• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كفار سے دوستى لگانے كا معنى كيا ہے ؟ اور كفار سے ميل جول كا حكم

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
كفار سے دوستى لگانے كا معنى كيا ہے ؟ اور كفار سے ميل جول كا حكم

سوال:
قرآن مجيد ميں ہے كہ ہمارے ليے كفار كو دوست بنانا جائز نہيں، ليكن اس كا معنى كيا ہے، ميرا مقصد ہے كہ كس حد تك ؟
كيا ہمارے ليے كفار كے ساتھ لين دين كرنا جائز ہے؟
ميں زير تعليم ہوں، كيا ہمارے ليے ان كے ساتھ ٹيبل ٹينس كھيلنا جائز ہے ؟
كيا ہم ان كے ساتھ ٹيبل ٹينس وغيرہ كے امور بات چيت كر سكتے ہيں؟
كيا ہمارے ليے ان كے ساتھ اٹھنا بيٹھنا جائز ہے، باوجود اس كے كہ وہ اپنے اعتقادات پر ڈٹے ہوئے ہيں؟
ميں يہ سب كچھ اس ليے دريافت كر رہا ہوں كہ ميں ايك ايسے شخص كو جانتا ہوں جو كفار كے ساتھ اس طريقہ پر ميل جول ركھتا ہے، اور وہ ان كے ساتھ ان معاملات ميں مصاحبت اختيار كرتا ہے جو اس كى عقيدہ پر اثرانداز نہيں ہوتے، ميں اس كے باوجود اسے يہ كہتا رہتا ہوں:
" اس كے بدلے آپ مسلمانوں كے ساتھ كيوں نہيں رہتے؟ "
تو اس كا جواب يہ ہوتا ہے:
بہت سے مسلمان اپنے اجتماعات ميں اكثر شراب نوشى كرتے اور نشہ آور اشياء استعمال كرتے ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ ان كى گرل فرينڈز بھى ہيں، اور اسے ڈر ہے كہ ان مسلمانوں كى معاصى اور گناہ اسے بھى نہ گھير ليں، ليكن اسے يہ يقين ہے كہ كفار كا كفر اسے كچھ نقصان نہيں دے سكتا، كيونكہ يہ كفر اس كے ليے ايسى چيز نہيں جو اسے دھوكہ دے سكے، تو كيا اس كا ان كفار كے ساتھ ميل جول، اور كھيل كود، اور كھيل كے متعلقہ امور ميں بات چيت كرنا " مومنوں كو چھوڑ كر كفار سے دوستى " كرے زمرہ ميں آتا ہے ؟
جواب:
الحمد للہ :

اول:
اللہ سبحانہ وتعالى نے مومنوں كے ليے كفار كے ساتھ دوستى لگانا حرام كيا ہے، اور ايسا كرنے پر بہت سخت قسم كى وعيد سنائى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! تم يہود و نصارى كو دوست مت بناؤ، يہ تو آپس ميں ہى ايك دوسرے كے دوست ہيں، تم ميں سے جو بھى ان ميں سے كسى سے بھى دوستى كرے گا وہ بے شك انہى ميں سے ہو ہے، ظالموں كو اللہ تعالى ہرگز ہدايت نصيب نہيں كرتا} المائدۃ ( 51 ).

شيخ شنقيطى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اس آيت كريمہ ميں يہ بيان ہوا ہے كہ مسلمانوں ميں سے جو شخص بھى يہود و نصارى كے ساتھ دوستى لگائے گا تو وہ ان كے ساتھ دوستى لگانے كے باعث انہيں ميں سے شمار ہو گا.

اور ايك دوسرى جگہ بيان ہوا ہے كہ ان سے دوستى لگانا اللہ تعالى كى ناراضگى و غصہ اور اس كے عذاب ميں ہميشگى كا باعث ہے، اور ان كفار سے دوستى لگانے والا شخص اگر مومن ہوتا تو كبھى بھى ان كے ساتھ دوستى نہ لگاتا.

وہ فرمان بارى تعالى يہ ہے:
{ان ميں سے بہت سے لوگوں كو آپ ديكھيں گے كہ وہ كافروں سے دوستياں كرتے ہيں، جو كچھ انہوں نے اپنے ليے آگے بھيج ركھا ہے وہ بہت برا ہے، كہ اللہ تعالى ان سے ناراض ہو اور وہ ہميشہ عذاب ميں رہيں گے، اگر وہ اللہ تعالى اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور جو اس پرنازل كيا گيا ہے اس پر ايمان ركھتے ہوتے تو يہ كفار سے دوستياں نہ كرتے، ليكن ان ميں سے اكثر لوگ فاسق ہں} المائدۃ ( 80 - 81 ).

اور ايك اور جگہ ميں بيان فرمايا گيا ہے كہ يہ اس وقت ہے جب دوستى كا سبب خوف اور تقيہ و بچاؤ نہ ہو، ليكن اگر دوستى كا سبب يہ ہو تو پھر دوستى لگانے والا معذور شمار ہو گا.

