• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہِ رمضان اور غزوہ احزاب

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبیتی حفظہ اللہ نے 10-رمضان المبارک- 1434کا خطبہ جمعہ " ماہِ رمضان اور غزوہ احزاب"کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے غزوہ احزاب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دشمن ہر جانب سے حملہ آور ہونے کے بعد پیدا ہونیوالے تکلیف دہ حالات میں مسلمانوں کی امیدوں کا ذکر کیا ، اور بتلایا کہ انہی امیدوں سے دلوں کو حوصلہ ملتا ہے، پھر قرآنِ مجید اور سیرتِ حبیب کے مطابق اس غزوہ کی منظر کشی بھی کی۔​
پہلا خطبہ:
قیام و صیام کی نعمت پر اللہ ہی تعریف کا حقدار ہے، میں اسی کی حمد بیان کرتے ہوئے شکر بھی بجا لاتا ہوں اور اسی کی جانب لوٹنا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اسکا کوئی شریک نہیں اسی نے دن رات کوعقل والوں کیلئے نشانی بنایا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ہمارے نبی اور اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی نے آپکا اور مؤمنین کا دفاع کرتے ہوئے غزوہ احزاب میں کفار کو مردود کیا ، اللہ تعالی آپ پر اور آپکے بہترین صحابہ کرام پر رحمت کرے۔​
حمد و ثنا و درود کے بعد!​
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی[الأحزاب: 70، 71]​
رمضان المبارک سراپا فضائل و خیرات ہے، جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی امید کرتے ہوئے روزہ رکھا یا قیام کیا اسے اجر ضرور ملے گا، حدیثِ قدسی میں ہے: (ابن آدم کا ہر عمل اسکے لئے ہیں سوائے روزے کے ؛ وہ میرے لئے ہیں اور میں ہی اسکا بدلہ دوں گا)​
فرمانِ رسالت ہے: (روزے رکھو؛ اسکے ہم پلہ کوئی نہیں) اور فرمایا: (قیامت کے دن قرآن اور روزہ بندے کیلئے سفارش کرینگے) ایسے ہی فرمایا: (تین لوگوں کی دعا قبول ہوتی ہے: روزہ دار کی دعا، مسافر کی دعا، اور مظلوم کی دعا) ایک جگہ فرمایا: (سحری کرنے والوں پر اللہ تعالی رحمت اور فرشتے ان کیلئے دعائیں کرتے ہیں) اور فرمایا: (جنت میں ایک دروازہ ہے جسکا نام ریان ہے، قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہونگے) اسے بخاری مسلم نے بیان کیا۔​
امتِ اسلامیہ اس وقت آزمائشوں کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، اور فتنوں میں گھری ہوئی ہے، اس لئے مسلمانوں کو ثابت قدمی کی بہت ضرورت ہے، اسکے لئے پانچ سن ہجر ی میں واقع ہونے والے غزوہ احزاب یا جنگِ خندق میں ہمارے لئے کافی حوصلہ افزا باتیں ہیں، یہ انتہائی فیصلہ کن معرکہ تھا، تعداد بہت کم ، دشمن کی تعداد بہت زیادہ، تمام کے تمام اسلام کے خلاف متحد تھے، مسلمانوں سے لڑنے کیلئے سب یکجا تھے، سب کا عزم تھا کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔​
اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ ایک امت بن کر رہتی ہیں ، چاہے انکا تعلق کسی بھی دین یا علاقے سے ہو، انکے اوصاف میں یہ ہے کہ خیانت انکے مذہب کی بنیاد، دھوکہ دہی فطرت میں پیوست، مکرو فریب اور دجل انکا اوڑھنا بچھونا، اسلام کے مقابلے میں آپس میں تمام اختلافات ختم کرتے ہوئے اسلام کے خلاف محاذ آرائی کے اتحاد قائم کر لیتے ہیں، اسکے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ اور یہود و نصاریٰ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں[البقرة: 120]، اسی طرح فرمایا: وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا اور یہ لوگ تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے۔ حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر دیں۔ [البقرة: 217]​
یہ حق و باطل کے مابین جنگ تھی، اللہ کے لشکر اور شیطانی لشکر کے درمیاں مڈ بھیڑ تھی، اتحادی افواج نے مدینہ پر چڑھائی کردی اور مسلمانوں کا تقریبا ایک ماہ تک محاصرہ کئے رکھا، مسلمانوں کو بہت بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا، انہیں انتہائی سخت سردی کے موسم میں شدید بھوک پیاس کا سامنا تھا، قرآن نے اسکی منظرکشی یوں کی ہے: إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا جب وہ تمہارے اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے [10] اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور وہ بری طرح ہلا دیئے گئے۔ [الأحزاب: 10، 11]​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو بلا کر مشورہ کیا، -حالانکہ آپکو وحی الہی کے ذریعہ تائید بھی حاصل تھی- تا کہ اپنی امت کو اندازِ قیادت بتلائیں ، اور مسلمانوں کی علامت شوریٰ ہو، فرمایا: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ اور انکے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔[الشورى: 38]​
