• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مبشر حسین لاہوری صاحب کا تعارف اور ان کے افکار میں تغیر کے متعلق علماء کے اقوال مطلوب ہیں

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس تھریڈ میں مبشر حسین لاہوری کا تعارف اور ان کے افکار میں تغیر پر علماء کے اقوال پیش کیئے جائیں!
وجہ اس کی یہ ہے کہ کل کو ان کے شاذ افکار کو اہل الحدیث کے گلے نہ باندھا جا سکے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس تھریڈ میں مبشر حسین لاہوری کا تعارف اور ان کے افکار میں تغیر پر علماء کے اقوال پیش کیئے جائیں!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تغیر سے شاعر مشرق کا شعر یاد آیا کہ :
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ مبشر صاحب کے افکار و منہج کو سمجھنے اور جانچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انکی کتب کو سامنے رکھا جائے ،
یا پھر خود
حافظ مبشر حسین لاہوری صاحب یہاں فورم پر اپنا نقطہ نظر اور منہج و فکر واضح کریں ۔
یا انکی آڈیو ،ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی جائے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حافظ مبشر صاحب کے افکار و منہج کو سمجھنے اور جانچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انکی کتب کو سامنے رکھا جائے ،
یا پھر خود
حافظ مبشر حسین لاہوری صاحب یہاں فورم پر اپنا نقطہ نظر اور منہج و فکر واضح کریں ۔
یا انکی آڈیو ،ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی جائے ،
مبشر لاہوری پھر اسلامی آبادی اور پھر امریکی ان سب میں فرق ہے ۔ مبشر امریکی صاحب کی کچھ عرصہ قبل کی تحریر من و عن ملاحظہ کرلیں :
’ "آزاد تقلید" اور "محدود اجتہاد"۔۔۔۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ "تقلید" اور "اجتہاد" دو ایسے سو فیصدی متضاد فریق سمجھے جاتے ہیں جن کی "شادی" ناممکن ہو۔ دیگر قدیم مفکرین کے علاوہ شاہ ولی اللہ ؒ نے بھی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہندی "غیر مقلدیت" (بشمول اھل حدیث) میں یہ غلط فہمی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ جو تقلید کا لبادہ اتارتا ہے وہ پھر "شیخ الاسلام" سے چھوٹا منصب قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا! حالانکہ آپ ہر باب/شعبے میں "مجتہد مطلق" نہیں ہو سکتے تو پھر کچھ ابواب میں تو "تقلید" کو گوارا کر لیجیے، خواہ وہ "آزاد تقلید" (مزید وضاحت آیٗندہ) ہی کیوں نہ ہو!
میں نے اپنے ایک غیر مقلد "شاگرد" کو ایک "بڑے" علمی و فقہی کام پر لگایا۔ نظریہ، خاکہ اور مواد سب کچھ میں نے فراہم کیا، بہت سی "ہدایات" مسلسل کیٗ سالوں تک دیتا رہا، کتاب کی ترتیب میں فقہی آراء کا مناقشہ زیر بحث رہتا، جگہ جگہ وہ یہ جملہ لکھ مارتے: "ابوحنیفہؒ نے یہاں حدیث کی مخالفت کی ہے"، یہی حال کچھ دوسرے ایٗمہ کے ساتھ بھی جناب نے فرمایا۔ میرے سمجھانے سے باز نہ آےٗ تو میں نے بھی کچھ مباحث میں قصدا ان کی غلطیوں کی اصلاح نہ کی۔ تاکہ اہل علم کو اندازہ ہو سکے کہ ان کا مبلغ علم کیا ہے۔ وہی ہوا کہ جن لوگوں میں مذکورہ بالا غلط فہمی پہلے ہی سرایت کر چکی تھی، ان کے فہرست میں وہ بھی ایک "شیخ الاسلام" مانے گےٗ اور جن اہل علم کی نظر ان کی "فحش غلطیوں" پر پڑی انہوں نے صاف "تبصرے" چھاپے کہ یہ صاحب تو کسی کا ادھورا پراجیکٹ نقل مار کر لاےٗ ہیں یا پھر فقہ و قانون اسلامی سے نابلد ہیں!
