• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ، نو مسلم کا استعمال

شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
351
پوائنٹ
36
كو ئي غير مسلم اگر مسلمان ہو تو اس کے لیے لفظ (نو مسلم ) استعمال کرنا درست ہے اس حدیث کی روشنی میں ۔۔کل مولد یولد علی فطرۃ اور ایک حدیث میں کہ وہ فطرت اسلام ہے (شکریہ)
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
ذاتی طور پر مجھے اس طرح کے سوالات کی کوئی تک سمجھ میں نہیں آتی کہ لوگ مذہب کی آڑ میں زبان کا اغوا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں زبان کو مذہب کا تابعدار کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ کبھی انشاءاللہ پر بحث ہوتی ہے تو کبھی لاحول ولا قوۃ پر اور کبھی خدارا پر ۔۔۔ اب یہ "نو مسلم" پر سوال دیکھ کر تعجب ہو رہا ہے۔
مذہب تو عمل کی ترغیب دیتا ہے نا کہ غیرضروری سوالات اور بےجا بحثوں کی۔ جبکہ "زبان" حروف / الفاظ کے ذریعے مدعا بیان کرنے کی چیز ہے جو مذہب کے برعکس، اپنا خود کا نہ کوئی فلسفہ قائم کرتی ہے نہ بنی نوع انسان پر اثرانداز ہونے والا کوئی نظریہ۔ اگر زبان کو مذہب کا تابعدار بنانا لازم قرار دیا جائے تو یقین کیجیے کہ بےشمار الفاظ اور محاورے ، لغت سے نکال کر دریابرد کر دینے پڑیں گے۔ اور پھر اردو زبان کسی خاص مذہب کو follow بھی نہیں کرتی کہ ایسا اصول ضروری سمجھا جائے۔
ایک بات یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر لفظ کے لغوی اور اصطلاحی معنی الگ ہوتے ہیں۔ اور جو لفظ عمومی طور پر جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس کو وہیں محدود رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے بصورت دیگر انتشار ہی پیدا ہوگا۔

"نو" کا مطلب عموماً نیا سے لیا جاتا ہے جیسے نومولود (نیا پیدا ہونے والا) ، نوآموز (مبتدی ، beginner) ، نوخیز (طفل ، نوعمر یا کمسن) ۔۔ اسی طرز پر نومسلم سے یہی معنی مراد لیے جاتے ہیں : جو حال میں غیر مسلم سے مسلمان ہوا ہو۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہاں پر دوجہتیں ہیں
  • ایک دعوتی حکمت کی
  • دوسرے زبان وبیان کی

زبان کے اعتبار سے باذوق صاحب نے جوکچھ کہاہے وہ درست ہے
اس استثناء کے ساتھ کہ زبان پر زبان والے کااثر ہوتاہے اوریہ لازمی ہے۔اگرزبان کے بڑے ادیب ملحد اورکمیونسٹ نظریہ رکھنے والے ہوں گے توزبان میں لازمی طورپر اس طرح کے مصطلحات پیداہوں گے اورایسے ادیب زبان کا دھارااپنے نظریات کی جانب موڑناچاہیں گے۔اگرزبان پر فحش نگاروں کاغلبہ ہوگاتوزبان اس کے اثرکوبھی قبول کرے گی اورزبان وبیان میں فحش نگاری کے جرثومے جابجادکھائی دیں گے۔
اگرزبان پر صالح اورنیک خیالات رکھنے والے افراد کاغلبہ ہوگاتوپھران کی باتیں بھی اسی قبیل اورنہج کی ہوں گی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ادیب کے جوذاتی نظریات ہوں گے اسی کے تحت وہ زبان کو ترویج دے گا۔اس کی ایک معمولی مثال عرض کرتاہوں۔

