• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لیس بالقوی اور لیس بقوی میں فرق

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
کسی ناقد کا "لیس بالقوی" کہنا "لیس بقوی" کہنے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا۔ لیس بالقوی راوی سے صرف اعلی درجےکی ثقاہت کی نفی کرتا ہے، جبکہ وہ راوی ثقہ ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی حدیث حسن ہو نے کے منافی نہیں ہوتی، جبکہ لفظ "لیس بقوی" راوی سے قوۃ کی اصل کی نفی کرتا ہے اور یہ ضعیف کے مرتبے سے ہے۔
1- شیخ ناصر الدین البانی کے شاگرد رشید، شیخ علی حسن الحلبی فرماتے ہیں:
"15- ذكر الشيخ طارق (ص274) عياض بن عبدالله الفِهري، ونقل قول أبي حاتم الرازي فيه في ((الجرح والتعديل)) (3/1/409): ((ليس بقوي)).قال: "نقلها المعترض (ص110) بلفظ: ((ليس بالقوي)). ثم قال: ((وهو تليين هين)).
أقول:
نَعم؛ ((ليس بالقوي)) تليين هين، لكن ليس كذلك ((ليس بقوي))، وهذا لا يخفى على عارفٍ بدلالات الألفاظ، فإن قولهم: ((ليس بالقوي)) نفي لكمال القوة فقط، ومن قيلت فيه هذه الكلمة فهو في جملة الثقات إلا أن غيره أوثق منه، فحديثه حسن في الأصل، أما قوله: ((ليس بقوي)) فهو نفي لأصل القوة، فهي إذاً من صيغ الجرح، فهي بمرتبة ((ضعيف))؛ لأن الضعيف انتفى عنه أصل القوة، كما لا يخفى". انتهى كلامه.


2- اسی طرح ذہبی العصر، امام المعلمی الیمانی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب "التنکیل" کے صفحہ 232 میں الحسن بن الصباح الواسطی کے ترجمہ میں کوثری کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ليس بقوي عند النسائي"، قال المعلمي: "أقول: عبارة النسائي: ((ليس بالقوي)) وبين العبارتين فرق لا أراه يخفى على الأستاذ ولا على عارف بالعربية، فكلمة ((ليس بقوي)) تنفي القوة مطلقاً وإن لم تثبت الضعف مطلقاً، وكلمة: ((ليس بالقوي)) إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة، والنسائي يراعي هذا الفرق فقد قال هذه الكلمة في جماعة أقوياء منهم عبد ربه بن نافع وعبدالرحمن ابن سليمان بن الغسيل، فبيّن ابن حجر في ترجمتيهما من (مقدمة الفتح) أن المقصود بذلك أنهما ليسا في درجة الأكابر من أقرانهما، وقال في ترجمة الحسن بن الصباح: ((وثقه أحمد وأبو حاتم))، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب السنن إلا ابن ماجه ولم يكثر عنه البخاري". انتهى كلامه رحمه الله.

3- محدث العصر، شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وأما الآخر فهو قول أبي حاتم ليس بالقوي: فهذا لا يعني أنه ضعيف لأنه ليس بمعني ليس بقوي، فبين هذا وبين ما قال فرق ظاهر عند أهل العلم۔۔" (النصیحہ للشیخ الالبانی ص 183)۔

4- شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ((المقترح في أجوبة أسئلة المصطلح)) میں جب ان دو اصطلاحات کے متعلق پوچھا گیا تو فرماتے ہیں:
"نعم، هناك فرق بين هذه العبارات، فهي تتفاوت، و(ليس بالقوي) أعلى، و(ليس بقويّ) أدنى... والظاهر أن كليهما يصلح في الشواهد والمتابعات، لكن (ليس بالقوي) أرفع.."

5- البانی العصر، المحدث الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک راوی کے متعلق ڈیروی صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"تیسے یہ کہ القوی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قوی بھی نہیں ہے، واللہ اعلم" (نور العینین، نیا اڈیشن، ص 38)۔

6- مولانا امیر علی الصنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"يطلق ليس بالقوي علي الصدوق" (التذنیب: ص 24)

7- مولانا عبد الحئی لکھنوی فرماتے ہیں:
"ان مجرد الجرح بكون الراوي ليس بالقوي لا ينافي في كون حديثه حسنا ان لم يكن صحيحا" (غیث الغمام: ص 158)۔

8- امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ليس بالقوي ليس بجرح مفسد" (الموقظہ: 82)۔