شوریٰ قائم کرنے سے تمام انسانی عقلوں کی طاقت کو جمع کیا جاسکتا ہے، اسی کی بنا پر مختلف اہل تجربہ جمع ہوسکتے ہیں، اور ہمارے سامنے مصائب سے نکلنے کیلئے مختلف آراء کا ایک نیا جہان کھل سکتا ہے، اسکے بعد اللہ پر توکل کرتے ہوئے پورے عزم کے ساتھ کسی کام میں لگنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بارے میں فرمانِ الہی ہے: فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ پھر جب آپ (کسی رائے کا) پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجئے۔ (اور کام شروع کردیجئے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے[آل عمران: 159]​
اسی مجلس شوریٰ میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خدمتِ اسلام کیلئے ایک زبردست پلاننگ کے تحت خندق کھودنے کا بہترین مشورہ دیا ، اس مشورے پر مسلمان بہت ہی خوش ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے صحابہ کرام کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول رہ کر یہ پیغام دیا کہ قائد کو عملی نمونہ ہونا چاہے اور اسے اپنے ساتھیوں کے دکھ درد، مشقت برداشت کرنے میں برابری کرنی چاہئے، چنانچہ آپ نے اپنے اس عمل سے ان کا حوصلہ بلند کیا اور ان میں روح پھونک دی، اور اپنے لئے کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔​
امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح بخاری میں بیان کیا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی کھدائی کے دوران عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار گنگنا رہے تھے،​
اللهم لولا أنت ما اهتدَينا ولا تصدَّقنا ولا صلَّينَا
یا اللہ اگر توں ہمیں توفیق نہ دیتا تو ہم کہاں سے ہدایت پاتے ، صدقہ کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے​
فأنزِلَن سكينةً علينا وثبِّتِ الأقدامَ إن لاقَينَا
یا اللہ! ہم پر سکینت نازل فرما، اور جنگ کے دوران ہمارے قدموں ثابت رکھ​
إن الأُلَى قد بغَوا علينا وإن أرادوا فتنةً أبَيْنَا
مشرکین نے ہم پر چڑھائی کا ارادہ ٹھان لیا ہے، اگر انہوں نے جنگ کی تو ہم انہیں کبھی گنجائش نہیں دینگے​
پھر مسلمان اسکے جواب میں کہتے:​
نحن الذين بايَعوا محمدًا على الإسلام ما بقِينا أبدًا
ہم ہی ہیں جنہوں نے محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-کے ہاتھ پر زندگی کے آخری سانس تک اسلام کیلئے بیعت کی ہے​
جب حالات سنگین ہوں، زخم گہرے ہوتے چلے جائیں، تو منافقین بھی اپنی اپنی بلوں سے سروں کو نکالنے لگ جاتے ہیں، اور پھر دھوکہ بازی و مکروفریب کے جال بچھائے جاتے ہیں، تا کہ مسلمانوں میں کھلبلی مچ جائےاور انکے قدم لرز جائیں، ان میں اندرونی خلفشار اور تذبذب پیدا ہو، اور آپس میں بٹ جائیں۔​
قدموں میں لرزہ اقوال یا افعال ہر طرح سے پیدا ہو سکتا ہے، اقوال کے ذریعے سنی سُنائی باتیں اڑانے سے ہوتا ہے، اور اگر ان خبروں کو بنا تصدیق کے آگے نقل کیا جائے تو یہ خلفشار پیدا کرنے کی انتہائی سنگین حالت ہے، اسکا گناہ بھی بہت بڑا ہے، اور عملی طور پر اس طرح کہ انسان دشمن سے ڈرنے لگے، اس پر خوف طاری ہوجائے، اور بے چینی کی علامات واضح ہوجائیں۔​
جب جنگی حالات انتہائی سخت ہوگئے تو منافقین نتائج سے ڈرتے ہوئے پسپائی اختیار کرنے لگے، اور ساتھ میں دشمن کی قوت و طاقت سے بھی ڈرنے لگے، اسی حالت کے بارے میں قرآن مجید نے یوں بیان دیا: وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا اور جب ان کا ایک گروہ کہنے لگا: ''یثرب والو! (آج) تمہارے ٹھہرنے کا کوئی موقعہ نہیں لہذا واپس آجاؤ'' اور ان کا ایک گروہ نبی سے (واپس جانے کی) اجازت مانگ رہا تھا اور کہتا تھا کہ: ''ہمارے گھر غیر محفوظ (لُگّے) ہیں حالانکہ ان کے گھر غیر محفوظ نہیں تھے وہ تو صرف (جنگ سے) فرار چاہتے تھے [الأحزاب: 13] قرآن نے انکی کٹ حجتی کو تار تار کر دیا، اور بتلایا کہ یہ لوگ بزدل اور حیلے بہانے کرنے والے لوگ ہیں۔​
حالات جس قدر سخت ہوں اسی قدر امت کو پر امید ہونا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلوں میں امیدوں کی بہار پیدا کرنے کیلئے نویدِ فتح ، نصرتِ الٰہی کا وعدہ بتلاتےہیں چنانچہ اس سے صحابہ کرام میں ایمان و یقین مزید بڑھ گیا، مسلمانوں کی اس کیفیت کو اللہ تعالی نے قرآن میں یوں بیان کیا: وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا اور جب مومنوں نے ان لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے:'' یہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا'' اس واقعہ نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری کو مزید بڑھا دیا۔ [الأحزاب: 22]​
