• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیاس حجت نہیں بلکہ گمراہی (یعنی بدعت ) ہے !

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم​
سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اما بعد! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
قارئین ! الله تعالٰی نے فرقہ بندی سے منع فرمایا- الله تعالٰی فرماتا ہے :
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠

اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو(آل عمران -103)
لیکن اس واضح حکم کے باوجود جو لوگ فرقہ فرقہ ہو گئے ان سے مسلمین کا کوئی تعلق نہیں ہے -
الله تعالٰی فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ‘ پھر وہ انہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے-(الانعام -159)
یہ وہی وحدت کا تصور ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ٢١٣ میں دیا گیا ہے : (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) کہ پہلے تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ پھر لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہوتے گئے اور مختلف گروہوں نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خود ساختہ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں وہ سب ضلالت اور گمراہی میں پڑے ہیں اور تمہارا ان گمراہ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔
آج یہ امت بھی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے
:-
ہر فرقے نے اپنے خود ساختہ اصول بنا لیے ہیں – انہیں باطل اصولوں میں اجماع ، قیاس اور اجتہاد کے اصول بھی شامل فہرست ہیں –
قارئین !
سب سے پہلے ہم قیاس کے اصول کا جائزہ لیتے ہیں

ہمارا دعویٰ ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے
بلکہ یہ تو الله تعالٰی کی نازل کردہ شریعت میں اضافہ ہے – قیاس سے حرمت اور حلت ثابت نہیں ہو سکتی –
باطل فرقے یہ کہتے ہیں کہ ہم قیاس کو مثبت للحکم نہیں مانتے بلکہ مظھر للحکم مانتے ہیں – یعنی قیاس کسی چیز پر حکم نہیں لگاتا بلکہ جو حکم پوشیدہ ہو اس کو ظاہر کردیتا ہے-
تو عرض یہ ہے کہ یہ ایک باطل دعویٰ ہے – اگر یہ مظھر للحکم ہوتا تو یہ فرقے آپس کے قیاس میں کبھی اختلاف نہیں کرتے - حکم تو ایک ہی ہو گا دو نہیں ، یہاں تو ایک ہی چیز پر چار چار حکم لگ رہے ہیں تو پتا چلا کہ قیاس مثبت للحکم ہے نہ کہ مظھر للحکم -
قارئین ! یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینا یہ صرف الله تعالٰی کا کام ہے – کسی مقرب یا نبی کو بھی اس چیز کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام یا حلال کہے –
اس بات کا حق نہ کسی نبی کو ہے جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ

اے نبی ! کیوں تم حرام کرتے ہو (اُسے ) جسے اللہ نے حلال کیا ہے تمہارے لیے
( التحریم -1 )
اورابو سعید خدری سے بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ بِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لِي
اے لوگو میں اس چیز کو حرام نہیں کرتا جسے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کردیا ہو
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1251)
اور نہ ہی کسی مجتہد کو ہے (حلال اور حرام کرنے کا اختیار ) جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو مت حرام ٹھہراؤ (ان) پاکیزہ چیزوں کو جو حلال کی ہیں اللہ نے تمہارے لیے اور مت تم حد سے بڑھو، بیشک اللہ نہیں پسند کرتا حد سے بڑھنے والوں کو
(المائدہ – 87)
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ
اور مت کہوجس کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرو یقیناً جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے
(النحل – 116)
حلت وحرمت کا اختیار سنبھالنا بھی شرک ہے :۔

مندرجہ بالا آیات میں بتایا یہ گیا ہے کہ اشیاء کو حرام یا حلال قرار دینے کا اختیار کلیتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قیاس کر کے اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال یا جائز قرار دے لے یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنا دے۔ اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ پہلے وہ اس قسم کے جھوٹ اختراع کرتے ہیں پھر انھیں اللہ کے ذمہ لگا کر یا اس کی طرف منسوب کرکے اپنے ایسے عقیدوں کودینی تقدس کا جامہ پہنا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ وہ حقیقتاً الله تعالٰی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اخروی نجات کی کوئی صورت نہیں۔
قیاس کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا حکم الله تعالٰی نے نہیں اتارا اس لیے ہم نے اس پر حکم لگایا ہے جب کہ الله تعالٰی کا فرمان ہے :
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے (المائدہ – 3 )
الله تعالٰی نےاپنے نبی کو بھی قیاس کرنے کی اجازت نہیں دی

بلکہ فرمایا :

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ
اور یہ کہ فیصلہ کرو ان کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا اور نہ پیروی کرو انکی خواہشات کی
(المائدہ – 49 )
اور اسی طرح الله تعالٰی کا فرمان ہے :
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں
(المائدہ – 44 )
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو ظالم ہیں
( المائدہ – 45 )
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو فاسق ہیں
( المائدہ – 47)
قارئین !قرآن کی ان آیات کو سامنے رکھیے اور ملت اسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں ‘ جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے ؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت اسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو۔ اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلم ہیں لیکن ہمارے نظام کافرانہ ہیں۔
اور یہ آیات اس بات پر بھی توجہ دلا رہی ہیں کہ جو لوگ اپنی طرف سے یا مجتہد کے غلط فتوے سے چیزوں پر حلال اور حرام کی مہر لگاتے ہیں وہ یا تو کافر ہیں ، یا فاسق ہیں یا ظالم ہیں –
قیاس کے رد کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ : -

اہل قیاس خود قیاس کرتے ہوۓ آپس میں اختلاف کرتے ہیں – جس سے الله تعالٰی نے سختی سے منع فرمایا ہے - الله تعالٰی فرماتا ہے :
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
اور تم مت ہو ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے اور وہ اختلاف کرنے لگے اس کے بعد کہ آگئے ان کے پاس رشن دلائل اور وہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
( آل عمران – 105)
اور ان کا
قیاس میں اختلاف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے
کیوں کہ شریعت میں اختلاف محال ہے جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا
توکیا یہ لوگ غور نہیں کرتے قرآن میں اوراگر ہوتا اللہ کے علاوہ کی طرف سے (تو)یقینا وہ پاتے اس میں بہت سا اختلاف۔
( النساء – 82)
یہاں تو بات اختلافات تک نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ سے لوگ فرقوں میں بٹ گئے جس سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے –
قارئین !اب میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں –
مثال نمبر ١ – شوافع کہتے ہیں کہ تین بال برابر مسح کرنے سے وضوء ہو جائے گا اور احناف کہتے ہیں کہ جب تک چوتھائی سر کا مسح نہیں کرے گا وضوء نہیں ہو گا لیکن مالکی کہتے ہیں نہ پہلے والے کا وضو ء صحیح اور نہ دوسرے کا بلکہ جب تک پورے سر کا مسح نہیں کرے گا اس کا وضو ء نہیں ہو گا –
مثال نمبر ٢ – احناف کہتے ہیں اگر کسی نے الله اجل یا الله اعظم کہتے ہوۓ نیت باندھ لی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن شوافع کے نزدیک یہ بے نمازی شمار ہو گا جب تک الله اکبر نہ کہے گا اس کی نماز نہیں ہو گی –
مثال نمبر ٣ – احناف کہتے ہیں لفظ هبه يا تمليك سے نکاح منعقد ہو جائے گا اور وہ مرد اور عورت آپس میں شوہر اور بیوی شمار ہوں گے جو بچہ ہو گا وہ حلال کا ہو گا دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا وارث ہو گا –
لیکن شوافع کہتے ہیں کہ بغیر لفظ (نکاح یا تزویج ) کے نکاح منعقد نہیں ہو گا اگر وہ صحبت کرے تو وہ زنا شمار ہو گا اور اس صحبت سے جو بچا پیدا ہو گا وہ حرام کا ہو گا اور ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والا اس کا وارث نہیں بنے گا –
قارئین ! آپ نے دیکھ لیا کہ اہل قیاس کے قیاسات میں کتنا آسمان و زمین جتنا فرق ہے اور کتنا اختلاف ہے – یعنی بالفاظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الله تعالٰی اور اس کے نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہمیں وضو ء کا طریقہ بتایا ہے اور نہ نماز کا طریقہ بتایا ہے اور نہ ہی نکاح کا صحیح طریقہ بتایا ہے جس کی وجہ سے ہم قیاس کرنے پر مجبور ہوۓ ہیں – نعوذباللہ
جبکہ الله تعالٰی کا فرمان ہے :
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے (المائدہ – 3 )
تو یہ بات ثابت ہوئی کہ قیاس قطعا دین شریعت نہیں ہے
بلکہ دین اسلام نے قیاس کا رد کر دیا –
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
پھراگر تم اختلاف کروکسی چیز میں تولوٹاؤ اسے اللہ اور رسول کی طرف اگر ہوتم ایمان رکھتے اللہ پراور روز آخرت پر،یہ بہت اچھی بات ہے اور بہت بہتر انجام کے لحاظ سے۔(النساء – ٥٩ )
اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ
رجوع الی القیاس نہ رجوع الی الله ہے اور نہ ہی رجوع الی الرسول ہے

اور الله تعالٰی نے یہ بھی بتا دیا کہ الله اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو -
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ
اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے ( الحجرات – 1 )
دوسری بات یہ کہ
نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ خود کبھی قیاس کیا اور نہ ہی صحابہ کو اس کی تعلیم دی

الله تعالٰی کا فرمان ہے :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى
اور نہیں وہ بولتا (اپنی )خواہش سے-نہیں ہے وہ مگر ایک وحی (جو )اس پر بھیجی جاتی ہے _
(النجم – 3 اور 4 )

تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ
مسلمین کہ لیے حجت صرف قرآن مجید اور سنّت رسول ہے

جیسے کہ
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
پھراگر تم اختلاف کروکسی چیز میں تولوٹاؤ اسے اللہ اور رسول کی طرف اگر ہوتم ایمان رکھتے اللہ پراور روز آخرت پر،یہ بہت اچھی بات ہے اور بہت بہتر انجام کے لحاظ سے۔(النساء – ٥٩ )
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(الاعراف – ٣ )
الله تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ! ( آمین)
والحمدللہ رب العلمین
 
Last edited by a moderator:

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
*قیاس*
کتاب وسنت کی روشنی میں فقہ اسلامی کا تیسرا مأخذ :صحیح قیاس ہے۔جس کی دلیل سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل تقریباً ۱۰ہجری میں انہیں یمن کا گورنر مقرر کرکے روانہ کیا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا: أَجْتَہِدُ رَأیِیْ وَلَا آلُو۔ قرآن وسنت میں مسئلے کا حل نہ ملنے پر اپنی رائے سے کام لوں گا اور صحیح رائے قائم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا۔قیاس عموماً اجتہاد سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ علماء فقہ کے نزدیک صحیح قیاس ، اجماع کی بہ نسبت وسیع تر اور آسان تر مأخذ شریعت ہے اور بآسانی اس پر عمل ہوسکتا ہے۔مجتہد کا اخلاص اور کوشش ہی اس میں زیادہ کار فرما ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ صحیح فیصلہ پر دوگنا اور غلطی پر ایک اجر کا مستحق بھی ٹھہرتا ہے۔صحابہ کرام بھی نئے مسائل پر اجتہاد سے کام لیتے اور بعض احکام کو بعض پر قیاس کرتے اور نظائر کو معتبر سمجھتے تھے۔لغوی معنی: عربی زبان میں قیاس کا لفظ عام طور پر دو چیزوں کے برابر کرنے کے لئے بولتے ہیں مثلاً قِسْتُ ہٰذِہِ الْوَرَقَۃَ بِہٰذِہِ الْوَرَقَۃِ میں نے اس ورق کو دوسرے کے ساتھ برابر کیا۔ یا عِلْمُ فُلاَنٍ لاَ یُقَاسُ بِعِلْمِ فُلاَنٍ فلاں کا علم فلاں شخص کے برابر کہاں؟ یا ایک چیز کو دوسری چیز سے ناپنے یا مقدار معلوم کرنے کو کہتے ہیں۔جیسے قِسْتُ الْقِمَاشَ بِالْمِیْتَرِ میں نے کپڑے کو میٹر سے ناپا۔ یا قَایَسْتُ بَیْنَ ہَاتَینِ الْوَرَقَتَینِ میں نے ایک ورق کا دوسرے سے مقابلہ کیا۔اصطلاحی معنی : علماء اصول کی اصطلاح میں اس کی تعریف درج ذیل ہے:ہُوَ حَمْلُ فَرْعٍ عَلَی أَصْلٍ فِی حُکْمِ بِجَامِعٍ بَیْنَہُمَا۔ فرع کو اصل پر ایسے حکم سے محمول کرنا جو ان دونوں کے مابین ایک ہی جیسا ہو۔ یعنی ایک ایسا واقعہ جس کے حکم کے بارے میں کوئی نص نہیں اسے حکم میں ایک ایسے واقعہ سے جا ملانا جس کا حکم نص میں آچکا ہے۔اس کی وجہ اس حکم میں واقع علت میں دونوں کا مشترک ہونا ہے۔جیسے، ہیروئن، چرس وغیرہ کا شراب پر قیاس کرنا۔ کتاب اللہ میں شراب کی حرمت کا حکم موجود ہے اب شراب کی علت نشہ ہے جو ہیروئن، چرس، وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے اس علت میں اشتراک کی وجہ سے یہی حکم ہیروئن اور چرس کو بھی شامل ہوگا۔ مجتہد کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ حکم کی علت کو پہچانتا ہے اور پھر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مقیس اور مقیس علیہ دونوں علت میں مشترک ہیں پھر دونوں کے بارے میں حکم واضح کردیتا ہے۔نص جو مفہوم دے رہی ہوتی ہے کسی مجتہد کا اس سے کسی اور حکم شرعی سے آگاہ کرنا ہی اصل میں قیاس ہے۔ اس سلسلے میں وہ نصوص کو غیر نصوص کے لئے بطور مثال پیش کرتا ہے۔قیاس بغیر اصول کے شرعی حکم بتانے کا نام نہیں بلکہ حکم موجود ہوتا ہے بظاہر نظر نہیں آتا جسے مجتہد بذریعہ قیاس منکشف کر دیتا ہے۔اس لئے قیاس ایک اجتہادی کوشش کا نام ہے جو کتاب وسنت کی معین حدود میں رہتے ہوئے سرانجام پاتا ہے۔مثلاً: اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد:{یأیہا الذین آمنوا إذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکر اللہ وذروا البیع}اے ایمان والو!جب جمعہ کے روز اذان دی جائے تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور چھوڑ دو بیع کو۔یہ آیت اذان سننے کے بعد خرید وفروخت کو روک رہی ہے۔ جس کی علت یہ ہے کہ اس میں پڑ کر جمعہ میں تاخیرکا ہونا یا اس کا فوت ہو جانا ہے۔ یہی معنی غیر بیع یعنی عقود (Contracts) وغیرہ میں بھی لیا جا سکتا ہے جیسے اجارہ، وکالہ یا اس سے ملتے جلتے اور معاہدے۔ گویہ صورتیں نص میں مذکور نہیں مگر ان میں بھی وہی مفہوم تاخیرو تفویت آسکتا ہے جس کی وجہ سے بیع ممنوع قرار دی گئی تھی۔اس لئے انہیں بھی حکم ممنوع میں شامل کیا جائے گا۔
قیاس کے ارکان:قیاس کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس کے چار ارکان ہیں۔ جو یہ ہیں۔ اصل، فرع، حکم اور علت۔اصل: اسے مقیس علیہ یا مشبہ بہ یا منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حکم جس نص سے ثابت ہو اس نص کو اصل کہتے ہیں۔ یعنی وہ جگہ جہاں حکم پایا جاتا ہے جیسے اوپر دی گئی شراب(خمر) یا بیع کی مثالیں، فرع:اسے مقیس یا مشبہ یا غیر منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ وہ مسئلہ جسے اصل پر قیاس کرکے اس کا حکم معلوم کرنا ہوتا ہے مگر نص سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا قیاس کے طریقہ کار پر عمل کرکے اصل میں جوحکم موجود ہو اس کا اطلاق اس پر کیا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا موضوع اصل کے موضوع سے مختلف نہ ہو۔جیسے بیع کا قیاس نکاح پر کرنا کیونکہ موضوع میں اختلاف ہونے کے سبب یہ صحیح نہیں۔کیونکہ بیع بھاؤ تاؤ پر اپنی بنیاد رکھتی ہے اور نکاح باہمی احترام اور آسانی پر مبنی ہوتا ہے۔
حکم : اسے حکم شرعی بھی کہتے ہیں۔ جس سے مراد وہ شرعی حکم ہے جو اصل میں آیا ہے۔ اورجسے فرع میں ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے شراب کی حرمت اصل میں آئی ۔ فرع میں جو حکم ثابت ہوتا ہے وہ بذریعہ قیاس ہی ثابت ہوتا ہے جس کی مثال چرس کی حرمت ہے۔ عقائد، رویے اور تہذیب نفس ، ایمان، توکل، انابت، خوف، رجاء، حب اور بغض وغیرہ۔ کا تعلق دل سے ہے اس لئے ان احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ یہ عملی احکام نہیں۔ نیز جس حکم کی علت کا ادراک ممکن ہو۔ جیسے: حرمت ربا، یا قاتل نے جسے قتل کیا ہے اس کی وراثت سے محروم ہونا۔ ان میں بھی قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ احکام عملی ہیں۔نیز عبادت سے بھی ان کا تعلق ہے۔ اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے: لاَ قِیَاسَ فِی الْعِبَادَاتِ۔ عبادات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔
علت: قیاس کا اہم ترین رکن ہے ۔ جس سے مراد اصل اور فرع کے درمیان مشترک وصف کا پایا جانا ہے۔یہی تو وصف ہے جس کی وجہ سے فرع کو اصل کا حکم ملتا ہے۔ اگر یہی وصف یا اس سے مشابہ وصف نئے واقعہ میں موجود ہوتو اسے بھی اصل کے مشابہ سمجھا جائے گا۔ جیسے چرس میں نشہ کا وصف جو شراب اور چرس دونوں میں پایا جاتا ہے۔
قیاس کی شرائط : قیاس اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس میں یہ اہم شرطیں موجود نہ ہوں۔۱۔ اصل حکم شرعی ہو نہ کہ لغوی۔ کیونکہ لغات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔ ۲۔ اصل ثابت ہو منسوخ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی موقع ومناسبت سے ایک حکم دیا گیا پھر اس مناسبت کے ختم ہونے کے بعد دوسرا حکم آ گیا اب یہ اصل ثابت نہیں ہے اس لئے کہ اب موقع ومحل اور ہے اس لئے سابق حکم پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔۳۔ اصل کا حکم کتاب وسنت کی نص سے ثابت ہو یا وہ مجمع علیہ ہو۔۴۔ حکم اصل کی علت فرع میں پائی جائے اورکسی قسم کا کوئی فارق نہ ہو یا کوئی مانع نہ ہو جو اسے حکم اصلی سے الگ کردے یا اس کے حکم سے ملنے نہ دے۔ اگر علت صرف اصل میں ہی منحصر ہو یا اصل تک ہی محدود ہو اور کسی دوسری چیز میں اس کا وجود ممکن نہ ہو تو اس پر قیاس کرنا منع ہے۔ کیونکہ قیاس کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکم کی علت میں فرع اور اصل دونوں شریک ہوں۔۵۔ قیاس کی ان حدود وشرائط کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے یعنی نص میں حکم کی علت تلاش کرنا ۔ جہاں حکم کی علت نہ ہو وہاں مجتہد کو یہ علت از خود تلاش کرنا پڑتی ہے۔ یہی وہ قیاس کی قسم ہے جس میں مجتہد اور فقیہ سے بکثرت خطا ہوتی ہے ۔ وہ اسے حکم کی علت سمجھتا ہے جب کہ وہ اس حکم کی علت ہوتی ہی نہیں ہے۔ مثلاً جنگ جمل میں فتح کے بعد سیدنا علی مرتضے رضی اللہ عنہ کے بعض حامیوں نے (جو بعد میں خوارج کہلائے) خون پر جان اور مال کو قیاس کیا اور کہا: جب مخالفین کا خون بہانا حلال ہے تو ان کا مال بطور غنیمت اور ان کی جانیں بطور غلام اور لونڈیاں بنانا بھی ہمارے لئے حلال ہیں۔یہ فاسد قیاس جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے سنا تو فرمایا: ٹھیک ہے سب سے پہلے سیدہ عائشہؓ رضی اللہ عنہا پر قرعہ ڈالو وہ کس کے حصہ میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا معاذ اللہ! وہ تو ہماری ماں ہیں۔ امیرالمومنین نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ جب ماں کو لونڈی بنانا جائز نہیں تو مال غنیمت سمجھ کر ان کا مال لینا بھی جائز نہیں۔ اس طرح سیدنا علیؓ نے خوارج کے فاسد قیاس کے مقابلہ میں صحیح قیاس سے استدلال کیا اور ان کے قیاس کو رَدّ کردیا۔ یہی وہ احتیاط ہے جو مجتہد کو قیاس کرتے وقت ملحوظ رکھنا ہوگی ورنہ فرضی اور فاسد قیاس و مسائل کے ڈھیر لگ جائیں گے جو اسلامی شریعت کو بدنام کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
امام ابن القیم ؒفرماتے ہیں:ایسی علتوں کا سہارا لینا جن سے خدا نخواستہ صحیح حدیث رد ہو جائے شدت پسندی ہے۔ اگر سنن رسول ﷺ کو ان علتوں کے سبب ترک کرنا شروع کردیا جائے تو صحیح احادیث وسنن کا تقدس پامال ہو جائے گا۔(شرح سنن ابی داؤد لابن القیم مع عون المعبود ج ۱۰؍ص ۳۴)یہ اصول شاید اس لئے بنایا گیا ہے کہ اگر غیر فقیہ صحابی کی روایت ، قیاس کے خلاف ہو تو قیاس پر عمل درآمد اولی ہو گا۔ مگر حدیث مصراۃ جو سیدنا ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے وہی تو سیدنا ابن مسعودؓ نے روایت کی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کون ان میں غیر فقیہ ٹھہرا؟۔اسی طرح فرضی مسائل کا بعض حیلوں سے یوں قیاس کرنا کہ اگر اسلامی احکام کی زد میں فلاں فلاں مسئلے آجائیں تو ان سے کیسے خلاصی حاصل کریں ۔ یہ اور ان سے ملتے جلتے قیاس فاسد ہوں گے اورشریعت کا استہزاء بھی۔
حجیت قیاس:جمہور علماء کے نزدیک قیاس اصول فقہ کا ایک اہم ستون ہے۔ اسے دلیل وحجت تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ قرآن وسنت، اقوال صحابہ سے اس کے دلائل ملتے ہیں۔ مثلاً:قرآنی دلائل:{فاعتبروا یا أولی الأبصار}۔۔۔ الحشر: ۲اے دیدہ بینا رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔{قل یحییہا الذی أنشأہا أول مرۃ وہو بکل خلق علیم۔۔}۔(یس: ۷۹) کہہ دیجئے کہ اسے وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور ہر تخلیق کے بارے میں خوب جانتا ہے۔{اللہ الذی أنزل الکتاب بالحق والمیزان۔}۔ (الشوری: ۱۷) میزان سے مراد وہ چیز جس سے معاملات کا وزن کیا جاتا ہے اور پھر ان کے درمیان اندازہ کیا جاتا ہے۔{کما بدأنا أول خلق نعیدہ}۔ (الأنبیاء:۱۰۴)اللہ تعالیٰ نے اعادہ مخلوق کو اس کی ابتداء سے تشبیہ دی ہے۔{واللہ الذی أرسل الریاح فتثیر سحابا فسقناہ إلی بلد میت فأحیینا بہ الأرض بعد موتہا کذلک النشور}۔ (فاطر:۹)یہ سب آیات قیاس اور قیاس میں موجود ارکان اور شرائط کو پورا کر رہی ہیں۔جو قیاس کے حجت ہونے اور اس کے جواز کا اشارہ دیتی ہیں۔
حدیثی دلائل:آپ ﷺ کا جہنیہ عورت کو ارشاد جس نے اپنی والدہ مرحومہ کی منت حج کے بارے میں پوچھا تھا مگر وہ حج کئے بغیر فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بالکل حج کرو۔بھلا بتاؤ! اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ یہ تو پھر اللہ کا قرض ہے اور اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ صحیح بخاری ، کتاب الصوم: ۲۱۰اسی طرح :ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کرتا ہے۔ میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنا ہے۔ میں اسے اپنا بچہ نہیں مان سکتا۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں! ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپﷺ نے پھر فرمایا: کیا ان میں بھورے رنگ کا بھی کوئی اونٹ ہے؟ اس نے کہا: جی وہ بھی ہے۔ فرمایا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے نے کہا: شاید کوئی رگ ابھری ہوگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے ہاں جو بچہ ہوا ہے شاید یہ بھی کوئی رگ ابھری ہے۔ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب إذا عرض بنفی الولد: ۲۲۷اقوال صحابہ: صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو نماز میں ان کی امامت پر قیاس کیا۔ مانعین زکوۃ کو تارکین صلاۃ پر قیاس کیا۔ شراب پینے پر کیا حد ہو؟ اسے حد قذف پر قیاس کیا کہ یہ بھی بہتان لگانے کے مترادف ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو قضاء کے بارے میں خط لکھا: پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آپ کو پیش آئے جس کا حکم قرآن وسنت میں نہ ملے تو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے پھرقَایِسِ الأُمُورَ عِنْدَکَ پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کیجئے اور ایک جیسے معاملات پہچانئے۔ اعلام الموقعین۱؍۸۶، اخبار القضاۃ ۱؍۷۰ظاہر ہے صحابہ کرام کے یہ وہ قیاسات ہیں جہاں کتاب وسنت میں کوئی نص نہیں۔ اس لئے جہاں نص نہ ہو، یا اجماع نہ ہو اور نہ ہی کسی صحابی کا قول ہو، وہاں قیاس کو اختیار کرنا اور اسے حجت ماننا ضروری ہے امام شافعی ؒ نے سب سے پہلے قیاس پر گفتگو فرمائی اور اسے اجتہاد کے ہم معنی قرار دیا ہے۔
قیاس کیوں؟ وجوہات اور اسباب قیاس علم وتحقیق کا نام ہے اور احکام شریعت کی پہچان کا راستہ بھی۔ نصوص یا اجماع کی عدم موجودگی میں اسے ہمارے فقہاء کرام نے اس طرح اپنایا ہے جیسے پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کیا جاتا ہے۔کتاب وسنت کی نصوص محدود ہیں اور مسائل وحوادث لا محدود۔ جن کا احاطہ اگر نصوص کرتیں تو شریعت ایک ضخیم شکل میں ہوتی۔ اس لئے نصوص میں جو علتیں اور مخفی مقاصد ہیں یا جن مقاصد کی طرف اسے اشارہ ملتا ہے یا ان سے استنباط ہو سکتا ہے۔ ان پر ایک فقیہ غور کرتا ہے یا کسی واقعہ کے بارے میں منصوص حکم موجود ہے اس کا اطلاق اسی جیسے واقعے میں جہاں علت مشترک پائی جاتی ہو وہاں قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کوئی نیا واقعہ یا صورت حال پیش آجائے جو اس سے پہلے نہ تھی اور اس بارے میں کوئی منصوص حکم بھی نہیں تو قیاس کے ذریعے سے ایسے واقعات کے حکم کے لئے شریعت کا دامن تنگ نہیں ہوتا۔اللہ کے عدل و حکمت کا تقاضا ہے کہ احکام شریعت کے متعین طریقوں میں قیاس بھی ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ اس لئے شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر ایک چیز حرام ہے تو اس کی نظیر بھی حرام ہوگی وہ مباح نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک چیز مباح ہے تو اس کی نظیر بھی مباح ہوگی حرام نہیں ہوگی۔ اس لئے قیاس فقہ اسلامی کا ایک مأخذ ہے۔ اس سے استغناء نہیں برتا جاسکتا۔ صحیح قیاس عقلاً، قانوناً اور شرعاً عمل کا متقاضی ہے اور قابل ثواب وعبادت بھی۔
قیاس ایک ایسی چیز ہونی چاہئے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہواورکوئی ضرورت بھی داعی ہو ۔احکام شریعت میں جب بندوں کی مصلحتیں پوری ہوں تو اسے ہی شرعی ضرورت کہتے ہیں۔ قیاس کو اختیار کرنے سے یہ غرض پوری ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قیاس کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی معین واقعہ کے بارے میں قرآن یا سنت میں جو حکم موجود ہے اس کے مشابہ دیگر واقعات میں اگر علت مشترک نظر آتی ہوتو وہی حکم ان واقعات کے لئے بھی ہوگا۔قیاس کرنے کا اہل ایسا عالم ہوتا ہے جو کتاب اللہ کے احکام جاننے کے علاوہ قرآن کے فرائض وآداب ، ناسخ ومنسوخ اور قرآن کے عام وخاص کا ماہر ہو۔ سنت رسول ﷺ کے علم کے بعد سلف کے اقوال، اور ان کے اجماع واختلاف اور عربی زبان کے علم سے بھی آراستہ ہو۔ مزید اس کی عقل سلیم اسے مشتبہات سے بھی آگاہ کرسکے۔ اسے یہ علم ہو کہ اس نے یہ قیاس کیوں کیا؟ کہاں سے کیا؟ اور اگر قیاس کے دوران فلاں فلاں دلیل وغیرہ کو ترک کیا تو کیوں کیا؟۔اشباہ ونظائر کا باہمی ربط اور مناسبت بھی ضرور دیکھے اور قیاس کی تمام تر شرائط کو ملحوظ رکھ کر قیاس کرے۔اشباہ و نظائر کے باہمی ربط میں عدم احتیاط ،لاعلمی اور جہل مرکب ہے۔جس سے ہر فقیہ کو بچنا چاہئے۔نوٹ:۱۔ اجماع اور قیاس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیاس، اجماع سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قیاس صحابہ کرام کے دور میں ہوا اور اجماع بھی۔ مگر خلفائے راشدین کے اتفاق کو اجماع نہیں سمجھا گیا جب کہ اس دور میں قیاس کی مثالیں ملتی ہیں۔۲۔ ان چاروں مصادر کا استعمال حفظ مراتب کے اعتبار سے ہوگا۔ قرآن وسنت کو اولین حیثیت دیجئے۔ اور یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ سنت ، قرآن کی تشریح ووضاحت ہے نہ کہ اس کے مخالف۔پھر اجماع مجتہدین کو اور پھر قیاس کو۔ اجتہاد نئے ایشوز کے شرعی حل کی تلاش کا نام ہے جن کی کوئی نص یا اصل نہ ملتی ہو-
جاری ہے...
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
@فیاض صاحب نے کہا کہ
کتاب وسنت کی روشنی میں فقہ اسلامی کا تیسرا مأخذ :صحیح قیاس ہے۔جس کی دلیل سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل تقریباً ۱۰ہجری میں انہیں یمن کا گورنر مقرر کرکے روانہ کیا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا: أَجْتَہِدُ رَأیِیْ وَلَا آلُو۔
قارئین ! مذکور بالا حدیث ضعیف ترین ہے - یہ ثابت نہیں ہے - اور جب ثابت نہیں ہے تو پھر دلیل بھی قطعاً نہیں بن سکتی -
اور جہاں تک حاکم کے فیصلوں کا ذکر کیا @فیاض ثاقب صاحب نے ، تو وہ الگ معاملہ ہے -
حاکم کا فیصلہ جو اس نے فریقین کے درمیان کیا ہو گا وہ فیصلہ ہو گا قانون نہیں ہو گا -اس فیصلہ کو شریعت کی حیثیت حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ بطور فیصلہ عارضی ہو گا اور ہنگامی طور پر اس کو تسلیم کر لیا جائے گا - پھر اس حاکم کے بعد دوسرا حاکم جو اس حکومت کا والی ہو گا تو وہ اس بات کا مکلف نہیں ہو گا کہ جو فیصلے سابقہ حکومت میں ہو چکے ہیں وہ ان کے مطابق ہی فیصلہ کرے بلکہ وہ آزاد ہو گا -
برخلاف اس کے آج فرقوں کے ہاں ان کے مجتہد کا فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر شریعت میں شامل ہو جاتا ہے -
مزید برآں فیصلہ کرنا اور اجتہاد کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے -
فیصلہ فریقین کے درمیان مقدمات میں ہوتا ہے اور یہ چیز جائز ہے -
جبکہ اجتہاد و قیاس فرقوں کے علماء اور فقہاء مسائل میں کرتے ہیں جس کی اجازت الله تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی ، لہذا یہ چیز ناجائز ہوئی -
مسائل سازی صرف الله تعالیٰ کا کام ہے - الله تعالیٰ فرماتا ہے

