• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لے پالک بیٹا (متبنیٰ ) بنانے کا حکم

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
لے پالک بیٹا بنانے کا حکم


فتوى نمبر:53
الحمد لله والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه، و بعد: دائمی کمیٹی برائےعلمی تحقیقات وفتاوی جات (
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء)
کو، ایگزیکٹیو سیکریٹری برائے پنجاب بہبود اطفال کونسل کی جانب سے عالی جناب صدر کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی و دعوت و ارشاد کو پیش کئے گئے استفتاء کی اطلاع ملی، جسے مورخہ 15/ 1/ 1392 ھجری کو ریفرنس نمبر 86/ 2 کے ساتھـ تنظیم برائے اکابرین علماء کے جنرل سیکریٹریٹ کی جانب سے بھیجا گيا تھا، طالب فتوی نے وراثت میں لے پالک بیٹے کے وراثتی حق سے متعلق اصول وضوابط کی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب:
دائمی کمیٹی نے درج ذیل جواب دیا :
1 - لے پالک بیٹا بنانے کا رواج دور جاہلیت میں بعثت نبوی سے قبل تھا، جو شخص اپنے بچے کے علاوہ کسی کو منہ بولا بیٹا بناتا تو اسے اپنی جانب منسوب کرتا، اسے وراثت میں حصہ دیتا، اور اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خلوت کی اجازت دیتا، اور باپ پر اپنے لے پالک کی بیوی حرام ہوتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ لے پالک اولاد تمام معاملات میں حقیقی اولاد کی طرح سمجھی جاتی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ بن شراحیل الکلبی کو
بعثت سے قبل منہ بولا بیٹا بنایا تھا، اور انہیں زید بن محمد کہکر پکارا جاتا تھا، لے پالک بیٹا بنانے کا عمل سنہ 3 ھجری یا 5 ھجری تک اسی طرح جاری رہا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔

2 - پھر اللہ تعالی نے لے پالک بیٹوں کو ان کے حقیقی ان باپوں کی طرف منسوب کرنے کا حکم دیا، جن باپوں سے وہ اولاد پیدا ہوئی، جبکہ ان باپوں کے بارے میں معلوم بھی ہو، لیکن اگر ان کے حقیقی باپ کا پتہ نہ چل پائے، تو وہ دینی بھائی اور ان کو لے پالک بنانے والے یا دوسروں کے لئے موالی سمجھے جائیں، اور اللہ تعالی نے بیٹے کو گود لینے والے کی طرف حقیقی نسبت کرنےکو حرام قراردیا ہے، بلکہ خود لڑکے پر حرام کیا ہے کہ وہ خود کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے، الا یہ کہ زبان پرغلطی سے غلط طور پر نسبت آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اللہ نے یہ وضاحت کی کہ اسی حکم میں خالص انصاف ہے، کیونکہ اسی میں سچائی، عزت نفس کا تحفظ اور اس شخص کے لئے مالیاتی حقوق کی حفاظت پائی جاتی ہے جو اس کا مستحق ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﮯ ﭘﺎﻟﻚ ﻟﮍﻛﻮﮞ ﻛﻮ ( ﻭﺍﻗﻌﯽ ) ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﻛﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺣﻖ ﺑﺎﺕ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ( ﺳﯿﺪﮬﯽ ) ﺭﺍﮦ ﺳﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔(4) ﻟﮯ ﭘﺎﻟﻜﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﻥ ﻛﮯ ( ﺣﻘﯿﻘﯽ ) ﺑﺎﭘﻮﮞ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﺴﺒﺖ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺑﻼﻭ ﺍﹴ ﻛﮯ ﻧﺰﺩﯾﻚ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﻛﮯ ( ﺣﻘﯿﻘﯽ ) ﺑﺎﭘﻮﮞ ﰷ ﻋﻠﻢ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﯾﻨﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﻮﻙ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻛﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﰷ ﺗﻢ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻛﺮﻭ۔ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺑﮍﺍ ﮨﯽ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ۔ اور نبي كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھـ کر خود کو اپنے والد كے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کیا اس پر جنت حرام ہے اسے احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور نبي كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو اپنے والد یا اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے گا ، تو اس پر اللہ کی مسلسل لعنت برستی رہے گی اسے امام ابو داود نے روايت كيا ہے۔

3 - لے پالک بیٹا بنانے کا رواج ختم کر کے اللہ تعالی نے زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں جاری ان احکام کا خاتمہ کردیا جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی: الف- اللہ تعالی نے لے پالک بیٹے اور بیٹا بنانے والے کے درمیان وراثت کے سلسلے کو ختم کردیا، کیونکہ اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اور ہر ایک کے لئے دوسرے کے ساتھـ زندگی میں بھلائی اور نیکی کا عمل کرنے کو کہا، نیز بیٹا بنانے والے کو اس کے لئے وصیت کرنے کومشروع قرار دیا، بشرطیکہ یہ وصیت موصی کے مال میں سے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، اور شریعت اسلامیہ نے وراثت اور اس کے مستحقین کو تفصیل سے بیان کیا، اور ان تفصیلات میں وراثت پانے والے مستحقین میں لے پالک کا ذکر نہیں کیا، اور اللہ تعالی نے اجمالی طور سے میراث، صدقہ اور احسان وغیرہ کا بھی ذکرکیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے ﺍﻭﺭ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ ﻛﺘﺎﺏ اللہ ﻛﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﺑﮧ ﻧﺴﺒﺖ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﺍﻭر ﻣﮩﺎﺟﺮﻭﮞ ﻛﮯ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ ( ﮨﺎﮞ ) ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎتھـ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮک ﻛﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ

ب- اللہ تعالی نے بیٹا بنانے والے شخص کے لئے یہ جائز قرار دیا کہ لے پالک کی بیوی سے اس کے طلاق کے بعد شادی کرسکتا ہے، جو زمانہ جاہلیت میں حرام تھا، اور اس کی ابتداء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، تاکہ حلت اور زیادہ قوی اور موکد ہوجائے، اور زمانہ جاہلیت کی رسم سختی کے ساتھـ حرام ہوجائے، اللہ تعالی نے فرمایا پس ﺟﺐ ﻛﮧ ﺯﯾﺪ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺮﺽ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻟﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﲀﺡ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺗﺎﻛﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﮯ ﭘﺎﻟﻜﻮﮞ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻛﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻛﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﻛﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﺟﺐ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺮﺽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻟﯿﮟ،ﺍﹴ ﰷ ( ﯾﮧ ) ﺣﻜﻢ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻛﺮ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔ لہذا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش کے ساتھ اللہ کے حکم سے اس وقت شادی کی جب زید بن حارثہ نے انہیں طلاق دی تھی۔

4- مذکورہ بالا امور سے پتہ چلتا ہے کہ لے پالک بنانے کی رسم ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانیت اور اسلامی حقوق مثلا بھائی چارگی، الفت ومحبت، صلہ رحمی اور احسان وغیرہ جیسی قدریں ختم کردی گئيں: الف- لہذا انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے سے چھوٹے شخص کو شفقت کے طور پر اپنا بیٹا کہکر پکارے، اور اسے انسیت اور محبت کا احساس دلائے، تاکہ وہ اس کی نصیحت سنے، یا اس کی کوئی ضرورت پوری کرے، اسی طرح انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے سے بڑے شخص کو عزت واحترام کے طور پر اے میرے والد کہکر پکارے، تاکہ وہ اس کی اطاعت و نصیحت اور تعاون حاصل کرسکے، اور اس لئے کہ معاشرہ میں ادب واحترام کی فضاء قائم ہو، اور انسانی سماج میں تعلقات مضبوط ہوں، اور سبھی افراد سچی بھائی چارگی، انسانیت اوردین داری کا احساس کریں، ب – شریعت نے نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی ترغیب دی ہے، اور تمام لوگوں کو محبت اور احسان کرنے کی دعوت دی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﻧﯿﻜﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻛﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻛﺮﺗﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ۔ اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کا حال آپسی محبت، رحم و کرم اور نرمی میں بالکل ایک جسم کی طرح ہے، کہ اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور جاگنے میں اس کا ساتھـ دیتا ہے۔ اسے امام احمد اور مسلم نے روايت كيا ہے، اور فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے کسی عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تھامے رکھتا ہے اسے امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اور نسائی نے روايت كيا ہے، اور انہی مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ یتیموں اور مسکینوں اور روزی کمانے سے عاجز یا لاوارث افراد کی نگہداشت و تربیت کی جائے، اوران کے ساتھـ احسان کا معاملہ کیا جائے، تاکہ اس معاشرہ میں بدحال اور بے مایہ افراد نہ پائے جائیں، اور بچے کی بری تربیت کا خمیازہ امت کو نہ برداشت کرنا پڑے، یا اس کو معاشرہ کی سخت دلی یا غفلت کا احساس ہونے کی وجہ سے اس کے اندر سرکشی نہ اُبھر آئے، اور اسلامی حکومتوں پر واجب ہے کہ وہ معذوروں، یتیموں اور گرے پڑے و لاوارث بچوں کے لئے تربیتی مراکز قائم کریں، اگربیت المال سے ان افراد کی ضرورت پوری نہ ہوسکے تو امت کے خوشحال افراد سے تعاون حاصل کریں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:صحيح بخاری،تفسير القرآن (4781) ، صحيح مسلم،الفرائض (1619) ، سنن ترمذی،الجنائز (1070) ، سنن نسائی،الجنائز (1963) ، سنن أبو داود،الخراج والإمارة والفيء (2955) ، سنن ابن ماجہ،الأحكام (2415) ، مسند أحمد بن حنبل (2/453) ، سنن دارمی،البيوع (2594). جس کسی مومن نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہو، تو اس کے جو قریبی رشتہ دار ہوں وہ اس کے وراث ہوں گے، اور جو مومن قرض یا چھوٹی اولاد چھوڑ کر مرا ہو، تو وہ میری کفالت میں آ جائے، میں اس کا سرپرست ہوں
اسے امام بخاری نے روايت كيا ہے۔ اسی فتوی پردستخط کیا گیا ہے۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی ابراہیم بن محمد آل الشیخ
 
Top