فرمان بارى تعالى ہے:
{مومنوں كو چاہيے كہ وہ ايمان والوں كو چھوڑ كر كافروں سے دوستياں نہ لگاتے پھريں، اور جو كوئى بھى ايسا كرے گا وہ اللہ تعالى كى كسى حمايت ميں نہيں، مگر يہ كہ ان كے شر سے كسى طرح بچاؤ مقصود ہو}آل عمران ( 28 ).

لھذا اس آيت كريمہ ميں يہ بيان ہوا ہے كہ جتنى بھى آيات ميں كفار سے مطلقا دوستى كرنے كا حكم آيا ہے وہ اختيارى حالت ميں ہے، ليكن خوف اور ڈر اور بچاؤ كى حالت ميں اتنى دوستى كرنے كى اجازت ہے جس سے ان كے شر اور برائى سے محفوظ رہا جا سكے، ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ اس حالت ميں بھى دوستى كرنے والا شخص باطنى طور پر دوستى نہ لگائے بلكہ صرف اوپر اوپر سے ہى ركھے، اور اضطرارى حالت ميں كوئى كام كرنے والا شخص اختيارى حالت ميں كام كرنے والے شخص كى مانند نہيں ہے.

ان آيات كے ظاہر سے يہى سمجھ آتى ہے كہ جس شخص نے بھى عمدا اور جان بوجھ كر ان كے ساتھ رغبت كرتے اور انہيں چاہتے ہوئے دوستى كى وہ بھى ان كى طرح كافر ہے" انتہى
ديكھيں: اضواء البيان للشنقيطى ( 2 / 98 - 99 ).

اور كفار كے ساتھ حرام كردہ دوستى كى صورتوں ميں سے ايك صورت يہ بھى ہے كہ:
كفار كو دوست اور ساتھى بنايا جائے، اور ان كے ساتھ كھانے پينے اور كھيل ميں ميل جول ركھا جائے.

سوال نمبر ( 10342 ) كے جواب ميں ہم نے شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا قول نقل كيا تھا كہ:
" جب ضرورت يا كوئى شرعى مصلحت ہو تو كافر كے ساتھ كھانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن تم انہيں ساتھى بنا كر ان كے ساتھ بغير كسى شرعى سبب يا كسى شرعى مصلحت كے بغير نہ كھاؤ، اور نہ ہى ان كے ساتھ انس ركھو، اور ان كے ساتھ ہنسو، اور كھيلو كودو، ليكن جب اس كى ضرورت پيش آئے مثلا: مہمان كے ساتھ كھانا، يا انہيں اللہ تعالى كى دعوت پيش كرنے يا حق كى دعوت دينے يا كسى اور شرعى سبب كے پيش نظر كھانا پڑے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور اہل كتاب كا كھانا ہمارے ليے جائز ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ ہم انہيں دوست اور ساتھى اور ہم نشين، ہم نوالہ و ہم پيالہ بنا ليں، اور نہ ہى اس كا تقاضا يہ ہے كہ ہم بغير كسى شرعى حاجت اور سبب اور شرعى مصلحت كے ان كفار كے ساتھ كھانا پينا شروع كرديں ". انتہى

اور شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے جب كفار كے اسلام لانے كا لالچ اور طمع كرتے ہوئے ان كے ساتھ ميل جول اور اختلاط اور ان كے ساتھ نرم برتاؤ اور معاملات كرنے كا حكم دريافت كيا گيا تو شيخ رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:
فرمان بارى تعالى ہے:
{( مسلمانو! ) تمہارے ليے ابراہيم عليہ السلام ميں اور ان كے ساتھيوں ميں بہترين نمونہ ہے، جبكہ ان سب نے اپنى قوم سے برملا كہہ ديا كہ ہم تم سے اورجن جن كى تم اللہ تعالى كے سوا عبادت كرتے ہو ان سب سے بالكل بيزار ہيں، ہم تمہارے ( عقائد كے ) منكر ہيں جب تك تم اللہ تعالى وحدانيت پر ايمان نہ لاؤ ہم ميں اور تم ميں ہميشہ كے ليے بغض و عداوت ظاہر ہو گئى} الممتحنۃ ( 4 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
{آپ اللہ تعالى اور قيامت كے دن پر ايمان ركھنے والوں كو اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرنے والوں سے محبت ركھتے ہوئے ہر گز نہيں پائيں گے، چاہے وہ ان كے باپ ہوں يا ان كے بيٹے، يا ان كے بھائى ہوں يا ان كے كنبہ قبيلہ كے عزيز ہى كيوں نہ ہوں، يہى لوگ ہيں جن كے دلوں ميں اللہ تعالى نے ايمان لكھ ديا ہے، اور جن كا تائيد اپنى روح كے ساتھ كى ہے} المجادلۃ ( 22 ).