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ
اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے ‘ اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو کہ قائم کرو دین کو۔ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) ُچن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔
(شوریٰ -13)

کسی انسان کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ مسائل میں اجتہاد کرے اور پھر اپنے خود ساختہ مسائل کو الله کی طرف منسوب کر دے ، یہ چیز قطعا حرام ہے - الله تعالیٰ نے اس چیز کی اجازت کسی کو نہیں دی بلکہ یہ چیز شرک کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے جو کسی طرح بھی برداشت نہیں کی جائے گی -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

کیا ان لوگوں نے (اللہ کے) ایسے شریک (بنا رکھے) ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا کوئی ایسا راستہ طے کردیا ہو جس کا اِذن الله نے نہیں دیا ؟ اور اگر ایک قطعی حکم پہلے سے طے نہ ہوچکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ اور ظالموں کے لیے تو بہت دردناک عذاب ہے۔
(شوریٰ -21)

ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟
اس سے مراد، انسان یا انسانوں کے گروہ ہی ہو سکتے ہیں ۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔

قیاس وغیرہ کے ذریعے چیزوں کو حلال اور حرام کرنے کا عمل ، یہود و نصاریٰ کا ہے :

شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کفّار بھی کرتے رہے اور اہل کتاب کے علماء اور مشائخ بھی کرتے رہے - مشرکین (وغیرہ) کی شریعت سازی یا حلال و حرام کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ ۭسَيَجْزِيْهِمْ بِمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ

اور کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی ممنوع ہیں ‘ ان کو نہیں کھا سکتے مگر وہی جن کے بارے میں ہم چاہیں ‘ اپنے گمان کے مطابق اور کچھ چوپائے ہیں جن کی پیٹھیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ‘ اور کچھ چوپائے ہیں جن پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے ‘ یہ سب کچھ جھوٹ گھڑتے ہیں اس پر اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کے اس افترا کی
وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ

اور وہ کہتے ہیں جو کچھ ان چوپایوں کے پیٹوں میں ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر وہ حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہو تو پھر وہ سب اس میں حصہ دار ہوں گے۔ اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کی ان باتوں کی جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ‘ وہ یقیناً حکیم اور علیم ہے
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ

یقیناً نامراد ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا بےوقوفی سے ‘ بغیر علم کے ‘ اور انہوں نے حرام کرلیا (اپنے اوپر) وہ رزق جو اللہ نے انہیں دیا تھا اللہ پر افترا کرتے ہوئے وہ گمراہ ہوچکے ہیں اور اب ہدایت پر آنے والے نہیں ہیں
(الانعام -138تا 140)
اہل کتاب کے علماء اور مشائخ حلال اور حرام کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور عوام ان کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے - اس فعل کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علماءکو اور اپنے درویشوں کو اپنا رب، اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو بھی حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی،پاک ہے وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں
(التوبہ -31)

قارئین ! مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ کفار مکّہ اور اہل کتاب کے علما اور مشائخ حرام و حلال کا فیصلہ خود کرتے تھے اور پھر اسے الله تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے -یہ ان کی الله تعالیٰ پر افتراء پردازی تھی -
سورة توبہ کی مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ علماء اور مشائخ کے حلال و حرام کے فیصلہ کو ماننا ، ان کو رب بنانا ہے ، یہ ان کی عبادت ہے _ الٰہ ایک ہے تو شریعت ساز ، حلال و حرام کرنے والا بھی ایک ہے یعنی صرف الله تعالیٰ شریعت سازی اور حرام و حلال کا فیصلہ کر سکتا ہے ، دوسرا کوئی نہیں کر سکتا - سورة توبہ کی آیت کے آخری جملے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عوام علماء اور مشائخ کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا کرتے تھے اور یہ فعل الله تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے -
یہ امت یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے لگ چکی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے :

ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ
تم پہلی امتوں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے، آپ نے فرمایا کہ اور کون ہوسکتا ہے۔
(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2222)

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے نیک انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرمائے
آمین یا رب العلمین

