• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماضی میں کفار مسلمانوں اور عیسائیوں کو آپس میں لڑانے میں کیسے کامیاب ہوئے

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
یورپ نے اسلامی دنیا پر حملے کیلئے مشنری اداروں کو تیار کیا اور اِن کیلئے اپنے سالانہ بجٹ میں کثیر رقوم مختص کیں، یہ مشنری اسلامی دنیا میں علم پھیلانے کے بہانے داخل ہوئے تھے۔ بالفاظ ِ دیگر یہ علم اور انسانیت کی ترویج کے نام پر مغرب کی طرف سے اسلامی دنیا کو اپنی نوآبادیات (کالونی)بنانے کی طرف ایک قدم تھا۔ ان مشنریوں کو اس انداز سے تیار کیا گیا تھا کہ یہ مشنری سیاسی جاسوسی کے اداروںکو اسلامی دنیا میں قدم جمانے اور ثقافتی لحاظ سے اسلامی علاقوں کو کالونی بنانے کے کام کو مضبوط کر سکیں اور بالآخر یہ مشنری ،مغربی نوآبادیاتی (استعماری)منصوبے کا ہراول دستہ ثابت ہوئے۔ ان مشنریوںکے ذریعے اسلامی علاقوں کے دروازے مغربی ممالک پر کھل گئے۔ یہ مشنری ادارے اسلامی ریاست کے کئی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے اور اِن کی اکثریت برطانوی، فرانسیسی اور امریکی تھی۔ ان مشنریوں کے توسط سے برطانوی اور فرانسیسی اثرو رسوخ اسلامی ریاست میں راسخ ہوا اور اِنہوں نے اسلامی ریاست میں متعدد ایسی تحریکوں کی رہنمائی کی جو مسلمانوں میں قومیت کے جذبات کو ہوا دے رہی تھیں، یعنی ترکوں میں ترک قومیت اور عربوں میں عرب قومیت ۔ نیزانہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہنوں کا رخ مغرب کی طرف کیا ، جس کے دو اہم مقاصد تھے، پہلا عربوں کو مسلمانوں کی ریاستِ عثمانیہ سے الگ کیا جائے اور یوں اسلامی ریاست کا تانہ بانہ بکھیرا جائے، اس کیلئے اُنہوں نے ترکوں کو اُن کے ترک ہونے کا نعرہ دیا تاکہ نسلی جذبات کو ہوا ملے۔ دوسرا مقصد تمام مسلمانوں کو اسلام ،جواُن کے باہمی تعلق کا حقیقی اور واحد محرک تھا، سے دور کیا جائے۔ پہلے مقصد میں تو اُنہیں کامیابی حاصل ہوئی لیکن دوسرا مقصد پورا نہ ہو پایا، چنانچہ اس مقصد کوتُرکوں، عربوں اور فارسی لوگوں کے قومیت پرستی کے رجحان پرچھوڑ دیا گیا کہ اب وہ مشنریوں کی جانشین کی حیثیت سے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں اور امت ِ مسلمہ کی وحدت میں شگاف ڈال دیں اور مسلمانوں کو ان کی آئیڈیالوجی سے غافل کردیں۔ یہ مشنری اسلامی علاقوں میں مختلف حالات سے گزرے اور امتِ مسلمہ پر اِن کے کام کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ یہ ان مشنریوں کے کام کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم زوال اور کمزوری میں مبتلاہیںکیونکہ استعماری ممالک نے امت ِ مسلمہ اور ترقی کے درمیان حائل دیوار کی پہلی اینٹ اِن مشنریوں کے ذریعے ہی رکھی تھی اور یہ دیوار مسلمانوں اور اُن کی آئیڈیالوجی یعنی اسلام کے درمیان رکاوٹ بن گئی۔

مغربی ممالک کیلئے جو چیز اِن مشنریوں کو عالم ِ اسلام میں اتارنے کیلئے محرک بنی وہ وہ صلیبی جنگیں تھیں جن میں مسلمانوں کی جہاد پر استقامت اور دلیری کے باعث یورپ کوشکست جھیلنا پڑی تھی۔ صلیبی جنگوں میں جب عیسائیوں کا مسلمانوں سے مقابلہ ہوا تو عیسائی دو اہم امور پر انحصار کر رہے تھے جو ان کی اپنی دانست میں مسلمانوں اور اسلام کا ہمیشہ کیلئے کام تمام کرنے والے تھے۔ اِن دو امور میں اُن کا پہلا اعتماد اس بات پر تھا کہ عالم ِ اسلام میں بالخصوص شام میں کثیر تعداد میں عیسائی آبادتھے جو اپنے دین پر قائم تھے، مغربی ممالک کو یہ بھروسہ تھا کہ ریاست ِ اسلامی کے عیسائی اُن کے بھائی ہیں چنانچہ وہ اپنے اوپر قائم مسلمان حکمرانوں سے بغاوت کرینگے اور مغربی ممالک کیلئے جاسوسی بھی کرینگے کیونکہ یورپی ممالک صلیبی جنگیں مذہبی جذبات کو بھڑکا کر لڑرہے تھے۔