اور اس بنا پر كسى بھى مسلمان شخص كے ليے حلال نہيں كہ اس كے دل ميں اللہ تعالى كے دشمنوں جو واقعتا اس كے اپنے بھى دشمن ہيں كى محبت و مودت پيدا ہو.

فرمان بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں} الممتحنۃ ( 1 ).

اور رہا مسئلہ يہ كہ اگر مسلمان شخص كو ان كے مسلمان ہونے اور ايمان لانے كا لالچ اور طمع ہو تو ان كے ساتھ نرم برتاؤ اور نرمى اختيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ اسلام قبول كرنے پر تاليف ہونے كے اعتبار سے ہے، ليكن جب ان كے اسلام قبول كرنے سے نااميد ہو جائے تو پھر ان كے ساتھ وہى معاملہ اور برتاؤ ركھا جائے گا جس كے وہ مستحق ہيں.

اس كى تفصيل آپ كو اہل علم كى كتب ميں ملے گے اور خاص كر ابن قيم رحمہ اللہ كى كتاب " احكام اہل الذمۃ " ميں ديكھ سكتے ہيں. انتھى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 3 / سوال نمبر ( 389 ).

دوم:
اور سوال كرنے والے كا يہ كہنا كہ:
وہ گنہگار مسلمانوں سے ميل جول اس خدشہ كے پيش نظر نہيں ركھتا كہ كہيں ان كى معاصى و گناہ اسے بھى اپنى لپيٹ نہ لے ليں، ليكن كفار كا كفر اسے دھوكہ نہيں دے سكتا.

اس كے جواب ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ:
اگر تو وہ ان گنہگاروں كو نصيحت نہيں كر سكتا اور انہيں برائى سے منع نہيں كرسكتا، اور اسے اپنے آپ كو ڈر ہے كہ كہيں وہ بھى ان گناہوں ميں نہ پڑ جائے تو اس كا ان معاصى اور گناہوں ميں لتھڑے ہوئے مسلمانوں سے ميل جول نہ ركھنا ايك اچھا كام ہے.

اور رہا مسئلہ كفار سے ميل جول اور اختلاط كرنے كا تو اس كى ممانعت كى علت صرف كفر ميں پڑنے كا خوف ہى نہيں، بلكہ اس حكم سے بھى كئى ايك ايسى علتيں ہيں جو زيادہ ظاہر ہيں: وہ يہ ہيں:

ان كا اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں سے بغض و عداوت اور دشمنى ركھنا.

اس علت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
{اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں، وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اور تمہيں بھى صرف اس وجہ سے جلاوطن كرتے اور گھروں سے نكالتے ہيں كہ تم اپنے رب پر ايمان ركھتے ہو} الممتحنۃ ( 1 ).

تو پھر ايك مسلمان شخص كو يہ كيسے زيب ديتا ہے اور اس كے شايان شان كيسے ہے كہ وہ اللہ تعالى اور اپنے دشمن كے ساتھ دوستياں لگاتا پھرے؟!

پھر ان كے طريقوں اور مذہب كو اچھا سمجھنے والا شخص كيسے بے خطر و بے خوف رہ سكتا ہے؟

حالانكہ بہت سے مسلمان تو ان كے ساتھ ميل جول ركھنے اور دوستياں لگانے كے باعث ہى كفر و الحاد ميں پڑ كر اور ان كے ملكوں ميں بود و باش اختيار كركےدين اسلام سے مرتد ہو چكے ہيں، ان ميں سے بعض نےيہوديت اختيار كرلى ، اور كچھ نصرانى بن گئے، اور كچھ نے فلسفى اور ملحد قسم كا مذہب اختيار كر ليا.

اللہ تعالى سے ہمارے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنے دين اسلام پر ثابت قدم ركھے.

آپ سوال نمبر ( 2179 ) كا جواب ضرور ديكھيں، كيونكہ اس ميں كفار سے دوستى كى حرمت " جيسے عظيم اصول اور قاعدے كى تفصيل اور وضاحت موجود ہے، اور اس ميں كفار سے حرام كردہ دوستى كى مختلف قسم كى صورتيں بھي بيان ہوئى ہيں.

اور آپ كو سوال نمبر ( 43270 ) كے جواب ميں اس بات كا حكم ملے گا كہ مسلمانوں كے اخلاق سے كفار كا اخلاق افضل ہے، اور اس قول كى حرمت كے متعلق ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا قول بھى ملے گا.

اور كفار كے ساتھ دوستى لگانے اور اسے اپنا ساتھى بنانے كا حكم جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 26118 ) اور ( 23325 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .


الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کافروں سے دوستی کرنے والے کا شرعی حکم

کافروں سے دوستی کرنے والے کا شرعی حکم:

سورۃ المائدۃ کی آیت51 کے ضمن میں جان لیتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں یہود نصاریٰ کی مدد ونصرت کرنے والے ،ان کے لئے جاسوسی کرنے والے اور مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر یہود ونصاریٰ کے حوالے کرنے والے کو مفسرین نے اس آیت کی روشنی ایسے شخص کا کیاحکم بیان فرمایا ہے۔

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
فإنہ عنی بذلک:أن بعض الیہود أنصار بعضہم علی المؤمنین،وید واحدة علی جمیعہم وأن النصاری کذلک،بعضہم أنصار بعض علی من خالف دینہم وملتہم معرِّفًا بذلک عبادہ المؤمنین: أنّ من کان لہم أو لبعضہم ولیًّا، فإنما ھو ولیہُّم علی من خالف ملتہم ودینہم من المؤمنین،کما الیہود والنصاری لہم حَرْب۔ فقال تعالی ذکرہ للمؤمنین:فکونوا أنتم أیضًا بعضکم أولیاء بعض، وللیہودیّ والنصرانی حربًا کما ھم لکم حرب،وبعضہم لبعض أولیاء،لأن من والاھم فقد أظہر لأھل الإیمان الحربَ،ومنہم البراءة،وأبان قطع وَلایتہم. ‘‘
"ہمارے نزدیک یوں کہنا زیادہ مناسب اور درست ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کومنع کیا ہے۔ اس بات سے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کواپنا حمایتی ،مددگار اور حلیف بنائیں،ان مومنوں کے خلاف جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے آخری رسول جناب محمد ﷺپر ایمان رکھتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ،اس کے رسول ﷺکو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اوردوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا۔ گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہﷺاور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی جماعت کا ایک رکن ہوگا۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺاس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔" (تفسیر الطبری:۶/۲۷۶،۲۷۷)
مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت :۵۱ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"قولہ تعالی: (ومن یتولہم منکم) أی یعضدھم علی المسلمین (فإنہ منہم) بین تعالی أن حکمہ کحکمہم، وھو یمنع إثبات المیراث للمسلم من المرتد، وکان الذی تولاھم ابن أبی ثم ھذا الحکم باق إلی یوم القیامة فی قطع الموالاة"۔(تفسیر القرطبی:ج۶ص۲۱۷)
"اللہ تعالیٰ کے فرمان{وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ}کا مطلب ہے کہ"یُعَضِّدُھُمْ عَلَیْ الْمُسْلِمِیْن"یعنی جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت ،طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک)مدد فراہم کرتا ہے تو{فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ}وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا ۔گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتاجائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا ۔وہ شخص کسی مسلمان کے مال میں وراثت کا حقدار بھی نہیں ٹھہرے گانہ اس کے مرنے کے بعد اس کا مال مسلمان وارثوں میں تقسیم ہوگا۔اس لیے کہ وہ"مرتد"ہوچکا ہے، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہ حکم تاقیامِ قیامت جاری وساری ہے۔"
امام قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں اس آیت کے ضمن میں:
"{وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ}شرط وجوابہ،أی لانہ قد خالف اللّٰہ تعالیٰ ورسولہ کما خالفوا،ووجبت معاداتہ کماوجبت معاداتھم،ووجبت لہ النار کما وجبت لھم،فصار منھم أی من أصحابھم"۔ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۲۱۷)
"فرمان الٰہی{وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ}میں شرط بھی ہے اور جواب شرط بھی ہے۔یعنی اس فرمان ذیشان کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، اسی طرح اس نام نہاد کلمہ گومسلمان نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺکی مخالفت کی ہے ،جس طرح دنیا میں ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ دشمنی رکھنا واجب اور فرض ہے ۔اسی طرح اس کلمہ گو مسلمان سے بھی دشمنی رکھنا واجب اور فرض ہے جس طرح آخرت میں وہ یہودی اور عیسائی (یہودیت اور عیسائیت پرمرنے کی صورت میں) لازمی طورپر جہنم کی آگ کے مستحق قرار پائیں گے بالکل اسی طرح یہ کلمہ گو نام نہاد مسلمان بھی جہنم کی آگ کا مستحق قرار پائے گا۔الغرض وہ اب ان یہودیوں اور عیسائیوں کی سوسائٹی کا ایک فرد بن چکا ہے۔"
علامہ قرطبی رحمہ اللہ سورۃ التوبۃ کی آ یت۲۳ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
"قرآن مجید کی مذکورہ آیت کے آخری حصہ{وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ}کے بارے میں مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ :
ِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
"جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا ،اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔"(تفسیر القرطبی:۸/۹۳-۹۴، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۵۲۹ ، تفسیر أبی سعود:۲/۲۴۶)

