• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ صفر اور اس کی بدعات

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
صفرکا مہینہ سال کا دوسرا مہینہ ہے ۔ اس مہینہ کو عوام میں بہت زیادہ منحوس تصور کیا جاتا ہے ۔صفر کا معنی خالی ہونے کے ہیں چونکہ اہل مکہ پے درپے ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم کی حرمت کی وجہ سے جنگ وجدال اور فتنہ وفساد سے باز رہتے تھے تو صفرکا مہینہ آتے ہی ایک ساتھ اپنے گھروں کو خالی کرکے نکل جاتے اسی سبب اس ماہ کا نام صفرپڑگیا۔
اہل عرب کا اس طرح سے گھروں کا خالی کردینا اور جنگوں میں بے پناہ قتل ہونا بدعقیدگی کا شکار بنادیا ، اس سے نحوست لینے لگے بالآخر نحوست کی وبا ان کے غلط تصور سے دنیا میں رواج پاگیاکہ ماہ صفر منحوس ہے ، اس مہینہ میں بلائیں نازل ہوتی ہیں ، اس وجہ سے اس مہینہ میں لوگ سفر نہیں کرتے ، شادی بیاہ سے رک جاتے ہیں، بیوی کے قریب نہیں جاتے ۔ نحوست میں مزید اضافے کا باعث گھڑی ہوئی احادیث بن گئیں۔
(1) مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ (موضوع)
ترجمہ:جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا ،میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا۔
اس روایت کو ملاعلی قاری، علامہ عجلونی اور علامہ شوکانی وغیرہم نے موضوع کہا ہے ۔
(2)آخِرُ أربِعاءٍ من الشهرِ يومُ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ(السلسلة الضعيفة:1581)
ترجمہ:ماہ صفر کا آخری بدھ منحوس دن ہے ۔
شیخ البانی نے اسے موضوع کہا ہے دیکھیں مذکورہ حوالہ ۔
(3) يكونُ موتٌ في صفرَ ، ثم تتنازعُ القبائلُ في الربيعِ ، ثم العجبُ كلُّ العجبِ ، بين جمادى ورجبٍ(السلسلة الضعيفة:6178)
ترجمہ: صفر میں موت ہوگی ،پھر ماہ ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے پھر جمادی الاول والثانی اور رجب کے درمیان عجیب وغریب چیزیں رونما ہوں گی۔
اس حدیث شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔
ان بے بنیاد ،جھوٹی احادیث نے لوگوں کی غلط فہمیاں مزید بڑھادیں۔ لوگوں نے غلط عقائدوتصورات اور موہوم مصائب وبلاسے چھٹکارا پانے کے لئے متعدد قسم کے حربے اپنائے ۔
٭ کسی نے چنے ابال کرخود کھایا اور پورے محلے میں تقسیم کیا تاکہ اس ماہ کی پریشانی سے بچ جائے ۔
٭ کسی نے آٹے کی 365 گولیاں بناکر تالاب میں ڈالا تاکہ مصیبت اس کے سر سے ٹل جائے ۔
٭ کسی نے تیس مرتبہ سورہ اخلاص کا ورد کیا اس عقیدہ سے کہ یہ ہمیں اس ماہ میں نازل ہونے والی بلا سے نجات دلائے گا۔
ماہ صفرکا آخری بدھ :
اس ماہ کے آخری بدھ سے متعلق تو بے شمار بدعات وخرافات اور غلط افکار پائے جاتے ہیں ۔
٭ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس ماہ کی آخری بدھ کو نبی ﷺ کو بیماری سے شفاملی ، آپ نے غسل فرمایا ، اس خوشی میں مٹھائی تقسیم کی جاتی ہیں جبکہ ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے ماہ صفر کی آخری بدھ سے آپ ﷺ کا مرض الموت شروع ہوا اور 12 ربیع الاول کو وفات پاگئے۔ یہ ایک یہودی شازش ہےجس کے شکار مسلمان ہوگئے ، بیماری پیغمبر پر جشن منانا۔ اللہ تعالی آپ کے غم پہ خوشی منانے والوں کو عبرت آموز سبق دے۔
٭ صفر کی آخری بدھ کو دن میں روزہ رکھنا اور شام کو حلوہ کچوری پکانا رائج ہے ۔ اس روزہ کو کچوری روزہ نام دیا جاتا ہے ۔ یہ کام دین میں نئی ایجاد ہے اور سراسر بدعت ہے ۔
٭پاکستان کے بعض علاقوں میں آخری بدھ کو خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے اسے پشتومیں چُری کی رسم کہتے ہیں۔دلیل میں کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی صحتیابی پہ ایسا کیا تھا۔ اس بات کی دین میں کوئی حقیقت نہیں ۔ جب نبی ﷺ صفر کی آخری بدھ میں بیمار تھے تو صحتیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا یہ بات جھوٹ ہے اور چُری کاعمل بدعت قبیحہ ہے ۔