ایک نظریہ صالح اقدارکے ترجمانوں کاہے کہ شاعراورادیب کاکام یہ ہے کہ انسانی دکھ اوردرد کو بہترطورپر بیان کرے یعنی جوکچھ ہواہے ویسانہیں بلکہ اپنے نظریات وخیالات کے ذریعہ خراب کوبھی بہتربنائے اورناگفتنی کو گفتنی کے دائرہ کار میں لاکر پیش کرے۔مختصر یہ کہ شاعراورادیب کی مثال مصور کی ہے جو تصویر مین اپنے خیالات کے رنگ بھی بھرتاہے۔
ایک دوسرانظریہ یہ ہے کہ شاعراورادیب محض فوٹوگرافر ہے سماج میں جوکچھ ہورہاہے اس کو بلاکم وکاست پیش کردیاجائے اس طرح کانظریہ عمومی طورپر کمیونسٹ ادیبوں کارہاہے اوراسی قبیل اوردھارے مین منٹو عصمت چغتائی اورکچھ دیگرنام ہیں۔
اب دیکھیں منٹو اورعصمت چغتائی نے اپنے افسانوں مین جوکچھ کہاہے اورناگفتنی کو مزید ناگفتنی بناکر پیش کیاہے وہ ان کے نظریات کاہی ردعمل تھا۔


اب سوال یہ ہے کہ ہم کیاکریں؟​

اس دنیا میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔اس کی بھرتی ضرورہوتی ہے۔اگرسنت کو اس کی جگہ سے ہٹادیاجائے تواس کی جگہ بدعت لے لیتی ہے۔

اگراہل اورلائق لوگوں کو منصب سے ہٹایاجائے تونالائق اورنااہل لوگ اس پرقبضہ کرلیتے ہیں

اگردینی علم سے جڑے،مذہبی خیالات اورصالح ا قدار کے افراد ادب اورزبان سے رشتہ توڑلیں گے توکچھ دوسرے لوگ اس کی جگہ لیں گے؟

دورحاضر میں ایک بڑاالمیہ یہ ہے کہ علماء نے تقریباادب اورزبان سے اپنارشتہ توڑلیاہے۔ دیکھ لیں دورحاضر میں ادب اورزبان کے بڑے ناموں میں سے کوئی بھی ایک عالم موجود ہے جب کہ ماضی میں مولانا شبلی نعمانی، مولوی الطاف حسین حالی،مولوی نذیراحمد یہ اردوادب کے اساطین میں شمارہوتے تھے۔

علماء کیلئے ضروری ہے کہ وہ ادب اورزبان کے ساتھ رشتہ برقراررکھیں تاکہ دین بیزارافراد اورفحش نگاروں کیلئے جگہ خالی نہ رہے۔

دعوتی حکمت

اسلام قبول کرنے والوں کو نومسلم کہناچاہئے یانہیں کہناچاہئے۔اس تعلق سے عمومی طورپر داعیان دین بالخصوص مولانا کلیم صدیقی کاخیال ہے کہ نہیں کہناچاہئے۔اصل میں انسان کیلئے یہ کہناکہ اس نے نئے مذہب کواختیار کیاہے بڑاشاق گزرتاہے اس طور پر کہ اس نے اپنے تمام آباء واجداد کی تغلیط کی ہے۔