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مَنْ لَحِقَ بَدَارِ الْکُفْرِ وَالْحَرْبِ مُخْتَارًا مُحَارِبًا لِّمَنْ یَّلَیْہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَھُوَ بِھَذَا الْفِعْلِ مُرْتَدٌّ۔ لَہُ أَحْکَامُ الْمُرْتَدِّیْنَ مِنْ وُجُوْبِ الْقتْلِ عَلَیْہِ مَتٰی قُدِرَ عَلَیْہِ وَّ مِنْ اِبَاحَةِ مَالِہٖ وَ انْفِسَاحِ نِکَاحِہِ" (المحلٰی لابن حزم:۱۱/۲۰)
"جو شخص کسی ایسے علاقے میں چلاجائے جہاں کافروں کی حکومت اورکنٹرول ہے اور وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں علاوہ ازیں وہ شخص وہاں جبر واکراہ سے نہیں بلکہ اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ جاتا ہے اور وہاں جاکر قریب ترین مسلمانوں کے خلاف برسرپیکارہوجاتا ہے تو ایسا شخص ایسا کردار اپنانے کی بناپر مرتد ہوجاتا ہے۔اس پر وہ تمام احکام لاگو ہوں گے جو دین اسلام میں"مرتدین"کے بارے میں بیان فرمائے ہیں:مثلاً
۱……جب بھی بس چلے اورممکن ہو اس کو قتل کرنا واجب ہے۔
۲……اس کا مال اپنے قبضہ اور استعمال میں لانا جائز ہے۔
۳……مسلمان عورت سے اس کا نکاح کالعدم اورختم ہوجائے گا۔"

کافروں سے دوستی کرنے والے اورمسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والوں کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
"وَاِذَا کَانَ السَّلَفُ قَدْ سَمُّوْا مَانِعِیْ الزَّکَاةِ مُرْتَدِیْنَ مَعَ کَوْنِھِمْ یَصُوْمُوْنَ وَ یُصْلَّوْنَ،وَلَمْ یَکُوْنُوْا یُقَاتِلُوا جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِیْنَ،فَکَیْفَ بِمَنْ صَارَ مَعَ أَعْدَاءِِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ قَاتِلًا لِلْمُسْلِمِیْنَ"۔ (مجموع الفتاوی:۲۸/۵۳۰،۵۳۱)
"سلف صالحین ،ائمہ ومحدثین صحابہ وتابعین نے (اپنی اپنی تصانیف اور توضیحات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں )زکوٰۃ نہ دینے والوں کو مرتد قرار دیا ہے ۔حالانکہ وہ روزے رکھتے تھے، نمازیں بھی پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے خلاف نبردآزما (برسرپیکار)بھی نہیں ہوتے تھے ۔جب اسلاف امت کے ہاں وہ مرتد تھے تو جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ)کے دشمنوں کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں اور کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں تو متأخر الذکر لوگوں کے بارے میں سلف صالحین کا فتویٰ کیا ہوسکتا ہے؟"
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ"الاِخْتِیَارَاتُ الفِقھِیَّة " میں مزید فرماتے ہیں::
"من جَمَّزَ اِلٰی مُعَسْکَرِ التُّتَرِ وَ لَحِقَ بِھِمْ ارْتَدَّ وَ حَلَّ دَمُہُ وَ مَالُہٗ،فَاِذَا کَانَ ھَذَا فِی ِأَھْلِ الْاِسْلَامِ دِیْنُ یُدَانُ بِہِ ، ھَذَا أَوْلٰی بِالْکُفْرِ وَالرِّدَّةِ۔"(الدرر السنیة:۷/۳۳۴)
"جو شخص تاتاریوں کے معسکر (چھاؤنی)کی طرف بھاگا بھاگا جاتا ہے اور ان سے جاملتا ہے ،وہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور اس کا خون بہانا اور اس کا مال اپنے قبضہ میں لینا جائز ہے ۔مشرکین کے ساتھ صرف جاملنے کا یہ حکم ہے کہ وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کو قتل کرنا اور اس کا مال قبضہ میں لینا جائز ہے ۔تو اس شخص کے متعلق خود غور فرمالیں کہ جو اس بات کا اعتقاد اورنظریہ رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وقتال کرنا میرے دین ومذہب میں شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ثانی الذکر شخص کفر وارتداد میں کہیں زیادہ آگے بڑھا ہوا ہے۔"
شیخ سلیمان بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"اَلْا َٔمْرُ الثَّالِثُ مِمَّا یُوْجِبُ الْجِھَادَ لِمَنِ اتَّصَفَ بِہِ مُظَاھَرَةُ الْمُشْرِکِیْنَ وَ اِعَانَتُھُمْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ بِیَدٍ أَوْ بلِسَانٍ أَوْ بِقَلْبٍ أَوْ بَمَالٍ ،فَھَذَا کُفْرٌ یُّخْرِجٌ مِّنَ الاِسْلَامِ،فَمَنْ أَعَانَ الْمُشْرِکِیْنَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَ أَعَانَھُمْ مِنْ مَالِہِ بِمَا یَسْتَعِیْنُوْنَ بِہٖ عَلٰی حَرْبِ الْمُسْلِمِیْنَ اِخْتِیَارًا مِنہُ فَقَدْ کَفَرَ،قَالَ الشَّیْخُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَھَابِ فِی نَوَاقِضِ الْاِسْلَامِ،الثِّامِن:مُظَاھَرَةُ الْمُشْرِکِیْنَ وَ مُعَاوَنَتُھِمْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ،وَالدَّلِیْلُ قَوْلُہُ تَعَالٰی{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءََ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ}"
"ایک ایسے شخص کے خلاف جہاد کو واجب کرنے والی تیسری بات یہ ہے کہ جو شخص بھی مشرکین کی مدد وحمایت کرتا ہے یا اپنے ہاتھ ،زبان یا مال غرضیکہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کو سپورٹ فراہم کرتا ہے یہ ایسا کفر ہے جو اسے اسلام سے باہر نکال دیتا ہے ۔جو انسان بھی مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا تعاون کرتا ہے۔ مشرکوں کو اپنامالی تعاون پیش کرتا ہے جس کو وہ کافر ومشر ک مسلمانوں کے خلاف برپا جنگ میں بروئے کار لاتے ہیں ۔یہ تعاون بھی وہ اختیاری حالت میں کافروں کے پیش خدمت کرتا ہے ،ایسا شخص بلاشبہ کافر ہوجاتا ہے ۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نے نواقض اسلام میں سے آٹھواں ناقض (اسلام کو ختم کرنے والا عمل)یہ بیان کیا ہے کہ"مشرکین کی مدد کرنا اورمسلمانوں کے خلاف جنگ میں مشرکوں کا تعاون کرنا ۔یعنی یہ اسلام کو ختم کرنے والا آٹھویں نظریہ وعمل ہے ۔اس کی دلیل سورۃ المائدہ کی آیت:۵۱ ہے ۔جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: "اے ایمان والو!تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤیہ تو آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے ۔ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔"