اس سب سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان دو عبارتوں میں فرق ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "لیس بالقوی" صیغہ توثیق ہے بلکہ اس کلمہ سے محض یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلمہ صرف صیغہ تضعیف میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی راوی پر "لیس بالقوی" کی جرح ہو اور اس کے مخالف کوئی توثیق نہ ہو تو راوی لین الحدیث رہے گا۔ لیکن اگر اس جرح کے مقابلے میں کسی محدث کی توثیق مل جائے تو لیس بالقوی کو حسن الحدیث سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تا کہ تطبیق ہو سکے۔
کیا کہتے ہیں شیخ کفایت اللہ ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
جزاک اللہ خیرا مفید معلومات نقل کی آپ نے اور یہ بالکل درست ہے کہ لیس بالقوی اور لیس بقوی میں فرق کرنا چاہے۔ اور عصرحاضر میں سب سے پہلے علامہ معلمی رحمہ اللہ نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اور آپ نے جو یہ کہا:
لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "لیس بالقوی" صیغہ توثیق ہے بلکہ اس کلمہ سے محض یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلمہ صرف صیغہ تضعیف میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی راوی پر "لیس بالقوی" کی جرح ہو اور اس کے مخالف کوئی توثیق نہ ہو تو راوی لین الحدیث رہے گا۔ لیکن اگر اس جرح کے مقابلے میں کسی محدث کی توثیق مل جائے تو لیس بالقوی کو حسن الحدیث سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تا کہ تطبیق ہو سکے۔
کیا کہتے ہیں شیخ کفایت اللہ ؟
یہاں پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ لیس بالقوی گر چہ توثیق نہیں ہے لیکن اگر جس راوی سے متعلق یہ تبصرہ مل جائے اور اس راوی کی دیانت وامانت کے لحاظ سے اہل علم نے تعریف کی ہو گرچہ صراحتا لفظ ثقہ نہ استعمال کیا تو ایسا راوی کم از کم از حسن الحدیث ضرور ہے ۔
کیونکہ لیس بالقوی کے بیان سے یہ بتاچل گیا کہ وہ اعلی درجے کا حافظ نہیں رکھتا اور دیانت وامانت کا ثبوت ملنے سے یہ پتہ چل گیا کہ وہ سچا ہے اور ان دونوں کے مجموعہ سے راوی کا جو مرتبہ وجود میں آتا ہے اسی کو ’’حسن الحدیث ‘‘ کہتے ہیں واللہ اعلم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اسلام علیکم۔
کسی ناقد کا "لیس بالقوی" کہنا "لیس بقوی" کہنے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا۔ لیس بالقوی راوی سے صرف اعلی درجےکی ثقاہت کی نفی کرتا ہے، جبکہ وہ راوی ثقہ ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی حدیث حسن ہو نے کے منافی نہیں ہوتی، جبکہ لفظ "لیس بقوی" راوی سے قوۃ کی اصل کی نفی کرتا ہے اور یہ ضعیف کے مرتبے سے ہے۔
1- شیخ ناصر الدین البانی کے شاگرد رشید، شیخ علی حسن الحلبی فرماتے ہیں:
"15- ذكر الشيخ طارق (ص274) عياض بن عبدالله الفِهري، ونقل قول أبي حاتم الرازي فيه في ((الجرح والتعديل)) (3/1/409): ((ليس بقوي)).قال: "نقلها المعترض (ص110) بلفظ: ((ليس بالقوي)). ثم قال: ((وهو تليين هين)).
أقول:
نَعم؛ ((ليس بالقوي)) تليين هين، لكن ليس كذلك ((ليس بقوي))، وهذا لا يخفى على عارفٍ بدلالات الألفاظ، فإن قولهم: ((ليس بالقوي)) نفي لكمال القوة فقط، ومن قيلت فيه هذه الكلمة فهو في جملة الثقات إلا أن غيره أوثق منه، فحديثه حسن في الأصل، أما قوله: ((ليس بقوي)) فهو نفي لأصل القوة، فهي إذاً من صيغ الجرح، فهي بمرتبة ((ضعيف))؛ لأن الضعيف انتفى عنه أصل القوة، كما لا يخفى". انتهى كلامه.


