• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مباہلہ قرآن و سنت کی روشنی میں

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی رسولہ الکریم ۔امابعد! فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم
﴿فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ 61؀﴾ ( آل عمران)
ترجمہ: ''پھر اگر کوئی شخص علم (وحی)آجانے کے بعد اس بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اسے کہیے :آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلالیں اور خود بھی حاضر ہوکر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ ''جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔''
اللہ رب العزت نے حق اور باطل کے پرکھنے کیلئے آسمان سے اپنی کتابیں ، وحی اور انبیاء مبعوث فرمائے تاکہ انسانیت کی رہنمائی ہو او ر انسان صحیح اور صراط مستقیم کو اپنا قبلہ بنائے ۔ ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتارا تو ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنی دی ہوئی شریعت کا بھی پابند بنادیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿۔۔۔۔۔فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ 38؀﴾ (البقرۃ :۳۸)
ترجمہ: ''پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے اور جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہونگے ۔''
جنت سے نکالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کو دوبارہ جنت میں جانے کیلئے راستہ بتایا کہ حصول جنت کیلئے میری بتائی ہوئی شریعت کے تابع رہنا ہوگا اور جو کوئی دین کو اختیار کرے گایقینا وہ مراد کو پہنچے گا ، دوسرے مقام پر کچھ یوں ارشاد ہوتا ہے :
﴿ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ١٢٣؁﴾ (طٰہٰ: ۱۲۳)
ترجمہ: ''جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو پس وہ (دنیا )میں نہ گمراہ ہوگا اور نہ ہی (آخرت میں)بد بخت ہوگا۔''
آیت کا اسلوب اور اس کی نشاندہی ہر عام وخاص کیلئے ہے ، آدم علیہ السلام کو دوبارہ جنت میں جانے کی راہ بتادی گئی اب جو بھی اپنے وقت کے نبی کی بات مانے گا تو وہ فلاح اورنجات پانے والوں میں ہوگا۔ اب تمام معاملات چاہے اس کا تعلق کسی بھی امر سے کیوںنہ ہو بس اسے شریعت کے بتائے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہی پورا کرناہوگا اور اپنی مرضی اور خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سپرد کرنا ہوگا جب یہ کیفیت اور حالات پیدا ہونگے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت شامل حال رہے گی۔
انبیاء i ہر وقت اپنی محنتوں اور کاوشوں کو بروئے کار لاتے رہے نہ دن دیکھتے نہ ہی رات کی تاریکی بلکہ اپنی امت کی ہدایت کیلئے اپنے آپ کو ہمہ وقت مشقت میں لگارکھتے لیکن اس کے باوجود اگر امت حق کو قبول نہ کرتی تو پھر ان پر حجتوں کو تمام کردیا جاتا او رپھر وہ اللہ کے عذاب کے مستحق بنتے یا پھر انہیں قوم بورا میں شامل کردیا جاتا۔۔۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف غور فرمائیں آپ نے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ حکم آیا کہ اپنے بیوی اور بچے کو وادئ غیر ذی ذرع میں چھوڑ دو ، تو حکم کی تعمیل میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان دونوں کو چھوڑ دیا۔ جب حکم آیا کہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دو تو اس وقت بھی سر خم اس امتحان کو قبول کر لیا گیا، مگر یہ شان کریمی ہے کہ قربانی دینے کا حکم ضرور دیا مگر بغیر قربانی لیے ہوئے ''انا کذالک نجز ی المحسنین'' میں داخل کر دیا۔ایک وہ وقت بھی آیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت حق دی اور اللہ کی توحید کے خاطر سب کچھ قربان کر دیا اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور آپ نے اس قربانی کو بھی اپنے سینے سے لگا کر اپنے رب کو راضی کر دیا۔ ان قربانیوں کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کے دوست خلیل ٹھہرے۔ آپ نے اپنے والد آزر اور اپنی قوم کو حق سنایا اور حکمت بھرے لہجے اور دانائی بھری گفتگو سے انہیں ہمہ وقت آنے والے عذاب کی خبر دی۔ لہٰذا آپ نے توحید کے لیے اپنے آپ کو قربان کر رکھا۔۔۔ اسی طرح زمانہ کروٹ بدلتا رہا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت انہیں عملا بھی اور پڑھ کر بھی سنائی مگر فرعون او ر اس کے لشکر نے ایک نہ مانی بلکہ وہ ہٹ دھرمی پر جمے رہے مگر ایک روز ایسا آیا جب موسیٰ علیہ السلام کا ان سے ٹکراؤ بھی ہوا اورحق وباطل کو اللہ تعالیٰ نے نصیحت پکڑنے والوں کیلئے واضح کیا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:


﴿ فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا ۚ وَقَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى 64؀


قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰي 65؀قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ۚ فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي66؀فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى 67؀قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى 68؀﴾ (طٰہٰ:۶۴-۶۸)
ترجمہ: ''لہٰذا اپنی سب تدبیریں اکٹھی کرو اور متحد ہوکر مقابلے میں آؤ اور یہ سمجھ لو کہ جو آج غالب رہا وہ جیت گیا ۔پھرموسیٰ سے کہنے لگے :موسیٰ تم ڈالتے ہو یا ہم پہلے ڈالیں ؟موسیٰ نے کہا :تم ہی ڈالو، پھر ان کے سحر کے اثر سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یکدم دوڑنے لگی ہیں، یہ دیکھ کر موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے ، ہم نے (وحی کے ذریعے)انہیں کہا :ڈور مت ، غالب تم ہی رہو گے ۔''
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس واقعہ سے قبل انہیں دلائل وبراہین سے ڈرایا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات کھول کھول کر پڑھیں لیکن وہ دلائل کو کہاں ماننے والے تھے؟اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے جادوگروں پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو غالب کردیا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ﴿ اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَمُوْسٰى 70؀﴾کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے ۔( طٰہٰ ۷۰)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ چاہے دعوت کا میدان ہو یا جہاد ومباھلہ کا ہر حالت میں حق ہی غالب آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر جب موسیٰ بظاہر خائف ہوگئے تو دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا :
﴿ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى 68؀﴾ ( طٰہٰ :۶۸)
ترجمہ: ''ہم نے کہا کچھ خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا۔''
اسی طرح سے وقت بدلتا رہا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیا آپ ؑ نے بھی اپنی استطاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے انتھک محنت کی مگر قوم نے ان کے اخلاص کا جواب دشمنی سے دیا اور ان کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ اور اخر کار انہیں قتل کرنے اور سولی پر چڑھانے کے لیے کوشاں ہوگئے۔ ان کے خون کے پیاسے تھے او ر انہیں سولی چڑھانے اور قتل کے درپے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا١٥٧؀ۙبَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ١٥٨؁وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ١٥٩؀ۚ﴾ (النساء:۱۵۷-۱۵۹)
ترجمہ: ''نیز یہ کہنے کی وجہ سے کہ''ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن ، مریم کو قتل کرڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے اسے نہ قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ یہ معاملہ ان کیلئے مشتبہ ہوگیا اور بلاشبہ جن لوگوں نے اس معاملہ میں اختلاف کیا اوروہ خود بھی شک میں مبتلا ہیں انہیں حقیقت کا کچھ علم نہیں محض ظن کے پیچھے ہیں اور یقینا وہ انہیں قتل نہیں کرسکے تھے ، بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا اور اللہ زور آور او راور حکمت والا ہے ، اور تمام اہل کتاب (ابن مریم ) کی موت سے پہلے ضرور اس پرایمان لائیں گے اور قیامت کے دن وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔''
مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کی چالوں کو چکنا چور فرمادیا او رسیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو روح اور جسم کے ساتھ محفوظ آسمان پر اٹھالیا اور اس طرح یہاں بھی جھوٹ کا منہ کالا اور حق کا بول بالا ہوا۔۔
لہٰذا قیامت سے قبل عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں تشریف لانا اور ان عیسائیوں پر حجت کا تمام کرنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ بیتا نہیں کہ عرب کی سرزمین میں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سے قبل انبیاء کی سنت پر چلتے ہوئے تمام انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت کو قائم فرمایا اور ان کے عقائد میں سے زہر کو دور کرکے تریاق کو شامل فرمایا ان کی بداعمالیوں کو مٹاکر انہیں حسن اور صواب کے رستے پر گامزن فرمایا اور آپ کے دلائل اور براہین پر بڑے سے بڑا ترم خاں چت ہوا اور گمراہی حق کے آگے ہیچ بن کر رہ گئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقیدہ توحید کی فضا کو عام فرمایا حتی کہ دلائل او ر مخالف سمت سے اٹھنے والے اعتراضات کو بینات اور روشن براہین سے انکار د کیا مگر وہاں بھی میں نہ مانوں والا فقرہ دہرایا گیا ۔
1اہل نجران کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا ، آیت مباھلہ سے قبل اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا خاندانی پس منظر اور ان کی دعوت و تبلیغ کا ذرکر اور آخر کار ان کے آسمانوں پراٹھائے جانے کا ذکر تفصیل سے کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان کے غلط نظریات کی تردید فرمائی۔امام بخاری رحمت اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں اس قصہ کو ذکر فرمایا ہے۔ جب یہ آیت آیتِ مباہلہ کا نزول ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مباھلہ کی دعوت دی کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں یا تم عقیدہ تثلیث پر یقین رکھتے ہو تو آؤ ہم سے مباھلہ کرو ، لیکن جب یہ آیت انہیں سنائی گئی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کچھ سوچنے کا موقع اور مشورہ کی مہلت دی جائے ، پھر جب ان کی مجلس مشاورت قائم ہوئی تو ایک عقلمند بوڑھے نے کہا اے گروہ نصاریٰ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے ۔ ممکن ہے یہ وہی نبی ہو ۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں ۔ اگر یہ فی الواقع نبی ہوا او ر تم لوگوں نے مباھلہ کیا تو تمہاری کیا تمہاری نسلوں کی بھی خیر نہ ہوگی ۔ بہتر یہی کہ ہم ان سے صلح کرلیں ۔ اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ چنانچہ دوسرے دن جا کر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے فیصلے سے مطلع کردیا اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ اداکرنا قبول کرلیا ۔ اس واقعہ کو امام بخاری نے مختصراً الفاظ میں روایت کیا ہے ۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجران سے عاقب اور سید آپ کے پاس آئے ۔ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مباھلہ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ۔''اگر یہ نبی ہوا اورہم نے مباھلہ کیا تو پھر نہ ہماری خیر ہوگی نہ ہماری اولاد کی''پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا :''جو جزیہ آپ مانگتے ہیں ۔ وہ ہم دیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک امین آدمی ہمارے ہمراہ کردیجئے جو فی الواقع امین ہو '' یہ سن کر آپ کے صحابہ انتظار کرنے لگے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کا نام لیتے ہیں)چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابو عبیدہ بن جراح ! اٹھو ! جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس امت کا امین یہ شخص ہے ۔
(بخاری کتاب المغازی باب قصہ اہل نجران)
مندرجہ بالاحدیث سے یہ واضح ہوا کہ مباھلہ سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے نظارے دکھادئیے اہل نجران یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پر ہیں ان سے مباھلہ کرنا اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو ملیا میٹ کرنے کے مترادف ہے گو یا کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کوئی اولاد نہیں بنائی یہ عقیدہ فاسد اور باطل ہے ۔
زمانہ کروٹ بدلتا رہا شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ (المتوفی ۶۷۰ھ)تشریف لائے آپ رحمت اللہ علیہ نے قرآن وسنت کی محنت میں اپنی جان کی بازی لگادی بقول امام الیافعی کے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ۵۶۰کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ (مراۃ الجنان ج۲ص۲۵۱)
آپ کی کتب میں فتوی ابن تیمیہ جو کہ۳۷جلدوں پر ضخیم علمی مواد ہے آپ رحمہ اللہ نے باطل فرقوں کے خلاف علمی اور عملی جہاد کیا آپ رحمہ اللہ نے ملحدوں ، مشرکوں سے مناظرے اور مباھلے کئے اور انہیں باطل ثابت کرکے چھوڑا آپ نے باقاعدہ عیسائیوں کے خلاف ایک کتاب لکھی ''الدین المسیح'' کے نام سے جس میں عیسائیوں کے کئی اعتراضات کے عقلی اور نقلی جوابات دئیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حق کے خاطر کئی مناظرے اور مباھلے کئے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی اور کامرانی سے نوازا آپ نے اتحادیوں کے ساتھ مناظرے کا چیلنج قبول کیا جس کا ذکر آپ خود اپنے فتوی میں کرتے ہیں :
2''۔۔۔۔وانہ لایجری من ھذہ الامور شیء وطلب مباھلہ بعضھم''
(مجموع الفتاوی ج۴ص۸۷)
ایک اور مقام پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مباھلہ کا ذکر کیا اور کئی مورخین نے بھی آپ کے مباھلہ کا مفصل ذکر فرمایا ہے آپ رحمہ اللہ کا ایک مباھلہ بڑا معروف ہے جوکہ صوفیہ کے خلاف تھا ۔
امام ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ کا اپنا بیان:

3 صوفیہ سے مناظرے کا بیان مجموعہ فتاوی احمد بن تیمیہ رحمت اللہ علیہ ج۱۱، ص۴۴۵ سے ۴۷۵تک پھیلا ہوا ہے ۔ ان کا اپنا کہنا ہے کہ جب مجھے حالات سے آگاہی ہوئی تو میرے دل میں یقین پیدا ہوگیا کہ شاید کوئی عجیب وغریب واقعہ ہونے والا ہے ۔ جس کے ذریعے اللہ اپنے دین کو غالب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور زمین میں پھیلی ہوئی بدعتوں اور منافقوں کے حالات آشکار کرنا چاہتا ہے ۔ میںنہیں چاہتا کہ رفاعی فقیروں پر کسی قسم کی زیادتی ہو ۔ میں تو نہایت نرمی سے ان کور اہ ر است پر لانے کا خواہشمند تھا۔ لہٰذا میں نے رفاعی کو پیغام بھیج دیا کہ کل اگر مجھے دارالعدل میں حاضر ہونا پڑا تو اس کا وبال تم پر ہی ہوگا ۔ لعن طعن کا نشانہ تم ہی بنو گے ۔ کیونکہ اہل ایمان کے تیروں کا جو جواب دینے کی کوشش کر تا ہے وہ ہمیشہ ذلیل ورسوا ہوتا ہے ۔
چنانچہ ہمارے آدمی نے واپس آکر اطلاع دی کہ رفاعی فقیروں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے ان شیوخ سے بھی رائے لی جو اسرارالٰہی کے عارف سمجھے جاتے تھے انہوں نے کہا کہ شریعت محمدی میں جو حکم دیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور ان بدعات کو ترک کردو جن کے چھوڑنے کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ ان کے ایک مشہو ر شیخ نے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہاری کرامتیں تاتاریوں کے ہاں تو چل سکتی ہیں لیکن شریعت محمدیہ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔لہٰذا فقیروں نے کڑے اور زنجیریں اتارنے او رشریعت کا اتباع کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔
اما م ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ کا بیا ن ہے کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ مجھے کل دارالعدل میں ضرور حاضر ہونا پڑے گا تو رات کو میں نے استخارہ کرتے ہوئے اللہ سے مدد چاہی اور میں نے وہ فیصلہ کرلیا جو ایسے وقتوں میں اللہ کے برگزیدہ بندے کرتے ہیں ۔ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اگر مجھے آگ میں کودنا پڑا تو میں کود جاؤں گا او ر آگ ملتِ خلیل کا اتباع کرنے والوں پر ضرو ر ٹھنڈی ہوجائے گی اور ان لوگوں کو جلاکر راکھ بنادے گی جو اس راہ سے منہ موڑتے ہیں۔
امام الحنفآء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دشمن صائبین کے کچھ خاندان اب بھی بطائخ میں آباد ہیں ۔ان کے ساتھ بعض نصرانی خاندان بھی رہتے ہیں۔گمراہ عابدوں او ر زاہدوں کی ان سے رشتہ داریاں بھی ہیں ۔ اہل علم کو معلوم ہے کہ قرامطہ باطنیہ نصریہ اور اسماعیلیہ شرک اور انکار حق میں صابی فلسفیوں سے پوری مشابھت رکھتے ہیں ۔ صائبین کا ایک بڑا شرک یہ ہے کہ وہ انسانوں کے مرتبے بڑھانے میں بہت غلو کرتے ہیں اور شریعت سے الگ ہوکر نئی نئی عبادتیں ایجاد کرتے ہیں ۔ اس شرک میں سے اپنے اپنے مزاج کے مطابق ہمارے اتحادی ، عابدوں ،زاہدوںکو بھی بہت بڑا حصہ ملا ہوا ہے ۔
ہفتہ کے دن امام ابن تیمیہؒ اپنے ساتھ کسی کو لے جانا نہیں چاہتے تھے ۔ تاکہ کسی کو یہ تاثر نہ ملے کہ وہ اپنی حمایت کیلئے اپنے شاگردوں اور معتمدوں کو ساتھ لے آئے ہیں ۔ لیکن ساتھیوں اورشاگردوں کو بحث سننے کا مشتاق پایا تو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔
رفاعی فقیروں نے بہت کوشش کی کہ مناظرے سے بچا جائے ۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے برمحل شرعی دلائل کا وہ جواب نہیں دے سکیں گے ۔ لہٰذا انہوں نے ایسے امیروں سے رابطہ کیا جو ان کے بڑے معتمد تھے کہ ہمارا ایک خاص طریقہ کار ہے جس کو پوری دنیا میں کوئی عالم نہیں جانتا ۔ ہمارا شیخ درحقیقت خلیفۃ المشائخ کا مرتبہ رکھتا ہے اور دنیا کے تمام لوگوں پر اس کو فضیلت حاصل ہے ۔ جو لوگ ہمارے طریقوں کا انکار کرتے ہیں وہ ظاہر پرست ہونے کی وجہ سے راز اور حقیقت کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔ ہمارا اور اہل ظاہر کا طریقہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے ۔ اس لئے شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہرحمہ اللہکو ہمارے طریقہ کار کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔
رفاعی فقراء کے حمایتی امیروں نے امیر دمشق افرم سے مناظرہ نہ کرانے کیلئے جب گفتگو کی تو اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔حق کو پانے کیلئے مناظرہ بے حد ضروری ہے ۔ اس نے شہر کے رؤسا، قضاۃ ، علما، فقہاء اور کاتبوں کو مناظرہ سننے کی دعوت دے رکھی تھی اور عام لوگ بھی بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے ۔ امیر افرم نے امام ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ کی طرف آدمی بھیجا تو اس نے آکر اطلاع دی کہ دارالعدل آنے کیلئے وہ گھر سے روانہ ہوچکے ہیں ۔
امام رحمت اللہ علیہ جب دارالعدل پہنچے تو امیر افرم ان کو اپنی مجلس خاص میں لے گیا اور رفاعی فقیروں کی جو شکایات تھیں ان سے آگاہ کرتے ہوئے پوچھا ۔کیا آپ نے ان کو آگ میں کودنے اور آگ میں تپائی ہوئی زنجیریں گلوں میں ڈالنے کو کہا تھا۔امام موصوف نے جواب دیا ۔ یہ بہت بڑی تہمت ہے۔نہ میں نے کسی سے اس کا مطالبہ کیا اور نہ ان کیلئے ایسا کہنا جائز تھا ۔ یہ بدعتی لوگ جھوٹے ہیں اور انہوں نے دین اور دنیا کو اتنا بگاڑدیا ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ لوہے کی زنجیروں کو گلوں میں ڈالنا یہ عبادت تصور کرتے ہیں ۔حالانکہ شریعت کی رو سے جائز نہیں۔ہم نے ان کو انہی بدعتوں سے منع کیا تھا اور شریعت کی پابندی کی ہدایت کرتے ہوئے ان کو مختلف احادیث سنائی تھیں۔
امام رحمہ اللہ نے امیر کو ان کی طریقت اور کرامات کی حقیقت سے آگاہ کیا ۔انہوں نے امیر کو اپنے استخارے اور آگ میں کود جانے کے عزم کے بارے میں بتاتے ہوئے جب گرم پانی اور سرکہ سے نہانے کی شرط کا ذکر کیا تو اس نے وجہ پو چھی۔امام رحمہ اللہ نے بتایا :یہ لوگ مینڈک کی چربی ،نارنج کا اندرونی چھلکا اور طلق کے پتھر پیس کر جسموں پر لگا لیتے ہیں جس سے آگ ان پر اثر نہیں کرتی ۔خیال رہے کہ امام رحمہ اللہ کی یہ اپنی سوچ تھی۔ہوسکتا ہے کہ اس زمانے کے اور بھی کیمیکل وہ استعمال کرتے ہوں ۔ ASBESTOSپاؤ ڈر ایسی چیز ہے کہ آگ اس پر اثر نہیں کرتی ۔وہ کوئی ایسی ہی چیز استعمال کرتے ہوں گے۔
امام ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہکا ایمانی جذبہ اور توکل علی اللہ:

امیر افرم نے تعجب سے پوچھا ۔اگر سرکہ اور گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد بھی آپ کو آگ میں کودنے کیلئے کہا جائے تو کیا آپ کود پڑیں گے ۔ امام ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ۔ ہاں۔ کیونکہ میں نے اللہ سے استخارہ کیا ہے اور میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ضرورت پڑنے پر میں آگ میں کود جاؤں گا۔اگر میں نے ایسا کیا تو یہ نئی بات نہ ہوگی ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے جانشینوں سے بارہا خوارق عادات کا ظہور ہوچکا ہے او رہمیشہ ہوتا رہے گا ۔ جب یہ لوگ اپنے رموز واشارات اور خوارق عادات سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو باطل کرنا چاہتے ہیں تو ہم پر فرض ہے کہ اس کی حمایت میں اپنی جانوں اور مالوں کی قربانی دینے سے دریغ نہ کریں۔اللہ ہم کو ضرور اپنی نشانیاں دکھائے گا جن سے ہم ان کی خوارق عادات کا بخوبی مقابلہ کرسکیں گے۔
امام موصوف نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے جادوگروں کے واقعہ سے اپنے عزم کی تائید پیش کی ۔ امیر افرم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے ترکی زبان میں ترکی امیروںسے کہا : آج زبردست مقابلہ دیکھوگے۔
صلح کی کوشش:

امیر افرم جب مجلس خاص سے مجلس عام میں آیا تو ہال لوگوں سے بھر چکا تھا ۔عوام وخواص اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ فقرائے رفاعیہ کے شیوخ نے امیر سے درخواست کی کہ بہتر ہوگا اگر معاملہ کو یہی ختم کردیا جائے ۔ امیر افرم نے کہا ۔ صلح کی بات حق کے ظہور کے بعد ہوسکتی ہے۔
رفاعی شیخ حاتم نے آگے بڑھ کر صلح والی بات کو آگے بڑھایا کہ ہم سے جو برائیاں سرزد ہوئیں۔ ہم ان کی معافی مانگتے ہیں اور آئندہ کیلئے توبہ کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ زنجیروں کو اتاردیں گے جن کے اتارنے کا ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے اور تمام بدعتوں کو چھوڑ کر شریعت محمدیہ کی اتباع کریں گے ۔ امام ابن تیمیہؒ نے ان کے تائب ہونے پر ان کو بشارت دی کہ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہوتی ہے اور انہوں نے سورۃ المؤمن اور سورۃ الحجر کے حوالے سے اللہ کا فرمان سنایا ۔
﴿غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ﴾ (سورۃ المومن آیت۳)
(اللہ)گناہوں کو معاف کرنے اورتوبہ قبول کرنے اور سخت عذاب والا ہے ۔
﴿نَبِّیئْ عِبَادِیْ أَنِّیْ أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ oوَ أَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الأَلِیْمَ﴾
میرے بندوں کو بتادیں ۔ بے شک میں بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں اور بے شک میرا عذاب بڑا دردناک عذاب ہے۔ (سورۃ الحجر آیت۴۹-۵۰)
شاید تائب ہونے پر صلح کی بات ہوجاتی لیکن جس رفاعی شیخ نے امیر افرم سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شکایت کی تھی وہ اپنی جگہ کھڑا ہوا اور اس نے زنجیریں پہننے کے جواز میں ایک اسرائیلی روایت پیش کردی کہ ایک اسرائیلی زاہد عابد گردن میں لوہے کی زنجیر ڈالے رہتا تھا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا :ہمارے لئے یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ انہوں نے مسند احمد کے حوالے سے جابر بن عبداللہ سے مروی روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تورات کا کوئی صحیفہ دیکھا تو آپ نے فرمایا:
اے ابن الخطاب! کیا تم لوگوں کو تردد اور اضطراب میں ڈالنا چاہتے ہو ۔ میں ایک پاکیزہ چمکدارشریعت تمہارے لئے لایا ہوں ۔ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرتے تو تم ضرور گمراہ ہوجاتے۔
ابو داؤد کی مرسل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کسی صحابی کے ہاتھ میں اہل کتاب کی کوئی مذہبی کتاب دیکھی تو آپ نے فرمایا: کسی قوم کی گمراہی کیلئے اتنا ہی کافی ہے : کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری ہوئی کتاب کو چھوڑ کر دوسرے نبیوں پر اتری ہوئی کتابوں کی اتبا ع کرلے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورۃ العنکبوت میں فرمایا:
﴿أوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ ﴾ (سورۃ العنکبوت آیت۵۱)
ترجمہ: ''کیا ان کو کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جاتی ہے''
اس لئے ہمارے لئے جائز نہیں کہ جو باتیں ہماری شریعت کے خلاف ہیں ان میں سیدناموسیٰ علیہ السلام کے طریقوں کا ہم اتباع کریں حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ طریقے اللہ کی طرف سے ان پر نازل ہوئے ۔ ہمیں تو اسی شریعت کا اتباع کرنا ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ کیونکہ سورۃ المائدہ میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ﴾ (سورۃ المائدہ آیت۴۸)
پس آپ ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں کہ جو اللہ نے نازل فرمایا اور ان کی خواہشات کی پیروی اس حق کو چھوڑ کر نہ کریں جو آپ کے پاس آگیا۔تم میں سے ہر ایک کیلئے ہم نے ایک شریعت اور طریقہ بنادیا۔
جب موسیٰ علیہ السلام کی پیروی ہمارے لئے جائز نہیں تو بنی اسرائیل کے عابدوں کی پیروی کیونکر جائز ہوگی او ر وہ بھی ایک ایسی حکایت کی بنا پر کہ جس کی صحت کا ہمیں علم نہیں ۔ ہمیں بنی اسرائیل کے عابدوں سے کیا تعلق ۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٣٤؁﴾ (سورۃ البقرۃ آیت۱۴۱)
ترجمہ: ''وہ ایک امت تھی جو گزر گئی ۔ اس کیلئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمہارے لئے وہ ہوگا جو تم نے کمایا اور تم سے اس کا سوال نہیں ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے۔''
امام صاحب نے رفاعی شیخ سے کہا تمہارے پاس قرآن اور صحیح حدیث سے کوئی ثبوت ہے تو لاؤ ۔ رفاعی نے گھبراکر کہہ دیا :ہم شافعی ہیں۔ اس لئے ہما ری درخواست ہے کہ شافعی علماء کو جمع کرکے ان سے فتویٰ لیا جائے۔
امام موصوف نے فوراً گرفت کرتے ہوئے کہا : یہ کوئی ضرور ی نہیں۔بلکہ مسلمان علماء میں سے کوئی بھی اس کو جائز قرار نہیں دیتا ۔ ہر مسلک کا عالم دوسرے انبیاء علیہم السلام کے زمانہ کی شریعت محمدیہ کیخلاف عبادتوں کو بدعت کہتا ہے اور اس سے منع کرتا ہے ۔ یہاں شافعیوں کے مفتی کمال الدین زملکانی بیٹھے ہوئے ہیں۔امام رحمت اللہ علیہ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا ۔اے کمال الدین ! اس بارے میں تم کیا کہتے ہو ۔ انہوں نے جواب دیا : یہ بدعت ہے غیر مستحب ہی نہیں بلکہ مکروہ ہے ۔
رفاعی شیخ نے زنجیروں کو گلے میں ڈالنے کے جواز میں ایک فتویٰ بھی پیش کردیا او ران چند باطنی امور واعمال کا ذکر بھی کیا جو اہل ظاہر سمجھ نہیں سکتے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اہل مجلس پر واضح کردیا کہ شریعت محمدیہ پر کھلے نصوص کے سامنے کسی کے فتویٰ کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ کسی کیلئے جائز ہے کہ کتاب وسنت سے باہر قدم نکالے ۔ رہی بات باطنی امور واعمال کی تو اس بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ ظاہر وباطن ، شریعت وطریقت اور حقیقت ومجاز سب کچھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹادیا جائے گا ۔ کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کتاب وسنت سے روگردانی کرے۔ خواہ وہ مشائخ ہو یا فقراء یا امراء ہوں یا علماء وقضاۃ بلکہ ساری مخلوق پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت واجب ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ کا چیلنج:

رفاعی شیخ نے جب کہا : ہماری چند خصوصیات ایسی ہیں جو کسی کو نصیب نہیں ہوئیں۔ان کی وجہ سے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدینا چاہئیے او ر یہ کہہ کر اس نے آگ وغیرہ کی کرامتوں کو گنوانا شروع کردیا۔
امام رحمت اللہ علیہ غصہ کی حالت میں اٹھے اور بلند آواز سے کہا:میں یورپ سے لے کر پچھم تک ہر ایک احمدی رفاعی فقیر وشیخ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آگ کے اندر جو وہ دکھائے گا ۔میں بھی وہی کروں گا۔لیکن شرط یہ ہے کہ ہم دونوں سرکہ اور گرم پانی سے خوب جسم کو مل کر نہائیں گے ، کیونکہ یہ لوگ اپنے جسموں پر مینڈک کی چربی ، نارنج کا اندرونی چھلکا اور طلق پتھر پیس کر لگاتے ہیں جس کی وجہ سے آگ ان پر اثر نہیں کرتی ۔
رفاعی شیخ نے کہا۔ اچھا آؤ۔ہم اور تم بدن پر گندھک کا لیپ کرکے ٹاٹ لپیٹ کر آگ میں کودتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ۔اچھا یہی سہی ۔ انہوں نے رفاعی شیخ کواس کی جگہ سے اٹھایا اس کا کرتہ اتروایا اور کہا آؤ پہلے گرم پانی سے غسل کرلیں ۔
رفاعی شیخ نے آواز لگائی :کوئی ہے لکڑیوںکا گٹھا لے آئے ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا :یہ سب بے فائدہ اور وقت ضائع کرنے والی باتیں ہیں ۔آزمائش کیلئے گٹھے کی نہیں بلکہ چراغ کی چھوٹی سی بتی ہی کافی ہے ۔ چلو ہم اور تم دونوں چراغ کے شعلے پر اپنی انگلیاں رکھ دیتے ہیں ۔ جس کی انگلی جل جائے گی وہ مغلوب ہوگا اور اللہ کی اس پر لعنت ہوگی ۔ اس فوری گرفت پر وہ سخت پریشان ہوا اور اس کا رنگ پیلا ہوگیا او ر خوف اس کے چہرے پر نمایاں ہوگیا ۔
کرامتیں نہیں بلکہ اتباع شریعت اصل بات ہے :

