• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ صفر کی بدعات"

مہوش حمید

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
19
"
اللہ تعالی نے سال میں بارہ مہینے مقر ر کیے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ہمارے ہاں ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی بدعات ایجاد کرلی گئ ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے سال کے پہلے مہینے کی بدعات کے بعد صفر کا مہینہ آتا ہے جس کو منحوس سمجھا جاتا ہے اس مہینے کے بارے میں طرح طرح کے خیالات پاَئے جاتے ہیں لوگوں کے ذہن میں ،نبیّ جب اس دنیا فانی میں تشریف لائے تو دنیا جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔اور کئی طرح کے توہمات اور وساوس میں مبتلا تھی۔زمانہ جاہلیت کے باطل خیالات اور رسومات میں سے صفر بھی ہے صفرکے متعلق ان کا گمان تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے،جب پیٹ خالی ہوتواور بھوک لگی ہو تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے،اسکے علاوہ کئی لوگ صفر کے مہینے کے بارے میں بد فال لیتے تھےکہ اس میں بکثرت مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان توہمات جاہلانہ کا رد فرمایا آپّ کا ارشاد گرامی ہے"لا عدوی ولاصفر ولامۃ"[بخاری کتاب طب باب لا صفر وھو یاخز البطن رقم ھامۃ ۵۸۱۷]
بہت سے توہم پرست لوگ اس مہینے میں شادی نہیں کرتے،چنے ابال کر محلے میں باٹتے ہیںتاکہ ہماری بلائیں دوسروں کی طرف چلی جائے،آٹے کی ۳۶۵ گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالتے ہیں تاکہ ہماری بلائیں ٹل جائیں۔رزق کے لیے ۳۱۱ مرتبہ سورۃ مزمل پڑھنا،اس مہینے کو مردوں کے لیے بھاری سمجھنااور اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا۔،اسلام نے واضح کیا کہ جیسے اعمال ہوں گے۔ویسے ہی نتائج نکلیں گے۔نیک اعمال کے نتائج اور برے اعمال کے نتائج برآمد ہونگے۔کوئی لمحہ کوئی دن،کوئی وقت ہمارے لیے منحوس نہیں ،ہماری بد اعمالیاں ہمارے لیے ضرور منحوس ثابت ہوتی ہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ہاں کلمہ گو لوگوں میں بے شمار توہمات اور بد شگونیاں پیدا ہو چکی ہیں،جو قومیں دین فطرت یعنی اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہی توہمات اور بد شگونیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں پھر انہیں ہر چیز میں ہر کام میں نحوست نظر آتی ہے۔یہ سب بدگمانیاں توہمات انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہے۔اس کے برعکس اللہ کی ذات پہ پختہ یقین ایمان و توکل انسان کو مضبوط بناتے ہیں مسلمان کو اس بات پہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے اس کے سوا کسی کے پاس یہ اختیار نہیں نہ کسی ولی کے پاس نہ کسی نبی کے پاس حتی کہ نبیّ جو تمام انبیاء اور رسول کے امام ہیں وہ بھی کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے"آپّ کہیے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے،اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ،میں تو صرف ڈرانے والا اور خو شخبری دینےوالا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔
صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادت کے علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی نہ کہ ہمیں کرنے کا حکم دیا اور نہ کسی خاص بلا سے بچنے کے لیے خبردار کیا توہمات اور شگون جو اس ماہ سے منسوب کیے جاتے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ،عربوں کے ہاں اس ماہ سے متعلق جو غلط تصورات پائے جاتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حرمت کی وجہ سےتین ماہ ذوالقعد،ذوالحجہ۔ محرم،میں جنگ و جدل سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ پابندی ختم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے،تو ان کے گھر خالی رہ جاتے یوں عربی میں یہ محاورہ صفر المکان"[ گھر کا خالی ہونا] معروف ہو گیا صفر اور صفر کے معنی ہے خالی ہونا،
مشہور تاریخ دان سخاوی نے اپنی کتاب "المشہور فی اسماء الایام والمشہور میں ماہ صفر کہ وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے۔"عربوں نے جب یہ دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہوتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لیے منحوس ہے۔گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پہ غور نہیں کیا،نہ ہی اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا،جبکہ نحوست کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے۔[ سورہ بنی اسرائیل]" ترجمہ: اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک کتاب اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گاپڑھ اپنا نامہ اعمال ،آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہیں کہ انسان کی نحوست کا تعلق خود اس کے اپنے عمل کی وجہ سےہے۔جبکہ انسان عموما یہ سمجھتا ہے کہ نحوست باہر سے آئی ہے چناچہ وہ کبھی کسی انسان کو کبھی کسی جانور کو ،کبھی کسی عدد کو اور کبھی کسی مہینے کو منحوس قرار دینے لگتے ہیں۔عربی میں نحوست کے لیے لفظ طیرہ استعمال ہوتا ہے۔جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں،عرب چونکہ پرندے کے اڑنے سے فال لیتے تھے،اس لیے طائر بد فالی کے لیے استعمال ہونے لگا،
