• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ شعبان: حقیقت کے آئینے میں

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
ماہ شعبان: حقیقت کے آئینے میں

مقبول احمد سلفی

ماہ شعبان بطور خاص اس کی پندرہویں تاریخ سے متعلق امت مسلمہ میں بہت سی گمراہیاں پائی جاتی ہیں اس مختصر سے مضمون میں اس ماہ کی اصل حقیقت سے روشناس کرانا چاہتا ہوں تاکہ جو لوگ صحیح دین کو سمجھنا چاہتے ہیں ان پر اس کی حقیقت واضح ہوسکے ،ساتھ ساتھ جو لوگ جانے انجانے بدعات وخرافات کے شکار ہیں ان پر حجت پیش کرکے شعبان کی اصل حقیقت پر انہیں بھی مطلع کیا جاسکے ۔
مندرجہ ذیل سطور میں شعبان کے حقائق کو دس نکات میں واشگاف کرنے کی کوشش کروں گا ،ان نکات کے ذریعہ اختصار کے ساتھ تقریبا سارے پہلو اجاگر ہوجائیں گے اور ایک عام قاری کو بھی اس ماہ کی اصل حقیقت کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا۔

پہلا نکتہ :ماہ شعبان کی فضیلت
شعبان روزہ کی وجہ سے فضیلت وامتیاز والا مہینہ ہے ، اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنے پر متعددصحیح احادیث مروی ہیں جن میں بخاری ومسلم کی روایات بھی ہیں ۔بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے :
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

