• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہنامہ محدث بنارس افتا نمبر ( جون تا اکتوبر 2015 )

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667

مصنف
مختلف اہل علم
ناشر
دار الترجمہ و التالیف جامعہ سلفیہ بنارس

تبصرہ
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کےاندر بصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان ر سالت سے سوال کرنے اور اس سوال کاجواب دینے کےادب آداب بھی سکھلائے ہیں ۔کتب فقہ وحدیث میں یہ بحثیں موجود ہیں او رباقاعدہ آداب المفتی والمستفتی کے نام سے کتب بھی لکھی گئیں ہیں ۔ اب عصر حاضر میں تو مفتی کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ ہر دور میں فتاووں کےاثرات دیر پار ہے ہیں ۔فتاوی کےاثرات کبھی کبھی تاریخ ساز ہوتے ہیں ۔ہندوستان میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ﷫کے فتوےکاہی اثر تھا کہ سید احمد شہید﷫ اور شاہ اسماعیل شہید﷫ کی قیادت میں مجاہدوں کی ایک تحریک اٹھی جس نےملک کو انگریزی استبداد سےنجات دلانے کےلیے کمر کس لی اور اس کی راہ کی صعوبتیں براداشت کرتے ہوئے 1831ء میں جام شہادت نوش کیا ۔ یہ اس فتویٰ کااثر تھا کہ ہندوستانیوں میں قومی شعور پیدا ہوا، ان میں آزادی کا احساس جاگا اور 1857ء میں انگریزوں کےخلاف ایک فیصلہ کن جنگ چھیڑ دی۔ہندوستان میں آزادی کےبعد افتا کافریضہ کافی اہمیت اختیار کرگیا۔لیکن ہمارا دستور آئینِ اسلام کے شرعی قوانین سے قعطا میل نہیں کھاتا ۔ افتا کے نفاذ اور اس پر عمل کی آزادی بہت ہی محدود ہوچکی ہے ۔ حکومتی عدالتیں دار الافتا کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔بر صغیر پاک وہند کےعدالتی نظام نے انصاف کےحصول کوبہت پچیدہ اوردشوار بنادیا ہے ۔پاک ہند میں دار الافتاء کی تعد اد عربی مدارس سے کم نہیں مگر افسوس کہ ان میں باہمی ربط اور ہم آہنگی نہیں ہے ۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی وتراجم کےساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہل حد یث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ زیر تبصرہ ماہنامہ ’’محدث بنارس‘‘ کاافتا نمبر ہے ۔ جس میں مجلہ کےمدیر مولانا ابو القاسم فاروقی اوران رفقا ءنے بڑی جدوجہد سے افتا کے موضوع پر پاک وہند کے 26 اہل علم کے مضامین جمع کر کے اس اشاعت خاص میں شامل کیے ہیں۔ان میں فتویٰ نویسی کی تاریخ ، مستفتی کےآداب، فتوی نویسی اور منہج سلف صالحین، عصر حاضر میں ،اسلام میں افتا کی اہمیت ، فتویٰ نویسی میں نواب صدیق حسن خاں﷫ کا مرتبہ ومقام وران کا طریقۂ استدلال وغیرہ جیسے اہم مضامین کےعلاوہ مفتیا ن جامعہ سلفیہ،بنارس، شعبہ دار الافتاء جامعہ سلفیہ ،بنارس عزائم اور منصوبے اور ہندوستان میں افتا کےموجود ہ اہل حدیث مراکزبڑے اہم مضامین ہیں ۔اس خاص نمبر میں شامل ایک مضمون بعنوان ’’علماء اہل حدیث کی اہم کتب فتاویٰ تعارف اور خصوصیات ازمولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی میں میرے خیال کے مطابق علماء اہل حدیث کے فتاویٰ جات کے تعارف میں مکمل احاطہ نہیں کیاگیا۔کیونکہ اس میں پاکستان کے ممتاز مفتیان کرام کے کتب فتاوی ٰ ( فتاوی ٰ اہل حدیث از عبداللہ محدث روپڑی ،فتاویٰ علماء اہل حدیث از مولانا سعیدی ، فتاوی ٰ حصاریہ از مولاناعبد القادر حصاری ، فتاوی ثنائیہ مدنیہ از مولانا ثناء اللہ مدنی ، فتاویٰ اصحاب الحدیث از مولانا حافظ عبدالستار حماد، فتاوی محمد یہ از مفتی عبید اللہ عفیف ،آپ کے مسائل اور ان کا حل از مبشرربانی ،احکام ومسائل از مولاناعبد المنان نورپوری ﷫ ، فتاوی ٰ راشدیہ از مولانا بدیع الدین شاہ راشدی اور مولانا زبیرعلی زئی کے فتاویٰ کے عرب شیوخ کے فتاویٰ جات کےتراجم کا بھی ذکر نہیں ہے۔اور کچھ ایسی کتب فتاویٰ کا تعارف پیش کیا ہے جن کا میرے علم کےمطابق وجود ہی نہیں ہے ۔جیسے فتاویٰ محمد اسحاق بھٹی لاہوری اور فتاویٰ صادق سیالکوٹی پاکستانی۔اس سلسلے میں اگر ماہنامہ محدث ،لاہور ،صحیفہ اہل حدیث ،کراچی، ہفت روزہ الاعتصام وغیرہ رسائل میں ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر صاحب اور مولانا رمضان یوسف سلفی آف فیصل آباد کے علماء اہل حدیث کی کتب فتاویٰ کے تعارف پر مشتمل مضامین کو سامنے رکھا جاتا تو بہتر تھا ۔بحرحال مجموعی طور ماہنامہ محدث بنارس کے ذمہ داران کی اس موضوع پر یہ ایک منفرد کاوش ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
 
Last edited:
Top