یہی حال میرے بہت سے اور غیر مقلد دوستوں کا بھی ہے۔ جب وہ تقلید کی نفی کرنے جاتے ہیں تو پھر چودہ صدیوں کی علمی و اجتہادی روایت کو نہ صرف نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ اس کے مطالعہ کو بھی "فتنہ" قرار دینے لگتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اپنے محدود علم اور پس منظر میں کی جانے والی قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کو عین اسلام قرار دینے لگتے ہیں، بلکہ مزید اصرار یہ ہوتا ہے کہ ہمارے "فہم" کے علاوہ باقی سب (۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔) ہے۔ (خالی جگہ خود پُر کر لیں!)۔ جن چند فقہی مسایل میں متقدمین کی آراء پہلے سے موجود ہوتی ہیں ان میں تو وہ کسی ایک کو اختیار کر کے اپنی راےٗ بنا لیتے ہیں مگر جہاں آراء نہیں ہوتیں، ان میں ان کے ہاں اول تو کویٗ "اجتہاد" سامنے نہیں آتا اور اگر آتا ہے تو وہ اکثر کسی کا "چربہ" ہی ہوتا ہے! (مثالیں کبھی آیٗندہ!) ‘ ۔
۔۔۔۔
منہج کیا ہے ، وہ تو ان کے الفاظ سے واضح ہے ، کل کے چھوکرے کی ساتھ ساتھ گھمنڈ ، تکبر اور غلطی سے فرار جیسی خوبیاں بھی آپ کو اس تحریر سے ظاہر ہو رہی ہوں گی ۔
صاحب کا کہنا ہے کہ علم و تحقیق کے سمندر تو ہاورڈ امریکہ میں بہہ رہےہیں ، برصغیر پاک و ہند اور اہل عرب تو جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میرے فکری مآخذ

مبشر حسین امریکی
(۱)۔۔۔۔۔۔ اُس وقت پرایمری کا امتحان پہلی بار بورڈ کے تحت منعقد ہوا تھا جس میں ایک نمبر کے فرق سے میں نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ والد صاحب مجھے قرآن مجید ناظرہ، کچھ ترجمہ، نماز، بہت سی دعاییں وغیرہ اس وقت تک پڑھا چکے تھے۔ مجھے مدرسے داخل کروا دیا گیا۔ اور مہتمم صاحب کو یہ کہا گیا کہ آپ نے ایک خطبے میں کہا تھا کہ ہمارے پاس جس طرح کے "نکمے" بچے داخل ہوں گے اسی طرح کی "پروڈکشن" معاشرے کو "برداشت" کرنا ہو گی مگر میں اپنا ذہین ترین بچہ آپ کے حوالے کر رہا ہوں! (سکول والوں نے میرے سکول چھوڑنے کے غصے میں سرٹیفیکیٹ اور سکالر شپ بھی نہ دیا!)۔ ۹ سال کی عمر میں باقاعدہ مذھبی مدارس سے تعلیمی سفر کا آغاز ہوا۔ پاکستان بھر کے تمام سنی مکاتب (اھل سنت والجماعت کے دونوں بڑے مکاتب یعنی دیوبند اور بریلوی اور ان کے علاوہ اھل حدیث) کے ہاں تقریبا چودہ پندرہ سالوں تک تعلیمی سفر جاری رہا۔ شیعہ مدارس میں خواہش کے باوجود پڑھ تو نہیں سکا مگر ان کے بنیادی لٹریچر کا کافی حد تک مطالعہ کیا ہے۔ تین مختلف مدارس میں استاد کی حیثیت سے چند سال پڑھانے کا موقع بھی ملا۔ اس دوران میں جہاں بھی گیا بلا مبالغہ پورے مدرسے میں (صرف کلاس میں نہیں) اول پوزیشن حاصل کرتا۔ جو مروجہ علوم ہمارے ہاں پڑھاےٗ جاتے ہیں، تقریباً سبھی سے گزرا ہوں لیکن کہیں بھی اندھے مقلد کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ وجہ والد صاحب کی تربیت تھی جنہوں نے وزارت اطلاعات کی سرکاری نوکری کے ساتھ پاک و ہند کا تمام مذبھی، سیاسی، اور تاریخی لٹریچر نہایت گہرایٗ سے پڑھ رکھا تھا اور اگر کسی کے علم و اخلاق سے کچھ متاثر ہوےٗ تو وہ کسی حد تک سید مودودیؒ تھے۔ لیکن ساری زندگی کبھی کسی ایک مکتب کے "وکیل" بننے کی بجاےٗ "مسلمان" کی سطح پر سوچتے اور مجھے بھی ہمیشہ یہی کہتے کہ سب کو پڑھو، معتدل رہو اور جہاں حق بات ملے اسے لے لو۔ ہیرا اگر جوہڑ میں بھی چمک رہا ہو تو اسے اٹھا لینا چاہیے!