اور مسلم شریف میں امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
سألتُ عائشةَ رضي اللهُ عنها عن صيامِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالت : كان يصومُ حتى نقول : قد صام . ويفطر حتى نقول : قد أفطر . ولم أرَه صائمًا من شهرٍ قطُّ أكثرَ من صيامِه من شعبانَ . كان يصومُ شعبانَ كلَّه . كان يصومُ شعبانَ إلا قليلًا .(صحيح مسلم:1156)
ترجمہ: میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔
ترمذی شریف میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
ما رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يصومُ شَهرينِ متتابعينِ إلَّا شعبانَ ورمضانَ(صحيح الترمذي:736)
ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو لگاتار دومہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے ۔
یہی روایت نسائی میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :
ما رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ يصومُ شهرينِ متتابعينِ ، إلَّا أنَّه كان يصِلُ شعبانَ برمضانَ(صحيح النسائي:2174)
ترجمہ:میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا لیکن آپ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔
ان ساری احادیث سے صرف روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے یعنی شعبان کا اکثر روزہ رکھنا اور جن روایتوں میں پورا شعبا ن روزہ رکھنے کا ذکر ہے ان سے بھی مراد شعبان کا اکثر روزہ رکھناہے ۔
اس ماہ میں بکثرت روزہ رکھنے کی حکمت پراسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
يا رسولَ اللَّهِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ(صحيح النسائي:2356)
میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی ﷺ کی اقتدا ء میں ہمیں ماہ شعبان میں صرف روزے کا اہتمام کرنا چاہئے وہ بھی بکثرت اور کسی ایسے عمل کو انجام نہیں دینا چاہئے جن کا ثبوت نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ : نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا
اوپر والی احادیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کا اکثر روزہ رکھنا مسنون ہے مگر کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
إذا بقيَ نِصفٌ من شعبانَ فلا تصوموا(صحيح الترمذي:738)
ترجمہ:جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔
اس معنی کی کئی روایات ہیں جو الفاظ کے فرق کے ساتھ ابوداؤد، نسائی ، بیہقی، احمد ، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔ اس حدیث کی صحت وضعف کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔
صحیح قرار دینے والوں میں امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز اور علامہ شعیب ارناؤط وغیرہ ہیں جبکہ دوسری طرف ضعیف قرار دینے والوں میں عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد، ابوزرعہ رازی ، امام اثرم ، ابن الجوزی ، بیہقی ، ابن معین اورشیخ ابن عثیمین وغیرہم ہیں۔
ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ، وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)
اس وجہ سے یہ روایت منکر اور ناقابل حجت ہے، اگر ممانعت والی روایت کو صحیح مان لیا جائےجیساکہ بہت سے محدثین اس کی صحت کے بھی قائل ہیں تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔
(2) جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔
(3)اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
(4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔
تیسرا نکتہ: نصف شعبان کا روزہ
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو، صحیح احادیث سے شعبان کا اکثر روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے جیساکہ اوپر متعدد احادیث گزری ہیں ۔ جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت موجب جہنم ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے سے متعلق حدیث ملتی ہے تو میں کہوں گا کہ ایسی روایت گھڑی ہوئی اور بناوٹی ہے۔ جو گھڑی ہوئی روایت کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
چوتھا نکتہ : نصف شعبان کی رات قیام
جھوٹی اور من گھرنت روایتوں کو بنیاد بناکر نصف شعبان کی رات مختلف قسم کی مخصوص عبادتیں انجام دی جاتی ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے :
إذا كانت ليلةُ النِّصفِ من شعبانَ فقوموا ليلَها ، وصوموا نَهارَها(ضعيف ابن ماجه:261)
ترجمہ: جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو۔
یہ روایت گھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ابوبکربن محمد روایتیں گھڑنے والا تھا۔
اس رات صلاۃ الفیہ یعنی ایک ہزار رکعت والی مخصوص طریقے کی نماز پڑھی جاتی ہے ، کچھ لوگ سو رکعات اور کچھ لوگ چودہ اور کچھ بارہ رکعات بھی پڑھتے ہیں ۔ اس قسم کی کوئی مخصوص عبادت نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے ۔اسی طرح اس رات اجتماعی ذکر، اجتماعی دعا، اجتماعی قرآن خوانی اور اجتماعی عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
پانچواں نکتہ : شب برات کا تصور
پندرہویں شعبان کی رات کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے ۔مثلا لیلۃ المبارکہ(برکتوں والی رات)، لیلۃ الصک(تقسیم امور کی رات )، لیلۃ الرحمۃ (نزول رحمت کی رات) ۔ ایک نام شب برات (جہنم سے نجات کی رات)بھی ہے جو زبان زد خاص وعام ہے ۔ حقیقت میں ان ناموں کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
لیلۃ المبارکہ نصف شعبان کی رات کو نہیں کیا جاتا ہے بلکہ شب قدر کو کہاجاتا ہے ،اللہ کا فرمان ہے :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{الدخان:3}
ترجمہ: یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کو لیلۃ المبارکہ یعنی لیلۃ القدر میں نازل کیا جیساکہ دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[القدر:1]