اللہ تعالی فرماتا ہے سورہ النساء میں
"بھلائی جو تمہیں پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے،
سورہ توبہ میں اللہ فرماتا ہے٫؛کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے،وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے،
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس بات پہ یقین کرلو کہ اگر پوری امت جمع ہوکرتمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے،
سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بد شگونی شرک ہے بد شگونی شرک ہے ۔تین بار فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں [اسے وہم ہوجاتا ہو] لیکن اللہ تعالی توکل کی وجہ سے اسے دور کردیتا ہے۔
اہل کتاب بھی جب دین کی اصل تعلیمات سے دورہوگئے تو اس طرح کے شگون لینے لگے جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے:
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ جبت اور طاغوت پہ ایمان لاتے ہیں:
جبت بے حقیقت ،بے اصل،بے فائدہ چیز کو کہتے ہیں ۔چونکہ شگون کی بھی کوئی اصل بنیاد اور حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اسلام میں ایسی تمام چیزیں جبت کے تحت آتی ہیں،جیسے کہانت،فالگیری،شگون اور توہمات ان سے منع کیا گیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کو بد شگونی کسی کام سے روک دے تو یقینا اس نے شرک کیا۔:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے ،مثلا موسی کی قوم کے بارے میں بتایا،
ترجمہ: پس جب انہیں کوئی چیز ملتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو ہیں ہی اسی کے حقدار اور اگر ان کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے تو موسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے ہیں ،حالانکہ ان کی شومئی قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے،لیکن اکثر ان میں لوگ نہیں جانتے،[سورہ الاعراف،۳۱۳۔۷]
مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد شگونی لے ،یا کسی کو منحوس قرار دے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اس بات پہ پختہ یقین رکھے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اسکے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا اس کے اذن کے بغیر کوئی نقصان نہیں دے سکتا بعض لوگ ستاروں کے ذریعے سے فال نکالتے ہیں مثلا کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ تمہارا ستارہ گردش میں ہے اسلیے تم جو کاروبار اب شروع کروگے اس میں خسارہ ہوگا ،اگر تم شادی کروگے تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے،حسب،کی بناء پہ فخر کرنا،کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا،ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا[یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا] اور نوحہ کرنا" [ مسلم:الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ: ۹۳۴]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بد شگونی لے یا جس کے لیے بد شگونی لی جائے۔یا جو [علم نجوم کے ذریعے] کہانت کرے یا جس کے لیے کہانت کی جائے۔یا جو جادو کرے یا جس کے لیے جادو کا عمل کیا جائے۔[السلسلۃ الصحیحۃ:۲۱۹۵]
اور آپّ کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اسکی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔
[مسلم:۲۲۳،صحیح الجامع للالبانی:۵۹۴۰]
کاہن کے پاس آپّ نے جانے کے بارے میں فرمایا: جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرئے تو اسنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ اتارے گئے دین الہی کا کفر کیا۔{ صحیح الجامع للالبانی:۵۹۳۹]
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے بیان کی جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صفر کا مہینہ منحوس نہیں نہ بھاری ہے یہ ہمارے اپنے کمزور عقائد ہیں جو اس طرح کی باتوں میں پڑ کہ اپنے عقائد کو خراب کر رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو ان خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ صفر کی بدعات


