• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماهِ محرم كی شرعی اور تاريخی حيثيت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آزمائشیں دنیا کی امامت اور حیات جاودانی بخشتی ہیں:
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا دار البلاء اور امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں ہر نبی اور امت پر کٹھن وقت آئے ہیں صرف بنی اسرائیل ہی کو لیجئے۔ ان پر کس قدر آزمائشیں آئیں؟ کس قدر انبیاء بے دریغ قتل کئے گئے؟ کتنے معصوم بچے ذبح ہوئے؟ جس کا اعتراف قرآن کریم نے بھی کیا ہے:
وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ
یعنی اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی
ہمارے نبی ﷺ فداہ ابی و امی، اہل بیت، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف و خلف میں ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
بعثت سے لے کر واقعہ کربلا اور پھر کربلا سے لے کر اب تک اسلامی تاریخ کا کونسا ایسا ورق ہے جو اس قسم کے دِل ہلا دینے والے واقعات سے خالی ہو؟ نبی ﷺ کی مکی زندگی اور اسلام قبول کرنے والوں کے دل دوز حالات اور پھر مدنی زندگی اور حق و باطل کے معرکے کس قدر جگر سوز ہیں۔ کیا شہادت حمزہؓ، شہادتِ عمرؓ، شہادتِ عثمانؓ، شہادتِ علیؓ، شہادت عبد اللہ بن زبیرؓ اور شہادت جگر گوشۂ رسول ﷺ حسینِ کے لرزہ خیز حالات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ لیکن یہی آزمائشں تو انہیں امامت کے منصب پر فائز کرتی ہیں اور حیات جاودانی بخشتی ہیں۔
قرآن مجید میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا کی امامت آزمائشوں میں کامرانی کے بعد ہی ملی تھی۔ ارشاد ہے:
وَاِذِ ابْتَلٰيْٓ اِبْرَاھِيْمَ رَبُّهُ بِكَلِمٰتٍ فَاَتمَّھُنَّ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلْنَّاسِ اِمَامًا
یعنی ہم نے اپنے بندے ابراہیم کو چند آزمائشوں سے گزارا، وہ ان میں پورے اترے تو ہم نے کہا (اے ابراہیم) ہم آپ کو دنیا کا امام بنا رہے ہیں۔ (البقرہ: ۱۲۴)
ترمذی میں ہے:
’’ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ظالم نے لوگ باندھ کر قتل کیے وہ ایک لاکھ بیس ہزار تھے (جن میں سے بیشتر صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین تھے)‘‘
اور مسلم میں ہے کہ:
’’حجاج نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو کئی روز تک سولی پر لٹکائے رکھا۔ لوگ آتے اور ان کا درد ناک انجام دیکھ کر گزر جاتے، جب عبد اللہ بن عمرؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو کہنے لگے۔ میں نے تجھے کئی بار منع کیا تھا۔ تین بار کہا۔ پھر فرمایا۔ خدا کی قسم!
جہاں تک مجھے علم ہے تو بہت روزے رکھنے والا، بہت قیام کرنے والا اور بہت صلہ رحم تھا۔ خبردار! جو امت تجھ کو برا سمجھتی ہے بُری امت ہے! حجاج بن یوسف کو جب یہ خبر پہنچی تو ابن زبیرؓ کی نعش کو وہاں سے اتروا کر اسے بے گور و کفن یہود کے قبرستان میں پھینک دیا۔ پھر ان کی والدہ اسماءؓ، بنت ابی بکر الصدیقؓ کو بلایا۔ وہ نہ آئیں تو دوبارہ آدمی بھیجا اور کہا کہ آجا! ورنہ ایسے آدمی بھیجوں گا جو تجھے چوٹی (میڈیوں) سے پکڑ کر گھسیٹ کر لائیں گے۔ اسماءؓ نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تو ایسے آدمی نہ بھیجے جو مجھے زمین پر گھسیٹ کر تیرے پاس لائیں میں نہیں آؤں گی۔ پھر حجاج غصہ میں اُٹھا اور الٹا جوتا پہن کر تکبر سے اسماءؓ کے پاس آیا اور کہا تو نے دیکھا لیا، میں نے اللہ کے دشمن (تیرے بیٹے عبد اللہ) کے ساتھ کیسا کیا ہے؟ حضرت اسماء نے جواب دیا، میں نے دیکھا لیا کہ تو نے اس کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت تباہ کر دی۔ نیز فرمایا،میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے عبد اللہؓ کو ’’دو آزار بند والی کا بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ خدا کی قسم! واقعی میرے دو آزار بند تھے، ایک سے میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکرؓ کا کھانا باندھتی تھی جس وقت کہ وہ غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے۔ دوسرا وہی جو عورتوں کے لئے ہوتا ہے، پھر حضرت اسماء نے کہا: گوش ہوش سے سن لے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا تھا کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مفسد ہو گا۔ کذاب تو میں پہلے دیکھ چکی ہوں اور مفسد تو ہی ہے۔ پس وہ لاجواب ہو کر چلا گیا۔‘‘
اسی طرح اپنوں ہی نے حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث اور نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ کو میدانِ کربلا میں جس طرح تختہ مشق بنایا اور بے جگری سے شہید کیا، سن کر پتا پانی ہوتا ہے۔
غرضیکہ دنیا آزمائشوں کا گھر اور حق و باطل کا میدان کار زار ہے۔ اس میں خدا پرستوں پر اللہ کے دین کی خاطر اسی طرح کے مصائب و آلام کی بارش ہوا کرتی ہے جس سے وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ دکھ اور الم کی لہروں کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل ڈرتے ہیں، نہ پاؤں ڈگمگاتے ہیں بلکہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے اعتبار سے ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹا کرتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوحہ اور ماتم بزرگانِ ملّت کی تعلیم کے خلاف اور ان کے مشن کی توہین ہے:
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ ان کے خلفاء اور ورثاء بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔ نہ کسی نے آہ و فغاں کیا، نہ کسی نے ان کی برسی منائی نہ چہلم، نہ روئے نہ پیٹے، نہ کپڑے پھاڑے، نہ ماتم کیا اور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہ یہ خرافات سات آٹھ سو سال بعد تیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روح اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلمانوں کے لئے استہزاء کا ساماں ہیں۔ اسلام تو ہمیں صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور ’’بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ‘‘ (صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو) کا مژدہ سناتا ہے۔
اَلَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوحہ اور ماتم کی مذمت زبان رسالتﷺ سے:
نوحہ اور ماتم کی مذمت کے سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث نبوی سے استدلال کیا جا سکتا ہے بلکہ شیعہ حضرات کی بعض معتبر کتابوں سے ان کی ممانعت ثابت کی جا سکتی ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر اس صحبت میں ہم صرف دو فرمان نبوی پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔
نمبر1۔
قال رسول اللہ ﷺ لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیہ (بخاری و مسلم)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
نمبر2۔
قال رسول اللہ ﷺ انا بریٔ من حلق و صلق وخرق (بخاری و مسلم)
آپ نے فرمایا جو شخص سر منڈوائے، بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے میں اس سے بیزار ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ماہِ محرم کے چند تاریخی واقعات:
اب آخر میں وہ چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں جو ماہِ محرم میں وقوع پذیر ہوئے لیکن آج عوام میں امام حسینؓ کی شہادت کے علاوہ ان کی یادیں طاق نسیاں میں رکھی رہتی ہیںَ اگرچہ ان کے ذِکر سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ
شہادتِ حسینؓ کی طرح ان کی بھی یادیں منائی جائیں کیونکہ جیسا کہ میں پہلے ذِکر کر چکا ہوں کہ اگرچہ اسلام ان واقعات کی اہمیت اپنی جگہ تسلیم کرتا ہے اور ان کی عظمت کی یاد دہانی بھی ضروری سمجھتا ہے تاکہ ان کا کردار ہمیں جذبۂ قربانی اور شوق شہادت دے اور جن موقعوں پر مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی یا ظلم و ستم سے نجات حاصل کی ان کے ذِکر سے ہماری تثبیتِ قلبی ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر سکیں لیکن وہ اس عظمت میں لیل و نہار کا کسی طرح کا دخل تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی عظمت میں انہیں شریک کار بناتا ہے۔
بلکہ میرا مقصد تاریخی یاد داشتوں کی حیثیت سے ان کا ذِکر ہے۔
دو جلیل القدر صحابیوں، بطل جلیل امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور گوشۂ جگر رسول ﷺ سید شباب المسلمین حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے جو بالترتیب یکم محرم اور دس محرم الحرام کو واصل بحق ہوئے اور ابتدائے آفرینش سے لے کر بعثت رسول ﷺ تک چیدہ چیدہ واقعات درج ذیل ہیں:
نمبر1:
آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے ان کی قوم کے ہتھکنڈوں سے اسی ماہ میں نجات ملی اور طوفانِ نوح میں مجرم کیفرِ کردار کو پہنچے۔
نمبر2:
ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارِ نمرود اسی ماہ میں گلزار بنی اور نمرود اور اس کے ایجنٹوں کی کوششیں اکارت گئیں۔
نمبر3:
موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے دس محرم (عاشوراء) کو نجات ملی اور فرعون اور اس کی فوج غرقاب ہوئی۔
اس قسم کے بہت سے دیگر معرکہ ہائے حق و باطل تھے جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق کو کامیابی نصیب ہوئی اور باطل خائب و خاسر ہوا۔ اگر ان شخصیتوں سے ہمارا بھی کوئی دینی اور روحانی تعلق ہے اور اسی حق میں ہم پیروکار ہیں جس کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور جابر و ظالم بادشاہوں سے ٹکر لی تو ہمیں جہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن الخطاب کی شہادت کا غم ہے وہاں ان چند واقعات پر خوش بھی ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے حق کی مدد فرما کر اسلامی تاریخ کو ایسا تابناک بنایا اور ہمارے اسلاف کو اسی حق کی خاطر ثابت قدم فرما کر دین کا بول بالا کیا۔
ہمیں چاہئے کہ ان واقعات سے اچھا سبق لیں اور ان بزرگوں کی زندگیوں سے دینِ الٰہی کی خاطر ہر قسم کی جدوجہد کا نمونہ حاصل کریں۔ حتیٰ کہ اگر اس راہ میں اپنے جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ ان واقعات کی یہی روح اور یہی ان بزرگوں کا مشن تھا۔ یہی راستہ دارین کی فوز و فلاح کا ضامن ہے اور یہی ان سے اظہارِ محبت کا طریقہ ہے۔
محرم کے مروجہ رواجات و رسوماتِ ماتم، مرثیہ خوانی، مجالس عزاء، تعزیہ داری، علم دلدل، مہندی تابوت، لباسِ غم پہننا، امام حسین کے نام کی سبیلیں لگانا، ان کے نام کی نذر و نیاز دینا اور مالیدہ چڑھانا شرعاً ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان ائمہ کے مشن سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نہ ہی ان کے خلاء و ورثاء محبین مخلصین کا یہ وطیرہ تھا او نہ ہی یہ سب کچھ ان سے اظہارِ عقیدت کا ذریعہ ہے۔

مراد ما نصیحت بود گفتمیم
حوالت با خدا کریم رفتیم
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح رستہ پر چلائے اور بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
 
Top