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودنے کا حکم دیا، اسی دوران ایک چٹان سامنے آئی جس پر کسی کدال کا وار کار گر ثابت نہیں ہورہا تھا، صحابہ کرام نےآپکو اس بارے میں اطلاع دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال پکڑا، اور فرمایا: "بسم اللہ" اور ایک ضربِ کاری لگائی اور پتھر کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا، اور فرمایا: "مجھے شام کی چابیاں دے دی گئی ، اللہ کی قسم !میں سرخ محلات کو اپنی اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں" پھر "بسم اللہ"کہا اور ایک اور ضرب لگائی ، پتھر کا ایک اور حصہ ٹوٹ گیا، اور فرمایا: "اللہ اکبر! مجھے فارس کی چابیاں دے دی گئی میں مدائن کو دیکھ رہا ہوں، اور مجھے یہاں کھڑے ہوئے انکا سفید محل بھی نظر آرہا ہے"​
پھر فرمایا: "بسم اللہ" اور تیسری ضرب بھی لگائی اور پورا پتھر ٹوٹ گیا، اور فرمایا: "اللہ اکبر، مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئیں، میں صنعاء کے دروازے اپنی اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں" احمد​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام اور تمام مسلمانوں کی اس بات پر تربیت کی کہ ان تمام اسباب کو اپنانے کے بعد فتح اللہ کی جانب سے ہی ملنی ہے، جنگ اور قربانیوں کے باوجود فتح کا حکم وہیں سے آنا ہے ، فرمایا: وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فتح تو صرف اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔[آل عمران: 126]​
ہماری پلاننگ، جنگی آلات یا افرادی قوت کی بنا پر فتوحات نہیں ملتی، بلکہ ان اسباب سےملتی ہے جنہیں اللہ تعالی فتح کیلئے مسخر کردے، فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ [الأحزاب: 9]​
چاہے اہل مشرق و مغرب تمہیں ذلیل کیوں نہ کردیں فتح اللہ کی جانب سے ہی ملے گی چاہے تمہارے پاس جنگی آلات نہ ہو، افرادی قوت نہ ہو، فرمایا: إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دے تو پھر اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکے؟ لہذا مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے [آل عمران: 160]​
اللہ کے بندو!​
دعا فتوحات کی بنیاد اور اصل روح ہے؛ چنانچہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر حالات انتہائی سخت ہوگئے حتیٰ کہ کلیجہ منہ کو آنے لگا، اور محاصرے کی وجہ سے تکالیف نے جھنجوڑ کر رکھ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتحادی افواج کیخلاف بد دعا کی: «اللهم مُنزِل الكتاب، سريعَ الحساب، اهزِم الأحزاب، اللهم اهزِمهم وزلزِلهم»"یا اللہ! کتاب کو نازل کرنے والے، تیزی سے حساب لینے والے، تمام اتحادی افواج کو پچھاڑ دے، یا اللہ ! انہیں پچھاڑ دے اور انکے دموں کو ڈگمگا دے"​
اللہ تعالی نے دعا قبول کرتے ہوئے ان میں پھوٹ ڈال دی، اور ٹھندی یخ بستہ تیز ہوا چلا کر انکے دلوں پر رعب طاری کردیا، اور مسلمانوں کی مدد کیلئے اپنی طرف سے لشکر بھی نازل کئے إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا (15) وَأَكِيدُ كَيْدًا یہ لوگ ایک تدبیر کر رہے ہیں [15]اور میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں [الطارق: 15، 16]​
اللہ کے پاس ایسے لشکر ہیں جنہیں بشر جانتے نہیں اور دیکھ بھی نہیں سکتے، اسکے لشکر زمین و آسماں میں پھیلے ہوئے ہیں، اس بارے میں قرآن کہتا ہے کہ: وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ اللہ کے لشکروں کو اسکے علاوہ کوئی نہیں جانتا [المدثر: 31]، وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا اور کفار (کے لشکروں) کو اللہ تعالیٰ نے بے نیل ومرام اپنے دلوں کی جلن دلوں میں ہی لئے واپس لوٹا دیا اور لڑائی کے لئے مومنوں کی طرف سے اللہ ہی کافی ہوگیا وہ یقینا بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ [الأحزاب: 25]​
اسلامی بھائیو!​
باطل کتنا ہی بڑھ جائے ، آخر کار اس نے ذلیل وخوار تو ہونا ہی ہے، اللہ کا انداز یہ ہی ہے، اسی انداز کے بارے میں فرمایا: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ بلکہ ہم باطل پر حق کی ضرب لگاتے ہیں تو حق باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور باطل شکست کھا کر بھاگ اٹھتا ہے [الأنبياء: 18]، مزید فرمایا: وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا اور کہئے کہ: حق آگیا اور باطل بھاگ کھڑا ہوا اور باطل تو ہے ہی بھاگ نکلنے والا ہے [الإسراء: 81]​