والحمد لله رب العلمین
 

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
*اجتہاد*
شریعت میں اجتہاد کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔علماء کے علم، تحقیق اور دانش کو رواں دواں رکھنے کے لئے یہ مہمیز دینے کا ایک دروازہ ہے جو امت اسلامیہ میں بہتے پانی اور ابلتے چشموں کی حیثیت رکھتا ہے۔ نہ کہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح دین کو سمجھ لیا جائے جس میں تعفن، بدبو اور غیر شفافی آ جاتی ہے۔ اہم معاصر مسائل کے حل کی سبیل فراہم کرتا ہے۔ یہ عمل ایک عالم کو مجتہد کے مرتبے تک پہنچا کے اس کا مرتبہ اور وزن بھی قائم کرتا ہے۔علماء فقہ نے اس کی تعریف متعین کرکے چند دیگر شرائط بھی اجتہاد کے لئے ضروری قرار دی ہیں۔
جو درج ذیل ہیں:لغوی معنی:اجتہاد کا مادہ ج ہ د ہے ۔ ہمت وطاقت یا کوشش کرنا کو جہد کہتے ہیں۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں:الإجْتِہَادُ فِی الُّلغَۃِ مَأخُوذٌ مِنَ الْمَشَقَّۃِ وَالطَّاقَۃِ۔ لغت میں اجتہاد کا لفظ مشقت اور طاقت سے ماخوذ ہے۔یعنی کسی کام کے سرانجام دینے میں حتی الامکان کوشش کرنا اور سخت محنت کرنا ہے۔ جیسے چٹان کو اٹھانے میں طاقت کا استعمال کرکے سخت کوشش کرنا۔مگر کسی گٹھلی کو اٹھانے کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔
اصطلاحی معنی : علماء اصول نے اپنی اصطلاح میں اس کا معنی یہ کیا ہے:بَذْلُ الْوُسْعِ فِی نَیْلِ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ عَمَلِیٍّ بِطَرِیْقِ الاسْتِنْبَاطِ۔کسی عملی شرعی حکم کے استنباط کے لئے اولہ میں پوری صلاحیت صرف کرنا تاکہ مجتہدکو علم اور ظن حاصل ہو جائے کہ اس مسئلہ میں اللہ کا حکم کیا ہے۔ اجتہاد کہلاتا ہے۔اس اصطلاحی تعریف سے مندرجہ ذیل چھ نکات واضح ہوتے ہیں جو مجتہد کے تعین ومقام کو واضح کرتے ہیں: میدان اجتہاد:اہل علم نے اجتہاد کہاں اور کس مسئلے میں کرنا ہے ؟ اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ اور وہ ہے: ہُوَ کُلُّ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ قَطْعِیٌّ۔جن احکام ومسائل میں دلیل قطعی نہیں ان میں اجتہاد ہو سکتا ہے۔اس لئے جو مسائل دینیہ ضرورۃ معلوم ہیں جیسے پانچ نمازیں، وجوب حج، صوم، زکوۃ وغیرہ ان میں اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح وہ احکام بھی اس سے خارج ہیں جو دلیل قطعی ثبوت یا قطعی دلالت سے معلوم ہیں جیسے: تحریم خمر، وسرقہ، یا لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ۔جن مسائل میں کوئی شرعی نص موجود نہ ہو یا نص اپنی دلالت میں ظنی ہو چاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا خبر واحد۔ یا جن مسائل میں کوئی اجماع نہ ہو سکا ہو۔ وہاں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مجتہد کا کام یہ ہوگا کہ وہ خبر واحد کے لئے محدثین کی طے شدہ شرائط کے مطابق، روایت اور اس کے راویوں پر غور کرکے یہ بتائے کہ وہ روایت کس درجہ کی ہے ؟ تاکہ ظن سے نکل کر یقین و ثبوت میں آیا جائے۔ اجتہاد بھی قرائن کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس لئے مجتہد کو یہ راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ محض متن حدیث کو دیکھ کر رائے اور اجتہاد سے اس کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہو گا۔ اگرچہ بعض فقہاء اسے کافی سمجھتے ہیں اور اسے اجتہاد قرار دے دیتے ہیں مگر علمی، تحقیقی اور دیانتداری کے اعتبار سے ایسا اجتہاد، اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ یا مجتہد قرآنی آیت میں لفظ کی ظنی دلالت پر غور کرکے اس کے معنی کو متعین کرتا ہے اور ایک دلالت کو دوسری دلالت پر ترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی دونوں مقامات ایسے ہیں جن سے احکام مستنبط کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے اور امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے۔ اس معنی میں چاروں فقہ کو مذاہب اربعہ کہا جاتا ہے اور یہاں مذہب کا معنی اجتہاد ہے کہ فلاں امام کا یہ اجتہاد ہے۔
اجتہاد کی اہمیت وثبوت: اسلام کے مکمل دین اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے آخری شریعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر زمان ومکان کے لئے انتہائی مناسب بنا دیا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تمام پیش آنے والے حوادث وواقعات کی تفاصیل قرآن وسنت میں موجود ہوں۔کیونکہ حوادث وواقعات نئے نئے پیش آتے رہیں گے مگر ادلہ وہی باقی رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں۔ یعنی قرآن وسنت کی نصوص میں احکام کی تعداد محدود ہے۔ جب کہ مسائل غیر محدود ہیں۔ علاقائی اور عصری مسائل اس پر مستزاد ہیں۔ اس لئے غیر منصوص مسائل میں رائے اور اجتہاد کی طرف رجوع کرنا از بس ضروری ہو گا۔اور اجمالی ادلہ اور ان کے عام قاعدوں پرغور وفکر کرنا ہوگا تاکہ نظیر کو نظیر کے مطابق حکم دیا جائے۔
٭ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس وقت بھی اجتہاد کی حوصلہ افزائی کی جب قرآن نازل ہو رہا تھا۔اور راہنمائی دی کہ قرآن وسنت جو اسلام کے اصل مصادر ہیں ان پر غور کرکے قیاسی یا استنباطی طور پر شریعت کے نئے احکام معلوم کئے جائیں۔مثلاً: {یحکم بہ ذوا عدل منکم}(المائدۃ:۹۵) اس کا فیصلہ تم میں دو صاحب عدل کریں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد صحیح حدیث میں ہے:إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ فَأَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌمجتہدکسی حال میں اجر سے محروم نہیں رہتا۔ اگر اس کا اجتہاد درست ہے تو اسے دو اجر ملیں گے ایک اس پر کہ اس نے اجتہاد کیا اور دوسرا اس پر کہ اس کا اجتہاد صحیح ہوا۔ اور اگر اس کا اجتہاد غلط ہوا تو اسے اجتہاد کرنے کا ایک اجر پھر بھی ملے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر مجتہد کو غلطی کرنے پر کوئی اجر نہ ملتا تو کوئی شخص اس اندیشہ سے کبھی اجتہاد نہ کرتا کہ اس کا وقت بغیر کسی اجر کے یونہی ضائع کیا جائے گا اور گناہ گار بھی ہوگا۔
٭صحابہ رسول بھی متفق نظر آتے ہیں کہ اجتہاد ہونا چاہئے۔ جب ان کے پاس نئے مسائل آتے اور ان کا حل کتاب وسنت سے جب وہ نہ پاتے تو اجتہاد ہی کیا کرتے۔
٭حقیقت میں مجتہد قرآن وحدیث کی نصوص پر غور وفکر کر کے براہ راست احکام کا استنباط کر کے اللہ ورسول کی اطاعت کرتا ہے۔ اجتہاد سے مراد وہی فکری عمل ہے جس کو قرآن نے استنباط کہا ہے(النساء: ۸۳) فقہاء کی اصطلاح میں اسی کا نام قیاس ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اجتہاد سے مراد بالواسطہ اخذ احکام ہے جب کہ براہ راست اخذ احکام کی بظاہر صورت موجود نہ ہو۔رسول اکرم ﷺ کے اجتہاد کا حکم: اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے لئے دنیوی مصالح اور جنگی تدابیر کے لئے اجتہاد کرنا روا ہے۔کیونکہ جناب رسالت مآب ﷺ نے خود کئی مسائل میں اجتہاد فرمایا تاکہ امت کو اجتہاد کی شرائط بتا کر اس کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ مثلاً: اساری بدر ، متخلفین تبوک کو اذن دینا، تأبیر نخل کے بارے میں اشارہ دینا، وغیرہ۔کیا دنیوی مصلحت اور جنگی تدابیر کے علاوہ آپ ﷺنیاور دینی یا شرعی مسئلے میں اجتہاد کیا ہے؟ اہل علم مختلف الرائے ہیں۔ مثلاً:ایک قول یہ ہے کہ عقلاً آپﷺ اجتہاد کرسکتے ہیں۔جو فعلاً آپ سے ہو بھی گیا۔ یہ جمہور علماء کا قول ہے۔ان کا استدلال یہ ہے:{فاعتبروا یا أولی الأبصار}(الحشر:۲) یہاں اعتبار سے مراد قیاس ہی ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم اہل بصیرت کو دیا ہے۔اور نبی ﷺ لوگوں سب سے زیادہ بصیرت والے تھے۔اور قیاس کے حقیقت اور شروط کے بارے میں زیادہ خبر رکھتے تھے۔بلکہ آپ بطریق اولی اس پر مامور بھی تھے۔
٭آپ ﷺ نے اجتہاد کیا بھی۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو آپ کا یہ فرمانا: أَرَأَیْتَ لَوْتَمَضْمَضْتَ؟ بھلا بتاؤ اگر تم کلی کرو تو؟ جس صحابی نے اپنے فوت شدہ والد کے بارے یہ پوچھا کہ وہ حج نہیں کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:أَرَأَیْتَ لَوْکَانَ عَلَی أَبِیْکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ تَقْضِیْہِ؟اسی طرح حجۃ الوداع میں آپ کا یہ فرمانا:لَوِاسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ، لِمَا سُقْتُ الْہَدْیَ۔ اجتہاد پر عمل، نص پر عمل کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا ثواب بھی زیادہ بڑا ہے۔اگر آپ ﷺ اجتہاد پر عامل نہ ہوتے تو پھر ہم یہی سمجھتے کہ امت کے جن حضرات نے اجتہاد کیا فضیلت تو انہیں حاصل ہوگئی مگر آپ ﷺاس سے محروم ہوگئے۔جو انتہائی غلط بات ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کے لئے شریعت میں اجتہاد کرنا جائز ہی نہیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ میں ہی آپ ﷺ کے بارے میں ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ: {وما ینطق عن الہوی إن ہو إلا وحی یوحی}۔ اور آپ ﷺ صرف وحی کے پابند ہیں۔ {ولا أقول لکم إنی ملک إن أتبع إلا ما یوحی إلی}۔اس لئے آپ ﷺ کا اجتہاد کرنا مناسب نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ سے کسی نئے واقعہ کے بارے میں سوال کیا جاتا تو بجائے جواب دینے کے آپ توقف فرماتے اور وحی کا انتظار کرتے یا پھر آپ ﷺ فرماتے: اس بارے مجھ پر ابھی تک کچھ نازل نہیں ہوا۔
تیسرا قول: ان علماء نے توقف کیا ہے اور کوئی مسلمہ بات نہیں کہی۔اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو کسی مسئلہ میں اجتہاد کرنے کی اجازت دے دی جائے اور یہ بھی کہ وحی ہی کی طرف آپ ﷺ لوٹیں۔تنبیہ: جب جمہور کا یہ قول بیان کیا جاتا ہے: کہ آپ ﷺ کو اجتہاد کا حق ہے توسوال یہ ہے کہ کیا آپ ﷺ کا یہ اجتہاد شریعت اسلامیہ میں قرآن وسنت کے علاوہ ایک مصدر بن جائے گا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ : نہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا اجتہاد وحی کا پابند ہوتا ہے اگر وہ درست ہو تو وحی اسے برقرار رکھتی ہے اور اگر اس میں کوئی خطأ ہو تو وحی اس خطا سے آگاہ کر کے درست رخ بتاتی ہے۔قرآن مجید سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کا یہی طریقہ انبیاء سابقین کے لئے بھی استعمال ہوا۔اسلام نے اجتہاد کی ترغیب دی۔ عہد نبوی میں صحابہ رسول نے اجتہاد کیا۔گو اس بارے میں مختلف نکتہ ہائے نظر ہیں مگر صحیح اور درست یہی ہے کہ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی موجودگی میں اور عدم موجودگی میں اجتہاد کیا ہے اور کبھی آپ ﷺ کی اجازت سے اور کبھی آپ ﷺ کے حکم سے۔ اور کبھی صحابی رسول، خود اجتہاد کر بیٹھے آپ ﷺ کو معلوم اور آپ ﷺ اسے برقرار رکھیں۔یہ بھی ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے اسے پسند وناپسند بھی فرمایا ہے۔مثلاً:سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کرتے وقت آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: فیصلے کے لئے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے تو کیا کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کی: اَقْضِیْ بِمَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔ میں جو کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اگر اس میں نہ ہوتو؟ تو فرمانے لگی: فَبِسُنَّۃِ رَسولِ اللہِ۔ پھر سنت رسول اللہ ﷺ سے۔ آپ نے فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ ہو تو؟ عرض کی:أَجْتَہِدُ ولا آلُو۔ اجتہاد کروں گا اور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ آپ ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: الحَمْدُ لِلّٰہِ الْذِیْ وَفّقَ رَسُولَ رسولِ اللہِ إلی ما یُرْضِی رسولَ اللہِﷺ۔اس اللہ کا شکر جس نے رسول اللہ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو سکے۔
