محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,861
- ری ایکشن اسکور
- 41,093
- پوائنٹ
- 1,155
ماہ ربیع الاول کى بدعات
ازقلم: احسان الہی ظہیر... متعلم مرکز اہل الحدیث ملتان
بدعت کاتعارف :بدعت لغت میں ایسى چیز کو کہتے ہیں جو تکملو دین کے بعد ایجاد کى جائے ۔یا وہ چیز جورسولﷺ کے بعدخواہشات واعمال کى صورت میں پیدا کى جائے ۔شرعى اصطلاح میں بدعت کى تعریف یہ ہے جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے:
«وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
اورکا مو ں میں سے بدترین کا م اس (اللہ اور اسکے رسولﷺ کى شریعت)میں نو ایجاد شدہ کام ہیں 'اور ہر نو ایجادشدہ کام بدعت ہے ۔بدعت ایک ایسا خطرناک عمل ہے'گنا ہ ہے جسے انسان نیکى سمجھ کر عقیدت اور محبت سے کرتا ہے ۔اس عمل سے انسان کو توبہ کى بھى توفیق نہیں ملتى کیونکہ وہ کرتا ہى نیکى سمجھ کر ہے ۔اللہ تعالى اس خطرناک عمل سے خبردار کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں : قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا * الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا› [الکہف۱۸: ۱۰۳'۱۰۴]
کہہ دیجئے!کہ کیا میں تمہیں بتا ؤں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کى محنت، کوشش سب دنیوى زندگى میں ہى ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالى نے اس آیت میں گناہ کو نیکى سمجھ کر اور اس پر مطمئن ہو کر عمل کرنے والوں کے خسارے اور برے انجام کا تذکرہ کر کے انسان کو خوب سمجھا دیا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ پھر بھى کچھ لوگ عذاب سے بچنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور اپنے اعمال وکردار کا جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بدعت کاتعارف :بدعت لغت میں ایسى چیز کو کہتے ہیں جو تکملو دین کے بعد ایجاد کى جائے ۔یا وہ چیز جورسولﷺ کے بعدخواہشات واعمال کى صورت میں پیدا کى جائے ۔شرعى اصطلاح میں بدعت کى تعریف یہ ہے جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے:
«وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
اورکا مو ں میں سے بدترین کا م اس (اللہ اور اسکے رسولﷺ کى شریعت)میں نو ایجاد شدہ کام ہیں 'اور ہر نو ایجادشدہ کام بدعت ہے ۔بدعت ایک ایسا خطرناک عمل ہے'گنا ہ ہے جسے انسان نیکى سمجھ کر عقیدت اور محبت سے کرتا ہے ۔اس عمل سے انسان کو توبہ کى بھى توفیق نہیں ملتى کیونکہ وہ کرتا ہى نیکى سمجھ کر ہے ۔اللہ تعالى اس خطرناک عمل سے خبردار کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں : قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا * الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا› [الکہف۱۸: ۱۰۳'۱۰۴]
کہہ دیجئے!کہ کیا میں تمہیں بتا ؤں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کى محنت، کوشش سب دنیوى زندگى میں ہى ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالى نے اس آیت میں گناہ کو نیکى سمجھ کر اور اس پر مطمئن ہو کر عمل کرنے والوں کے خسارے اور برے انجام کا تذکرہ کر کے انسان کو خوب سمجھا دیا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ پھر بھى کچھ لوگ عذاب سے بچنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور اپنے اعمال وکردار کا جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