دوسرا امر جب پر وہ اعتماد کر رہے تھے وہ ان کی افواج کی کثرت اور طاقت میں برتری تھی۔ جبکہ مسلمان تنزل اور آپسی انتشار کا شکار تھے اور ان کا وجود ٹوٹ پھوٹ سے دوچار تھا۔ اس بناء پر عیسائیوں نے یہ امید باندھ رکھی تھی کہ اُنہیں اس ایک لڑائی میں شکست دے دی جائے تو پھر مسلمان کبھی اُن سے مقابلہ نہ کر پائینگے اور مسلمانوں اور اسلام پرقابو پا نا آسان ہوجائیگا۔ لیکن اُن کی امیدیں اور خواب پورے نہ ہو سکے۔ اُنہیں اس وقت شدید حیرت ہوئی جب دوران ِ جنگ اُنہوں نے دیکھا کہ عرب میں بسنے والے عیسائی مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملا کرصلیبیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اُن پر صلیبیوں کی پکار کا اثر نہیں ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عیسائی مسلمانوں کے ساتھ دار الاسلام میں رہتے تھے اور اُن پر بھی وہی اسلامی احکام و قوانین نافذ ہوا کرتے تھے جو مسلمانوں ہوتے تھے۔ اسلامی ریاست میں بسنے والے اِن عیسائیوں کے حقوق و فرائض بھی وہی تھے جومسلمانوں کے تھے۔ مسلمان اُن کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، عیسائی لڑکیوں سے شادیاں کرتے تھے۔ زندگی کے میدان میں مسلمان و عیسائی اکٹھے تھے کیونکہ اسلام نے غیر مسلموں کے تمام حقوق کی ضمانت دی ہے اور مسلمان خلفاء اور حکام نے ہمیشہ اس کی پاسداری کی تھی، اور اسلامی ریاست میں اسی پر عمل ہوتا تھا۔ ابنِ حزم لکھتے ہیں:''یہ ذمیوں کا حق ہے کہ ہم کسی باہری حملے کی صورت میں اُن کا دفاع کریں خواہ اس میں ہمیں اپنی جانیں ہی دینا پڑیں۔ اس میں کوئی بھی کوتاہی ذمیوں کے حقوق سے غفلت کے مترادف ہوگی'' جبکہ اسی موضوع پرقرافی نے لکھاہے: ''مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ذمیوں میں کمزوروں کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں، اُن کے غرباء کی اعانت کریں، ان کے بھوکوں کو کھانا کھلائیں، لباس سے محروم ذمیوں کوپہنائیں اوراُنہیں نرمی سے مخاطب کریں۔ کسی پڑوسی ذمی کی طرف سے اذیت پہنچانے پر جوابی طاقت کے باوجود تحمل سے کام لیں۔ یہ سب اُن سے نرمی و حسنِ سلوک کے جذبے سے ہو، کسی خوف، دبائو یا اُن کی تعظیم کے سبب نہیں۔ اُن کے معاملات میں اُنہیں خلوص ِ دل سے بہتر مشورہ دیں۔ اُنہیں کوئی نقصان پہنچے تو اُن کا دفاع کریں۔ اُن کے اموال، گھربار،عزت وآبرو، اُن کے اثاثوں ، حقوق اور مفادات کی حفاظت کریں، اور ہر وہ کام کریں جو حسنِ اخلاق کا تقاضا ہو''۔ یہ تمام وہ محرکات تھے جن کے باعث اسلامی ریاست میں بسنے والے عیسائی بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہی عیسائی بھائیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اور اس وقت بھی صلیبیوں کی حیرت قابلِ دید تھی جب ان کی امیدوں کے برخلاف دوسرا امر بھی پورا نہ ہوا، یعنی اگر مسلمانوں کو ایک لڑائی میں شکست دے دی جائے تو پھر مسلمان کبھی اُن سے مقابلہ نہ کر پائینگے اور مسلمانوں اور اسلام پر قابو پا نا آسان جائیگا۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو بری شکست دی تھی اور شام پرقابض ہو گئے تھے اور اپنی فتح کے بعد انہوں نے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ یہ پہلے لوگ تھے جنہوں مسلمانوں کو اپنے ہی وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور اس کے بعداپنی تمام جنگوں میں انہوں نے یہی طرزِ عمل اختیار کیااور ان کا یہ طرزِ عمل آج تک جاری ہے،جیسا کہ فلسطین میں ہوا۔ بہرحال اُس فتح کے بعد وہ یہ سمجھنے لگے کہ کام اب تمام ہو گیا ہے اور اب مسلمان کبھی اُٹھ نہ پائینگے۔ لیکن مسلمان دشمن کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کرنے میں جُت گئے۔ لہٰذا باوجود یہ کہ صلیبی وہاں تقریباً دو سو سال تک قابض رہے اور انہوں نے شام میں اپنی حکومتیں اور صوبے قائم کرلئے تھے، لیکن مسلمان بالآخر اُن کو وہاں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگئے اور صلیبیوں پر غالب آ گئے۔

اب صلیبی اس تحقیق میں لگے کہ مسلمانوں کی قوت کا راز کیا ہے؟ اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ راز اسلام ہے ،اورمسلمانوں کے عقیدے نے ہی ان میں زبردست قوت بھر دی ہے اور اسلام کے غیر مسلموں سے متعلق احکامات جو اُن کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، کے باعث ریاست کی مسلم اور غیر مسلم رعایا میں گہرے رشتے بنتے ہیں۔ چنانچہ استعما ری کفار نے عالم ِ اسلام پر حملہ کرنے کی حکمتِ عملی پر غور و خوض کیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ مشنریوں کے ذریعے ثقافتی یلغار ہی سب سے بہتر طریقہ ہے، جس کے ذریعے وہ ایک طرف تو اسلامی ریاست میں رہنے والے عیسائیوں کواپنی جانب مائل کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف اُن کا منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک پیدا کردئیے جائیں اور اُن کے عقیدہ کومتزلزل کر دیا جائے اوریوںمسلم و غیر مسلم رعایا کا آپسی رشتہ ٹوٹ جائے ہو اور مسلمانوں کی قوت بکھر جائے۔