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
((من کثر سواد قوم فھومنھم ومن رضی عمل قوم کان شریک من عمل بہ)) (کنز العمال،ج:۹،ص:۲۲،رقم:۲۴۷۳۵۔مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۳۴۶)
"جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان )تعداد بڑھائے وہ اُ ن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے"۔
یہ ہے رائے قدیم مفسرین اور فقہاء کی اس شخص کے بارے میں جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں یہود ونصاریٰ کا ہر ممکن طریقے سے ساتھ دیتے ہیں۔چناچہ کسی بھی مفسر نے یہودو نصاریٰ کے ساتھ دوستی کرنے والے کو "منافق"قرار نہیں دیابلکہ سب نے ایسے شخص کو بالاجماع "کافر و مرتد"قرار دیا ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَ قَدْ أَجْمَعَ عُلْمَاءُُ الْاِسْلَامِ عَلی أَنَّ مَنْ ظَاھَرَ الکُفَّارَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَ سَاعَدَھُمْ عَلَیْھِمْ بِأَیّ نَوْعٍ مِّنَ الْمُسَاعِدَةِ فَھُوَ کَافِرٌ مِّثْلُھُمْ،کَمَا قَالَ سُبْحَانَہُ :{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءََ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ}(المائدة:۵۱)"(مجموع فتاوی ومقالات متنوعة للشیخ ابن باز:۱/۲۴۷)
"ملت اسلامیہ کے تمام جید علماء کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے جو شخص مسلمانوں کے خلاف کافروں کی کسی بھی نوعیت اور کسی بھی انداز کی مددومعاونت کرتا ہے وہ ان ہی کفار کی طرح ’’کافر ‘‘ہوجاتا ہے ۔اللہ رب العزت نے سورۃ المائدہ کی آیت :۵۱میں یہی بات یوں بیان فرمائی ہے :"اے ایمان والو!تم یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔یہ تو آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا "۔
شیخ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں :
"اللہ رب العزت کے اس زیر تفسیر فرمان {وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ}کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی کرے گا وہ ان کے گروہ میں ہی شمار ہوگا۔ان سے دوستی کرنے والے پر بھی وہی حکم اور قانون جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہوگا ۔باوجود اس کے کہ وہ زبانی دعوے کرتا رہے کہ میں توان یہودیوں اور عیسائیوں کا مخالف ہوں ۔اس لیے کہ ظاہری حالات وواقعات اور عمل وکردار کی شہادت ان کافروں کے ساتھ پوری پوری موافقت کی واضح دلیل ہے"۔(محاسن التاویل للقاسمی:۶/۲۴۰)
فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں :
"مِنْ مَظَاھِرِ مُوَالَاة الْکُفَّارِ اِعَانَتُھُمْ وَ مَنَاصَرَتُھُمْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَ مَدْحُھُمْ وَالذَّبُّ عَنْھُمْ وَ ھٰذا مِنْ نَوَاقِضِ الْاِسْلَامِ وَ اَسْبَابِ الرِّدَّة "(الولاء والبراء فی الاسلام لصالح الفوزان:۹)
"کفار کی معاونت کرنا ،مسلمانوں کے خلاف کفار کو اپنی مکمل حمایت اور سپورٹ فراہم کرنا ،کفار کی مدح سرائی کرنا اور تعریفیں کرنا اور کافروں کی طرف سے مدافعت اوروکالت کرنا حقیقت میں کفار سے دوستی کے بڑے بڑے مظاہر اور علامتیں ہیں ۔دوستی کہ یہ مظاہر ایک بندۂ مسلم کے اسلام کو ختم کردینے والے اور ارتداد کے اسباب میں سے بہت بڑے اسباب ہیں "۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کفار سے دوستی کرنے والوں کے کفر میں شک کرنے والو ں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
"وَلَکِنَّھُمْ یُجَادِلُوْنَکُمْ الْیَوْمَ بِشُبْھَةٍ وَّاحِدَہٍ،فَاصْنَعُوْا لِجَوَابِھَا،وَذٰلِکَ أَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ کُلُّ ھٰذَا حَقٌّ نَشْھَدُ أَنَّہُ دِینُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ اِلَّا التَّکْفِیْرَ وَالْقِتَالَ، وَالْعَجَبْ مِمَّنْ یَّخْفٰی عَلَیْہِ ھٰذَا اِذَا أَقّرُّوْھَا أَنَّ ھَذَا دِیْنُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ أَنْکَرَہُ وَ قَتَلَ مَنْ أَمَرَ بِہِ وَ حَسْبَھُمْ؟ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْأَمَرَ بِہِ بِحَبْسِھِمْ؟ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ جَآءََ اِلٰی أَھْلِ الشِّرْکِ یَحُثُّھُم عَلٰی لُزُوْمِ دِیْنِھِمْ وَ تَزِیِیْنِہٖ لَھُمْ وَ یَحُثُّھُمْ عَلٰی قَتْلِ الْمُوْحِدِیْنَ وَ أَخْذِ أَمْوَالِھِمْ کَیْفَ لَا یُکَفِّرُ وَ ھُوَ یَشْھَدُ أَنَّ الَّذِیْ یَحُثُّ عَلَیہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ أَنْکَرَہُ وَ نَھٰی عَنْہُ وَ سَمَّاہُ الشِّرْکَ بِاللّٰہِ؟ وَیَشْھَدُ أَنَّ الَّذِیْ یُبْغِضُہُ وَ یُبْغِضُ أَھْلَہُ وَ یَامُرُ الْمُشْرِکِینَ بِقَتْلِھِمْ ھُوَ دِیْنُ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ، وَاعْلَمُوْا أَنَّ الَّادِلَّةَ عَلٰی تَکْفِیْرِ الْمُسْلِمِ الصَّالِحِ اِذَا أشْرَکَ بِاللّٰہِ أَوْ صَارَ مَعَ الْمُشْرِکِیْنَ عَلَی الْمُوْحِّدِیْنَ وَ لَوْ لَمْ یُشْرِکَ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ تُنحَصَرَ مِنْ کَلَامِ اللّہِ وَ کَلَامِ رَسُوْلِہِ ﷺ وَکَلَامِ أَھْلِ الْعِلْمِ۔"(الرسائل الشخصیة،القسم الخامس من مؤلفات الشیخ محمد بن عبدالوہاب:۲۷۲)
"بعض لوگ آج کل تم سے اس معاملہ میں بحث وتکرار اور جھگڑا کرتے ہوئے ایک شبہ پیش کرتے ہیں ۔وہ شبہ اور اس کا جواب خوب دل لگا کر پڑھ لیں ۔شبہ پیش کرنے والے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں بالکل درست ہیں ۔ہم مانتے ہیں کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا ہی دین ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔آپ کے ساتھ ہم درج ذیل دوباتوں کے سوا تمام باتوں میں اتفاق کرتے ہیں :
1۔ کافروں کے ساتھ دوستی کرنے والوں کو کافر کہنے کے معاملہ میں اور
2۔ ان کے ساتھ قتال کرنے کے معاملہ میں۔
اس کا جواب پیش خدمت ہے :انتہائی تعجب انگیز بات تویہی ہے کہ ایک ایسے شخص پراس شبہ کا جواب مخفی ہے جو اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ ہمارا موقف قرآن وسنت اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دین کے مطابق ہے۔جب کوئی شخص صدق دل سے تسلیم کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکا دین "اسلام"برحق دین ہے۔توپھر:
٭……وہ شخص اس فرد کو کافر کیوں نہیں کہتا ؟جو اس دین کا انکار کرتا ہے ؟اس دین کی طرف دعوت دینے والے اور اس دین کو قائم کرنے والے ،داعی اورمجاہد کو قتل اور گرفتار کیوں کرتا ہے؟
٭……پھر وہ شخص اس فردکوکافرکیوں نہیں کہتا ؟جو اپنی فوج اور انتظامیہ کو حکم دیتا ہے کہ ان مجاہدوں اور داعیوں کو گرفتار کرکے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کردو؟
٭……پھر وہ اس شخص کو کافر کیوں نہیں کہتا ؟جومشرکوں کے پاس جاکر انہیں برانگیختہ کرتا ہے کہ تم اپنے دین پر ڈٹے رہو، تمہارا دین ومذہب نظریہ ومؤقف بہت ہی بہترین اور خوبصورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ مشرکوں اور کافروں کو خالص العقیدہ اہل توحید کے قتل اور ان کے اموال پر قبضہ کرنے کے لیے ابھارتا ہے؟
٭……پھر وہ شخص اس فرد کے کافر ہونے کا عقیدہ کیوں نہیں رکھتا ؟حالانکہ وہ گواہی دیتاہے کہ کافروں اور مشرکوں کے پاس جاکر انہیں جس چیز پر برانگیختہ کرتا ہے ۔رسول اکرم جناب محمدﷺنے اس چیز کا انکار کیا ہے ، اس سے روکا ہے اور اس طرز عمل کو شرک قرار دیا ہے ۔علاوہ ازیں اس بات کی گواہی بھی دیتا ہے کہ اہل توحید اور مجاہدین کے جن اعمال واقدامات عقائد ونظریات کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔اللہ کادین بہرحال یہی ہے اورمجاہدین اور مؤحدین ہی حقیقت میں دین کے اصل داعی اور نافذ کرنے والے ہیں ؟
یادرکھیے!کوئی کلمہ پڑھنے والانیک مسلمان جب اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگ جائے اورموحدین کے مخالف ہوکر مشرکین کا ساتھی بن جائے وہ کافر ہوجاتا ہے اگرچہ وہ بذاتِ خود شرک کا ارتکاب نہ بھی کرے ۔قرآن مجید میں رسول اکرم ﷺکی احادیث مبارکہ میں اوراہل علم کی تالیفات وتصنیفات میں اس بارے میں اتنے دلائل ہیں کہ ان کو احاطہ تحریر میں لانا دشوار ہے"۔ (شیخ الاسلام کا کلام یہاں ختم ہوا)
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم جب دوستی کا مطلب بیان نہیں کر سکتے تو پوری بخاری شریف یہاں پر پیسٹ کر دو وہ آپکو بھی فائدہ نہیں دے گی۔

