• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ فقر کی تحقیق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لفظ فقر کی تحقیق

لفظ فقر سے شریعت میں مال سے تہی دست اور محتاج ہونا بھی مراد ہوتا ہے اور مخلوق کا اپنے خالق کی طرف محتاج ہونا بھی مراد ہوتا ہے۔
جیسا (پہلی قسم کے متعلق) کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِوَالْمَسَاكِينِ ﴿٦٠﴾التوبۃ
’’صدقات فقراء اور مساکین کے لیے ہوتے ہیں۔‘‘
اور(دوسری قسم کے متعلق )فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ﴿١٥﴾ فاطر
’’اے لوگو تم اللہ کے محتاج ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فقیروں کی دو قسمیں بیان فرما کر دونوں کی تعریف کی ہے۔ ایک اہل الصدقات اور ایک اہل فِئ۔ پہلی قسم کے متعلق فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَايَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَالتَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴿٢٧٣﴾البقرۃ
’’جو تم خرچ کرو گے ان حاجت مندوں کا حق ہے، جو اللہ کی راہ میں گھرے بیٹھے ہیں، ملک میں کسی طرف کو جانہیں سکتے جو شخص ان کے حال سے بے خبر ہے وہ ان کی خودداری کی وجہ سے ان کو غنی سمجھتا ہے لیکن اے مخاطب تو انہیں دیکھے تو قیافے سے ان کو صاف پہچان جائے (کہ محتاج ہیں) لگ لپٹ کر لوگوں سے نہیں مانگتے۔‘‘
دوسری قسم کے متعلق جو کہ دونوں میں سے افضل ہے۔
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِندِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًاوَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ﴿٨﴾الحشر
’’وہ مال جو بن لڑے ہاتھ لگا ہے منجملہ اور حق داروں کے محتاج مہاجرین کا بھی حق ہے جو (کافروں کے ظلم سے) اپنے گھروں اور مالوں سے بے دخل کر دیے گئے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب گاری میں لگے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مدد کو کھڑے ہوجاتے ہیں یہی تو سچے مسلمان ہیں۔‘‘
یہ ان مہاجرین کی صفت ہے جنہوں نے گناہ ترک کر دئیے تھے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے ظاہری و باطنی طور پر جہاد کیا تھا۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اَلْمُوْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاس عَلیٰدِمَائِھِمْ وَ اَمْوَالِھم (مسند احمد۲۱/۶ )
وَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَالْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَیَدِہ وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَمَا نَھَی اللہُعَنْہُ
(بخاری۔ کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔ رقم: ۱۰۔ مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان تفاضل الاسلام رقم: ۴۰۔ ابوداؤد، کتاب الجہاد۔ بابفی الھجرۃ۔ رقم: ۲۴۸۱)۔وانظر سنن نسائی ۴۹۹۸)
وَالْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَنَفْسَہ فِیْ ذَاتِ اللہِ (مسند احمد ۲؍۶۳۔)
’’مومن وہ ہے جسے لوگ اپنے مال و جان پر امین سمجھیں۔‘‘
’’ اور مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی باتوں کو چھوڑ دے۔‘‘
’’اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔
’’الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان‘‘
 
Top