انہوں نے اپنی اس سازش کو عملی جامہ پہنایا ، چنانچہ سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں جزیرہ مالٹامیں بہت بڑامشنری مرکز کھولا گیااور اسے عالمِ اسلام میں مشنریوں کا ہیڈ کواٹربنایا گیا،جہاں سے سارے عالمِ اسلام میں مشنری بھیجے جاتے تھے۔ جب مالٹا میں انہیں ایک مدت ہوگئی اور وہ اچھی طرح جم گئے تو اُنہیں اپنی کارروائیاں وسیع تر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ وہ1625ء میں شام منتقل ہوگئے اور وہاں پر بھی مشنری تحریک شروع کرنے کا ڈول ڈالا۔ تاہم ابھی تک اُن کی کارروائیاں بہرحال محدود تھیں، اور یہ یا تو چند چھوٹے چھوٹے سکولوں کی شکل میں تھیںیا کچھ دینی کتابیں شائع ہو رہی تھیں۔ ان مشنریوں کو اپنے کام میں تمام لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے بہت مشقت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ اس کے باوجود یہ لوگ 1773ء تک کسی نہ کسی طرح ٹِکے رہے۔ جب اِن عیسائی مشنری اداروں کو، بجز کچھ چھوٹی مشنریوں کے جن میں' عزارین' مشن شامل تھا، ممنوع قرار دے دیا گیا تو باوجود اِن کی موجودگی کے، مشنریوں کا اثر زائل ہوگیا۔ پھر1820 ء تک ان کا وجود صرف مالٹاہی میں سمٹا رہا ۔ 1820ء میں انہوں نے بیروت میں اپنا پہلا مرکز قائم کیا اور وہاں کئی مشکلات کے باوجود یہ مشنری اپنے کام میں لگی رہے۔ ان کا پہلا قدم دینی اور ثقافتی تبلیغ کا تھا جبکہ تعلیم کی جانب اِن کی طرف سے معمولی توجہ ہی دی جا رہی تھیں۔ 1834ء میں یہ مشنری پورے بلادِشام میںپھیل گئے، لبنان میں عنتورہ کے مقام پر کالج کھولا گیا، اسی طرح مشنریوں کے امریکی مشن نے اپنی پرنٹگ پریس مالٹا سے بیروت منتقل کر لی تاکہ کتابیں یہیں سے چھپوا کر تقسیم کی جاسکیں۔ اس وقت ایلی سمتھ نامی امریکی مشنری کی کاروائیاں زوروں پر تھیں۔ یہ شخص مالٹا میں رضاکار تھا اور مشن کے پرنٹنگ پریس کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔ 1827ء میں یہ بیروت آیا لیکن ایک سال کے اندر اندر خوف اور اکتاہٹ سے پریشان ہو کر مالٹا لوٹ گیا۔ 1834ء میں یہ اپنی بیوی کے ساتھ بیروت لوٹا اور اُس نے لڑکیوں کیلئے ایک سکول شروع کیا۔ اس کے کام کا دائرہ بڑھتا گیا، اس نے پورے شام میں اور خاص کر بیروت میں اس کام کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اس قسم کی اور کاوشیں ہوئیں اور مشنریوں کے قدم وہاں جم گئے۔ اسی اثناء میں ابراہیم پاشا نے ابتدائی تعلیم کیلئے ایک مخصوص طرز کا نصابِ تعلیم اختیار کیا جو مصر میں بھی اپنایا جا چکا تھا ، یہ نصاب فرانس میں رائج ابتدائی تعلیم کی نہج پر تھا۔ یہ مشنریوں کے لیے ایک موقعہ تھا جس کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں معاونت کی اور اپنے پرنٹنگ کے کام کو وسعت دی ۔ ظاہری طور پر وہ تعلیمی سرگرمیوں میں شریک تھے مگر پسِ پردہ وہ مشنری سرگرمیوں کو فروغ دے رہے تھے ۔ انہوں نے عوام کو آزادیٔ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف اکسایا ۔ اُنہوں نے مسلمانوں، عیسائیوں اور دروزوں (Druze)میں ایسی مذہبی رسمیں ایجاد کیں جو ان کے عقائدسے تعلق رکھتی تھیں۔