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جب دیکھا کہ رفاعی شیخ مغلوب ہوگیا ہے تو انہوں نے حقیقی مسلم کی پہچان کو واضح کرنے کیلئے کہا: اگر غسل کرنے کے بعد آگ میں داخل ہوکر تم صحیح سلامت باہر نکل آؤ اور ہوا میں اڑنے لگو یا پانی پر چلنے لگو ، یا اور بھی کرامتیں دکھاؤ تو بھی شرع کے خلاف تمہارے دعوؤں کی دلیل نہیں ہوسکتی ۔ اور نہ تم ان کی وجہ سے شریعت محمدیہ کو باطل کرسکتے ہو۔کیونکہ دجال کے متعلق صحیح احادیث میں مروی ہے:وہ آسمان سے کہے گا:پانی برسا تو پانی برسے گا ۔ وہ زمین کو حکم دے گا :پودے اگا:زمین پودے اگائے گی۔ویرانوں سے کہے گا :اپنے خزانے اگل دو ، وہ خزانے اگل دیں گے،وہ ایک آدمی کو قتل کرکے کہے گا :زندہ ہوتو وہ زندہ ہوجائے گا۔ اس کے باوجود وہ دجال ہے ۔جھوٹا اور ملعون ہے اور اللہ کی اس پر لعنت ہوگی ۔
ابو یزید بسطامی کا قول ہے ۔ اگر تم کسی آدمی کو ہوا میں اڑتا ہوا یا پانی پر چلتا ہوا دیکھو تو اس سے ہرگز دھوکا نہ کھانا ۔ تاوقتیکہ جان لو کہ وہ امر ونواہی او ر شریعت کا پابند ہے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دلائل اور ان کے چیلنج سے رفاعی شیخ لاجواب ومغلوب ہوگیا تو اس نے امیر افرم سے صلح کی درخواست کردی۔جبکہ امام ابن تیمیہرحمت اللہ علیہپر جوش انداز میں احمدیہ رفاعیہ فقراء کو آگ کی کرامتیں دکھانے کا مطالبہ کئے جارہے تھے ۔ عوام کے مجمع میں سے کسی نے سورۃ اعراف کی یہ آیت بلندپڑھ دی۔
﴿ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١١٨؀ۚفَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِيْنَ ١١٩؀ۚ ﴾ (سورۃ اعراف آیت۱۱۸،۱۱۹)
ترجمہ: ''حق سچ ہوگیا اور جو وہ کرتے تھے وہ ناکام ہوگیا ۔ وہ وہیں مغلوب ہوئے اور ذلیل ہوکر لوٹے ۔''
صوفیہ کا عقیدہ اور ان کا خلافِ سنت ہونا اس واقعہ سے آشکار ہوتا ہے شیخ الاسلام رحمت اللہ علیہ نے انہیں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کیں اور انہیں شرعی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش فرمائی مگر جب بات بنتی نظر نہ آئی تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مباھلے کی دعوت دی کیونکہ قاعدہ بھی یہی ہے کہ حتی الامکان ،دلائل ومباحثہ کے ذریعے کتاب وسنت کی روشنی میں فریقین اپنے اپنے دلائل کو پیش کریں اگر یہاں کوئی اصلاح کی صورت یا پھر اس کا پہلو اجاگر ہوجائے فبھا ورنہ مباھلہ کا میدان بھی موجود ہے جوکہ آخر میں اس کو استعمال کیا جائے گا ۔ واقعہ پر نگاہ ڈالنے کے بعد یہ مسئلہ واضح ہوا کہ احادیث کے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ نے غالب رکھا ۔ مباھلہ کے کئی اور واقعات بھی کتب میں موجود ہیں۔
4
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

(من شاء لأعنتہ ماأنزلت:وا ؤ لات الاحمال اجلھن ان یضعن حلمھن ۔ (الطلاق:۴)الا بعد ایۃ المتوفی عنھا زوجھا اذا وضعت المتوفی عنھا زوجھا فقد حلت) (سنن نسائی کتاب الطلاق ج۲۶مع ذخیرۃ العقبیٰ رقم۳۵۲۲)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہسے روایت ہے انہوں نے کہا جس کا جی چاہے میں اس سے مباھلہ کرتاہوں کہ آیت (طلاق )کی کہ حمل والیاں ان کی عدت یہ ہے کہ بچہ جنے اس آیت کے بعد اتری ہے جس میں خاوند کی موت کی عدت کا بیان ہے تو حاملہ عورت جب بچہ جنے وہ نکاح کرسکتی ہے ۔(اور چار ماہ اور دس دن کی عدت کا حکم حاملہ عورت کے لئے منسوخ ہے)
5 امام ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفی ۷۵۱) نے بھی ان لوگوں کو مباھلہ کی دعوت دی جنہوں نے صفات باری تعالیٰ کا انکار کیا ۔(دیکھئے ذادالمعاد ۳/۲۴۳ نونیۃ ابن القیم بشرح الدکتور محمد خلیل ھراس ص۱۲)
6نواب صدیق حسن خان القنوجی (المتوفی ۱۳۰۷)اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
(وقد دعا الحافظ ابن القیمؒ من خالفہ فی مسألۃ صفات الرب تعالی۔)
(ج ۱ص۴۸۱)
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ان لوگوں کو مباھلہ کی دعوت دی جنہوں نے صفات باری تعالیٰ میں تحریف ، تعطیل کی انہیں رکن اور مقام کے درمیان مباھلہ کی دعوت پیش کی چنانچہ مخالفین نے مباھلہ کی دعوت کو قبول نہ کیا کہ انکاانجام بھیانک ہوگا۔۔۔۔(تفصیل کیلئے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب النوینۃ کا مطالعہ مفید رہے گا۔)
7الشیخ محمد بن عبدالوھاب نے بھی مباھلہ کی دعوت دی شیخ نے اپنے سائل میں ذکر فرمایا کہ :
(واناادعو من خالفنی ای احد أربع: اما کتاب اللہ واما الی سنۃ رسولہ واما الی اجماع اھل العلم، فان عائد دعوتہ الی المباھلۃ)
(عون الباری لحل ادلۃ صحیح البخاری ۳۳۴/۵)
یعنی شیخ نے ان کو چیلنج کیا جو مخالفت کرے کتاب وسنت کی او ر اجماع امت کی ۔
8حافظ ابن حجر کے بار ے میں بھی ایک مباھلہ کا ذکر ملتا ہے ، حافظ رحمہ اللہ کے ایک عظیم شاگرد برھان الدین البقائی نے فرمایا کہ میرے استاد نے ابن الامین نامی ایک شخص سے مباھلہ کیا ، مباھلہ ابن العربی صوفی کے عقیدے پر مشتمل تھا مباھلہ ۷۹۷ھ میں ہوا ابھی ایک ماہ کا عرصہ ہی ہوا کہ وہ شخص مباھلہ کی وجہ سے ہلاک ہوگیا ۔(تفصیل کیلئے دیکھئے : تنبیہ الغیبۃ ص۳۷)
ان واقعات کے علاوہ کئی اور واقعات بھی موجود ہیں جو کہ مباھلہ میں قرآن وسنت کے دفاع اور اس پر عمل کرنے والوں کے لئے راہ نجات کا ذریعہ بنا ۔الحمدللہ
9امام اوزاعی اور سفیان الثوری کے بار ے میں بھی رفع الیدین کا ذکر موجود ہے لہٰذا ایسے کئی واقعات موجود ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو ہمیشہ غالب ہی رکھا چاہے وہ دعوت کا میدان ہو یا جہاد یا پھر مباھلہ جیسا کٹھن معاملہ۔۔۔۔۔۔
010شیخ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے بھی قادیانیوں سے مباھلہ کا چیلنج کیا او ر جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح وکامرانی نصیب فرمائی ۔
جنوری۱۹۰۳میں مرزا قادیانی نے مکالمہ کیا بذریعہ اخبار ورسائل کے آخر کار مرزا صاحب تھک گئے مزاکرے کرکے۱۹۰۷ء اپریل میں ایک اشتہار دیا جس کی سرخی تھی مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ۔اور انہوں نے ثناء اللہ صاحب رحمہ اللہ کو مباھلہ کی دعوت پیش کی اور کہا: اگر میں (یعنی مرزا)جھوٹا ہوں تو آپ (ثناء اللہ صاحب رحمہ اللہ ) کی زندگی میں ہی مرجاؤں گا اگر آپ (ثناء اللہ صاحب رحمہ اللہ ) جھوٹے ہیں تو مکذبین کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے یعنی مجھ سے پہلے مریں گے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ تیرہ ماہ بعد مرزا قادیانی اپنی ہی دعا کی لپیٹ میں آگیا حتی کہ۴۰۶دن بعد مرزاقادیان خود اپنی دعاکی بعد بمرض ہیضہ مہلکہ سے ہلاک ہوگیا اور۲۶مئی۱۹۰۸ء کو اپنے کذب کی تکذیب پر مہر تصدیق لگا کر ثابت کرگیا کہ قیامت تک ختم نبو ت پر ڈاکہ ڈالنے والے برباد اور عذاب میں ہی مبتلا رہیں گے۔
مولانا امرتسری ہلاکت مرزا کے بعد چالیس سال تک عافیت کے ساتھ زندہ رہے ، گویا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے حق کی وجہ سے باطل کا سروناش کردیا ۔
(تفصیل کیلئے دیکھئے :رسالہ مسلمانوں کی مذہبی حالت ص۳,۴۔ مرتبہ مولوی خلیل احمد صاحب سیر ثنائی ص۲۰۸)
! امر تسرمیں ایک اور عالم دین کا مباھلہ صراط مستقیم برمنگھم برطانیہ سے شائع ہوا۔ مولانا صوفی عبدالحق صاحب غزنوی رحمہ اللہ علامہ موصوف ایک بلند پایہ اھلحدیث عالم دین تھے۔ امرتسر کے مشہو ر خاندان غزنوی کے چشم وچراغ تھے آپ نے تحفظ ختم نبوت میں بڑا نمایاں کردار اداکیا ، امرتسر ۱۸۹۱پ نے قادیانیوں پر مباھلہ کا چیلنج قبول فرمایا اور آپ رحمہ اللہ کے الفاظ کچھ یوں تھے:
مقام عید گاہ امرتسر میں مباھلہ اس طریق پر بدیں الفاظ میں ہوگا ۔ میں یعنی عبدالحق تین بار بآواز بلند کہوں گا یا اللہ میں مرزا کو ضال ، مضل ،ملحد، دجال کذاب ، مفتری،محرف کلام اللہ واحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتا ہوں ۔اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر لعنت کر جو کسی کافر پر تونے آج تک نہ کی ہو۔
''مرزا تین بار بآواز بلند کہے یااللہ میں ضال، مضل، ملحد، دجال ، ومفتری ومحرف کتاب اللہ واحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں تو مجھ پر وہ لعنت کر جو کسی کافر پر آج تک تو نے نہ کی ہو۔
حاضرین میں سب نے آمین کہی اور دعا بھی کی گئی۔
اس اشتہار کے مطابق جون ۱۹۸۳ عید گاہ امرتسر میں مباھلہ ہوا اور دونوں فریق امن وامان کے ساتھ واپس آگئے ۔
مباھلہ کا نتیجہ:

اس مباھلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے ایک سال دوماہ بعد مرزا کی منکوحہ محمدی بیگم کے شوہر کے انتقال کی آخری تاریخ مرزا کی پیشن گوئی کے مطابق آگئی لیکن وہ نہ مرا اور نہ ہی ڈپٹی آتھم مرا کیوں کہ اس کی بھی پیشن گوئی کی تاریخ آگئی اس طرح دونوں معاملے میں مرزا کو زبردست رسوائی او ذلت کا سامنا ہوا۔۔۔۔۔
آخر نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا اپنے مباھل صوفی عبدالحق غزنوی کی موجودگی میں انتقال کرگئے اور ان کی لاش پر لاکھوں کی احمدیہ بلڈندگ سے ریلوے اسٹیشن تک اینٹ ، پتھر، گندگی اور پاخانوں کی ایسی بارش ہوئی کہ تاریخ میں ایسی بدترین ذلت کی مثال نہیں ملتی اس کے برعکس عبدالحق صاحب مرزا کے مرنے کے بعد پورے نو برس تک زندہ رہے ۔
(دیکھئے:قادیانیت اپنے آئینے میں ص255)
@چوہدری شاہ محمد ساکن نتھو پوری کا بھی ذکر ملتا ہے کہ آپ سے چوہدری عبدالغنی مرزا نے مباھلہ کیا آپ محمد ساکن نے کئی بار انکار کیا مگر عبدالغنی مرزائی نے ایک نہ مانی لہٰذا ۲۷فروری۱۹۳۷ء سے ۲۷فروری۱۹۳۸تک میعاد مقرر ہوئی چنانچہ آخری تاریخ تک چوہدری محمدساکن صاحب عافیت کے ساتھ رہے اور عبدالغنی مرزائی تقریبا گیارہ مصیبتوں میں پھنس گیا اس طرح سے چوہدری شاہ محمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے نوازا۔
m۱۹۳۸ء ۳۰دسمبر کو موضع ٹھرو متصل چونڈہ ضلع سیالکوٹ میں ایک شخص مسمیٰ محمد علی مرزائی قادیانی نے اہلسنت والجماعت سے کہا کہ آؤمباھلہ کرلیں اور دعائیں مانگیں جھوٹے جومذہب جھوٹے پر ہو اللہ تعالیٰ اسے ایک ہفتے میں تباہ وبرباد کردے فریق ثانی نے کہا آؤ کرلو۔۔۔۔۔
تیسرے روز مرزائی محمد علی کا چھوٹا لڑکا بعمر آٹھ سال ایک کنویں کی چوکلی اور ڈول کے درمیان آگیا اور شدید زخمی ہوکر اگلے دن مرگیا محمد علی کو بات سمجھ میں آگئی کہ میں جھوٹے مذہب پر ہوں اور مجھے اس کی سزا ملی ہے اس کے بعد محمد علی مرزائی نے مرزایت سے توبہ کرلی۔(۳۰دسمبر۱۹۳۱ء اہلحدیث امرتسر)
nبروز جمعہ۲۷جولائی ۲۰۰۱کو کیرالاکے دوقادیانی حضرات شکور عبداللہ اور مظفر عبداللہ سے قادیانی مشن انجمن احمد یہ الحق بلڈنگ وائی ۔ایم۔سی ممبئی میں گفتگو ہوئی۔ جس میں دیگر قادیانی حضرات بھی شریک تھے ۔ قادیانیت کا دفاع مولوی عبداللہ کررہے تھے اور اسلام کی طرف سے اینٹی احمدیہ قادیانی موومنٹ ان اسلام ممبئی مولانا سرفراز سلام ربانی صاحب اور سابق احمدی احتشام الحق عبدالباری صاحب کررہے تھے۔ قادیانیوں سے گفتگو اس بات پر چھڑی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی ہلاکت مباہلے کے نتیجے میں ہوئی ۔ اس پر قادیانی مبلغ نے انکار کیا اور کہا یہ سب جھوٹ ہے ۔ قادیانی اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر اپنی شاطرانہ چال پر آگئے اور حیات مسیح اور وفات مسیح پر گفتگو کریں :ایسا کہا ۔ پھر احتشام الحق جو کہ پیدائشی احمدی تھے اور احمدیت کی بہت تبلیغ کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے احمدیوں کو بچپن سے ہی حیات مسیح او وفات مسیح پر گفتگو کرتے دیکھا ہے لیکن مرزا غلام احمدقادیانی سچا تھا یا جھوٹا اس پر آپ بات کریں اور یہ ثابت کریں کہ مرزا غلام احمد قادیانی مباہلے کے نتیجے میں ہلاک نہیں ہوا ۔ اس پر مولانا سرفراز سلام نے بغیر صفحہ بتائے روحانی قرائن جلد ۱۹ کا مطالعہ کرنے کو قادیانیوں سے کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مرزا صاحب نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر میں مباہلے میں ہلاک ہوجاؤں تو میری جماعت کو چاہئیے وہ جو ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں مجھ سے دور ہوجائیں اور اگر میں (مرزا) ہلاک ہوگیا تب یہ ثابت ہوجائے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔
چنانچہ قادیانی مبلغ نے ۱۵دن بعد بروز ۱۰اگست ۲۰۰۱کو بات چیت کرنے کا کامل یقین دلایا اور وعدہ کیا ۔ حسب وعدہ اینٹی احمدیہ قادیانی موومنٹ ان اسلام کے اراکین مولانا سرفراز سلام ربانی صاحب اور خطیب جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ ممبئی مولانا یوسف عمر صاحب، حافظ محمد عرفان صاحب ، نور محمد صاحب ، زاہد صاحب ، ماسٹر محمد علی صاحب، قاری مطیع الرحمن صاحب اور احتشام الحق عبدالباری صاحب وقت مقررہ قادیانی مشن کے پاس پہنچ گئے۔ کافی انتظار کیا لیکن قادیانی مبلغ مظفر عبداللہ او ر شکور عبد اللہ نے مناظرے سے فرار اختیار کیا۔ اس پر احتشام الحق صاحب نے قادیانیوں سے کہا کہ وعدہ خلافی منافق کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت میں کیا خوب فرمایا ہے باطل عقائد وافکار کے بارے میں:(وقل جاء الحق وزھق الباطل ۔۔۔۔۔۔الخ)کہو کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو تو بھاگنا ہی تھا ۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت:۱۸)
قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ عوام الناس کو الجھانے کے لئے قادیانی حضرات حیات مسیح اور وفات مسیح پر لمبی گفتگو کرلیں گے لیکن مرزا قادیانی کے سچے یا جھوٹے ہونے پر کبھی بھی اپنی عوام میں بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ ان سب پر مرزا قادیانی کا کذاب ہونا ثابت ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ
o دھلی میں مرزا قادیانی سے ڈاکٹربہاؤالدین کے مباھلہ کا بھی ذکر موجود ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو بڑی کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔(تحریک ختم نبوت ج۳)
ان واقعات کو میں نے یہاں اختصاراً نقل کیا ہے باقاعدہ مباھلہ پر کئی متقدمین میں سے علماؤں نے اپنے قلم کو اٹھایا ہے علامہ دوانی شافعی نے بھی ایک مستقل رسالہ اسی موضوع پر لکھا ہے اور سلف کے کئی ایسے واقعا ت آج تک کتب میں درج ہیں کہ انہوں نے اظہارِ حق کے لئے مباھلہ کو بھی اختیار فرمایا ،ظھار کے مسئلہ پر ابن عباسؓ سے بھی مباھلہ کا ذکر فرمایا ہے :
^

(عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: من شاء باھلتہ انہ لیس للأمۃ ظھار)
(سنن الکبری للبیھقی ج۷ص۶۳۰)


ترجمہ:'' لونڈی پر ظہار نہیں ہے، جو چاہتا ہے میں اس سے (اس مسئلے پر) مباہلہ کرتا ہوں۔''
سید نا امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایک واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے میراث کے مسئلے پر مباھلہ کا ذکر فرمایا ۔ (مصنف عبدالرزاق ۳۵۴/۱۰،الموسوعۃ الفقہیہ ج۳۶ص۵۷)
قارئین کرام یہ وہ واقعات ہیں جو مباھلہ کے ہونے پر دال ہیں عربی لغت میں مباھلہ کے معنی یہ ہیں کہ ہم دوفریقین اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ اگر میں غلط ہوں گمراہ ہوں تو ہم پر اللہ کی لعنت اور عذاب ہو اسی طرح سے دوسرا گروہ بھی یہی دعا کرے۔
*عکرمہ رحمت اللہ علیہ نے بھی ایک مباہلہ کا ذکر فرمایا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں :
''اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ'' (الاحزاب)
ترجمہ: ''اے اہل بیت اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کر دے اور تمہیں اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔''
یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات g کے بارے میں نازل ہوئیں۔ عکرمہ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ میں اس سے مباہلہ کروں اس آیت پر ( کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئیں تو میں مباہلہ کے لیے تیار ہوں۔) (تفسیر ابن اٴبی حاتم، ج ۹، صفحہ ۳۱۳۴)
(مولوی محمد نذیر صاحب جو سری لنکا میں جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) کے بانی ہیں۔ اور انہوں نے وہاں جماعت المسلمین کے لیے اندھا دھند کام کیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اس جماعت کا غیر جانبداری سے مطالعہ کیا تو ان پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ جماعت بھی فرق باطلہ میں سے ایک باطل ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اس جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) کو مباہلہ کا چیلنج بھی دے دیا جسے وہاں کے امیر نے قبول کر لیا اور پھر لوگوں کے سامنے ایک میدان میں مبالہ ہوا جس میں بقول ان کے انہیں کامیابی ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں دوسرے ہی دن مسعود احمد بی ایس سی صاحب کی موت ([1]) واقع ہوگئی۔ اس بات کا ذکر مولوی محمد نذیر صاحب نے سید وقار علی شاہ کے نام لکھے ہوئے اپنے خط میں کیا ہے جس کے اصل متن کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ کے بندے محمد نذیر کی طرف سے سید وقار علی شاہ کے نام
السلام علی من اتبع الھدی
اما بعد!
میں نے آپ کی کتاب ''جماعت المسلمین یا جماعت التکفیر'' کا مطالعہ کیا۔ چند دنوں سے میں بھی مسعود احمد( بی ایس سی) کی کتابوں اور جو کچھ ان کتابوں میں بدعتیں اور اجتہادات باطلہ کیے گئے ہیں ان کے متعلق غورو فکر کر رہا تھا۔ میں نے جماعت المسلمین والوں میں مسعودی مذہب کی اندھی تقلید کا رجحان پایا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ سری لنکا کے امیر عمر صاحب کہنے لگے کہ: جب امام مہدی تشریف لائیں گے تو وہ بھی مسعود احمد صاحب کی کتاب منھاج المسلمین پر عمل کریں گے'' اور ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ''ہمارے امام مسعود احمد صاحب بڑے علامہ ہیں، ہم پر لازم ہے کہ ہم اختلافات میں ان کی اتباع کریں''۔ اور انہوں نے سورة نساء کی آیت نمبر ۵۹ سے استدلال کیا:
﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ﴾
(النساء:آیت ۵۹)
ترجمہ: ''پس اگر تمہارے درمیان کسی مسئلہ پر تنازعہ ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کرو۔ ''
پھر کہا کہ
''اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہم میں موجود نہیں ہیں پس ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اختلافی امور کو مسعود احمد صاحب کی طرف لوٹائیں اور ان کے فتوؤں کو اختیار کریں یعنی اتباع کریں۔ ''
پس ان تمام باتوں کو دیکھ کر مجھ پر اس نئے فرقہ کی گمراہیاں واضح ہوگئیں، فللہ الحمد اور میں نے ۲۸ رمضان ۱۴۱۷ کو (سری لنکا) پتلم (Puttalam) شہر کی مسجد المسلمین میں نماز جمعہ کے بعد جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) سے اعلان براءت کر دیا۔ پھر میں نے مباہلہ کا چیلنج دیا اور ۵ شوال ۱۴۱۷ ھ کو پتلم شہر کی مسجد المسلمین کے قریب کے میدان میں مباہلہ مقرر ہوا۔ اور لوگوں کے سامنے دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر لعنت اور بددعا کی۔ پھر میں نے سنا اگلے دن یعنی ۶ شوال ۱۴۱۷ ھ کو مسعود احمد وفات پاگئے۔ (فللہ الحمد)
[1] ) مسعود احمد بی ایس سی صاحب کی موت مباہلے کی وجہ سے ہوئی ہو یا قدرتی موت مرے ہوں، اس مضمون سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جماعت المسلمین والے تکفیری لوگ ہیں۔ عام مسلمانوں کی تکفیر کے ساتھ وہ ایک دوسرے کی بھی تکفیر کرتے ہیں، اور ایک دوسرے سے مباہلہ کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔

http://www.islamicmsg.org/index.php/kutub/eedarey-ki-kutub/211-mubahila
 
شمولیت
جولائی 17، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
53
آیت مباھلہ کا شان نزول + روایات اہل سنت کی روشنی میں
اہل سنت کی بیشمار کتب میں اس آیت کا مصداق پنجتن سلام اللہ علیہم کو قرار دیا گیا ہے اور جن ہستیوں سے نصاری نے شکست کھائی وہ پنجتن پاک سلام اللہ علیہم کی ذوات مقدسہ تھیں
فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبينَ ۔ا ل عمران آیت 61
آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔
صحیح مسلم
-جب یہ آیت ( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ)نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فاطمہ، علی، حسن اور حسین [سلام اللہ علیہم } کو بلوایا اور فرمایا یا اللہ یہی میرے اہل بیت ہیں۔
صحيح مسلم ج 7 ص 120 باب فضائل علی ۔۔۔۔
المؤلف : أبو الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري
المحقق :الناشر : دار الجيل بيروت + دار الأفاق الجديدة ـ بيروت
مسند احمد
الآيَةُ (نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ) دَعَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَناً وَحُسَيْناً فَقَالَ « اللَّهُمَّ هَؤُلاَءِ أَهْلِى »
مسند أحمد / باب مسند سعد بن ابی وقاص ج 4 ص 139
سنن الترمذي
حدثنا قتيبة حدثنا حاتم بن إسماعيل عن بكير بن مسمار هو مدني ثقة عن عامر بن سعيد بن أبي وقاص عن أبيه قال : لما أنزل الله هذه الآية { ندع أبناءنا وأبناءكم } دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم عليا و فاطمة و حسنا و حسينا فقال اللهم هؤلاء أهلي
قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح
قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد
الجامع الصحيح سنن الترمذي ج 5 ص 225 باب سورہ آل عمران و ص 638
المؤلف : محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي
الناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت
تحقيق : أحمد محمد شاكر وآخرون
تحفة الأحوذي
قوله ( قال لما نزلت هذه الاية ) أي المسماة باية المباهلة ندع أبناءنا وأبناءكم الخ الاية بتمامها مع تفسيرها هكذا فمن حاجك فيه أي فمن جادلك في عيسى وقيل في الحق من بعد ما جاءك من العلم يعني بأن عيسى عبد الله ورسوله فقل تعالوا أي هلموا ندع أبناءنا وأبناءكم أي يدع كل منا ومنكم أبناءه ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ثم نبتهل أي نتضرع في الدعاء فنجعل لعنة الله على الكاذبين بأن تقول اللهم العن الكاذب في شأن عيسى ( دعا رسول الله عليا ) فنزله منزلة نفسه لما بينهما من القرابة والأخوة ( وفاطمة ) أي لأنها أخص النساءمن أقاربه ( وحسنا وحسينا ) فنزلهما بمنزلة ابنيه ( فقال اللهم هؤلاء أهلي )تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ج 8 ص 278
المؤلف : محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفوري أبو العلا
الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت
الشريعة للآجري
وأمر الله عز وجل نبيه بالمباهلة لأهل الكتاب لما دعوه إلى المباهلة ، فقال الله عز وجل : ( قل تعالوا ندع أبناءناوأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم۔فأبناؤنا وأبناؤكم : فالحسن والحسين رضي الله عنهما ونساؤنا ونساؤكم : فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأنفسنا وأنفسكم : علي بن أبي طالب رضي الله عنه۔الشريعة للآجري ج 3 ص 335
روح المعاني
وقد أخرج مسلم والترمذي وغيرهما عن سعد بن أبي وقاص قال : «لما نزلت هذه الآية { قُلْ تَعَالَوْاْ * نَدْعُ } الخ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علياً وفاطمة وحسناً وحسيناً فقال : اللهم هؤلاء أهلي» وهذا الذي ذكرناه من دعائه صلى الله عليه وسلم هؤلاء الأربعة المتناسبة رضي الله تعالى عنهم هو المشهور المعول عليه لدى المحدثين ، وأخرج ابن عساكر عن جعفر بن محمد عن أبيه رضي الله تعالى عنهم «أنه لما نزلت هذه الآية جاء بأبي بكر وولده وبعمر وولده وبعثمان وولده وبعلي وولده» وهذا خلاف ما رواه الجمهور .: روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ج 3 ص 190
المؤلف : محمود الألوسي أبو الفضل
الناشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت
آلوسی نے لکھا ہے کہ : یہ آیت پنجتن کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اسی پر محدثین نےاعتماد کیا اور جو روایت ابن عساکر نے امام جعفر {سلام اللہ } نقل کی ہے وہ خلاف جمہور ہے روایت یہ ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم ص ابوبکر اور انکی اولاد کو ، عمر اور انکی اولاد کو ، عثمان اور انکی اولاد کو ، علی {ع} اور انکی اولاد کو مباہلہ کے لئے لےگئے ۔
نوٹ : الوسی کیوں تکلف سے کام لیتے ہیں یہی انہیں جعلی روایت میں سے ہیں جو اہلبیت سےمنسوب کردی جاتی ہے کیوں صاف نہیں کہہ دیتے کہ یہ کن لوگوں کی گڑی ہوئی روایت ہے ؟؟
المستدرك على الصحيحين
- أخبرني جعفر بن محمد بن نصير الخلدي ببغداد ثنا موسى بن هارون ثنا قتيبة بن سعيد ثنا حاتم بن إسماعيل عن بكير بن مسمار عن عامر بن سعد عن أبيه قال : لما نزلت ذهه الآية { ندع أبناءنا و أبناءكم و نساءنا و نساءكم و أنفسنا و أنفسكم } دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم عليا و فاطمة و حسنا و حسينا رضي الله عنهم فقال : اللهم هؤلاء أهلي۔هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه
تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرط البخاري ومسلم۔المستدرك على الصحيحين ج 3 ص 163
المؤلف : محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوريالناشر : دار الكتب العلمية - بيروت
الطبعة الأولى ، 1411 - 1990
تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا
سنن البيهقي
وروى حاتم بن إسماعيل عن بكير بن مسمار عن عامر بن سعد عن أبيه قال : لما نزلت هذه الآية { ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم } دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا فقال اللهم هؤلاء أهلي
سنن البيهقي الكبرى ج 7 ص 63
المؤلف : أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي
الناشر : مكتبة دار الباز - مكة المكرمة
شرح العقيدة الطحاوية
( صحيح )
لما نزلت الآية : ( فقل تعالوا ندعوا أبنائنا وأبنائكم ونسائنا ونسائكم وأنفسنا وأنفسكم ) دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا فقال : " اللهم هؤلاء أهلي "
شرح العقيدة الطحاوية ص 547
المؤلف : علي بن علي بن محمد بن أبي العز الحنفي (المتوفى : 792هـ)
الناشر : المكتب الإسلامي - بيروت
تحقيق : محمد ناصر الدين الألباني
الطبعة : الثانية – 1414
مختصر منهاج السنة
والجواب أن يقال: أما أخذه عليًّا وفاطمة والحسن والحسين في المباهلة فحديث صحيح، رواه مسلم عن سعد بن أبي وقاص، قال في حديث طويل لما نزلت هذه الآية: ((فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِين)) [آل عمران:61] دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليًّا وفاطمة وحسنًا وحسينًا فقال: (اللهم هؤلاء أهلي)
مختصر منهاج السنة لأبي العباس شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ج 2 ص 451
 
Top