اسی طرح سعد بن معاذ کا یہود بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے انتہائی مناسب اور صحیح قرار دیا۔آپ ﷺ نے عمرو بن العاص کو فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے کا جب حکم دیا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول آپ کی موجودگی میں کیا اجتہاد کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بالکل ! اگر تمہارا فیصلہ درست ہوا تو دو اجر ورنہ ایک کے مستحق ہو گے۔غزوہ حنین کے موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد جب ابوقتادہ نے ایک شخص کو قتل کیا تو وہ اس کے مال غنیمت کے مستحق ٹھہرتے تھے مگر کوئی اور اسے لے گیا۔ سیدنا ابوبکر نے آپ ﷺ سے عرض کی ابوقتادہ کو مال غنیمت میں سے کچھ دے کر خوش کیا جائے۔ابوبکر نے اس موقع پر کہا: واللہِ لا نَعمِدُ إلی أَسَدٍ مِن أُسُودِ اللہِ یُقَاتِلُ عنِ اللہ ورسولِہِ، فنّعطِیْکَ سَلْبَہُ۔بخدا ہم کبهی ایسا نہیں کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف قتال کرے اور اس کا مال غنیمت ہم تجهے دے دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: صَدَقَ أبوبکرٍ۔
حکمت اجتہاد: آپ ﷺ نے اجتہاد کیوں کیا اور صحابہ کرام کو اس کی اجازت کیوں دی؟ اس میں درج ذیل حکمتیں تھیں:۱۔ امت کو بتانا مقصود تھا کہ اجتہاد کرنا جائز ہے۔جب وہ حکم کی علت پالیں تو وہ نوازل میں اجتہاد کرلیں۔اور اسے منصوص علیہ کا حکم دیں۔۲۔ صحابہ کی تربیت ہو اور ان کے بعد امت یہ جان لے کہ ادلہ سے اخذ احکام کی کیفیت کیا ہونی چاہئے۔ آپ ﷺ کے بعد امت کے اہل فقہ ونظر بھی اپنے حوادث ونوازل میں عمومات کتاب وسنت کو دیکھ کر اجتہاد کریں۔
٭اس لئے شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں آئی جو اجتہاد کو کسی جگہ یا کسی زمانہ میں موقوف یا مقید کرتی ہو بلکہ شریعت کی نگاہ میں اجتہاد ایسی چیز ہے جو ہر زمانہ میں ممکن ہے۔ عصر حاضر میں جو سہولتیں میسر ہو چکی ہیں یہ پہلے زمانہ کے مجتہدین کو کہاں میسر تھیں۔ شاید اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا:لَا یَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِیْ مَنْصُورِیْنَ عَلَی الْحَقِّ۔۔۔ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔
٭حنابلہ، ظاہریہ اور محدثین کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ تا قیامت کھلا ہے۔وہ مانتے ہیں کہ اجتہاد کی شریعت میں اجازت ہے مگر یہ اجازت چند سخت شرائط کے تابع ہے۔ تاکہ وحی اور اجتہاد میں نمایاں فرق برقرار رہے اور یہ دونوں آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں اور نا اہل لوگوں سے بھی بچا جائے۔
حکم اجتہاد: جب اس میں امت کے چند علماء مصروف ہوں تو پھریہ فرض کفایہ ہے ۔ باقی مسلمانوں سے یہ حکم ساقط ہو جائے گا۔اور اگر سبھی اس میں کوتاہی کریں تو اجتہاد کو ترک کرنے پر سبھی گناہ گار ہوں گے۔اجتہاد اور تفقہ: صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے: مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ۔ اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین میں فقیہ بنا دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ آپﷺ نے یہ چاہا ہے کہ جو دین میں تفقہ حاصل نہیں کرے گا اللہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں تفقہ حاصل کرنا فرض ہے اور دین میں تفقہ حاصل کرنے کامعنی یہ ہے کہ شرعی احکام کو سمعی دلائل سے معلوم کرنا۔ جو سمعی دلائل سے آگاہ نہیں ہے وہ دین میں فقیہ نہیں ہے۔اس لئے اجتہاد ایک آلہ ہے اور افتاء ایک تخصص۔ نیزمفتی کا فتوی ایک اجتہادی علم ہے اس لئے اس کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔
سمعی دلائل سے مراد قرآن وسنت سے احکام معلوم کرنے کا وہ طریقہ ہے۔ جس میں صحیح ذوق اورعقل سلیم کی گنجائش ہو مگرفاسد قیاس، وہم وظن اور باطل رائے کی جگہ نہ ہو اسی طرح مختلف حیلوں اور غیر معقول اعذار سے سمعی دلائل کو بھی رد کرنے کا نام فقہ نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہؒ اپنے فتاوی میں ارشاد فرماتے ہیں:وَالاِجْتِہَادُ لَیْسَ ہُوَ أَمْرً ا وَاحِدًا لاَ یَقْبَلُ التَّجَزِّیْ وَالاِنْقِسَامُ بَلْ قَدْ یَکُونُ الرجل مجتہدا فی فن أو باب أو مسئلۃ دون فن وباب ومسئلۃ، وکل أحد فاجتہادہ بحسب وسعہ،اجتہادکوئی ایسا کلیہ نہیں ہے جو تقسیم در تقسیم کو قبول نہ کرے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی فن ، باب یا مسئلہ میں مجتہدہو اور کسی دوسرے میں نہ ہو۔ ہر شخص کا اجتہاد اس کی ہمت ووسعت کے مطابق ہے۔(فتاویٰ ج ۲۰ص۲۱۲ )یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ہر فن مولا ہو یا اسے دیگر فنون کی بھی لازماً مہارت ہو بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے فن میں مجتہد بن سکتا ہے۔ ایک ماہر لسانیات ہو سکتا ہے تو دوسرا ماہر اقتصادیات، ایک علم الفرائض میں مجتہد بن سکتا ہے تو دوسرا عبادات میں۔ اکثر مجتہدین ایسے ہی مجتہد ہیں۔ بعض مسالک میں عبادات میں فتوی ایک مجتہد کا ہے ، قضاء میں کسی اور مجتہدکا قابل ترجیح ہے اور سیر میں کسی اور کا۔ بہر حال مجتہد کے لئے اتنا جاننا ضروری ہے کہ جس فن، جس باب اور جس مسئلہ میں وہ اجتہاد کرنا چاہتا ہے اس فن، باب اور مسئلہ میں اس کے سامنے سمعی دلائل کون سے ہیں۔ باقی مجتہد کے لئے دو تین درجن شرائط حقیقت میں غیر متعلقہ ہیں جو شاید اس لئے ہیں کہ مسلمان خوف زدہ رہیں اور بعض مذاہب کی قید سے نجات نہ پا سکیں۔
اجتہاد کی اقسام:اس کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ عام اجتہاد ۲۔ خاص اجتہاد۱۔عام اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جو احوال ظاہری سے تعلق رکھتا ہو۔
اور۲۔خاص اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جس کا تعلق احوال باطنی سے ہو یعنی وہ حالات جو اوپری سطح(Face value)پر دکھائی نہ دیتے ہوں مگر وہ گہری سطح(under current)میں موجود ہوں۔ پہلے کا تعلق بصارت سے ہے اور دوسرے کا بصیرت سے۔مثلاً صلح حدیبیہ کے وقت جو بظاہر حالات تھے وہ تمام تر اہل اسلام کے خلاف تھے کیوں کہ دس سالہ جنگ معاہدہ مخالفین کی یک طرفہ شرطوں کو مان کر کیا جارہا تھا۔ صلح کے اس ظاہری پہلو کی بناء پر اسے قبول کرنا صحابہ کے لئے سخت گراں تھا حتی کہ عمر فاروقؓ نے اس معاہدہ کو دَنِیَّۃ قرار دیا۔قرآن کی اس آیت نے اس معاملہ پر تبصرہ کرکے حقیقت کو یوں واضح کیا:{فعلم ما لم تعلموا}۔ پس اللہ نے جانا جو تم نے نہ جانا۔ جس کا مطلب ہے کہ تم صرف دکھائی دینے والی باتوں کو جانتے تھے مگر اسی کے ساتھ کچھ بظاہر نہ دکھائی دینے والی باتیں بھی وہاں موجود تھیں اور اللہ کی راہنمائی سے اللہ کے رسول نے ان بظاہر نہ دکھائی دینے والی باتوں کی بنیاد پر صلح کا یہ معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ دوسال سے بھی کم مدت میں اہل اسلام کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے بڑھ کر دس ہزار تک پہنچ گئی۔یااجتہاد کی یہ دو قسمیں بھی ہیں۔
انفرادی اجتہاد اجتماعی اجتہاد۱۔زمانہ سابق میں مجتہداپنے تمام تر وسائل کے باوجودکسی بھی مسئلے میں اجتہاد انفرادی طور پر کرتا۔ جس میں دیگر مجتہدین کی شرکت ناممکن ہوتی۔ ایک فرد کا اجتہاد مقامی سطح پر یا جہاں تک اس کے شاگردوں اور اتباع کا اثر رسوخ ہوتا وہ پہنچ پاتا۔ اس لئے اس زمانہ میں دیگر مجتہدین کی موجودگی انہیں ایک جگہ اکٹھا نہ کرسکی تاکہ باہمی نقاش سے کوئی متفقہ رائے بن پاتی۔ایسے اجتہاد کو انفرادی اجتہاد کا درجہ حاصل ہے مگراس کی آج ضرورت نہیں۔۲۔ اجتماعی اجتہاد جو دنیا بھر میں پھیلے مختلف علماء وفضلاء کی اجتہادی آراء سے مستفید ہونے کا نام ہے۔ موجودہ دور میں جدید آلات ووسائل اس میں بڑے معاون ہیں۔یہاں استدلال ونقاش کی بڑی گنجائش ہے اور افہام وتفہیم کی بھی۔اورآپس میں مل بیٹھ کر متفقہ رائے قائم کرنا بھی ممکن ہے۔اس لئے عصر حاضر میں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت واہمیت ہے۔ حکومت سعودیہ نے مکہ مکرمہ میں جو علماء کا بورڈ بنایا ہے اس میں دنیا بھر کے متخصص علماء اس کے ممبر ہیں جو کسی بھی ایسے مسئلہ کو جس کی وضاحت قرآن وحدیث میں نہ ہواس پر ان کے اجتہادات قابل تحسین ہیں۔ مثلاً: بینکنگ میں سود شامل ہے اس بورڈ کی کوشش ہے کہ ایسا بینکنگ نظام بنایا جائے جس میں سود کسی بھی صورت میں داخل نہ ہوسکے۔ یہی حال انشورنس کا ہے۔ نیز کلوننگ، تبدیلی اعضاء وغیرہ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر اجتہاد ہوا ہے اور ہورہا ہے کیونکہ ان کی وضاحت قرآن وسنت میں موجود نہیں۔
اجتہاد ومجتہدکی شرائط:شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عِقْدُ الْجِیْدِمیں اجتہاد اور مجتہد کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجتہد میں پانچ قسم کے علوم کا ہونا ضروری ہے:الْمُجْتَہِدُ مَنْ جَمَعَ خَمْسَۃَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْعِلْمِ، عِلْمُ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، وَعِلْمُ سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، وَأَقَاوِیْلَ عُلَمَائِ السَّلَفِ مِنْ إجْمَاعِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ، وَعِلْمُ اللُّغَۃِ وَعِلْمُ الْقِیَاسِ۔مجتہد وہ ہے جس میں پانچ علم ہوں۔ کتاب اللہ کا علم، سنت رسول کا علم، علماء سلف کے اجماعی اور اختلافی اقوال، لغت کا علم اور قیاس واستنباط کا علم۔اس تعریف کی مزید تفصیل کے لئے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو شخص اجتہاد کا راستہ اپنانا چاہتا ہے وہ یہ یاد رکھے کہ اجتہاد چونکہ فہم وفراست اور ذہانت کے استعمال کا نام ہے اور اس میں غلطی کا امکان بھی ہے۔ اس لئے اس کے لئے یہ ضروری ہے :۱۔نیک نیت ہواور صحیح عقیدہ والا بھی، اللہ اوررسول کے علاوہ کسی شخصیت یا گروہ کے تعصب میں مبتلا نہ ہو۔۲۔ وہ اپنے اجتہاد کی ذمہ داری خود قبول کرے۔ اپنے اجتہاد کو اللہ ورسول کی طرف منسوب نہ کرے۔ اس لئے کہ اللہ ورسول کی طرف غلط بات منسوب کرنا شرعاً حرام ہے۔ یہ قطعاً جائز نہ ہوگا کہ اجتہاد ،مجتہد کا ہو اور اسے اللہ ورسول کا حکم قرار دے دیا جائے۔ ایسا کہنا گویا خود کو معصوم کہلوانا ہے۔ قرآن وحدیث کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام جیسی برگزیدہ ہستیاں بھی کئی بار اجتہادی خطا سے دو چار ہوئیں۔ اللہ چاہتا تو ان سے یہ غلطی نہ ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے از خود یہ غلطی کروائی تاکہ دنیا یہ سمجھ لے کہ نبی بشر ہوتا ہے کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں اور نہ ہی خدائی اختیارات رکھتا ہے دوسرا یہ کہ نبی سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے تو امتی تو بالأولی خطا کر سکتے ہیں۔ جب نبی کی خطا اللہ تعالیٰ کی بات نہیں ہے تو غیر نبی کی اجتہادی خطا کو اللہ کی بات کہنا بالأولی حرام ہے۔
