• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كيا موزوں پر مسح كرنا افضل ہے يا كہ پاؤں دھونے ؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
كيا موزوں پر مسح كرنا افضل ہے يا كہ پاؤں دھونے ؟
.
جمہور علماء كرام ( جن ميں ابو حنيفہ، مالك اور شافعى رحمہم اللہ شامل ہيں ) كا كہنا ہے كہ پاؤں دھونے افضل ہيں، كيونكہ پاؤں دھونا اصل ہے تو اس طرح افضل بھى يہى ہوگا.
.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 502 ).
اور امام احمد كہتے ہيں كہ موزوں پر مسح كرنا افضل ہے، اور انہوں درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:
.
1 - يہ زيادہ آسان ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب بھى دو امروں ميں اختيار ديا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب سے زيادہ آسان كو ليا، جبكہ وہ گناہ نہ ہوتا، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں اس سے سب سے زيادہ دور بھاگنے والے ہوتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2327)
.
2 - يہ رخصت ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
" جس طرح اللہ تعالى اپنى معصيت كرنے كو ناپسند فرماتا ہے، اسى طرح اسے يہ پسند ہے كہ اس كى رخصتوں پر عمل كيا جائے "
مسند احمد حديث نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل ( 564 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
.
3 - موزوں پر مسح كرنے ميں ان بدعتيوں كى مخالفت ہوتى ہے جو مسح كرنے كے منكر ہيں، مثلا خوارج اور رافضى شيعہ.
پاؤں دھونے اور موزوں پر مسح كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث مروى ہيں، جن كى بنا پر بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: دھونا اور مسح كرنا برابر ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن القيم رحمہما اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے كہ:
ہر ايك ميں افضل يہى ہے كہ وہ اس پر عمل كرے جو اس كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ اگر تو اس نے موزے پہن ركھے ہوں تو اس كے ليے مسح كرنا افضل ہے، اور اگر اس كے پاؤں ننگے ہيں تو دھونا افضل ہے، اور پھر موزے تو پہنے ہى اس ليے جاتے ہيں كہ ان پر مسح كيا جائے.
اس كى دليل مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جب انہوں نے وضوء ميں پاؤں دھونے كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے موزے اتارنا چاہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:
" رہنے دو، كيونكہ ميں نے يہ موزے طہارت كے بعد پہنے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان پر مسح كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 206 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 274 ).
.
يہ حديث اس كى دليل ہے كہ موزے پہننے والے كے حق ميں مسح كرنا افضل ہے.
اس كى دليل ترمذى شريف كى درج ذيل حديث بھى ہے:
صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 104 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.
.
چنانچہ مسح كرنے كا حكم افضليت پر دلالت كرتا ہے، ليكن يہ اس كے حق ميں افضل ہے جس نے موزے پہن ركھے ہوں.
.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور فيصلہ كن بات يہ ہے كہ:
دونوں كے حق ميں افضل يہ ہے كہ جو اس كے قدم كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ ننگے پاؤں والے كے حق ميں دھونا افضل ہے، وہ موزے نہ تلاش كرتا پھرے تا كہ اس پر مسح كر سكے، جس طرح كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں جب ننگے ہوتے تو آپ دھوتے، اور جب موزے پہن ركھے ہوتے تو ان پر مسح كرتے " انتہى.
ماخوذ از: الانصاف ( 1 / 378 ).
.
اور زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ لكھتے ہيں:
.
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے قدموں كى حالت كے مخالف تكلف نہيں كرتے تھے، بلكہ جب موزے پہنے ہوتے تو انہيں اتارتے نہيں تھے بلكہ ان پر مسح كرتے، اور اگر پاؤں ننگے ہوتے تو اپنے پاؤں دھو ليتے، اور موزے نہيں پہنتے تھے كہ اس پر مسح كريں.
مسح كرنا يا دھونے كى افضليت كے مسئلہ ميں يہ سب سے بہتر اور عدل و انصاف والا قول ہے، ہمارے شيخ ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ ) كا يہى قول ہے " انتہى.
.
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 199 ).
واللہ اعلم .