ترجمہ: ہم نے اس(قرآن) کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔
تقسیم امور بھی شب قدر میں ہی ہوتی ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات اوراسےلیلۃ الرحمۃ کہنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔ جہاں تک شب برات کی بات ہے ، تو وہ بھی ثابت نہیں ہے ، اس کے لئے جو دلیل دی جاتی ہے ضعیف ہے ۔ آگے اس حدیث کی وضاحت آئے گی ۔
چھٹواں نکتہ: نصف شعبان کی رات قبرستان کی زیارت
ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
فقَدتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ليلةً فخرجتُ فإذا هوَ في البقيعِ۔
ترجمہ : ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ کوبقیع [ قبرستان] میں پایا۔
یہ روایت نصف شعبان سے متعلق ہے ، اس حدیث کوبنیاد بناکر پندرہویں شعبان کی رات قبرستان کی صفائی ہوتی ہے ، قبروں کی پوتائی کی جاتی ہے ، وہاں بجلی وقمقمے لگائے جاتے ہیں اور عورت ومرد ایک ساتھ اس رات قبرستان کی زیارت کرتے ہیں جبکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ قبروں کی زیارت کبھی بھی مسنون ہے اس کے لئے تاریخ متعین کرنا بدعت ہے اور عورت ومرد کےاختلاط کے ساتھ زیارت کرنا ، قبر پر میلہ ٹھیلہ لگاناکبھی بھی جائز نہیں ہے ۔
ساتواں نکتہ : آتش بازی
شعبان میں جس قدر بدعات وخرافات کی انجام دہی پر پیسے خرچ کئے جاتے ہیں اگر اس طرح رمضان المبارک میں صدقہ وخیرات کردیا جاتا تو بہت سے غریبوں کو راحت نصیب ہوتی اورذخیرہ آخرت بھی ہوجاتامگر جسے فضول خرچی یعنی شیطانی کام پسند ہو وہ رمضان کا صدقہ وخیرات کہاں، شعبان میں آتش بازی کو ہی پسند کرے گا۔ ماہ شعبان شروع ہوتے ہی پٹاخے چھوڑنے شروع ہوجاتے ہیں ذرا تصور کریں اس وقت سے لیکر شعبان بھر میں کس قدر فضول خرچی ہوتی ہوگی؟۔نصف شعبان کی رات کی پٹاخے بازی کی حد ہی نہیں ، اس سے ہونے والے مالی نقصانات کے علاوہ جسمانی نقصانات اپنی جگہ ۔
آٹھواں نکتہ : مخصوص پکوان اور روحوں کی آمد
نصف شعبان کی بدعات میں قسم قسم کے کھانے ، حلوے پوری اور نوع بنوع ڈنر تیار کرنا ہے ، اسے فقراء ومساکین میں تقسیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روحیں آتی ہیں،بایں سبب ان کے لئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے ۔ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر آج حلوہ پوری نہ بنائی جائے تو روحیں دیواریں چاٹتی ہیں ۔ کھانا پکانے کے لئے تاریخ متعین کرنا اور متعین تاریخ میں فقراء میں تقسیم کرنا ، اس کھانے پرفاتحہ پڑھنا ، فاتحہ شدہ کھانامردوں کو ایصال ثواب کرنا سب کے سب بدعی امو ر ہیں ۔ اور یہ جان لیں کہ مرنے کے بعد روح دنیا میں لوٹ کر نہیں آتی ،قرآن میں متعدد آیات وارد ہیں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
کَلاَّ إِنَّها کَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها وَ مِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلي‏ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(المومنون: 100)
ترجمہ: ہرگز نہیں ، یہ بس ا
یک بات ہے جو وہ بک رہاہے اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔
نواں نکتہ : کیانصف شعبان کو اللہ آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ؟
ایک روایت بڑے زور شور سے پیش کی جاتی ہے :
ان الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن(سنن ابن ماجه :1390 ) .
ترجمہ: اللہ تعالی نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے ) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت کردیتا ہے
۔
اس حدیث کو البانی صاحب نے حسن قرار دیا ہے جبکہ اس میں مشہور ضعیف راوی ابن لہیعہ ہے اور دوسرے جمیع طرق میں بھی ضعف ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے یہ روایت آئی ہے ۔
إنَّ اللَّهَ تعالى ينزِلُ ليلةَ النِّصفِ من شعبانَ إلى السَّماءِ الدُّنيا ، فيغفرُ لأكْثرَ من عددِ شَعرِ غنَمِ كلبٍ(ضعيف ابن ماجه:262)
ترجمہ: للہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہےاور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سند میں انقطاع کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے
۔
بہرکیف! نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اللہ کے نزول کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے البتہ اس حدیث کے عموم میں داخل ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالی ہررات تہائی حصے میں آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ۔
دسواں نکتہ : پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث کا حکم
آخری نکتے میں یہ بات واضح کردوں کہ نصف شعبان کے دن یا اس کی رات سے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔قبیلہ کلب کی بکری کے بالوں کے برابر مغفرت والی حدیث، مشرک وبغض والے علاوہ سب کی مغفرت والی حدیث، سال بھر کے موت وحیات کا فیصلہ کرنے والی حدیث،اس دن کے روزہ سے ساٹھ سال اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی حدیث ، بارہ –چودہ- سو اور ہزار رکعات نفل پڑھنے والی حدیث یانصف شعبان پہ قیام وصیام اور اجروثواب سے متعلق کوئی بھی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔
اس وجہ سے پندرہ شعبان کے دن میں کوئی مخصوص عمل انجام دینا یا پندرہ شعبان کی رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔ شعبان کے مہینے میں نبی ﷺسے صرف اور صرف بکثرت روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے لہذا مسلمانوں کو اسی عمل پر اکتفا کرنا چاہئے اور بدعات وخرافات کو انجام دے کر پہلے سے جمع کی ہوئی نیکی کوبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
ماہ شعبان: حقیقت کے آئینے میں