1840ء میں جب ابراہیم پاشا نے شام سے پسپائی اختیار کی تو عوام میں مایوسی،اضطراب اور انتشار پھیلنے لگا اوروہ باہم مختلف ہوتے گئے، جس کا فائدہ بیرونی نمائندوں اور خاص طور پر مشنریوں نے جم کر اُٹھایا۔ اورچونکہ ریاستِ عثمانیہ کا اثرورسوخ شام میں کمزور ہوگیا تھا تو اس موقع کو غنیمت جان کر فتنے کی آگ خوب بھڑکائی گئی اور 1841ء کے شروع تک یہ آگ اتنی بھڑکی کہ لبنان کے علاقے میں عیسائیوں اور دروزوں کے درمیان فسادات ہونے لگے۔ ان لڑائیوں کی شدت اتنی تھی کہ خود ریاست ِ عثمانیہ اس سے متاثر ہوئی اور بیرونی طاقتوں کے شدید دبائو پر اس نے لبنان کے ان فرقوں کیلئے علیحدہ علیحدہ نظام اور دونوں قسموں کے لئے الگ الگ حاکم مقرر کر دئیے اور یوں فریقین کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ تاہم یہ انتظام کامیاب نہ ہوا کیونکہ یہ نظام فطری نہ تھا۔ اس تنازعہ میں برطانیہ اور فرانس پیش پیش تھے اورجہاں پر بھی حکومتی عہدیدار اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ،تو یہ ملک وہاں فتنے کی آگ کو ہوا دیتے تاکہ اس پر قابو پانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکے۔ ان دونوں ممالک نے اس فتنے کو زیادہ سے زیادہ ہوا دینے کی کوششیں کی تاکہ اس کی آڑ میں وہ لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکیں۔ برطانیہ اس تنازعہ میں دروزوں کی طرفداری کر رہا تھا جب کہ مارونی عیسائیوں(Maronites)کو فرانس کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے سبب 1845ء میں دوبارا فسادات کی آگ بھڑکی جس کے نتیجے میں ہولناک تباہیاں ہوئیں، جن میں کلیسائوںاور خانقاہوںکو بھی نہیں بخشا گیا۔ لوگ قتل ہوئے، املاک تباہ ہوئیں ، مال و اسباب لوٹا گیا۔ عثمانی حکومت کوفتنے پر قابو پانے کیلئے اپنے مخصوص نمائندے کو مطلق اختیارات کے ساتھ بھیجنا پڑا۔ لیکن وہ شدّت میںمعمولی تخفیف سے بڑھ کر کچھ نہ کر سکا۔ ادھر مشنریوں کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی تھیں اور 1857ء میں مارونی عیسائیوں نے مسلح جدوجہداور بغاوت کی آواز لگانا شروع کر دی۔ مارونی پادریوں نے مزارعوں کو زمینداروں کے خلاف بھڑکایا اور شمالی لبنان میں زمینداروں پر نہایت پر تشدّد حملے ہوئے ،اور وہاں بغاوت کی حالت پیدا ہوگئی جس نے پھیل کر جنوبی لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا،جہاں عیسائی مزارع دروز زمینداروں کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ برطانیہ اور فرانس دونوںفریقوں کی پشت پناہی کر رہے تھے، برطانیہ دروزوں کے پیچھے تھا اور فرانس مارونی عیسائیوں کے ساتھ تھا۔ یوںفتنے کی آگ پھیلتی گئی یہاں تک کہ پورے کا پورا لبنان اس آگ میں جلنے لگا۔ دروز بلا تفریق عیسائیوں کو قتل کر رہے تھے، خواہ یہ پادری ہوں یا عام عیسائی۔ فسادات اس قدر پُرتشدد تھے کہ اس میں ہزاروں عام عیسائیوں قتل اوربے گھرہو گئے۔ بالآخر ان فسادات نے پورے بلادِشام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ۔ مسلمانوں نے جولائی 1860ء میں عیسائی علاقے پر خوں ریز حملہ کیا اور بڑے پیمانے پر لوگ ذبح ہوئے، ساتھ ساتھ تخریب کاری اور لوٹ مار کی وارداتیں بھی رونما ہوئیں، یہاں تک کہ اس خوں ریزی کو روکنے کے لیے ریاست کو فوجی قوت استعمال کرنا پڑی۔ باوجود کہ یہ فتنہ تھم گیا اور اپنے اختتام کو پہنچ گیا لیکن مغربی ممالک نے محسوس کرلیا تھا کہ یہی وہ چیز ہے جسے بہانہ بنا کر وہ شام میں داخل ہو سکتے ہیں، چنانچہ اُنہوں نے اپنے جنگی بیڑے شام کے ساحل پر بھیج دئیے۔ اُسی سال اگست میں فرانس نے اپنی زمینی فوجیں بھی بھیج دیں جو بیروت میں اُتریں اور انہوں نے بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے۔ اس طرح مغربی ریاستوں نے ریاستِعثمانیہ میں فتنے کی آگ بھڑکائی تاکہ یہ شام میںداخلے کا ذریعہ بنے۔ پس وہ شام میں داخل ہو ئے اور خلافتِ عثمانیہ کو مجبور کیا کہ وہ شام کیلئے شریعت کے علاوہ کوئی مخصوص نظام وضع کرے، اور شام کو دو مختلف صوبوں میں تقسیم کردے۔ اس طرح لبنان کو خصوصی مراعات دلائی گئیں اور لبنان شام کے دوسرے حصوں سے الگ ایک خود مختار صوبہ بن گیا، اس کا اپنا مقامی حکومتی نظام تھا جس کی سربراہی ایک عیسائی حاکم کے ہاتھ میں تھی۔ اس حاکم کی معاونت کیلئے ایک نفاذی کونسل بنائی گئی جس کے ارکان مقامی باشندے تھے جن کی حیثیت عوام کے نمائندوں کی تھی -اس وقت سے مغربی ممالک لبنان کے امور کو کنٹرول کر رہے ہیں اوراسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے - یوںمغربی ممالک نے ریاست ِ عثمانیہ اور اسلامی علاقوں کے قلب میں داخل ہونے کے لیے لبنان کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔

اسی دوران مشنریوں کی سرگرمیوں نے ایک نیا روپ اختیار کیا جو پچھلی سرگرمیوں سے مختلف تھا۔ اب انہوں نے سکولوں، ہسپتالوں اور پرنٹنگ پریسوںسے بڑ ھ کرباقاعدہ تنظمیں قائم کرنا شروع کردیں۔ چنانچہ1842ء میںایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام امریکی مشن کے زیر نگرانی اس کے ایجنڈے کے مطابق سائنسی علوم پر مبنی تنظیموںکا قیام تھا۔ اس کمیٹی نے پانچ سال تک اپنے کام کو آگے بڑھایا یہاں تک کہ 1847 ء میں اس نے ایک جمعیت بنائی جس کا نام ایسوسی ایشن آف آرٹس اینڈ سائنس ( جمعیتِ علوم و فنون )رکھا گیا۔ اس تنظیم میں ناصیف الیازجی،بطرس البستانی کو، جو لبنان کے عیسائی تھے ، عربی ہونے کے ناطے ممبر بنایا گیا ، اس کے علاوہ دو امریکی یعنی ایلی سمتھ اور کورنیلیئس وان ڈائک اور ایک انگریز کرنل چرچل اس کے ممبر تھے۔ آغاز میںاِس ایسوسی ایشن کے مقاصد غیر واضح اور مبہم تھے، یہ جمعیت اونچے درجے کی کلاسوں کو سائنس پڑھاتی تھی اور کچھ بچوں کو سائنس کی تعلیم د ے رہی تھی، اصل میں یہ ایسوسی ایشن اُن طلباء کو مغربی ثقافت سیکھنے کرنے کی ترغیب دیا کرتی تھی اور اپنے ایجنڈے کے مطابق بچوں اور بڑوں دونوں کی فکر کو متاثر کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ ان کی اس بھرپور کوشش کے باوجود پورے بلادِ شام سے یہ لوگ کل پچاس ممبر ہی بنا پائے اور اس میں بھی اُنہیں دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ یہ سارے کے سارے ممبر عیسائی تھے اور زیادہ تر بیروت شہر کے رہنے والے تھے، ان میں کوئی بھی مسلمان یا دروز شامل نہیں ہوا تھا۔ پس ان کی کاوشیں رنگ نہ لا سکیں اور بالآخر یہ ایسوسی ایشن اپنے قائم ہونے کے پانچ سال بعد ہی ختم ہو گئی۔ لیکن مشنریوں میں اسی قسم کی اور ایسوسی ایشنز بنانے کا جذبہ ختم نہیں ہواتھا۔ 1850ء میں فرانسیسی یسوعی مشنری ہنری دوبنیئر کی قیادت میں ایک اور ایسوسی ایشن شروع کی گئی جس کا نام جمعیت الشرقیہ رکھا گیا۔ یہ بھی جمعیتِ علوم و فنون کی طرز پر تھی اور یہ بھی طویل عرصہ چل نہ سکی۔ اِن کے علاوہ اس قسم کے اور تجربات کئے گئے، چنانچہ متعدد جمعیات قائم کی گئیں لیکن وہ سب کی سب لاحاصل رہیں۔ 1857ء میں ایک اور ایسوسی ایشن قائم کی گئی جو پچھلی تمام ایسوسی ایشنوں سے اس طرح مختلف تھی کہ اس کے تمام بانی اصلاً عرب تھے اور اس میں کسی بھی بیرونی شخصیت کو رکن نہیں بنایا گیا تھا اور اسی وجہ سے بعض مسلمانوں اور دروز نے اس کی رکنیت اختیار کر لی جنہیں عرب ہونے کی حیثیت سے اس جمعیت میں داخل کر لیا گیا۔ اس جمعیت کا نام'' الجمیعة العلمیة السوریة ''یعنی' سائنٹفک ایسوسی ایشن آف سیریا' رکھا گیا، چونکہ اس کے ظاہری خدوخال عربی تھے اور کوئی مغربی یا بیرونی شخص اس کا رکن نہیں تھا لہٰذا اس ایسوسی ایشن کو سابقہ تجربات کی بہ نسبت زیادہ قبولیت حاصل ہوئی اور اس نے عوام کو قدرے متاثر بھی کیا۔ اس کی سرگرمیوں کی نوعیت بھی مختلف تھی، پھر اس کی ساخت مقامی تھی، چنانچہ اس میں قریباً ایک سو پچاس افراد نے شرکت اختیار کی جن میں عرب کی نامی گرامی شخصیات بھی شامل تھیں مثلاً دروز میں سے محمد ارسلان، مسلمانوں میں سے حسین بیہم، ان کے علاوہ عرب عیسائیوں کے سبھی گروہ اس میں شامل تھے جن کے نمایاں لوگوں میں سے ابراہیم الیازجی اور ابنِ بطرس البستانی شامل تھے۔ یہ ایسوسی ایشن سابقہ ایسوسی ایشنوں کے مقابلہ میں زیادہ عرصہ تک چلی اور اس کی سرگرمیاں اس طرح ترتیب دی گئیں تھیں کہ ہر قبیل کے لوگوں کواپنے اندرسمویا جائے اور اُن میں عرب قومیت کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ اس کا خفیہ مقصداستعماری اور مشنری تھا جس پر وہ علم کے فروغ کا پردہ ڈالے ہوئی تھی اور لوگوں میں مغربی تہذیب اور ثقافت کا شوق پیدا کررہی تھی۔ 1875ء کے دوران بیروت میں ایک خفیہ ایسوسی ایشن بنائی گئی جو سیاسی فکر پر مبنی تھی۔ اس کامقصد یہ تھا کہ لوگوں میں عرب قومیت کے جذبات ابھارے جائیں۔ اس کی بنیاد رکھنے والے بیروت کے پروٹیسٹینٹ کالج سے فارغ التحصیل پانچ نوجوان تھے جنہیں مشنری اپنے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنے میں کامیاب رہے تھے اور یہ سب کے سب عیسائی تھے،پھر اس خفیہ تنظیم نے چند اورلوگوں کو اس میںشامل کیا۔ یہ تنظیم اپنے جاری کردہ پمفلٹوں اور نشر کردہ تحریروں کے ذریعے عرب قومیت کا پرچار کر رہی تھی اور عربوں کی بالخصوص شام اور لبنان کی سیاسی آزادی کی طرف دعوت دے کر رہی تھی۔ یہ تنظیم اُن لوگوں کو جو اس کے حلقۂ اثر میںآتے ایسی تربیت کرتی کہ اُن میں مصنوعی رجحانات اورعجیب خواہشات جنم لینے لگتیں۔ یہ تنظیم عربی قوم پرستی اور عربیت کی طرف دعوت دیتی تھی اور لوگوں کے دل میں خلافت ِ عثمانیہ کے متعلق کدورت پیدا کرتی تھی۔ یہ مشنری خلافتِ عثمانیہ کو اسلامی ریاست کی بجائے لوگوں میں اسے ''ترکی'' سے تعبیر کرتی ۔ یہ تنظیم ریاست کے کاموں سے دین کو بے دخل کرنے اور اعمال کے لیے عرب قومیت کو بنیاد بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس تنظیم نے عربیت کا لباس پہن رکھا تھے لیکن اس کے بانی اپنے جاری کردہ لٹریچر میں ترکی کو نشانہ بناتے تھے اوران پرخلافت کو عربوں سے غصب کر لینے ، شریعت کے احکامات سے تجاوز کرنے اور دین سے غفلت برتنے کا الزام عائد کرتے تھے۔ یہ اس ایسوسی ایشن کے قائم کرنے کے محرکات و مقاصد کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد اسلامی ریاست کے خلاف بے چینی پیدا کرنا، دین کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا اور ایسی سیاسی تحریکیںقائم کرنا تھا جن کی بنیاد غیر اسلامی ہو۔ ان تحریکوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کسی بھی شخص پر یہ حقیقت قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اِن تحریکوںکو مغربی ریاستوں نے ہی کھڑا کیاتھا، وہی اِ ن کے امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کررہی تھیں، اور وہی ان تنظیموں کا لٹریچراور نشریاتی مواد لکھتی تھیں۔ 28 جولائی 1880ء کو بیروت میں برطانوی قونصل نے اپنی حکومت کو ایک برقی تار بھیجا جس میں لکھا تھا: ''انقلابی پرچے نشر ہو گئے ہیں، لوگ اِن کے پیچھے مدحت کا ہاتھ سمجھ رہے ہیں، بہرحال حالات معمول پر ہیں،تفصیلات مراسلے کے ذریعے ''۔ یہ تار اس وقت بھیجا گیا جب اس ایسوسی ایشن نے اپنا پمفلٹ چھاپ کر بیروت کی سڑکوں پر تقسیم کیا تھا اور اسے دیواروں پر بھی آویزاں کیا تھا۔ اس تار کے بعد بیروت اور دمشق کے قونصل خانوں نے کئی خطوط اپنی حکومتوں کو ارسال کئے جن میں اِس پمفلٹ کی نقلیں بھی شامل کی تھیں۔ یہ تمام خطوط اُس ایسوسی ایشن کے کام پر رپورٹ کی مانند ہیں جسے بیروت کے پروٹیسٹینٹ کالج میں قائم کیا گیا تھا اور جس کی سرگرمیاں بلادِ شام میں ہو رہی تھیں۔ گو کہ ان جمعیتوں کا کام سارے عرب علاقوں میں ہو رہا تھا، البتہ یہ بلادِشام میںسب سے زیادہ عیاں تھا۔ اس کا ثبوت جدہ میںبرطانیہ کے کمشنر کا مراسلہ ہے جو اس نے اپنی حکومت کو لکھا تھا، جس میں درج ہے:''میرے علم میں آیا ہے کہ مکہ میں بھی کچھ دانشور ایسے ہیں جوآزادی کی باتیں کر رہے ہیں، جو کچھ میں نے سنا ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ اُن لوگوں کے پاس باقاعدہ منصوبہ ہے کہ علاقہ ٔ نجدکو دونوں نہروں کے درمیانی علاقے (یعنی جنوبی عراق) کے ساتھ ملا کر اُس پر منصورپاشا کو حاکم بنا دیا جائے ،نیز عسیراور یمن کو متحد کر کے اس پر علی بن عابد کو بٹھا دیا جائے'' ان حالات میں دلچسپی رکھنے والا برطانیہ کوئی اکیلا ملک نہیں تھا، فرانس بھی ایسے معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا۔ جیسا کہ 1882ء میں بیروت میں بسنے والے فرانسیسیوں میں سے ایک کے مراسلے سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ فرانس کو ان حالات کی کس قدر فکر اور دلچسپی تھی، یہ اس مراسلے سے ظاہر ہے: ''آزادی کے جذبات بہت زیادہ پھیل رہے ہیں، میں نے بیروت میں اپنے قیام کے دوران دیکھا کہ نوجوان بہت انہماک سے ایسی ایسوسی ایشنیںبنانا چاہتے ہیں جو ہسپتال، اسکول وغیرہ چلائیں اور اپنے علاقے کو ترقی دیں۔ یہ تحریک فرقہ واریت سے پاک ہے اور عیسائیوں کیلئے اس میں داخلہ کھلا ہے اور یہ اپنے قومی کام میں اُن پر انحصار کرتی ہے''۔ اسی طرح بغداد میں رہنے والے ایک فرانسسی شہری نے لکھا: ''جہاں پر بھی میں گیا مجھے ترکوں سے نفرت دیکھنے کو ملی اور یہ سب جگہ ایک ہی پیمانے پر تھی۔ اور ایسی ناپسندیدہ حالت سے چھٹکارا پانے کیلئے اجتماعی سرگرمیاں شروع کرنے کی سوچ اب تشکیل کے عمل میں ہے۔ میں دورافق پر عربیت کی تحریک کو ابھرتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ یہ لوگ جو اب تک مغلوب تھے، اب عالم ِ اسلام میں اپنے قدرتی مقام اوراس علاقے کی قیادت کا مطا لبہ کرنے والے ہیں '' ۔ سائنس اورمذہب کے نام پر مشنریوں کے اس حملے میں صرف امریکہ، برطانیہ اور فرانس ہی شامل نہیں تھے بلکہ اِن کے علاوہ بھی کئی غیر اسلامی ممالک ان حملوں میں شریک تھے۔ ان میں سے ایک 'زار' کی حکمرانی تلے روس تھا جس نے اپنا مشن شام بھیجا ، اسی طرح جرمنی نے راہبات(Nuns of Carodt)کا وفد بھیجا جو دوسرے مشنریوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔ اپنے ریاستی مفادات کے لحاظ سے اِن ممالک کے مشنریوں اورمغربی وفود کے سیاسی نظریات اور لائحہ عمل میں اختلاف کے باوجود ، ان کے مقاصد یکساں تھے۔ ان کے مقاصد یہ تھے: عالم ِ اسلام میں عیسائیت کی تبلیغ کرنا، مغربی تہذیب کو مشرق میں عام کرنا، مسلمانوں میں اُن کے دین کے بارے میں شکوک و شبہات کو پیدا کرکے اُن میں پھوٹ ڈالناتھا، اور یہ کہ مسلمان اپنی ہی تاریخ کوحقیر جانیں اورمغرب اور مغربی تہذیب کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ یہ تمام مشنری اسلام اور مسلمانوں سے شدید بغض و عناد رکھتے تھے، مسلمانوں کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اِنہیں دقیانوس اوربربر قوم سمجھتے تھے اور یہی سارے یورپ کی بھی سوچ تھی۔ آج عالم ِ اسلام میں ہر جگہ پھیلا کفر اور استعمار کا استحکام ان مشنریوںکے حاصل کردہ نتائج کی عکاسی کرتا ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جزاک اللہ محترم بھائی یہ مضمون بہت لمبا ہے میں اسکا نتیجہ نیچے لکھ دیتا ہوں
یہ مضمون یوحنا آباد کے واقعے کے تناظر میں لکھا ہوا ہے اور اس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے پیغام ہے
1۔عیسائیوں کے لئے پیغام
جو مسلمان تمھیں اپنے ملکوں میں رکھے ہوئے ہیں اور وہ مسلمان حکومتی سطح پر کسی عیسائی کا حقوق پوری دنیا میں غضب نہیں کر رہے جبکہ تمھارا شیطان عیسائی امریکہ حکومتی سطح پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے حقوق غضب کیے ہوئے ہے پس تم اپنے ممالک کے ساتھ غداری نہ کرنا اور مذہب کی وجہ سے اپنے ممالک کی بجائے عیسائی شیطان امریکہ یا برطانیہ یا نیٹو کا ساتھ نہ دینا ورنہ نقصان اپنا ہی کرو گے

