- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
آزمائشیں دنیا کی امامت اور حیات جاودانی بخشتی ہیں:
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا دار البلاء اور امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں ہر نبی اور امت پر کٹھن وقت آئے ہیں صرف بنی اسرائیل ہی کو لیجئے۔ ان پر کس قدر آزمائشیں آئیں؟ کس قدر انبیاء بے دریغ قتل کئے گئے؟ کتنے معصوم بچے ذبح ہوئے؟ جس کا اعتراف قرآن کریم نے بھی کیا ہے:
اور مسلم میں ہے کہ:
’’حجاج نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو کئی روز تک سولی پر لٹکائے رکھا۔ لوگ آتے اور ان کا درد ناک انجام دیکھ کر گزر جاتے، جب عبد اللہ بن عمرؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو کہنے لگے۔ میں نے تجھے کئی بار منع کیا تھا۔ تین بار کہا۔ پھر فرمایا۔ خدا کی قسم!
غرضیکہ دنیا آزمائشوں کا گھر اور حق و باطل کا میدان کار زار ہے۔ اس میں خدا پرستوں پر اللہ کے دین کی خاطر اسی طرح کے مصائب و آلام کی بارش ہوا کرتی ہے جس سے وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ دکھ اور الم کی لہروں کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل ڈرتے ہیں، نہ پاؤں ڈگمگاتے ہیں بلکہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے اعتبار سے ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹا کرتے ہیں۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا دار البلاء اور امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں ہر نبی اور امت پر کٹھن وقت آئے ہیں صرف بنی اسرائیل ہی کو لیجئے۔ ان پر کس قدر آزمائشیں آئیں؟ کس قدر انبیاء بے دریغ قتل کئے گئے؟ کتنے معصوم بچے ذبح ہوئے؟ جس کا اعتراف قرآن کریم نے بھی کیا ہے:
ہمارے نبی ﷺ فداہ ابی و امی، اہل بیت، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف و خلف میں ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ
یعنی اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی
قرآن مجید میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا کی امامت آزمائشوں میں کامرانی کے بعد ہی ملی تھی۔ ارشاد ہے:بعثت سے لے کر واقعہ کربلا اور پھر کربلا سے لے کر اب تک اسلامی تاریخ کا کونسا ایسا ورق ہے جو اس قسم کے دِل ہلا دینے والے واقعات سے خالی ہو؟ نبی ﷺ کی مکی زندگی اور اسلام قبول کرنے والوں کے دل دوز حالات اور پھر مدنی زندگی اور حق و باطل کے معرکے کس قدر جگر سوز ہیں۔ کیا شہادت حمزہؓ، شہادتِ عمرؓ، شہادتِ عثمانؓ، شہادتِ علیؓ، شہادت عبد اللہ بن زبیرؓ اور شہادت جگر گوشۂ رسول ﷺ حسینِ کے لرزہ خیز حالات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ لیکن یہی آزمائشں تو انہیں امامت کے منصب پر فائز کرتی ہیں اور حیات جاودانی بخشتی ہیں۔
’’ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ظالم نے لوگ باندھ کر قتل کیے وہ ایک لاکھ بیس ہزار تھے (جن میں سے بیشتر صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین تھے)‘‘وَاِذِ ابْتَلٰيْٓ اِبْرَاھِيْمَ رَبُّهُ بِكَلِمٰتٍ فَاَتمَّھُنَّ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلْنَّاسِ اِمَامًا
یعنی ہم نے اپنے بندے ابراہیم کو چند آزمائشوں سے گزارا، وہ ان میں پورے اترے تو ہم نے کہا (اے ابراہیم) ہم آپ کو دنیا کا امام بنا رہے ہیں۔ (البقرہ: ۱۲۴)
ترمذی میں ہے:
اور مسلم میں ہے کہ:
’’حجاج نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو کئی روز تک سولی پر لٹکائے رکھا۔ لوگ آتے اور ان کا درد ناک انجام دیکھ کر گزر جاتے، جب عبد اللہ بن عمرؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو کہنے لگے۔ میں نے تجھے کئی بار منع کیا تھا۔ تین بار کہا۔ پھر فرمایا۔ خدا کی قسم!
اسی طرح اپنوں ہی نے حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث اور نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ کو میدانِ کربلا میں جس طرح تختہ مشق بنایا اور بے جگری سے شہید کیا، سن کر پتا پانی ہوتا ہے۔جہاں تک مجھے علم ہے تو بہت روزے رکھنے والا، بہت قیام کرنے والا اور بہت صلہ رحم تھا۔ خبردار! جو امت تجھ کو برا سمجھتی ہے بُری امت ہے! حجاج بن یوسف کو جب یہ خبر پہنچی تو ابن زبیرؓ کی نعش کو وہاں سے اتروا کر اسے بے گور و کفن یہود کے قبرستان میں پھینک دیا۔ پھر ان کی والدہ اسماءؓ، بنت ابی بکر الصدیقؓ کو بلایا۔ وہ نہ آئیں تو دوبارہ آدمی بھیجا اور کہا کہ آجا! ورنہ ایسے آدمی بھیجوں گا جو تجھے چوٹی (میڈیوں) سے پکڑ کر گھسیٹ کر لائیں گے۔ اسماءؓ نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تو ایسے آدمی نہ بھیجے جو مجھے زمین پر گھسیٹ کر تیرے پاس لائیں میں نہیں آؤں گی۔ پھر حجاج غصہ میں اُٹھا اور الٹا جوتا پہن کر تکبر سے اسماءؓ کے پاس آیا اور کہا تو نے دیکھا لیا، میں نے اللہ کے دشمن (تیرے بیٹے عبد اللہ) کے ساتھ کیسا کیا ہے؟ حضرت اسماء نے جواب دیا، میں نے دیکھا لیا کہ تو نے اس کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت تباہ کر دی۔ نیز فرمایا،میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے عبد اللہؓ کو ’’دو آزار بند والی کا بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ خدا کی قسم! واقعی میرے دو آزار بند تھے، ایک سے میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکرؓ کا کھانا باندھتی تھی جس وقت کہ وہ غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے۔ دوسرا وہی جو عورتوں کے لئے ہوتا ہے، پھر حضرت اسماء نے کہا: گوش ہوش سے سن لے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا تھا کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مفسد ہو گا۔ کذاب تو میں پہلے دیکھ چکی ہوں اور مفسد تو ہی ہے۔ پس وہ لاجواب ہو کر چلا گیا۔‘‘
غرضیکہ دنیا آزمائشوں کا گھر اور حق و باطل کا میدان کار زار ہے۔ اس میں خدا پرستوں پر اللہ کے دین کی خاطر اسی طرح کے مصائب و آلام کی بارش ہوا کرتی ہے جس سے وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ دکھ اور الم کی لہروں کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل ڈرتے ہیں، نہ پاؤں ڈگمگاتے ہیں بلکہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے اعتبار سے ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹا کرتے ہیں۔