مقبول احمد سلفی

ماہ شعبان بطور خاص اس کی پندرہویں تاریخ سے متعلق امت مسلمہ میں بہت سی گمراہیاں پائی جاتی ہیں اس مختصر سے مضمون میں اس ماہ کی اصل حقیقت سے روشناس کرانا چاہتا ہوں تاکہ جو لوگ صحیح دین کو سمجھنا چاہتے ہیں ان پر اس کی حقیقت واضح ہوسکے ،ساتھ ساتھ جو لوگ جانے انجانے بدعات وخرافات کے شکار ہیں ان پر حجت پیش کرکے شعبان کی اصل حقیقت پر انہیں بھی مطلع کیا جاسکے ۔
مندرجہ ذیل سطور میں شعبان کے حقائق کو دس نکات میں واشگاف کرنے کی کوشش کروں گا ،ان نکات کے ذریعہ اختصار کے ساتھ تقریبا سارے پہلو اجاگر ہوجائیں گے اور ایک عام قاری کو بھی اس ماہ کی اصل حقیقت کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا۔

پہلا نکتہ :ماہ شعبان کی فضیلت
شعبان روزہ کی وجہ سے فضیلت وامتیاز والا مہینہ ہے ، اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنے پر متعددصحیح احادیث مروی ہیں جن میں بخاری ومسلم کی روایات بھی ہیں ۔بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے :
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

