محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۰ۣ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۲۵ قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶
قاعدہ ہے ایک باعروج قوم اپنے تمدن وتہذیب پر قانع ہوتی ہے۔قرآن حکیم میں بطور دعا کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ مالک الملک صرف خدا ہے جس کی بادشاہتیں ہمیشہ رہیں گی۔ جس کے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے۔ وہ جسے چاہے اور نگ واقلیم کا مالک بنادے اور جس سے چاہے تاج ونگیں چھین لے۔ عزت وذلت صرف اس کے قبضے میں ہے، اس لیے کوئی تاجور اس کا انکار نہ کرے اور حکومت کے نشے میں احکم الحاکمین کی بادشاہت کو تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے کہ وہ پل بھر میں حکومت کے تختے کو الٹ سکتا ہے ۔ اس کی قدرت کے یہ ادنیٰ کرشمے ہیں کہ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں اور نمرودوں کو غرق وہلاک کردے۔
اسی طرح غلام ومفلس اپنے مقدر سے مایوس نہ ہوںکہ وہ پستیوں کو بلندیوں میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ وہ خارستان کو ابررحمت کے چند قطروں سے باغ ارم بنا سکتا ہے اور اسکی دلیل لیل ونہار کے اختلاف میں ظاہر ہے ۔ دیکھ لو کس طرح دن کی روشنی رات کی تاریکی میں تبدیل ہوجاتی ہے او ر کس طرح شب دیجور کی گود میں خورشید تاباں کھیلنے لگتا ہے اورپھر کس طرح ایک قطرۂ آب حیوان ناطق بن جاتا ہے ۔
غرض کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اورمالکوں کا مالک ہے۔ سب اس کی چاکری کا اعتراف کرتے ہیں۔ پس یہودی اپنے مال ودولت پر نہ اترائیں کہ خدا انھیں فقر وذلت کے مصائب میں مبتلا کرسکتا ہے اور مسلمان نہ گھبرائیں کہ خدا ان کی مایوسیوں کو امیدوں اور کامرانیوں میں بدل سکتا ہے ۔ یہ انداز بیان کتنا خدا پرستانہ اور موحدانہ ہے ۔ کس قدر مؤثر اور دل پذیر ہے؟
مقصد یہ ہے کہ لوگ غلط فہمی میں نہ رہیں اور اللہ تعالیٰ کی بے انداز قدرتوں کا اعتراف کریں۔ یہ کہ حکومت وعزت صرف خدا کی دین ہے اور اس میں ہمارے کسب واختیار کو کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کے حصول کے لیے قواعد بنارکھے ہیں۔
ان کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے۔ عزت وغلبہ اور حکومت واختیار یونہی بلامحنت حاصل ہونے والی چیزیں نہیںبلکہ یہ موقوف ہیں حاکمانہ اخلاق کے حصول پر۔ اسی طرح غلامی ونکبت کے لیے بھی اسباب ہیں، البتہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پستی سے اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسے اسباب کے حصول کی جو ضروری ہیں انھیں توفیق دے دیتے ہیں۔
بھلا اس وقت کیا ہوگا جب ہم ان کو اس دن جمع کریں گے جس میں کچھ بھی شبہ نہیں اورہرشخص اپنے اعمال کا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔(۲۵) تو کہہ اے اللہ! اے ملک کے مالک! تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اورتو ہرشے پر قادر ہے۔۱؎(۲۶)
۱؎ یہودیوں کو اپنے مال ودولت پر فخر تھا۔ مدینہ اور آس پاس کی بستیاں ان کے اقتدا ر میں تھیں، اس لیے وہ فاقہ مست مسلمانوں کی طرف کوئی توجہ نہ دیتے۔مالک الملک
قاعدہ ہے ایک باعروج قوم اپنے تمدن وتہذیب پر قانع ہوتی ہے۔قرآن حکیم میں بطور دعا کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ مالک الملک صرف خدا ہے جس کی بادشاہتیں ہمیشہ رہیں گی۔ جس کے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے۔ وہ جسے چاہے اور نگ واقلیم کا مالک بنادے اور جس سے چاہے تاج ونگیں چھین لے۔ عزت وذلت صرف اس کے قبضے میں ہے، اس لیے کوئی تاجور اس کا انکار نہ کرے اور حکومت کے نشے میں احکم الحاکمین کی بادشاہت کو تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے کہ وہ پل بھر میں حکومت کے تختے کو الٹ سکتا ہے ۔ اس کی قدرت کے یہ ادنیٰ کرشمے ہیں کہ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں اور نمرودوں کو غرق وہلاک کردے۔
اسی طرح غلام ومفلس اپنے مقدر سے مایوس نہ ہوںکہ وہ پستیوں کو بلندیوں میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ وہ خارستان کو ابررحمت کے چند قطروں سے باغ ارم بنا سکتا ہے اور اسکی دلیل لیل ونہار کے اختلاف میں ظاہر ہے ۔ دیکھ لو کس طرح دن کی روشنی رات کی تاریکی میں تبدیل ہوجاتی ہے او ر کس طرح شب دیجور کی گود میں خورشید تاباں کھیلنے لگتا ہے اورپھر کس طرح ایک قطرۂ آب حیوان ناطق بن جاتا ہے ۔
غرض کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اورمالکوں کا مالک ہے۔ سب اس کی چاکری کا اعتراف کرتے ہیں۔ پس یہودی اپنے مال ودولت پر نہ اترائیں کہ خدا انھیں فقر وذلت کے مصائب میں مبتلا کرسکتا ہے اور مسلمان نہ گھبرائیں کہ خدا ان کی مایوسیوں کو امیدوں اور کامرانیوں میں بدل سکتا ہے ۔ یہ انداز بیان کتنا خدا پرستانہ اور موحدانہ ہے ۔ کس قدر مؤثر اور دل پذیر ہے؟
مقصد یہ ہے کہ لوگ غلط فہمی میں نہ رہیں اور اللہ تعالیٰ کی بے انداز قدرتوں کا اعتراف کریں۔ یہ کہ حکومت وعزت صرف خدا کی دین ہے اور اس میں ہمارے کسب واختیار کو کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کے حصول کے لیے قواعد بنارکھے ہیں۔
ان کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے۔ عزت وغلبہ اور حکومت واختیار یونہی بلامحنت حاصل ہونے والی چیزیں نہیںبلکہ یہ موقوف ہیں حاکمانہ اخلاق کے حصول پر۔ اسی طرح غلامی ونکبت کے لیے بھی اسباب ہیں، البتہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پستی سے اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسے اسباب کے حصول کی جو ضروری ہیں انھیں توفیق دے دیتے ہیں۔