 172 نشستوں کی حمایت حاصل ہونا لازمی ہے جو کہ تحریک انصاف کے حصے میں آئی اور وہ برائے راست حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی ۔حکومت پاکستان کی جانب سے 2018 کے انتخابات پر اخراجات کے لیے 21 ارب روپے کا خطیر بجٹ مختص کیا گیا۔ الیکشن کے دوران بیلٹ پیپرزاور دیگر اخراجات کی مد میں فی ووٹر 198 روپے خرچ کیے گئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی ٹیکس کے پیسہ سے جبکہ پاکستان بیرونی قرضوں کی زد میں اپنی معیشت کا گلا گھونٹتے دیکھ رہا تھا اس وقت الیکشن میں اس قدر خطیر رقم خرچ کرنے کا یہ مقصد تھا کہ مقدس کے تقدس کو گالی گلوچ‘ الزام تراشی ‘جماعتی و علاقائی و صوبائی اورلسانی تفریق کی نظر کر دیا جائے جس کی وجہ سے ہم مشرقی پاکستان کو کھو بیٹھے تھے۔ کیا معزز ایوان سیاسی اختلافات ‘سیاسی منافرت ‘عدم برداشت ‘سیاسی انتہا پسندی ‘سیاسی فرقہ واریت کے لیے قائم کیا گیا تھا ؟کیا عوام نے آپ کو اس لیے اعتماد کا ووٹ دے کر نمائندگی کےلیے اس ایوان میں بھیجا تھا؟ کیا آپ نے عوامی توقعات کے لیے اور ووٹ کے حصول کے لیے کیے وعدوں کا پاس نہیں رکھنا تھا ؟ عوام نےامیدیں اس لیے آپ سے وابسطہ تھیں کہ آپ الیکشن جیت کر پارٹی کی جنگ لڑو اور ایک دوسرے کو چور ، ڈاکو‘بد عنوان جیسے الزام تراشی میں عوامی امگنوں کو پس پشت ڈال کر عوام سے مذاق کرو گے ۔ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ ۔کنٹینر پر چڑھ کر کہہ دینا انتہائی آسان کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے دولت کا سراغ مشکل واپسی اس سے زیادہ مشکل کسی ملک سے معاہدے نہیں واپسی کیسے ہوگی واپسی بہت بعد کی بات ہے پہلے دولت کے لٹنے اور لوٹنے والے کا تعین ضروری، ثبوت کہاں ہیں اب تک کرپشن کا کوئی ثبوت فراہم نہ کیا جاسکا‘ثبوتوں اور شواہد کے بغیر قومی اسمبلی وسینیٹ کو مچھلی منڈی بنانا کون سی سیاست اور کون سا طرز حکمرانی ہے، راہ چلتے کسی کو بھی چور کہہ دینا انتہائی آسان لیکن چور ثابت کرنا انتہائی مشکل۔
ارکان اسمبلی کو نہ بات کرنے کا سلیقہ ہیں نہ اس ایوان کے قیام کے مقاصد سے واقفیت ہے بس ہر کسی نے اپنے پارٹی صدرکو بھگوان بنا رکھا ہے اس کے ہر جائز و ناجائز فیصلے کے دفاع اور تحفظ کےلیے ایوان بالا کےمقصد و تقدس کو فراموش کردیتے ہیں ۔ ایک رکن نے وفاقی وزیر کو بھانڈ کہہ دیا جواب میں اسے مولا جٹ کا خطاب ملا قومی اسمبلی ہے یا مچھلی و سبز منڈی ؟ وہ ایوان بالا جس میں عوامی مسائل پر بحث و مشاروت ہونی چاہیے تھی جس کےلیےعوام سے اعتماد کا ووٹ لیا ہے مگرقومی اسمبلی اجلاس پارٹی بازی ‘ گالم گلوچ‘الرزام تراشی‘ تہمت سے شروع ہو کرنفرت و عداوت اور تبرا بازی پر ختم ہو جاتا ہے عوامی مسائل جیسی کوئی چیز پورے اجلاس میں زیر بحث نہیں آتی۔
جناب شہباز شریف صاحب آپ کو چوروں ڈاکوؤں کو ڈھونڈتے20 سال گزر گئے اور جناب عمران خان صاحب آپ بھی پانچ سال گزر جانے کےبعد کرپشن کیس میں آئین میں درج کسی کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہوسکوگے۔ ہمارےملک میں قانون اورانصاف تویہ ہےکہ جناب چیف جسٹس ثاقب نثارصاحب اوران کےساتھ پورامیڈیاشرجیل میمن کےکمرےسےاپنےہاتھوں شراب پکڑےجانے کےبعدآج تک اس کو شراب ثابت نہ کر سکے۔ آپ کےحکم پر میڈیکل لیبارٹریاں نہ آپ کی تحقیقاتی کمیٹیاں اور نہ اس ملک کامیڈیاں۔ توبتائیں آپ کونسےانصاف کی بات کرتے ہو۔آپ ایک بندے کےکمرےسےپکڑی جانے والی شراب کوجب شراب ثابت نہیں کرسکے تو اس ملک سے غداری کرنےوالےکو غدار اور چوری کرنے والے کو چور اس وقت جب ہر کوئی عوامی پیسے کی چوری اور کرپشن میں ملوث ہے کیسے چور ثابت کروں گے؟؟؟ افسوس صد افسوس !شور شرابہ سے اقتدار تو مل گیا چور ڈاکو نہ مل سکے۔ بکل جھاڑیں تو پتہ چلےتین چار کےکیس تو نیب میں ہیں ایک تاحیات نا اہل مگر اب بھی دل کاجانی ،دیگر وزیروں، مشیروں کے خلاف بھی تحقیقات کے دفتر پائپ لائنوں میں محفوظ، جس دن پائپ لائنوں میں کرنٹ دوڑ گیاسارے دفتر مقدمات کی شکل میں باہر آجائیں گے۔عمران خان صاحب مدینہ کی طرز پرریاست کاقیام اورکرپشن سے پاک پاکستان آپ کےلیےمذاق صرف مذاق اور بس مذاق بن کررہ جائےگا۔عوام مہنگائی‘بےروزگاری‘دہشت گردی‘فرقہ واریت‘نفرت‘تقسیم‘لاقانونیت‘ناانصافی کی چکی میں آئے روز پستی چلی جائے گی۔ پھر2023 کا الیکشن وہی بغل گیری‘وہی دھوکہ دہی‘ وہی وعدہ خلافی ‘ وہی کرپشن‘ وہی دھاندلی اور ایوان بالا میں پھر وہی الزام تراشی‘ نفرت ‘پارٹی بازی‘ عوامی مسائل سےصرف نظر اور وہی شور شرابہ اس ملک کی بربادی و تباہی کےلیے کافی ہو گا۔
 
Last edited:
Top