اور مسلم شریف میں امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
سألتُ عائشةَ رضي اللهُ عنها عن صيامِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالت : كان يصومُ حتى نقول : قد صام . ويفطر حتى نقول : قد أفطر . ولم أرَه صائمًا من شهرٍ قطُّ أكثرَ من صيامِه من شعبانَ . كان يصومُ شعبانَ كلَّه . كان يصومُ شعبانَ إلا قليلًا .(صحيح مسلم:1156)
ترجمہ: میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔
ترمذی شریف میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
ما رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يصومُ شَهرينِ متتابعينِ إلَّا شعبانَ ورمضانَ(صحيح الترمذي:736)
ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو لگاتار دومہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے ۔
یہی روایت نسائی میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :
ما رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ يصومُ شهرينِ متتابعينِ ، إلَّا أنَّه كان يصِلُ شعبانَ برمضانَ(صحيح النسائي:2174)
ترجمہ:میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا لیکن آپ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔
ان ساری احادیث سے صرف روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے یعنی شعبان کا اکثر روزہ رکھنا اور جن روایتوں میں پورا شعبا ن روزہ رکھنے کا ذکر ہے ان سے بھی مراد شعبان کا اکثر روزہ رکھناہے ۔
اس ماہ میں بکثرت روزہ رکھنے کی حکمت پراسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
يا رسولَ اللَّهِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ(صحيح النسائي:2356)
میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی ﷺ کی اقتدا ء میں ہمیں ماہ شعبان میں صرف روزے کا اہتمام کرنا چاہئے وہ بھی بکثرت اور کسی ایسے عمل کو انجام نہیں دینا چاہئے جن کا ثبوت نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ : نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا
اوپر والی احادیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کا اکثر روزہ رکھنا مسنون ہے مگر کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
إذا بقيَ نِصفٌ من شعبانَ فلا تصوموا(صحيح الترمذي:738)
ترجمہ:جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔
اس معنی کی کئی روایات ہیں جو الفاظ کے فرق کے ساتھ ابوداؤد، نسائی ، بیہقی، احمد ، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔ اس حدیث کی صحت وضعف کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔
صحیح قرار دینے والوں میں امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز اور علامہ شعیب ارناؤط وغیرہ ہیں جبکہ دوسری طرف ضعیف قرار دینے والوں میں عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد، ابوزرعہ رازی ، امام اثرم ، ابن الجوزی ، بیہقی ، ابن معین اورشیخ ابن عثیمین وغیرہم ہیں۔
ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ، وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)
اس وجہ سے یہ روایت منکر اور ناقابل حجت ہے، اگر ممانعت والی روایت کو صحیح مان لیا جائےجیساکہ بہت سے محدثین اس کی صحت کے بھی قائل ہیں تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔
(2) جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔
(3)اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
(4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔
تیسرا نکتہ: نصف شعبان کا روزہ
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو، صحیح احادیث سے شعبان کا اکثر روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے جیساکہ اوپر متعدد احادیث گزری ہیں ۔ جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت موجب جہنم ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے سے متعلق حدیث ملتی ہے تو میں کہوں گا کہ ایسی روایت گھڑی ہوئی اور بناوٹی ہے۔ جو گھڑی ہوئی روایت کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
چوتھا نکتہ : نصف شعبان کی رات قیام
جھوٹی اور من گھرنت روایتوں کو بنیاد بناکر نصف شعبان کی رات مختلف قسم کی مخصوص عبادتیں انجام دی جاتی ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے :
إذا كانت ليلةُ النِّصفِ من شعبانَ فقوموا ليلَها ، وصوموا نَهارَها(ضعيف ابن ماجه:261)
ترجمہ: جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو۔
یہ روایت گھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ابوبکربن محمد روایتیں گھڑنے والا تھا۔
اس رات صلاۃ الفیہ یعنی ایک ہزار رکعت والی مخصوص طریقے کی نماز پڑھی جاتی ہے ، کچھ لوگ سو رکعات اور کچھ لوگ چودہ اور کچھ بارہ رکعات بھی پڑھتے ہیں ۔ اس قسم کی کوئی مخصوص عبادت نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے ۔اسی طرح اس رات اجتماعی ذکر، اجتماعی دعا، اجتماعی قرآن خوانی اور اجتماعی عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
پانچواں نکتہ : شب برات کا تصور
پندرہویں شعبان کی رات کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے ۔مثلا لیلۃ المبارکہ(برکتوں والی رات)، لیلۃ الصک(تقسیم امور کی رات )، لیلۃ الرحمۃ (نزول رحمت کی رات) ۔ ایک نام شب برات (جہنم سے نجات کی رات)بھی ہے جو زبان زد خاص وعام ہے ۔ حقیقت میں ان ناموں کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
لیلۃ المبارکہ نصف شعبان کی رات کو نہیں کیا جاتا ہے بلکہ شب قدر کو کہاجاتا ہے ،اللہ کا فرمان ہے :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{الدخان:3}
ترجمہ: یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کو لیلۃ المبارکہ یعنی لیلۃ القدر میں نازل کیا جیساکہ دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[القدر:1]