مثال: اساری بدر کے معاملے میں سیدنا ابوبکر ؓ کا مشورہ معاف کرنے کا تھا اور سیدنا عمرؓ کا قتل کرنے کا۔ مگر رسول اکرم ﷺ نے مشورہ صدیقؓ کو پسند فرما کر ان قیدیوں سے فدیہ لیا اور رہا کردیا۔ آیات جو بعد میں اتریں ان سے واضح ہوا کہ آپ ﷺ اور جناب صدیق اکبرؓ کی رائے مبنی بر رضاء الٰہی نہ تھی۔ قرآن نے اس کی نشان دہی کردی۔
اور اگرناممکن ہو توپھر وہ اجتہاد نافذ العمل رہے گا جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں ہوا۔ عدالت بھی اپنے فیصلہ کی اجتہادی غلطی معلوم ہونے پر اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ ہر لحاظ سے سیدنا عمرؓ سے بڑھ کر تھے اور ابو بکر ؓ بھی۔ مگر اجتہادی معاملہ میں چھوٹے لوگوں کی رائے مبنی بر صواب ثابت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے امام کی رائے بھی بڑی ہو اور صرف نام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے مقابل کسی چھوٹے کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔
٭امام ابوحنیفہؒ مجموعی فہم میں قاضی ابویوسفؒ سے برتر ہیں اسی طرح امام شافعیؒ اپنے شاگرد امام مزنیؒ سے۔ مگر ہر ایک کے فقہی مسائل کو دیکھا جائے تو بیشتر مسائل میں ان شاگردوں کا فہم اپنے اساتذہ کے فہم سے زیادہ صائب نظر آتا ہے۔ مثلاً قاضی ابویوسفؒ اپنی کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:مال غنیمت کی تقسیم میں امام محترم جناب ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو مجاہد گھوڑے پر سوار ہو اسے دو حصے ملیں گے ایک اس مجاہد کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ اس کے بعد قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑ سوار کو تین حصے دئیے ۔ ایک حصہ مجاہد کا اور دو حصے گھوڑے کے۔ امام ابوحنیفہؒ نے یہ حدیث سن کرمسترد کردی اور فرمایا: لاَ أُفَضِّلُ بَہِیْمَۃً عَلَی رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔ میں کسی چوپائے کو مسلمان مرد پر فضیلت اور برتری نہیں دے سکتا۔ قاضی ابویوسفؒ لکھتے ہیں: خود ہمارے شیخ محترم نے بھی تو چوپائے اور مجاہد کو برابر کا درجہ دے دیا ہے۔
٭ بعینہ امام شافعیؒ نے اپنے شیخ محترم امام مالکؒ کے کئی مسائل کی تغلیط کی ہے۔ یہ جزوی فہم کا اختلاف ہے جو فقہی کتب میں جا بجا آیا ہے۔ اور بعض اوقات مجموعی فہم پر اہمیت حاصل کرلیتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ائمہ کرام میں سے کسی نے اپنے اجتہاد کو شریعت قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کوئی مجتہد نہیں جانتا کہ اس کی اجتہادی رائے عین اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا کہ نہیں ہے ۔ان کے اقوال اس بارے میں شاہد ہیں۔
٭ اس لئے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری کی اسی معنی میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے کہ وہ عین شریعت ہے۔ اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تضاد نہیں جب کہ فقہی اجتہادات میں تضادات نہ صرف قولی ہیں بلکہ اصولی ہیں۔ ایک چیز اگر فقہ حنفی میں حرام ہے تو فقہ شافعی میں وہ حلال ہے۔ فقہ حنفی میں ایک عمل نکاح ہے یا زنا، تو فقہ شافعی میں وہ زنا ہے یا نکاح۔ اگر ان اجتہادات کو شریعت مانا جائے تو خدانخواستہ شریعت تضادات کا مجموعہ ہوئی جو بالکل غلط ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ شریعت مطہرہ میں ایک چیز بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ نکاح بھی ہو اور زنا بھی۔ لہٰذا یہ فقہی مذاہب مختلف آراء کا مجموعہ توہیں مگر شریعت نہیں۔
دیگر شرائط اجتہاد ومجتہد:۳۔ مجتہد کو عربی زبان کا اتنا علم ہو کہ وہ عبارات ، الفاظ اور کلام میں وارد مختلف اسالیب کو سمجھ سکتا ہو۔ کیونکہ قرآن مجید شریعت کا اصل منبع ہے، اور سنت رسول اس کی شارح، دونوں عربی زبان میں ہیں۔۴۔ اسے کتاب وسنت کی نصوص جیسے آیات احکام وناسخ ومنسوخ کا اتنا علم ہو کہ ان سے احکام کو اخذ کرسکتا ہو۔ اگر کوئی مسئلہ در پیش آ جائے تو وہ اس سے متعلق قرآن میں جتنی آیات اور سنت میں جتنی احادیث ہیں ان سب کو اپنے ذہن میں تازہ کرسکتا ہو۔ اگر اسے قرآن وسنت کا اتنا علم نہ ہو تو وہ مجتہد نہیں ہوسکتا اور نہ اسے اجتہاد کرنا چاہئے۔۵۔ صحیح اور ضعیف حدیث کی پہچان کا اسے علم ہو جیسے اسناد کی معرفت اور علم رجال وغیرہ۔۶۔ اجماع اور مواقع اجماع کا علم ہو مبادا کہ وہ کسی ایسے مسئلہ میں فتوی دے بیٹھے جس پر اجماع موجود ہو۔۷۔ اسے صحابہ کرام ، تابعین اور بعد کے فقہاء کے مابین مسائل میں اختلاف، اس کے اسباب اور دلائل کا علم ہو تاکہ وہ ان میں صحیح کو غیر صحیح سے اور کتاب وسنت سے قریب تر کو غیر قریب سے الگ پہچان سکے۔۸۔ اسے اصول فقہ اور ان کے مابین اختلاف کا اور شریعت کے مآخذ سے احکام کو صحیح طور پر اخذ کرنے کے طریقے کا علم ہو۔وجوہ قیاس ، اس کی معتبر شرائط اور فقہی قواعد کی بھی اسے معرفت ہو۔مقاصد شریعہ کا بھی صحیح ادراک اسے ہو۹۔ اسے شریعت کے مقاصد، اس کے احکام کی علتوں اور ان کے پیچھے کار فرما حکمتوں کا علم ہو اور وہ یہ جان سکتا ہو کہ لوگوں کے مفادات میں سے کون سے شریعت کی نگاہ میں معتبر ہیں اور کون سے غیر معتبر؟۔۱۰۔ اجتہاد کرتے وقت وہ کسی مخصوص فکر ، شخصیت سے متاثر یا تعصب مذہبی کا شکار نہ ہو۔درجہ بالا شروط بعض علماء کے ہاں مقید اجتہاد کی ہیں۔ مثلاً مسئلہ مسح علی الخفین کی جو رعایت شریعت میں رکھی گئی ہے کیا وہ رعایت آج کے صنعتی موزوں کے لئے بھی ہے ؟ یا انجکشن کی سوئی جسم میں داخل ہونے سے وضوء ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ تو ایسے مسائل کے حل کے لئے اور اجتہاد کے لئے مذکورہ پانچ علوم کافی ہیں۔ایسا آدمی اپنے علم کی بنیاد پر قدیم فقہی ذخیرہ میں ایک ایسا جزئیہ پا سکتا ہے جس میں فقیہ نے یہ فتوی دیا ہو کہ بچھو کسی کے جسم میں ڈنک داخل کردے تو اس کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹے گا یا نہیں۔ مگر غیر مقید اجتہاد کے لئے یہ شروط کافی نہیں۔ ایسے اجتہاد کے لئے ان شروط کے علاوہ ایک مزید شرط بھی حدیث میں آئی ہے وہ یہ کہ: وعَلَی الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(جامع العلوم والحکم از ابن رجب حنبلی ص: ۹۸) عقل مند ودانا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کو خوب جاننے والا ہو۔ یعنی حالات زمانہ سے واقفیت رکھتا ہو اور ملکہ اجتہاد رکھتا ہو۔
اختلاف ہو تو حق ایک کے ساتھ ہوگا: بعض فقہاء کہتے ہیں اجتہاد کرنے والوں کے جتنے اقوال ہیں وہ سب درست اور صحیح ہیں۔ ان کا استدلال یہ حدیث ہے :أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِأَیِّہِمْ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ۔میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ یہ حدیث محدثین کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی ناقابل تسلیم ۔کیونکہ اگر اختلاف رحمت ہوتا تو پھر اتفاق ایک زحمت ہی ٹھہرتا۔ اس بارے میں صحیح مسلک امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ اور دیگر جمہور فقہاء کا ہے اور وہ یہ کہ مختلف اقوال میں سے حق صرف ایک قول میں ہے۔ جو اگرچہ ہمارے لئے غیر متعین ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں متعین ہے کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز کسی شخص کے لئے بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ صحابہ کرام اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کی غلطی واضح کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے۔ اگر ہر مجتہد کا اجتہاد صحیح اور برحق ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو غلط ٹھہراتے اور آپس میں اعتراضات کرتے۔مسلک اعتدال والی بات یہی ہے نہ کہ سب کو حق پرست کہہ کر سیاسی بات کہنا یا عوامی بننا۔شیخ لکھنویؒ کا فیصلہ:اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ مسلم علماء فقہاء کے ہاں ہر دور میں اجتہاد ہوا ہے۔ ان اجتہادی کوششوں میں آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔اس لئے فتویٰ دینے میں فقہاء کے مختلف اقوال اجتہادات مفتی کے سامنے آ جائیں تو ایسی صورت میں مفتی کو کیا کرنا چائیے؟ مولانا عبد الحی لکھنوی ؒ امام الکلام میں فرماتے ہیں:جو نظر انصاف رکھتا ہے اور کتب فقہ و اصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ یقینا جان لے گا کہ بیشتر فروعی و اصولی مسائل میں علماء کا اختلاف ہے۔ لہٰذا محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی اوروں کے نقطئہ نظر سے قوی تر ہوتاہے۔ میں جب بھی اختلافی مسائل سے گزرتا ہوں تو مجھے محدثین کا فیصلہ ہی انصاف کے قریب ترین نظر آتا ہے۔ بخدا ان کا کیا کہنا ، اللہ ہی ان کو جزا دے گا۔ وہ کیوں نہ دے یہی تو سچے وارث نبی ہیں اور شریعت کے کھرے نمائندے۔ اللہ ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ان کی محبت وسیرت پر ہی ہمیں دنیا سے اٹھائے۔
اس لئے بقول بعض کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے غیر تحقیقی بات ہے۔ علماء نے اسے مستقل ایک عمل سمجھا ہے اور امت میں روز اول سے ہی جاری ہے اور جاری رہے گا۔ مولانا بحر العلوم عبد العلی حنفیؒ نے ایسے لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو کہتے ہیں کہ اجتہاد مطلق ائمہ اربعہ تک تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے: یہ سب محض بے عقلی کی باتیں ہیں جس پر وہ کوئی دلیل نہیں دے سکے۔ہٰذَا کُلُّہُ ہَوَسٌ مِنْ ہَوَسَاتِہِمْ، لَمْ یَأتُوا بِدَلِیْلٍ وَلاَ یَعْبَأُ بِکَلَامِہِمْ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، جلد ۲)۔ ہمارے ایک معاصر دانش ور لکھتے ہیں: عجیب بات ہے کہ دور عباسی کے جن علماء کے نام پر کچھ لوگ اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہْوں نے خود کبھی صراحۃً یا کنایۃً ایسی بات نہیں کہی۔ بلاتشبیہ میں کہوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہم نبی آخر الزمان مانتے ہیں کیوں کہ آپ ﷺ نے خود اپنی زبان سے یہ اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ مگر فقہاء اربعہ یا اس دور کے کسی بھی بڑے فقیہ نے کبھی ایسی بات نہ کہی اور نہ لکھی۔ یاد رکھئے! عالی دماغ انسانوں کی پیدائش کبھی بند نہیں ہوتی وہ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔چنانچہ خود نظام فطرت کے تحت اسلام کے بعد کی تاریخ میں بار بار اعلی صلاحیت کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ یہ کہنا امت کی تصغیر ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد اس صلاحیت کے لوگ امت میں پیدا نہیں ہوئے حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اپنے وسیع مطالعہ، اپنی اعلی ذہنی استعداد اور اپنی بے داغ اسلامیت کے ساتھ اس قابل تھے کہ وہ مجتہد مطلق کا کردار ادا کرسکیں۔چونکہ یہ دین بہتے چشمے کی طرح ہے اس لئے کسی بھی مجتہد وقت کے اجتہاد کو اس زمانہ وحالات میں تو اہمیت ہوگی مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کی وفات کے بعد حالات بدلنے پر بھی اس کے اجتہادات من وعن قبول کئے جائیں۔ہاں مجتہد کے نہیں بلکہ مجتہدین کے اجتہادات اگر مفید ہوں تو ان سے فائدہ ضرور اٹھایا جاسکتا ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
اجتہاد کی حقیقت