2- اسی طرح ذہبی العصر، امام المعلمی الیمانی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب "التنکیل" کے صفحہ 232 میں الحسن بن الصباح الواسطی کے ترجمہ میں کوثری کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ليس بقوي عند النسائي"، قال المعلمي: "أقول: عبارة النسائي: ((ليس بالقوي)) وبين العبارتين فرق لا أراه يخفى على الأستاذ ولا على عارف بالعربية، فكلمة ((ليس بقوي)) تنفي القوة مطلقاً وإن لم تثبت الضعف مطلقاً، وكلمة: ((ليس بالقوي)) إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة، والنسائي يراعي هذا الفرق فقد قال هذه الكلمة في جماعة أقوياء منهم عبد ربه بن نافع وعبدالرحمن ابن سليمان بن الغسيل، فبيّن ابن حجر في ترجمتيهما من (مقدمة الفتح) أن المقصود بذلك أنهما ليسا في درجة الأكابر من أقرانهما، وقال في ترجمة الحسن بن الصباح: ((وثقه أحمد وأبو حاتم))، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب السنن إلا ابن ماجه ولم يكثر عنه البخاري". انتهى كلامه رحمه الله.

3- محدث العصر، شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وأما الآخر فهو قول أبي حاتم ليس بالقوي: فهذا لا يعني أنه ضعيف لأنه ليس بمعني ليس بقوي، فبين هذا وبين ما قال فرق ظاهر عند أهل العلم۔۔" (النصیحہ للشیخ الالبانی ص 183)۔

4- شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ((المقترح في أجوبة أسئلة المصطلح)) میں جب ان دو اصطلاحات کے متعلق پوچھا گیا تو فرماتے ہیں:
"نعم، هناك فرق بين هذه العبارات، فهي تتفاوت، و(ليس بالقوي) أعلى، و(ليس بقويّ) أدنى... والظاهر أن كليهما يصلح في الشواهد والمتابعات، لكن (ليس بالقوي) أرفع.."

5- البانی العصر، المحدث الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک راوی کے متعلق ڈیروی صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"تیسے یہ کہ القوی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قوی بھی نہیں ہے، واللہ اعلم" (نور العینین، نیا اڈیشن، ص 38)۔

6- مولانا امیر علی الصنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"يطلق ليس بالقوي علي الصدوق" (التذنیب: ص 24)

7- مولانا عبد الحئی لکھنوی فرماتے ہیں:
"ان مجرد الجرح بكون الراوي ليس بالقوي لا ينافي في كون حديثه حسنا ان لم يكن صحيحا" (غیث الغمام: ص 158)۔

8- امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ليس بالقوي ليس بجرح مفسد" (الموقظہ: 82)۔

اس سب سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان دو عبارتوں میں فرق ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "لیس بالقوی" صیغہ توثیق ہے بلکہ اس کلمہ سے محض یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلمہ صرف صیغہ تضعیف میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی راوی پر "لیس بالقوی" کی جرح ہو اور اس کے مخالف کوئی توثیق نہ ہو تو راوی لین الحدیث رہے گا۔ لیکن اگر اس جرح کے مقابلے میں کسی محدث کی توثیق مل جائے تو لیس بالقوی کو حسن الحدیث سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تا کہ تطبیق ہو سکے۔
کیا کہتے ہیں شیخ کفایت اللہ ؟
کفایت اللہ بھائی میں نے اس حدیث کے بارے پوچھا کہ یہ کیسی ہے ؟
اذا صعد المنبر سلم؟؟؟؟؟؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاکم اللہ خیرا
کافی علمی مضمون ہے۔
عرض یہ ہے کہ جب کسی مخالف فریق کے عالم ہوں تب بھی رحمہ اللہ کہ دینا چاہیے۔ جیسے مضمون میں کوثری اور عبد الحی لکھنوی رحمہما اللہ کا ذکر ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس اصول سے ایک محدث مستثناء ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: "وبالاستقراء، إذا قال أبو حاتم: "ليس بالقويّ"، يُريد بها: أنَّ هذا الشيخ لم يَبلُغ درَجَة القويِّ الثَّبْت. والبخاريُّ قد يُطلقُ عَلَى الشيخ: "ليس بالقوي"، ويريد أنه: "ضعيف" (الموقظہ)
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اس اصول سے ایک محدث مستثناء ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: "وبالاستقراء، إذا قال أبو حاتم: "ليس بالقويّ"، يُريد بها: أنَّ هذا الشيخ لم يَبلُغ درَجَة القويِّ الثَّبْت. والبخاريُّ قد يُطلقُ عَلَى الشيخ: "ليس بالقوي"، ويريد أنه: "ضعيف" (الموقظہ)

رضا بھائی بات جتنی بھی کی جائے خلاصہ تو یہی ہے نا کہ دونوں صیغے ضعف کے ہیں چاہے جو بھی استعمال کرے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض کے نزدیک کم اور بعض کے نزدیک ذیادہ۔۔۔۔۔۔
 
Top