ترجمہ: ہم نے اس(قرآن) کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔
تقسیم امور بھی شب قدر میں ہی ہوتی ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات اوراسےلیلۃ الرحمۃ کہنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔ جہاں تک شب برات کی بات ہے ، تو وہ بھی ثابت نہیں ہے ، اس کے لئے جو دلیل دی جاتی ہے ضعیف ہے ۔ آگے اس حدیث کی وضاحت آئے گی ۔
چھٹواں نکتہ: نصف شعبان کی رات قبرستان کی زیارت
ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
فقَدتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ليلةً فخرجتُ فإذا هوَ في البقيعِ۔
ترجمہ : ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ کوبقیع [ قبرستان] میں پایا۔
یہ روایت نصف شعبان سے متعلق ہے ، اس حدیث کوبنیاد بناکر پندرہویں شعبان کی رات قبرستان کی صفائی ہوتی ہے ، قبروں کی پوتائی کی جاتی ہے ، وہاں بجلی وقمقمے لگائے جاتے ہیں اور عورت ومرد ایک ساتھ اس رات قبرستان کی زیارت کرتے ہیں جبکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ قبروں کی زیارت کبھی بھی مسنون ہے اس کے لئے تاریخ متعین کرنا بدعت ہے اور عورت ومرد کےاختلاط کے ساتھ زیارت کرنا ، قبر پر میلہ ٹھیلہ لگاناکبھی بھی جائز نہیں ہے ۔
ساتواں نکتہ : آتش بازی
شعبان میں جس قدر بدعات وخرافات کی انجام دہی پر پیسے خرچ کئے جاتے ہیں اگر اس طرح رمضان المبارک میں صدقہ وخیرات کردیا جاتا تو بہت سے غریبوں کو راحت نصیب ہوتی اورذخیرہ آخرت بھی ہوجاتامگر جسے فضول خرچی یعنی شیطانی کام پسند ہو وہ رمضان کا صدقہ وخیرات کہاں، شعبان میں آتش بازی کو ہی پسند کرے گا۔ ماہ شعبان شروع ہوتے ہی پٹاخے چھوڑنے شروع ہوجاتے ہیں ذرا تصور کریں اس وقت سے لیکر شعبان بھر میں کس قدر فضول خرچی ہوتی ہوگی؟۔نصف شعبان کی رات کی پٹاخے بازی کی حد ہی نہیں ، اس سے ہونے والے مالی نقصانات کے علاوہ جسمانی نقصانات اپنی جگہ ۔
آٹھواں نکتہ : مخصوص پکوان اور روحوں کی آمد
نصف شعبان کی بدعات میں قسم قسم کے کھانے ، حلوے پوری اور نوع بنوع ڈنر تیار کرنا ہے ، اسے فقراء ومساکین میں تقسیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روحیں آتی ہیں،بایں سبب ان کے لئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے ۔ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر آج حلوہ پوری نہ بنائی جائے تو روحیں دیواریں چاٹتی ہیں ۔ کھانا پکانے کے لئے تاریخ متعین کرنا اور متعین تاریخ میں فقراء میں تقسیم کرنا ، اس کھانے پرفاتحہ پڑھنا ، فاتحہ شدہ کھانامردوں کو ایصال ثواب کرنا سب کے سب بدعی امو ر ہیں ۔ اور یہ جان لیں کہ مرنے کے بعد روح دنیا میں لوٹ کر نہیں آتی ،قرآن میں متعدد آیات وارد ہیں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
کَلاَّ إِنَّها کَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها وَ مِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلي‏ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(المومنون: 100)
ترجمہ: ہرگز نہیں ، یہ بس ا
یک بات ہے جو وہ بک رہاہے اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔
نواں نکتہ : کیانصف شعبان کو اللہ آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ؟
ایک روایت بڑے زور شور سے پیش کی جاتی ہے :
ان الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن(سنن ابن ماجه :1390 ) .
ترجمہ: اللہ تعالی نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے ) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت کردیتا ہے
۔
اس حدیث کو البانی صاحب نے حسن قرار دیا ہے جبکہ اس میں مشہور ضعیف راوی ابن لہیعہ ہے اور دوسرے جمیع طرق میں بھی ضعف ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے یہ روایت آئی ہے ۔
إنَّ اللَّهَ تعالى ينزِلُ ليلةَ النِّصفِ من شعبانَ إلى السَّماءِ الدُّنيا ، فيغفرُ لأكْثرَ من عددِ شَعرِ غنَمِ كلبٍ(ضعيف ابن ماجه:262)
ترجمہ: للہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہےاور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سند میں انقطاع کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے
۔
بہرکیف! نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اللہ کے نزول کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے البتہ اس حدیث کے عموم میں داخل ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالی ہررات تہائی حصے میں آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ۔
دسواں نکتہ : پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث کا حکم
آخری نکتے میں یہ بات واضح کردوں کہ نصف شعبان کے دن یا اس کی رات سے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔قبیلہ کلب کی بکری کے بالوں کے برابر مغفرت والی حدیث، مشرک وبغض والے علاوہ سب کی مغفرت والی حدیث، سال بھر کے موت وحیات کا فیصلہ کرنے والی حدیث،اس دن کے روزہ سے ساٹھ سال اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی حدیث ، بارہ –چودہ- سو اور ہزار رکعات نفل پڑھنے والی حدیث یانصف شعبان پہ قیام وصیام اور اجروثواب سے متعلق کوئی بھی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔
اس وجہ سے پندرہ شعبان کے دن میں کوئی مخصوص عمل انجام دینا یا پندرہ شعبان کی رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔ شعبان کے مہینے میں نبی ﷺسے صرف اور صرف بکثرت روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے لہذا مسلمانوں کو اسی عمل پر اکتفا کرنا چاہئے اور بدعات وخرافات کو انجام دے کر پہلے سے جمع کی ہوئی نیکی کوبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
محترم مقبول صاحب
السلام علیکم