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2 - يہ رخصت ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
" جس طرح اللہ تعالى اپنى معصيت كرنے كو ناپسند فرماتا ہے، اسى طرح اسے يہ پسند ہے كہ اس كى رخصتوں پر عمل كيا جائے "
مسند احمد حديث نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل ( 564 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی رُخْصَہُ، کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی عَزَائِمُہُ۔))1
'' یقینا اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنے فروض پر عمل کرنا پسند فرماتا ہے۔''
دوسری حدیث میں فرمایا:
(( وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُؤْتٰی رُخْصُہُ، کَمَا یَکْرَہُ أَنْ تُؤْتٰی مَعْصِیَتُہُ۔))2
'' بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی (دی ہوئی) رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے۔ ''
شرح...: رخصت، فرض کا مدمقابل ہے، اس کے تحت درج ذیل امور آتے ہیں: مریض اور مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، نیز حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی بچوں کے خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ سفر میں نماز کو قصر اور جمع کرنا رخصت ہے۔
چنانچہ جیسے حضر میں مکمل نماز پڑھنا اللہ کو پیارا لگتا ہے ایسے ہی سفر کے دوران قصر نماز کو پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّتِیْ رَخَّصَ لَکُمْ فَاَقْبَلُوْھَا۔))3
'' اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رخصتیں دی ہیں انہیں قبول کرو اور لازم پکڑو۔ ''
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس نے اللہ کی دی ہوئی رخصت قبول نہ کی تو عرفہ کے پہاڑ جیسا گناہ اس کے ذمے ہوگا۔
اس قول کے تحت وہ انسان آتا ہے جو رخصت سے بے رغبتی کرتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ۔))4
'' جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی تو وہ مجھ سے نہیں۔ ''

مکلف کو کسی عذر کی وجہ سے جو آسانی دی جاتی ہے، اسے رخصت کہتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بسا اوقات کسی کے دل میں شریعت کی مباح کی ہوئی چیز پر عمل کرنے سے تکبر اور بڑائی
آجاتی ہے، اس کو دور کرنے کے لیے فرض کو بعض حالات میں رخصت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جس نے مباح امور سے ناک چڑھایا تو اس کا دین خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسے رخصت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ اپنے آپ سے تکبر کو دور اور ختم کرسکے اور برائی پر ابھارنے والے نفس کو شرعی کے امور پر عمل کروانے پر مجبور کرسکے۔
'' رخصت پر عمل کی وجہ سے اللہ کی محبت '' کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ترک مکروہ اور ناپسند کرتا ہے۔ چنانچہ رخصت کو قبول کرنے کی اتنی تاکید کی کہ وجوب کے قریب ہوگیا۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان (جیسے اللہ اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے) سے اخذ ہوتی ہے۔ امام غزالی5 رقمطراز ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فرمان ضعفاء کے دلوں کو خوش کرنے کے لیے ہے کہ کہیں کمزوری انہیں نا امیدی کی طرف نہ لے جائے اور وہ اعلیٰ اور انتہائی درجات تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے بھلائی کے آسان کام چھوڑ دیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے لیکن ان کی اقسام اور درجات الگ الگ ہیں۔
جیسے اللہ تعالیٰ فرائض پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے، ایسے ہی رخصت پر عمل کرنے کو محبوب رکھتا ہے۔ اسی لیے رخصت اور فرض میں اللہ تعالیٰ کا ایک ہی حکم ہے یعنی تیمم کی جگہ پر تیمم ہی افضل ہے نہ کہ وضوء، ایسے ہی قصر کے مقام پر مکمل نماز کی نسبت قصر ہی اعلیٰ اور ارفع ہے چنانچہ انسانوں سے رخصتوں کے مقام پر رخصتوں پر عمل اور فرائض کی جگہوں پر فرائض پر عمل مطلوب ہے اور اسی طرح اگر ایک جگہ میں دونوں چیزیں متعارض آجائیں تو افضل کی رعایت ہوگی۔
اس حدیث اور اس کی ہم مثل احادیث کی وجہ سے مصطفی علیہ السلام اہل کتاب پر لدے ہوئے طوق اور بوجھ کی مشابہت کو ناپسند کرتے تھے اور اسی لیے اپنے صحابہ کو مجرد رہنے اور رہبانیت اختیار کرنے پر جھڑکتے تھے۔
رخصت کو اس کی مواضع پر ضرورت کے وقت استعمال کرنا چاہیے، بالخصوص عالم دین کو تو ایسا ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس کی پیروی کی جاتی ہے۔ آدمی جب ایسا ہو کہ محض مندوب پر عامل ہو اور رخصت پر عمل نہ کرتا ہو تو شیطان اس سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے اور جو انسان بدعت پر اصرار کرے اس کی کیا حالت ہوگی؟
شرعی رخصت کو لینا چاہیے کیونکہ رخصت کے مقام پر فرض کو پکڑنا تکلیف ہے جیسے کہ پانی کے استعمال سے عاجز آنے والا تیمم ترک کردے تو پانی کا استعمال اسے تکلیف پہنچائے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۸۵۔
2 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۸۶۔
3 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۵۴۲۹۔
4 أخرجہ البخاري في کتاب النکاح، باب: الترغیب في النکاح، رقم : ۵۰۶۳۔
5 فیض القدیر، ص: ۲۹۲، ۲۹۷، ۲۔ احیاء علوم الدین للغزالی، ص: ۲۷۸ ؍ ۴۔ فتح الباری، ص: ۱۸۳ ؍۴۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ہر ايك ميں افضل يہى ہے كہ وہ اس پر عمل كرے جو اس كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ اگر تو اس نے موزے پہن ركھے ہوں تو اس كے ليے مسح كرنا افضل ہے، اور اگر اس كے پاؤں ننگے ہيں تو دھونا افضل ہے، اور پھر موزے تو پہنے ہى اس ليے جاتے ہيں كہ ان پر مسح كيا جائے.
محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ!
ننگے پاؤں کو دھونا افضل ہے یا واجب؟؟؟
 
Top