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔​
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں، جس کی نعمتوں کے سہارے خوشیاں نصیب ہوتی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اسکے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، انہوں نے پیغامِ رسالت پہنچا کر امانت ادا کردی، امت کی خیر خواہی بھی کی، اللہ تعالی آپ پر، آپکی آل پر اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے۔​
حمداور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بعد!​
میں اپنے نفس کو اور آپ سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا [آل عمران: 102]​
ہر قصہ اور واقعہ میں کچھ لوگوں کا مرکزی قردار ہوتا ہے جنکا خاص طور پر تذکرہ کیا جاتا ہے، جو اپناعہد سچا کر دیکھاتے ہیں اور کیا ہوا وعدہ پوراکرتے ہیں، یہی لوگ فتح کیلئے قطب کا کردار ادا کرتے ہیں، ثابت قدمی کا پہاڑ بن جاتے ہیں، انہی سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، یہ دوسروں کی ہمت اور حوصلہ بھی بلند کرتے ہیں، لوگ انہیں کے اردگرد جھرمٹ لگائے رہتے ہیں ، منفی سوچ اور دل خستہ لوگوں کی ان تک رسائی نہیں ہوتی۔​
چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مؤمنین کے اتحادی افواج کا سچے ایمان کے ساتھ مقابلہ کرنے پر تعریف بھی کی اور فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے اور کوئی موقع کا انتظار کر رہاہے۔ اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ [الأحزاب: 23]​
وقتا ًفوقتا ً مسلمانوں کے خلاف اتحادی افواج کے بننے کی اللہ کے ہاں ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ مسلمان اللہ کی طرف رجوع کریں، اسی پر توکل کریں اور اسی کے سامنے عاجزی و انکساری پیش کریں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہر وقت اور ہر زمانے کیلئے ہے کہ: (اس امت کو شان وشوکت ، زمین کی حاکمیت اور ترقی کی خوشخبری دے دو)احمد​
اللہ کے بندو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے تمہیں اسی کا حکم قرآن مجید میں دیا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو[الأحزاب: 56]​
یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! خلفائے اربعہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام آل وصحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنے کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔​
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،یا اللہ ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما ۔​
یا اللہ! اپنی کتاب، سنتِ نبوی اور اپنے بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ مدد فرما،یا اللہ! یا رب العالمین! مسلمانوں کا مدد گار اور حامی و ناصر بن جا۔​
یا اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت، اور خوشحالی کا سوال کرتے ہیں۔​
یا ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔​
یا اللہ ہماری دینی اصلاح فرما تبھی ہم برائیوں سے دور رہ سکتے ہیں، اور ہماری دنیا بھی اچھی بنادے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی کر دے کہ وہیں ہم نے لوٹ کر جانا ہے، ہماری زندگیوں کو نیکیوں میں زیادتی کا باعث بنادے، اور موت کو ہر شر سے بچاؤ کا ذریعہ بنادے ۔​
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔​
یا اللہ!ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے،ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریوں کو ختم کردے۔​
یا اللہ! تمام فوت شدہ مسلمانوں کو معاف فرما، یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! قیدیوں کو بری فرما، یا اللہ! ہمارے معاملات سنبھال لے، یا اللہ! ہماری غم کشائی فرما۔​
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، اور اسے تندرستی بھی نصیب فرما، اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے۔​
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23]، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[البقرة: 201].​
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]​
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔​
لنک
 
Top