از قلم : ابوعدنان محمد طیب السلفی حفظہ اللہ

برادران اسلام !

اگر آپ سال کے اسلامی وعربی مہینوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو کوئی مہینہ ایسا نہیں ملے گا جس میں نام نہاد مسلمانوں نے کوئی نیا عمل ایجاد نہ کر رکھا ہو ، مثال کے طور پر محرم میں تعزیہ داری، ماتم ونوحہ اور مرثیہ خوانی وغیرہ کادور دورہ ہے تو ماہ صفر کی آخری بدھ سیر وتفریح کے لئے باہر نکلنے والا تہوار، ربیع الاول میں جشن میلاد النبی کی چہل پہل ہے تو ربیع الثانی میں گیارہویں کے نام سے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر نذرونیاز، ماہ رجب میں کونڈے تو پھر شعبان میں شب براءت کی دھوم دھام، الغرض بدعات وخرافات کا ایک سیل رواں ہیں جو مسلمانوں کو اپنے دھارے میں بہائے لے جارہا ہے ۔

ماہ صفر اسلامی سن ہجری کا دوسرا مہینہ ہے، صفر کو صفر اس لئے کہتے ہیں ایک وبا پھیلی تھی جو لوگوں کو لگتی تولوگ بیمار ہوجاتے اور ان کا رنگ پیلا ہوجاتا تھا، جس کو اپنے یہاں یرقان کی بیماری کہا جاتا ہے۔ دیکھئے بیرونی کی ( کتاب الاثار الباقیہ)

مسعودی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ملک یمن میں ایک بازار کا نام صفریہ تھا اسی مناسبت سے اس مہینہ کا نام صفر پڑگیا۔

صفر کو صفر اس لئے بھی کہتے ہیں کہ لگاتار حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد اہالیان مکہ جب سفر کرتے تھے تو مکہ وہاں کے باشندگان سے خالی ہوجاتا تھا، اس لئے کہ صفر کا معنی ہوتا ہے خالی ہونا ، دیکھئے ابن منظور کی کتاب لسان العرب ج۴ / ص ۴۶۲،۴۶۳۔

صفر سے متعلق بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ منحوس اور خیرو برکت سے خالی ہے بنابریں وہ اس مہینہ میں شادی بیاہ کرنے کو برا سمجھتے اور سفر کرنے سے باز رہتے ہیں، اور اپنے باطل عقیدے کے مطابق اس من گھڑت نحوست کو دور کرنے کے لئے چنے کو ابال کر خود کھاتے اور تقسیم کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو باعث برکت سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ چنے کو ابال کر کھانے اور کھلانے سے نحوست اور بے برکتی نکل جاتی ہے یہ بالکل مشرکانہ اور جاہلانہ عقیدہ ہے جو نام نہاد مسلمانوں میں موجود ہے، کیوں کہ اہل جاہلیت کے یہاں بھی ماہ صفر کو منحوس سمجھنا مشہور ومعروف تھا ،وہ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھتے اور خیر وبرکت سے خالی خیال کرتے تھے اور نہ ہی مسرت وشادمانی کی محفلیں رچاتے اور نہ کوئی بڑا کام کرتے تھے اس خیال سے کہ اس میں کوئی نحوست نہ آجائے ،حالانکہ فی نفسہ ماہ صفر برا نہیں ہے اور نہ ہی اس مہینہ میں سفر کرنا منع ہے ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدعقیدہ کی تردید فرمائی ، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لاعدوی ولاطیر ولاصفر) “ یعنی اللہ کے حکم کے بغیر کسی کی بیماری کسی کو نہیں لگتی، نہ بدفالی لینا درست ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے” (صحیح بخاری ومسلم)

اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے، اس لئے بیماری کے متعدی ہونےکا اور فال بد کا عقیدہ رکھنا اور ماہ صفر کو منحوس اور نامبارک سمجھنا یہ وہ امور ہیں جن سےدین اسلام کے صاف وشفاف چہرہ پر بد نما دھبہ پڑتا ہے ،حالانکہ صفر کا مہینہ بھی سال کے دوسرے مہینوں کی طرح ہے، اس مہینہ کو کوئی ایسی خصوصیت حاصل نہیں جو دوسرے مہینوں سے اس کوالگ کردے، اور ماہ صفر کے متعلق جو صحیح احادیث پائ جاتی ہے ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو منحوس سمجھنا صحیح نہیں ہے،اس مہینہ کا اچھائ اور برائ میں، اللہ عزوجل کی بنائی ہوئ تقدیر میں کوئ عمل دخل نہیں ہے،یہ مہینہ بھی دوسرے مہینوں کی طرح ہے جس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوتا ہے، اس لئے ماہ صفر یا کسی اور مہینے کو منحوس سمجھنا صحیح نہیں ہے، ہر وہ مہینہ جس کو ایک مومن اللہ کی اطاعت میں لگادے وہ اس کے لئے بابر کت مہینہ ہے اور جس کو وہ اللہ کی معصیت ونافرمانی میں لگادے وہ اس کے لئےمنحوس ہے، علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس مہینہ کو منحوس سمجھنا ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کی نظر میں باطل ہے اور اہل جاہلیت کا عقیدہ ہے ۔

جب یہ مہینہ ختم ہونے پر آتا ہے توبہت سے لوگ اس کے آخری بدھ کو کاروبار بند کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں، گاؤں اور شہروں سے باہر جاکر لطیف اور عمدہ کھانا بناتے اور پھر کھاتے اور کھلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینہ کے آخری بدھ کو بیماری سے صحتیاب ہوئے تھے اور سیر وتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلے تھے اور پھر آپ نے عمدہ اور لطیف کھانا بنایا اورکھایا تھا حالانکہ یہ عقیدہ حدیث اور تاریخ کی رو سے بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ماہ صفر کی آخری بدھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمبیماری کی ابتدا تھی او ربیع الاول کی ۱۲تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی تھی تو جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے ہوں اور عین اسی دن نام نہاد مسلمان شہر سے باہر سیروتفریح کے لئے نکلیں، قسم قسم کے کھانے کھائیں اور کھلائیں اور، پھر یہ دعوی کریں کہ ہم مسلمان ہیں عاشق رسول ہیں، ہم ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر پوچھیں کہ جو لوگ اپنے نبی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں کیا وہ عاشق رسول محب رسول کہلانے کے حقدار ہیں ؟