والسلام
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
السلام علیکم

محترم جب دوستی کا مطلب بیان نہیں کر سکتے تو پوری بخاری شریف یہاں پر پیسٹ کر دو وہ آپکو بھی فائدہ نہیں دے گی۔

والسلام
فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں :
"مِنْ مَظَاھِرِ مُوَالَاة الْکُفَّارِ اِعَانَتُھُمْ وَ مَنَاصَرَتُھُمْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَ مَدْحُھُمْ وَالذَّبُّ عَنْھُمْ وَ ھٰذا مِنْ نَوَاقِضِ الْاِسْلَامِ وَ اَسْبَابِ الرِّدَّة "(الولاء والبراء فی الاسلام لصالح الفوزان:۹)
"کفار کی معاونت کرنا ،مسلمانوں کے خلاف کفار کو اپنی مکمل حمایت اور سپورٹ فراہم کرنا ،کفار کی مدح سرائی کرنا اور تعریفیں کرنا اور کافروں کی طرف سے مدافعت اوروکالت کرنا حقیقت میں کفار سے دوستی کے بڑے بڑے مظاہر اور علامتیں ہیں ۔دوستی کہ یہ مظاہر ایک بندۂ مسلم کے اسلام کو ختم کردینے والے اور ارتداد کے اسباب میں سے بہت بڑے اسباب ہیں "۔

مسلمانوں سے دوستی کا معنی
شیخ عبداللطیف بن شیخ حسن آل شیخ فرماتے ہیں!۔
فالولاء المؤمنین یکون بمحبتم لایمانہم ونصرتہم والنصح لھم والدعاء لھم والسلام علیھم وزیارہ مریضھم وتشبیع میتھم واعانتھم والرحمہ بہم وغیر ذلک۔ والبراء من الکفار تکون یبغضم دینا، ومفارقتھم وعدم الرکون الیھم او الاعجاب بہم والحذر من التشبیہ بہم وتحقیق مخالفتھم شرعا وجھادھم بالمال واللسان والسنان ونحو ذلک من مقتضیات العداوہ فی اللہ۔
مؤمن سے ولاء کی علامت یہ ہیں کے اُن سے اُن کے مؤمن ہونے کی وجہ سے محبت کی جائے، اُن کی نصرت کی جائے، اُن کے ساتھ خیر خواہانہ رویہ روا رکھا جائے، اُن کے لئے دُعائیں کی جائیں، ملاقات پر اُنہیں سلام کہا جائے، بیمار ہوں تو عیادت کی جائے، فوت ہونے پر جنازہ میں شرکت کی جائے، بوقت ضرورت اعانت کی جائے اور شفقت ومحبت کا برتاؤ کیا جائے وغیرہ۔۔۔
 
Top