اس بات کی وضاحت فرمادیں کہ اعمال اٹھانے سے کیا مراد ہے ۔ ؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
وعلیکم السلام
بندوں کے عمل اللہ کے پاس پہنچائے جاتے ہیں اسی کو اعمال اٹھایا جانا کہتے ہیں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم
جو روایات پیش کی جاتی ہیں کہ اس دن پورے سال کے اعمالوں کا فیصلہ ہوتا ہے روزی لکھی جاتی ہے عمر کتنی ہوگی اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے کیا وہ اسی حدیث کے تحت ہے۔؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
وعليكم السلام
وہ ایک الگ چیز ہے جو شب قدر سے متعلق ہے لیکن شعبان کے متعلق ایسی حدیث صحیح نہیں ہے ۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
اس حدیث کو البانی صاحب نے حسن قرار دیا ہے جبکہ اس میں مشہور ضعیف راوی ابن لہیعہ ہے اور دوسرے جمیع طرق میں بھی ضعف ہے
شیخ البانی رحمہ اللہ اصلاح المساجد کے مولف کے بارے میں اسی کتاب کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :

يعني حديثه عن مالك بن يخامر عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "يطلع الله إلى خلقه في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن". أخرجه ابن أبي عاصم في "السنة" "ق٤٣: ١" وابن حبان في "صحيحه" "١٩٨٠٠" ورجاله ثقات، والحديث صحيح، وله طرق وشواهد خرجتها في "الصحيحة" "٢١٤٣٣" فلا تلتفت إلى ما سينقله المصنف أنه ليس فيفضل ليلةالنصف حديث يصح، نعم لا يلزم من ثبوت هذا الحديث اتخاذ هذه الليلةموسما يجتمع الناس فيها، ويفعلون فيها من البدع ما ذكره المؤلف يرحمه الله تعالی

یہ حدیث بطریق مالک بن یخامر عن معاذ بن جبل عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم مروی ہے ۔الفاظ یہ ہیں يطلع الله إلى خلقه فى ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن
اس کی تخریج ابن ابی عاصم نے السنہ میں اور ابن حبان نے صحیح میں کی ہے اس کے رجال ثقہ ہیں اور حدیث صحیح ہے اور اس کے طرق و شواہد کو لائے ہیں ان کی صحیح میں۔ اس لیے مصنف کا یہ قول کہ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث نہیں،ناقابل توجہ ہے ہاں اس سے بدعات کا جواز البتہ نہیں نکلتا۔
نصف شعبان کے دن یا اس کی رات سے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔

لیس هذا على إطلاقه كما سبق التنبيه عليه آنفا۔"ناصر الدين"
یہ حکم مطلق طور پر صحیح نہیں جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں۔"ناصر الدين"
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
سؤال من أحد إخواننا ‏عن صحة حديث معاذ بن جبل رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يطلع الله الى جميع خلقه ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه الا لمشرك أو مشاحن».
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لانبي بعده، أما بعد:
فأقول جوابا:
الحديث لايصح من طريق معاذ بن جبل رضي الله عنه ولاغيره مما نقل في الكتب والمصنفات وقد انتقده أئمة الصنعة:
-1 أعله أبوحاتم الرازي في «العلل «لابن أبي حاتم (173/2) قال: وسألت أبي عن حديث رواه أبو خليد القاري، عن الأوزاعي، عن مكحول وعن ابن ثوبان، عن أبيه، عن مكحول، عن مالك بن يخامر، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يطلع الله تبارك وتعالى ليلة النصف من شعبان الى خلقه».
قال أبي: هذا حديث منكر بهذا الاسناد ولم يرو بهذا الاسناد عن أبي خليد ولا أدري من أين جاء به؟!
والشاهد قوله: «هذا حديث منكر بهذا الاسناد»، وقوله: «ولا أدري من أين جاء به؟!».
-2 وكذلك أعله الدارقطني في كتابه «العلل» (50/6) قال:
< (والحديث غير ثابت)ٍ، بعد ذكره للاختلاف والاضطراب في طرقه..
ففي كتاب «العلل» للدارقطني: وسئل عن حديث مالك بن يخامر، عن معاذ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يطلع الله الى خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه، الا لمشرك أو مشاحن»؟
قال [الدارقطني]: يُروى عن مكحول واختلف عنه:
فرواه أبوخليد عتبة بن حماد القاري، عن الأوزاعي، عن مكحول وعن ابن ثوبان، عن أبيه، عن مكحول، عن مالك بن يخامر، عن معاذ بن جبل، قال ذلك: هشام بن خالد عن أبي خليد، حدثناه ابن أبي داود قال: حدثنا هشام بن خالد بذلك..
وخالفه سليمان بن أحمد الواسطي فرواه عن أبي خليد، عن ابن ثوبان عن أبيه، عن خالد بن معدان، عن كثير بن مرة، عن معاذ بن جبل: كلاهما غير محفوظ.
وقد رُوي عن مكحول في هذا روايات، وقال هشام بن الغاز، عن مكحول، عن عائشة رضي الله عنها.
وقيل: عن الأحوص بن حكيم، عن مكحول، عن أبي ثعلبة.
وقيل: عن الأحوص، عن حبيب بن صهيب، عن أبي ثعلبة..
وقيل: عن مكحول، عن أبي ادريس مرسلا.
وقال الحجاج بن أرطأة، عن مكحول، عن كثير بن مرة مرسلا ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:..
وقيل: عن مكحول من قوله،
< [والحديث غير ثابت].اهـ
وقال الدارقطني في موضع آخر عند سؤاله عن طريق أبي ثعلبة الخشني في «العلل» (324/6):
< [والحديث مضطرب غير ثابت].
-3 وقال أبوجعفر العقيلي في «الضعفاء الكبير» (29/3): وفي النزول في ليلة النصف من شعبان أحاديث فيها لينٌ، والرواية في النزول في كل ليلة ثابتة صحاح، وليلة النصف من شعبان داخلة فيها ان شاء الله.اهـ.
-4 وباقي الطرق لايصح منها شيء ولا تنهض لاحتجاج، فطريق أبي موسى، وعبدالله بن عمرو بن العاص وعائشة وأبي بكر، وعوف بن مالك وعلي بن أبي طالب وغيرها، طرق معلة لاتصلح في الشواهد.

كتبه.عبدالعزيز بن ندى العتيبي
www.ahlalathar.com
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
قال أبي: هذا حديث منكر بهذا الاسناد ولم يرو بهذا الاسناد عن أبي خليد ولا أدري من أين جاء به؟!
.فقد أطلق الأئمة المتقدمون المنكر ، وقصدوا به عدة معاني ، منها :
التفرد الذي لا متابع له : قال الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى في مقدمة الفتح ما نصه :(ص436)
" المنكر أطلقه أحمد بن حنبل وجماعة على الحديث الفرد الذي لا متابع له ".

وقال الشيخ الباني في الأحاديث الصحيحة( ج٣ ص١٣٦ )
- وأما حديث عبد الله بن عمرو فيرويه ابن لهيعة حدثنا حيي بن عبد الله عن أبي عبد الرحمن الحبلي عنه. أخرجه أحمد (رقم 6642) .

قلت(البانی): وهذا إسناد لا بأس به في المتابعات والشواهد، قال الهيثمي: "
وابن لهيعة لين الحديث وبقية رجاله وثقوا ". وقال الحافظ المنذري: (3 / 283)
" وإسناده لين ".
قلت(البانی):
لكن تابعه رشدين بن سعد بن حيي به. أخرجه ابن حيويه في " حديثه ". (3/ 10 / 1)
فالحديث حسن
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں شیخ مقبول احمد سلفی صاحب کی بات درست ہے شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ ملتان نے بھی شخ البانی کی تحسین و تصحیح کو صعیف بتایا ہے، اکثر کبار اہل علم و تحقیق کی بھی یہی تحقیق ہے کہ نصف شعبان کی فضائل کی تمام روایات ضعیف ہیں. واللہ اعلم
 
Top