اس کے بجائے اگریہ کہاجائے کہ انہوں نے حق کی طرف رجوع کیاہے اگراسلام قبول کرنے والاہندوہے توہم کہہ سکتے ہیں کہ جیساکہ قرآن وحدیث میں مذکورہے کہ ہرقریہ اورعلاقہ میں انبیاء اورنذیر آئے ہیں یہاں بھی آئے ہوں گے انہوں نے جو توحید کی دعوت دی اورجس کی جھلک ویدوں میں ملتی ہے جس پر بعد میں اوہام وخرافات اوررسوم ورواج کا پردہ چڑھ گیا توانہوں نے کسی نئے مذہب کو قبول نہیں کیابلکہ حق کی جانب رجوع کیاہے۔اگرقبول کرنے والاعیسائی وغیرہ ہے تواس کا معاملہ زیادہ واضح ہے۔ حضرت عیسی نے جو دین لایاتھاوہ اسی کو مکمل طورپراسلام لاکر تسلیم کررہاہے۔ قرآن نے بھی متعدد مقامات پر توراۃ اورانجیل اورزبور کے بارے میں کہاہے کہ قران کی تصدیق کرنے والاہے۔ مصدقالمامعہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس استثناء کے ساتھ کہ زبان پر زبان والے کااثر ہوتاہے اوریہ لازمی ہے۔اگرزبان کے بڑے ادیب ملحد اورکمیونسٹ نظریہ رکھنے والے ہوں گے توزبان میں لازمی طورپر اس طرح کے مصطلحات پیداہوں گے اورایسے ادیب زبان کا دھارااپنے نظریات کی جانب موڑناچاہیں گے۔اگرزبان پر فحش نگاروں کاغلبہ ہوگاتوزبان اس کے اثرکوبھی قبول کرے گی اورزبان وبیان میں فحش نگاری کے جرثومے جابجادکھائی دیں گے۔
اگرزبان پر صالح اورنیک خیالات رکھنے والے افراد کاغلبہ ہوگاتوپھران کی باتیں بھی اسی قبیل اورنہج کی ہوں گی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ادیب کے جوذاتی نظریات ہوں گے اسی کے تحت وہ زبان کو ترویج دے گا۔اس کی ایک معمولی مثال عرض کرتاہوں۔

ایک نظریہ صالح اقدارکے ترجمانوں کاہے کہ شاعراورادیب کاکام یہ ہے کہ انسانی دکھ اوردرد کو بہترطورپر بیان کرے یعنی جوکچھ ہواہے ویسانہیں بلکہ اپنے نظریات وخیالات کے ذریعہ خراب کوبھی بہتربنائے اورناگفتنی کو گفتنی کے دائرہ کار میں لاکر پیش کرے۔مختصر یہ کہ شاعراورادیب کی مثال مصور کی ہے جو تصویر مین اپنے خیالات کے رنگ بھی بھرتاہے۔
ایک دوسرانظریہ یہ ہے کہ شاعراورادیب محض فوٹوگرافر ہے سماج میں جوکچھ ہورہاہے اس کو بلاکم وکاست پیش کردیاجائے اس طرح کانظریہ عمومی طورپر کمیونسٹ ادیبوں کارہاہے اوراسی قبیل اوردھارے مین منٹو عصمت چغتائی اورکچھ دیگرنام ہیں۔
اب دیکھیں منٹو اورعصمت چغتائی نے اپنے افسانوں مین جوکچھ کہاہے اورناگفتنی کو مزید ناگفتنی بناکر پیش کیاہے وہ ان کے نظریات کاہی ردعمل تھا۔


اب سوال یہ ہے کہ ہم کیاکریں؟​

اس دنیا میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔اس کی بھرتی ضرورہوتی ہے۔اگرسنت کو اس کی جگہ سے ہٹادیاجائے تواس کی جگہ بدعت لے لیتی ہے۔

اگراہل اورلائق لوگوں کو منصب سے ہٹایاجائے تونالائق اورنااہل لوگ اس پرقبضہ کرلیتے ہیں

اگردینی علم سے جڑے،مذہبی خیالات اورصالح ا قدار کے افراد ادب اورزبان سے رشتہ توڑلیں گے توکچھ دوسرے لوگ اس کی جگہ لیں گے؟

دورحاضر میں ایک بڑاالمیہ یہ ہے کہ علماء نے تقریباادب اورزبان سے اپنارشتہ توڑلیاہے۔ دیکھ لیں دورحاضر میں ادب اورزبان کے بڑے ناموں میں سے کوئی بھی ایک عالم موجود ہے جب کہ ماضی میں مولانا شبلی نعمانی، مولوی الطاف حسین حالی،مولوی نذیراحمد یہ اردوادب کے اساطین میں شمارہوتے تھے۔

علماء کیلئے ضروری ہے کہ وہ ادب اورزبان کے ساتھ رشتہ برقراررکھیں تاکہ دین بیزارافراد اورفحش نگاروں کیلئے جگہ خالی نہ رہے۔
[/HL]
بہت خوب ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
 
Top