2۔مسلمانوں کے لئے پیغام
جو عیسائی اوپر والا معاملہ کریں اور تمھارے وفادار بن کر تمھارے ملکوں میں رہیں تو تم بھی ان سے اچھا برتاو کرنا ورنہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تم جنت کی خوشبو بھی نہ پاؤ گے
لیکن جو عیسائی ایسا نہ کریں بلکہ وان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر
یعنی تمھارے دین میں طعنے دیں تمھارے ملکوں میں تمھی کو مار کر ریمنڈ ڈیوس کی طرح چلے جائیں یا ہماری بلی ہمی کو میاں کی طرح تمھارے گٹر صاف کرنے والے تمھارے داڑھی والوں کو سفاکیت سے داڑھی کی وجہ سے جلا کر پھر اس لاش کو بھی نہ چھوڑیں تو پھر تم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا کہ اس وقت یہ اسلام کے وقار کا معاملہ ہو گا اور انکے ساتھ وہی معاملہ کیا جا سکتا ہے جو اونٹوں والے مرتدوں سے کیا گیا تھا

مسلمان اور عیسائی کو نہ لڑانے کا درست مفہوم
پاکستانی طالبان کی جو پاکستانی حکومت سے لڑائی ہے اس میں ایک طرف حکومتی مسلمان افواج ہیں اور دوسری طرف مسلمان طالبان ہیں پس یہاں دونوں طرف مسلمانوں کو لڑایا جا رہا ہے جو مسلمان اور عیسائی کی لڑائی سے ہزار گنا زیادہ خطرناک ہے جس کا سبب بھی یہی آپ کے مضمون میں بتائے گئے کافر عیسائی اور انڈیا بن رہے ہیں جس پر سوچنا بہت ضروری ہے لیکن کبھی یہ لڑائی ناگزیر ہو جاتی ہے جیسے پاکستان میں لڑائی ہے کیونکہ اس سے اور بڑی بڑی چیزوں کو بچایا جا رہا ہوتا ہے پس یوحنا آباد والے عیسائی ہمارے خیال میں ان طالبان سے ہزار گنا زیادہ بڑے دہشت گرد ہیں اور انکی تکہ بوٹی کرنے میں ہی اسلام کا وقار بچے گا البتہ وہ تکہ بوٹی ہم نہ کر سکتے ہیں اور نہ کرنا چاہئے کیوں کہ ہم پاکستان کے قانون کے پابند ہیں البتہ اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ اللہ کسی فاسق فاجر یا گناہ گار بندے سے یہ کام نہیں کروا سکتا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کے بارے اللہ نے کہا تھا کہ انا کفیناک المستھزئین اور پھر کسری کا حال اسکے بیٹے سے ہی کیا کروایا تھا اسی طرح جو کوئی بھی ان گستاخان اسلام کی آئندہ تکہ بوٹی کرے گا چاہے وہ طالبان یا القائدہ ہو ہمارا دل اس پر اسی طرح خوش ہو گا جس طرح غلام احمد بلور نے کہا تھا کہ اگر طالبان یا القائدہ بھی قرآن اور رسول کے گستاخؤں کو مارے گی تو اسکو بھی انعام دے گا اور پھر فرانس میں چارلی کو مارنے والوں کے لواحقین کو انعام دینے کا اعلان بھی ابھی کیا ہے اسی طرح صحابہ کا دل روم اور فارس کی جنگ میں فارس کو مار پڑنے پر خوش ہوا تھا جس کی گواہی قرآن نے دی ہے واللہ اعلم
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
جبکہ تمھارا شیطان عیسائی امریکہ حکومتی سطح پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے حقوق غضب کیے ہوئے ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ تمام سياسی، سفارتی اور دفاعی ضروريات کو نظرانداز کر کے مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسی ترتيب دے اور اور اسی بنياد پر ملکی مفاد کے فيصلے کرے۔ اردو فورمژ پر اکثر دوست يہ راۓ ديتے ہيں کہ امريکہ عالم اسلام کا دشمن ہے اور پاکستان کے ساتھ امريکہ کے تعلقات کی نوعيت اسی اسلام دشمنی سے منسلک ہے۔ اسی مفروضے کو بنياد بنا کر سياسی سطح پر ہر واقعے، معاہدے اور ملاقات کو "امريکہ کی اسلام کے خلاف سازشيں" کے تناظر ميں ديکھا جاتا ہے۔


