• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لائف آف محمد صلی الله علیہ وسلم --- ولیم میؤر --- فضیلتِ صحابہ رضی الله عنہم

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
علی بہرام
بہرام


لائف آف محمد صلی الله علیہ وسلم --- ولیم میؤر --- فضیلتِ صحابہ رضی الله عنہم بہ شہادت سر ولیم میؤر مؤرخ نصرانی


اگر کوئی شخص ان تحریروں کو دیکھے جو منکرینِ نبوت نے باوجود انکار نبوت کے اسلام کی نسبت اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے متعلق لکھی ہیں تو بے اختیار اس کے دل سے یہی آواز نکلے گی کہ ان نام نہاد "مومنوں" (یعنی روافضیوں / شیعوں) سے جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کو معاذ الله مرتد و کافر اور منافق سمجھتے ہیں وہی زیادہ منصب اور سمجھدار ہیں جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی نسبت غیر متعصبانہ رائے ظاہر کرتے ہیں - دیکھو ولیم میؤر جیسے متعصب عیسائی کیا لکھتے ہیں ، واقعات نے ان کو کس چیز کی تحریر پر مجبور کیا ہے -


Thirteen years before the Hegira, Mecca lay lifeless in this debased state. What a change those thirteen years had now produced! A band of several hundred persons had rejected idolatry, adopted the worship of one great God, and surrendered themselves implicitly to the guidance of what they believed a revelation from Him; praying to the Almighty with frequency and fervour, looking for pardon through His mercy, and striving to follow after good works, almsgiving, chastity and justice. They now lived under a constant sense of the Omnipotent power of God, and of His providential care over the minutest of their concerns. In all the gifts of nature, in every relation of life, at each turn of their affairs, individual or public, they saw His hand. And, above all, the new spiritual existence in which they joyed and gloried, was regarded as the mark of His especial grace, while the unbelief of their blinded fellow-citizens was the hardening stamp of His predestined reprobation. Mahomet was the minister of life to them,—the source under God of their new-born hopes; and to him they yielded a fitting and implicit submission.
In so short a period, Mecca had, from this wonderful movement, been rent into two factions, which, unmindful of the old land-marks of tribe and family, were arrayed in deadly opposition one against the other. The believers bore persecution with a patient and tolerant spirit. And though it was their wisdom so to do, the credit of a magnanimous forbearance may be freely accorded to them. One hundred men and women, rather than abjure the precious faith, had abandoned their homes, and sought refuge, till the storm should be overpast, in Abyssinian exile. And now even a larger number, with the Prophet himself, emigrated from their fondly-loved city, with its sacred temple, to them the holiest spot on earth, and fled to Medîna. There the same wonder-working charm had within two or three years prepared for them a brotherhood ready to defend the Prophet and his followers with their blood.

(The Life of Mahomet, Vol. 2, p. 270, 271, Chap. VI)

ترجمہ : ہجرت سے تیرہ برس پہلے مکہ ایک ذلیل حالت میں بے جان پڑا تھا ، مگر ان تیرہ برسوں میں کیا ہی اثرِ عظیم پیدا ہوا کہ سیکڑوں آدمیوں کی جماعت نے بُت پرستی چھوڑ کر الله واحد کی پرستش اختیار کی اور اپنے عقائد کے موافق وحی الٰہی کی ہدایت کے مطیع و منقاد ہو گئے ، اسی قادرِ مطلق سے بکثرت و بشدت دعا مانگتے ، اسی کی رحمت پر مغفرت کی امید رکھتے اور حسنات و خیرات اور پاک دامنی اور انصاف کرنے میں بڑی کوشش کرتے تھے ، اب انہیں شب و روز اسی قادرِ مطلق کی قدرت کا خیال تھا اور یہ کہ وہی رازق ہماری ادنٰی حوائج کا بھی خیر گیراں ہے ، ہر ایک قدرتی و طبعی عطیہ میں ، ہر ایک امرِ متعلقہ زندگانی میں اور اپنی جلوت و خلوت کے ہر ایک حادثے اور تغیر میں اسی کے ید قدرت کو دیکھتے تھے - اور اس سے بڑھ کر اس نئی روحانی حالت کو جس میں خوش حال اور حمد کناں رہتے تھے ، الله کے فضل خاص و رحمت با اختصاص کی علامت سمجھتے تھے اور اپنے کو رباطن اہل شہر کے کفر کو الله کے تقدیر کیے ہوے خزلان (خرابی) کی نشانی جانتے تھے ، محمد صلی الله علیہ وسلم کو جو ان کی ساری امیدوں کا ماخذ تھے ، اپنا حیاتِ تازہ بخشنے والا سمجھتے تھے اور ان کی ایسی کامل طور پر اطاعت کرتے تھے جو ان کے رتبہ عالی کے لائق تھی ، ایسے تھوڑے ہی زمانے میں مکہ اس تاثیر سے دو حصوں میں منقسم ہو گیا تھا جو بلا لحاظ قبیلہ و قوم ایک دوسرے کے در پے مخالف و ہلاکت تھے - مسلمانوں نے مصیبتوں کو تحمل و شکیبائی سے برداشت کیا اور گویا ایسا کرنا ان کی مصلحت تھی مگر تو بھی ایسی عالی ہمتی کے بردباری سے وہ تعریف کے مستحق ہیں - ایک سو مرد اور عورتوں نے اپنا گھر بار چھوڑا لیکن ایمانِ عزیز سے اپنا منہ نہ موڑا اور جب تک کہ یہ طوفانِ مصیبت فرد ہوۓ حبش کو ہجرت کر گئے - پھر اس تعداد سے زیادہ آدمی کہ ان میں نبی بھی شامل تھے - اپنے عزیز شہر اور مقدس کعبہ کو جو ان کی نظر میں تمام روئے زمین پر سب سے زیادہ مقدس تھا چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر آئے اور یہاں بھی اسی حیرت کُن تاثیر نے دو یا تین برس کے عرصہ میں ان لوگوں کے واسطے جو نبی اور مسلمانوں کی حمایت میں جان دینے کو مستعد ہو گئے ، تیار کر دی -



yahoodiii.jpg
 
Top