٭بعض مقامات پہ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صفر کی آخری بدھ کو آسمان سے تین لاکھ بیس ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں ۔ ان بلاؤں سے بچنے کے لئے مخصوص قسم کی چار رکعت نماز نفل ادا کی جاتی ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ نماز ایک سلام سے پڑھی جاتی ہے ، ہررکعت میں ایک دفعہ سورہ فاتحہ ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر،پندرہ مرتبہ سورہ اخلاص اور ایک ایک مرتبہ معوذتین پڑھی جاتی ہے ۔ پھر سلام پھیرکر مخصوص دعا کی جاتی ہے ۔ اس میں تین سو ساٹھ مرتبہ "اللہ غا لب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون" پڑھا جاتا ہے اور"سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین"کے ذریعہ دعا ختم کی جاتی ہے ۔اس کے بعد فقراء ومساکین میں روٹی تقسیم کی جاتی ہے ۔
تین لاکھ بیس ہزاربلاؤں کا عقیدہ اور یہ مخصوص نماز دین میں اپنی طرف سے ایجاد کرلئے گئے ہیں جو بدعت وگمراہی ہیں اور ہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
ہم مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں کوئی دن اور کوئی تاریخ ومہینہ منحوس نہیں ہے اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ سے اس ماہ صفر میں مخصوص عبادات انجام دینے اور مصائب سے بچنے کا کوئی مخصوص ذکر ملتا ہے ۔ آپ ﷺ نے ہمیں بتلایا کہ ماہ صفر میں کوئی نحوست نہیں ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا عدوى ولا طَيَرةَ ، ولا هامَةَ ولا صَفَرَ(صحيح البخاري:5707)
ترجمہ: مرض کا متعدی ہونا نہیں (یعنی اللہ کے حکم کے بغیرکوئی مرض کسی دوسرے کو نہیں لگتا )اور نہ بدفالی لینا درست ہے ، اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے۔
طیرہ کا مطلب بدشگونی لینا ۔
ھامہ کا مطلب مقتول کے سر سے ہامہ نام کا جانور(الو) نکلنا جو انسان کو اس وقت تک تکلیف دے جب تک قتل نہ کردیا جائے ۔
صفر سے مراد لوگوں کے گمان سےماہ صفرکی نحوست ۔
ایک طرف آپ ﷺ نے اس ماہ صفر سے نحوست کی نفی کی تو دوسری طرف اس ماہ میں بڑے بڑے مبارک کام بھی ہوئے ۔
٭ اس ماہ میں ہجرت کے پہلے سال مقام ابواء پر غزوہ ہوا جس میں نبی ﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے ۔
٭ تین ہجری ماہ صفر میں قبیلہ عَضل اور وقارہ کے لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے ۔
٭ اسی ماہ کو چوتھی ہجری میں آپ ﷺ نےستر ماہر قراء کو اہل نجد کی تعلیم کے لئے روانہ کیا تھا۔
٭ اسی ماہ میں خیبر فتخ ہوا۔
٭ اسی ماہ کی نو ہجری میں قبیلہ خثعم کی جانب نبی ﷺ نے سریہ بھیجا ، اس سریہ میں غیبی طور پر اللہ کی طرف سے سیلاب کے ذریعہ مسلمانوں کو مدد ملی اور مال غنیمت حاصل کئے ۔
٭اس ماہ میں نوہجری کو نبی عذرہ کے بارہ لوگ دربار رسالت میں حاضر ہوکر بسروچشم اسلام قبول کئے ۔
مذکورہ سطور کی روشنی میں یہ بات اظہرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ ماہ صفر منحوس نہیں ہے اور اس ماہ کو منحوس جان کر جو اعمال وافعال انجام دئے جاتے ہیں وہ سراسر لغواور بدعات وخرافات ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد.(صحیح مسلم :1718)
ترجمہ: جس نے کوئ ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔
نیز فرمان نبوی ہے :
کل محدثۃ بدعۃوکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار(صحیح النسائی :1577)
ترجمہ: ہرنئی ایجاد چیز بدعت ہےاورہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
مصیبت کسی بھی وقت ، کسی بھی دن اور کسی بھی مہینے میں آسکتی ہے ، وہ مصیبت کسی ماہ ودن کی نحوست کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنی بداعمالی کی وجہ سے ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
ومااصابکم من مصیبۃ فبماکسبت ایدیکم(الشوری:30)
ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت لاحق ہوتی ہے وہ اپنی ہی کرتوت کا نتیجہ ہے ۔
اس لئے مصیبت سے اگر بچنا ہے تو اپنے اعمال کی اصلاح کرنی ہے ، گناہوں سے توبہ کرنا ہے اور اللہ کی خالص عبادت بجالانی ہے ۔

از:
مقبول احمد سلفی
 
Top