حاکم کا فیصلہ جو اس نے فریقین کے درمیان کیا ہو گا وہ فیصلہ ہو گا قانون نہیں ہو گا -اس فیصلہ کو شریعت کی حیثیت حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ بطور فیصلہ عارضی ہو گا اور ہنگامی طور پر اس کو تسلیم کر لیا جائے گا - پھر اس حاکم کے بعد دوسرا حاکم جو اس حکومت کا والی ہو گا تو وہ اس بات کا مکلف نہیں ہو گا کہ جو فیصلے سابقہ حکومت میں ہو چکے ہیں وہ ان کے مطابق ہی فیصلہ کرے بلکہ وہ آزاد ہو گا -
برخلاف اس کے آج فرقوں کے ہاں ان کے مجتہد کا فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر شریعت میں شامل ہو جاتا ہے -
مزید برآں فیصلہ کرنا اور اجتہاد کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے -
فیصلہ فریقین کے درمیان مقدمات میں ہوتا ہے اور یہ چیز جائز ہے -
جبکہ اجتہاد و قیاس فرقوں کے علماء اور فقہاء مسائل میں کرتے ہیں جس کی اجازت الله تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی ، لہذا یہ چیز ناجائز ہوئی -
مسائل سازی صرف الله تعالیٰ کا کام ہے - الله تعالیٰ فرماتا ہے