اگر مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسي کا مفروضہ درست ہوتا تو پاکستان کے صرف مسلم ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ اسی طرح امريکہ کے بھی تمام غير مسلم ممالک کے ساتھ بہترين سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ ليکن ہم جانتے ہيں کہ ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ مسلم ممالک کے مابين بھی سفارتی تعلقات کی نوعيت دو انتہائ حدوں کے درميان مسلسل تبديل ہوتی رہتی ہے۔ امريکہ کے کئ مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات استوار ہيں۔ يہ بھی ايک حق‍یقت ہے کہ دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت زمينی حقائق کی روشنی ميں کبھی يکساں نہيں رہتی۔


عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق راۓ کیا جاۓ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ يہ کيسے ممکن ہے کہ امريکہ درجنوں اسلامی ممالک ميں ايک بلين سے زائد مسلمانوں کو دشمن قرار دے اور صرف اسی غير منطقی مفروضے کی بنياد پر خارجہ پاليسی کے تمام امور کے فيصلے کرے۔


اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ دنيا پر ايک خاص سوچ يا مذہب کے بارے ميں ايک راۓ رکھتے ہيں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کريں گے۔


امريکہ کے اندر اس وقت 1200 سے زائد مساجد اور سينکڑوں کی تعداد ميں اسلامی سکول ہيں جہاں اسلام اور عربی زبان کی تعليم دی جاتی ہے۔ امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے قرآن پاک کو انسانی تاريخ ميں ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔ قرآن پاک کے اسی نادر نسخے پر کانگريس کے مسلم رکن کيتھ ايليسن نے حلف اٹھايا تھا۔


مسلمانوں کو بحثيت مجموعی امريکی ميں کبھی اجتماعی سطح پر نسلی امتياز اور تفريق کا سامنا نہيں کرنا پڑا جيسا کہ کچھ اور طبقات کو کرنا پڑا ہے۔ امريکہ ميں سياہ فام افريقيوں کو ايک طويل جدوجہد کے بعد اپنے آئينی حقوق ملے تھے۔ خواتين کو ووٹ کا اختيار صرف ايک صدی پرانی بات ہے۔ اسی طرح پرل ہاربر کے واقعے کے بعد امريکہ ميں مقيم جاپانيوں کو باقاعدہ کيمپوں ميں قيد کيا گيا تھا جس کے بعد امريکہ دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا۔ اس کے مقابلے ميں مسلمانوں کو گيارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس ردعمل کا سامنا نہيں کرنا پڑا جس کی مثال ماضی ميں ملتی ہے حالانکہ 11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث افراد نہ صرف يہ کہ مسلمان تھے بلکہ انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے مذہب کا سہارا بھی ليا تھا۔ اس کے باوجود امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آۓ تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔


آج بھی چند مواقع پرکانگريس کے سيشن کے آغاز ميں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے اہم رہنماؤں کو کسی متعلقہ معاملے ميں مسلمانوں کا نقطہ نظر کانگريس کی مختلف کميٹيوں کے سامنےپيش کرنے کے ليے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ مسلمان ہر لحاظ سے امريکی معاشرے کا حصہ ہيں۔ ان کے پاس بھی معاشرتی حقوق اور ذمہ دارياں ہيں جو وہ بخوبی انجام ديتے ہيں۔


ليکن اس کے باوجود امريکہ اور اسلام کے تعلقات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھاۓ جاتے ہيں۔ عام طور پر يہ سوالات جذبات کا اظہار اور الزامات کی شکل ميں ہوتے ہيں۔ مثال کے طور پر – امريکہ عالم اسلام کے خلاف جنگ کيوں کر رہا ہے؟ کيا مشرق وسطی ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت نہيں کا امريکہ تہذيبوں کی جنگ کو فروغ دے رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب ميں ميرا بھی ايک سوال ہے کہ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟


ميرے نزديک يہ نقطہ بھی نہايت اہم ہے کہ امريکہ ميں اسلام کے تيزی سے پھيلنے کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ ميں مقيم بہت سے تعليم يافتہ مسلمانوں نے اپنے مثالی طرز عمل اور برداشت کی حکمت عملی کے ذريعے غير مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کيا ہے۔


آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 
Top