اس کے برعکس کچھ ملکوں کے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ماہ صفر کا آخری بدھ سال کا سب سے منحوس دن ہے، اور اپنے اس عقیدہ کی اثبات میں بعض کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ ہر سال ماہ صفر کی آخری بدھ کو تین لاکھ بیس ہزار بلائیں اترتی ہیں اوریہ سال کا سب سے خطرناک دن ہوتا ہے اس لئے وہ ان بلاؤں سے بچنےکے لئے ماہ صفر کی آخری بدھ کو چاشت کے وقت چار رکعات نفل نماز ایک سلام سے پڑھتے ہیں ،ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر، پندرہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور ایک ایک بار معوذتین پڑھتے ہیں، ایسا ہی ہر رکعت میں کرتے ہیں ،پھر سلام پھیرتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد (اللہ غا لب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون) تین سوساٹھ مرتبہ پڑھ کر (سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین) پر اپنی دعا ختم کرتے ہیں، پھر فقیروں میں روٹی خیرات کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص مذکورہ طریقے پر نماز پڑھے گا اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اسے اس دن اترنی والی ساری بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ فرمائے گا نیز مذکورہ آیت پڑھنےکی برکت سےبھی ماہ صفر کی آخری بدھ کو اترنے والی بلائیں اور آفتیں ٹل جائیں گی،“ اس نفل نماز کی بابت جب افتاء کی دائمی کمیٹی سے پوچھا گیا تو جواب تھا کہ اس نفل نماز کے ثبوت میں کتاب وسنت کی کوئی دلیل نہیں ملتی اور نہ ہی اس امت کے پہلے اور بعد کے نیک لوگوں نے یہ نفل نماز پڑھی ہیں ،اس لئے یہ بدعت ہے ،اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد)“ جو ہمارے دین میں ایسی بات ایجاد کرےجو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ” ایک دوسری روایت میں ہے (من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد)“ جس نے کوئ ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ” جو اس نمازاور اس کے ساتھ پڑھی جانے والی چیزوں کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے کسی صحابی کی طرف کرے تواس نے بہت بڑا بہتان باندھا، جس پر وہ اللہ تعالی کی طرف سے جھوٹ بولنے والوں کی سزا پانےکا مستحق ہے” دیکھئے (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج۲/ ۳۵۴)

شیخ محمد عبد السلام شقیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض جہلاء ماہ صفر کی آخری بدھ کو آیات سلام یعنی(سلام علی نوح فی العالمین) لکھ کر پانی کے برتنوں میں ڈال دیتے ہیں پھر اس کو پیتے ہیں اور برکت حاصل کرتے ہیں ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کے پینے سے تمام برائیاں اور آفتیں دور ہوجائیں گی یہ باطل عقیدہ ،خطرناک بدفالی لینا اور قبیح بدعت ہے اس برائی کے دیکھنے والے پر اس کی نکیر کرنا ضروری ہوجاتا ہے” دیکھئے
(السنن والمبتدعات للشقیری ص ۱۱۱، ۱۱۲)

اسلامی بھائیو! مذکورہ ساری چیزیں بدعات وخرافات ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے ( ایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ) “ نئے کاموں سے بچو ، کیوں کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے”

ذیل میں ماہ صفر سے متعلق بعض وہ جھوٹی اور گھڑی احادیث پیش کی جاتی ہیں جن کو بنیاد بناکر نام نہاد مسلمان مذکورہ بدعات وخرافات انجام دیتے ہیں:

(۱) ( من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ) “ جومجھے ماہ صفر کے گزرنےکی خوشخبری دیے میں اسے جنت کی خوشخبری دیتا ہوں”

یہ حدیث موضوع ہے دیکھئے

(کتاب کشف الخفا للعجلونی ج ۲/ ۳۰۹، کتاب الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی ج۱/ ۴۳۱، کتاب الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ج۱/ ۳۳۷)

(۲) (آخر الاربعاء فی الشھر یوم نحس مستمر) “ ماہ صفر کا آخری بدھ منحوس دن ہے” یہ حدیث صحیح نہیں ہے، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نےاس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھئے (ضعیف الجامع ج۳ )

(۳) (یکون صوت فی صفر ثم تتنازع القبائل فی شھر ربیع ثم العجب کل العجب بین جمادی ورجب ) “ صفر میں ایک آواز پیدا ہوگی ،پھر ماہ ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے پھر جمادی الاول والثانی اور رجب کے درمیان عجیب وغریب چیزیں رونما ہوں گی”یہ حدیث بھی گھڑی ہوئ ہے۔ دیکھئے ( کتاب المنار المنیف لابن القیم ص ۶۴)

اللہ رب السماوات والارض سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو بدعت سے بچاکر سنت پر چلنے کی توفیق بخشے۔آمین۔

واللہ الموفق ھو الھادی الی سواء السبیل

{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: }
www.islamidawah.com
 
Top