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ
اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے ‘ اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو کہ قائم کرو دین کو۔ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) ُچن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔
(شوریٰ -13)

کسی انسان کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ مسائل میں اجتہاد کرے اور پھر اپنے خود ساختہ مسائل کو الله کی طرف منسوب کر دے ، یہ چیز قطعا حرام ہے - الله تعالیٰ نے اس چیز کی اجازت کسی کو نہیں دی بلکہ یہ چیز شرک کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے جو کسی طرح بھی برداشت نہیں کی جائے گی -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

کیا ان لوگوں نے (اللہ کے) ایسے شریک (بنا رکھے) ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا کوئی ایسا راستہ طے کردیا ہو جس کا اِذن الله نے نہیں دیا ؟ اور اگر ایک قطعی حکم پہلے سے طے نہ ہوچکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ اور ظالموں کے لیے تو بہت دردناک عذاب ہے۔
(شوریٰ -21)

ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟
اس سے مراد، انسان یا انسانوں کے گروہ ہی ہو سکتے ہیں ۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔

قیاس وغیرہ کے ذریعے چیزوں کو حلال اور حرام کرنے کا عمل ، یہود و نصاریٰ کا ہے :

شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کفّار بھی کرتے رہے اور اہل کتاب کے علماء اور مشائخ بھی کرتے رہے - مشرکین (وغیرہ) کی شریعت سازی یا حلال و حرام کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ ۭسَيَجْزِيْهِمْ بِمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ

اور کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی ممنوع ہیں ‘ ان کو نہیں کھا سکتے مگر وہی جن کے بارے میں ہم چاہیں ‘ اپنے گمان کے مطابق اور کچھ چوپائے ہیں جن کی پیٹھیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ‘ اور کچھ چوپائے ہیں جن پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے ‘ یہ سب کچھ جھوٹ گھڑتے ہیں اس پر اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کے اس افترا کی
وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ

اور وہ کہتے ہیں جو کچھ ان چوپایوں کے پیٹوں میں ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر وہ حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہو تو پھر وہ سب اس میں حصہ دار ہوں گے۔ اللہ عنقریب انہیں سزا دے گا ان کی ان باتوں کی جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ‘ وہ یقیناً حکیم اور علیم ہے
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ

یقیناً نامراد ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا بےوقوفی سے ‘ بغیر علم کے ‘ اور انہوں نے حرام کرلیا (اپنے اوپر) وہ رزق جو اللہ نے انہیں دیا تھا اللہ پر افترا کرتے ہوئے وہ گمراہ ہوچکے ہیں اور اب ہدایت پر آنے والے نہیں ہیں
(الانعام -138تا 140)
اہل کتاب کے علماء اور مشائخ حلال اور حرام کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور عوام ان کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے - اس فعل کا ذکر کرتے ہوۓ الله تعالیٰ فرماتا ہے :

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علماءکو اور اپنے درویشوں کو اپنا رب، اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو بھی حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی،پاک ہے وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں
(التوبہ -31)

قارئین ! مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ کفار مکّہ اور اہل کتاب کے علما اور مشائخ حرام و حلال کا فیصلہ خود کرتے تھے اور پھر اسے الله تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے -یہ ان کی الله تعالیٰ پر افتراء پردازی تھی -
سورة توبہ کی مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ علماء اور مشائخ کے حلال و حرام کے فیصلہ کو ماننا ، ان کو رب بنانا ہے ، یہ ان کی عبادت ہے _ الٰہ ایک ہے تو شریعت ساز ، حلال و حرام کرنے والا بھی ایک ہے یعنی صرف الله تعالیٰ شریعت سازی اور حرام و حلال کا فیصلہ کر سکتا ہے ، دوسرا کوئی نہیں کر سکتا - سورة توبہ کی آیت کے آخری جملے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عوام علماء اور مشائخ کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا کرتے تھے اور یہ فعل الله تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے -
یہ امت یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے لگ چکی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے :

ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ
تم پہلی امتوں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے، آپ نے فرمایا کہ اور کون ہوسکتا ہے۔
(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2222)

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے نیک انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرمائے
آمین یا رب العلمین

والحمد لله رب العلمین
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
قارئین !اب میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں –
مثال نمبر ١ – شوافع کہتے ہیں کہ تین بال برابر مسح کرنے سے وضوء ہو جائے گا اور احناف کہتے ہیں کہ جب تک چوتھائی سر کا مسح نہیں کرے گا وضوء نہیں ہو گا لیکن مالکی کہتے ہیں نہ پہلے والے کا وضو ء صحیح اور نہ دوسرے کا بلکہ جب تک پورے سر کا مسح نہیں کرے گا اس کا وضو ء نہیں ہو گا –
محترم کیا آپ بغیر قیاس کے بتا سکتے کہ مسح کی مقدار کیا ہے. صرف قرآن و حدیث سے جواب دیں, قیاس سے اجتناب کرتے ہوئے
دوسری بات قیاس پر آپ نے ایک تفصیلی مضمون تو تحریر کردیا لیکن قیاس کی جامع و مانع تعریف نہیں کی ذرا اس کی تعریف تو کردیں کہ قیاس آپ کس کو کہتے ہیں
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
20
Sahih Bukhari Hadees # 185

حدثنا عبد الله بن يوسف ،‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك ،‏‏‏‏ عن عمرو بن يحيى المازني ،‏‏‏‏ عن أبيه ،‏‏‏‏ أن رجلا ،‏‏‏‏ قال لعبد الله بن زيد ـ وهو جد عمرو بن يحيى ـ أتستطيع أن تريني ،‏‏‏‏ كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ فقال عبد الله بن زيد نعم‏.‏ فدعا بماء ،‏‏‏‏ فأفرغ على يديه فغسل يده مرتين ،‏‏‏‏ ثم مضمض واستنثر ثلاثا ،‏‏‏‏ ثم غسل وجهه ثلاثا ،‏‏‏‏ ثم غسل يديه مرتين مرتين إلى المرفقين ،‏‏‏‏ ثم مسح رأسه بيديه ،‏‏‏‏ فأقبل بهما وأدبر ،‏‏‏‏ بدأ بمقدم رأسه ،‏‏‏‏ حتى ذهب بهما إلى قفاه ،‏‏‏‏ ثم ردهما إلى المكان الذي بدأ منه ،‏‏‏‏ ثم غسل رجليه‏.‏

کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضو کیا ہے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں! پھر انہوں نے پانی کا برتن منگوایا پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔‎​
یہ جواب دیا جائے کیا خیال ہے۔‎​
Jam e Tirmazi Hadees # 32

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق 1.

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔​
 
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
20
Sahih Bukhari Hadees # 185

حدثنا عبد الله بن يوسف ،‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك ،‏‏‏‏ عن عمرو بن يحيى المازني ،‏‏‏‏ عن أبيه ،‏‏‏‏ أن رجلا ،‏‏‏‏ قال لعبد الله بن زيد ـ وهو جد عمرو بن يحيى ـ أتستطيع أن تريني ،‏‏‏‏ كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ فقال عبد الله بن زيد نعم‏.‏ فدعا بماء ،‏‏‏‏ فأفرغ على يديه فغسل يده مرتين ،‏‏‏‏ ثم مضمض واستنثر ثلاثا ،‏‏‏‏ ثم غسل وجهه ثلاثا ،‏‏‏‏ ثم غسل يديه مرتين مرتين إلى المرفقين ،‏‏‏‏ ثم مسح رأسه بيديه ،‏‏‏‏ فأقبل بهما وأدبر ،‏‏‏‏ بدأ بمقدم رأسه ،‏‏‏‏ حتى ذهب بهما إلى قفاه ،‏‏‏‏ ثم ردهما إلى المكان الذي بدأ منه ،‏‏‏‏ ثم غسل رجليه‏.‏

کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضو کیا ہے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں! پھر انہوں نے پانی کا برتن منگوایا پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔‎
یہ جواب دیا جائے کیا خیال ہے۔‎
Jam e Tirmazi Hadees # 32

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق 1.

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اجتہاد قیاس کے بغیر ممکن نہیں۔ یا تو یہ کہیں کہ اجتہاد بند ہوچکا۔ اگر ایسا نہیں تو؛
قیاس حجت نہیں بلکہ گمراہی (یعنی بدعت ) ہے !


کیسے ہے؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
Sahih Bukhari Hadees # 185
حدثنا عبد الله بن يوسف ،‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك ،‏‏‏‏ عن عمرو بن يحيى المازني ،‏‏‏‏ عن أبيه ،‏‏‏‏ أن رجلا ،‏‏‏‏ قال لعبد الله بن زيد ـ وهو جد عمرو بن يحيى ـ أتستطيع أن تريني ،‏‏‏‏ كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ فقال عبد الله بن زيد نعم‏.‏ فدعا بماء ،‏‏‏‏ فأفرغ على يديه فغسل يده مرتين ،‏‏‏‏ ثم مضمض واستنثر ثلاثا ،‏‏‏‏ ثم غسل وجهه ثلاثا ،‏‏‏‏ ثم غسل يديه مرتين مرتين إلى المرفقين ،‏‏‏‏ ثم مسح رأسه بيديه ،‏‏‏‏ فأقبل بهما وأدبر ،‏‏‏‏ بدأ بمقدم رأسه ،‏‏‏‏ حتى ذهب بهما إلى قفاه ،‏‏‏‏ ثم ردهما إلى المكان الذي بدأ منه ،‏‏‏‏ ثم غسل رجليه‏.‏
کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضو کیا ہے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں! پھر انہوں نے پانی کا برتن منگوایا پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔‎
یہ جواب دیا جائے کیا خیال ہے۔‎
Jam e Tirmazi Hadees # 32
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق 1.
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔
آپ نے غالبا اس بات کا جواب دیا ہے کہ سر کے مسح کی مقدار کیا ہے
آپ کی پیش کردہ حدیث میں سر کے شروع سے مسح کرنے کی بات ہے تو کیا اس سے میں یہ سمجھوں کہ پورے سر پر مسح فرض ہے؟
تو پھر صحیح مسلم کی اس حدیث کے متعلق کیا کہیں گے جس میں ناصیہ پر مسح کا ذکر ہے
اور میرے دوسرے سوال کے متعلق آپ کیا کہیں گے یعنی قیاس کی تعریف
 
Top