مجھے بارہا یاد دہانی کراتے تھے کہ ہمارے مختلف مکاتب بچوں کو "دولے شاہ کا چوہا" بنا دیتے ہیں، بس کبھی ایسی "فولادی" ٹوپی نہ پہننا اور مذھبی تعلیم کو پیشہ نہ بنانا ورنہ "حق" بات شاید کبھی نہ کہہ سکو گے۔ مجھے تو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، چنانچہ وہ خود مثبت اقدامات کرتے رہتے مثلاً ایک مسلک کے مدرسے کی تعلیم میں قصدا دوسرے مسلک کے بنیادی دلایل سے میرے ساتھ بحث کرتے تا کہ بتا سکیں کہ تشریحات کے فرق اور اجتہادی مسایل میں "لچک" کی کیا اہمیت ہے۔ اکثر "عظیم" لوگوں کی داستانیں سناتے یا ان کی کتابیں پڑھنے کے لیے لا دیتے۔ اس کا فایدہ یہ ہوا کہ میں جہاں بھی گیا، وہاں کے تعلیمی نصاب کو خوب پڑھا، ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کی مگر ساتھ اپنے ناقدانہ مزاج کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ احترام آج بھی سب اساتذہ کا دل میں ہے مگر جہاں اختلاف ہے اسے دلیل اور جرأت سے بیان کرنے کی توفیق بھی ہے۔ والد صاحب کے کہنے پر عصری تعلیم پرایویٹ طور پر پوری کی(جس کی تفصیل کبھی بعد میں دوں گا)۔ والد صاحب ہی نے مجھے بچپن میں بنیادی انگریزی اور فارسی کی بھی تعلیم دی، وسیع المطالعہ بنایا، دنیاےٗ اسلام کی تمام بڑی جماعتوں اور دینی افکار سے روشناس کرایا، چودہ صدیوں کی "تاریخ اسلام" ناقد کی حیثیت سے پڑھایٗ۔ چنانچہ قرآن مجید کے حفظ کے ساتھ میں نے سنت کا تمام بنیادی ذخیرہ نہ صرف پڑھا بلکہ "حفظ" کر لیا۔ لیکن افسوس سے کہوں گا کہ قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر میں تمام اجتہادی و فقہی مذاہب کو ایک مسلمان کی مشترکہ میراث سمجھنے، انہیں برابر کے درجہ میں رکھ کر پڑھنے اور راےٗ قایم کرنے کا مزاج کسی مدرسے نے پیدا نہیں کیا، اگر کیا تو صرف حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور سید مودودیؒ کی تحریروں نے۔ بنیادی طور پر میری فکر کی تشکیل میں۔۔۔ یا یوں کہیے کہ۔۔۔ قرآن وسنت کی تشریح و تعبیر کے اصولی اور فقہی مباحث میں یہی دو شخصیات مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سے میں نے کیا سیکھا اس کی تفصیل میرا خاص موضوع بنتا رہے گا، اس لیے آج صرف ان کے علاوہ "برصغیر" کے جن اہل علم کی تحریروں سے، کسی نہ کسی درجمہ میں، میں نے استفادہ کیا ہے، اس کی ایک نامکمل فہرست پیش کر رہا ہوں:
حضرت مجدد الف ثانیؒ (سے جرأت و دینی حمیت سیکھی)، شبلی نعمانیؒ (تحقیقی و عقلی مزاج سیکھا)، ابوالکلامؒ (زبان و بیان اور اسلوب نقد سیکھا)، علامہ اقبالؒ (مسلم اخوت اور عشقِ رسول، صلی اللہ علیہ وسلم سیکھا)، امین احسن اصلاحیؒ (قرآنی علوم سیکھے)، مولانا عبد السلام اور مولانا عبد المنانؒ (حدیث، علوم حدیث اور فقہ ظاہری سیکھی)، مولانا وحید الدین خان (غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے کا اسلوب سیکھا)، پروفیسر ظفر اسحاق انصاریؒ (تحقیقی مزاج، تنقیدِ مغرب اور بہت کچھ سیکھا)، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ (اصولی مباحث اور بہت کچھ)۔ یہ صرف "برصغیر" کے چند ایک وہ بڑے اہل علم ہیں جن سے واقعتا میں نے کچھ سیکھا ہے اور اس کے علاوہ پاک و ہند کی تاریخ میں جتنے قابل ذکر اہل علم پیدا ہوےٗ ہیں ان کی بنیادی تحریروں اور افکار کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے بلکہ دوران مطالعہ صاف پتا چل جاتا ہے کہ ان کی تحریروں کے مآخذ کیا ہیں!
لیکن میری ہمیشہ حسرت رہی کہ کاش کویٗ ایسا "مدرسہ" ہو جہاں شروع ہی سے قرآن و سنت کے ساتھ تمام فقہی مذاھب کا مطالعہ و احترام، قدیم و جدید افکار سے گہری آشنایٗ، امت مسلمہ کے حقیقی مسایل کا ادراک اور قانون اسلامی کی تعبیر و تشریح کی گہری اجتہادی بصیرت پیدا کی جاتی ہو۔۔۔ میرے پیچھے تو ایک وسیع المطالعہ اور وسیع التجربہ باپ تھا جس نے واقعی "دولے شاہ کا چوہا" نہ بننے دیا، لیکن کیا ہر ایک کا پس منظر یہی ہوتا ہے! (اگر واقعی یہ کویٗ مثبت فکر ہے تو اس کے لیے میرے مذھبی دوستوں کو ذاتی مفادات اور مسلکیت سے بالا ہو کر ملک و ملت کی سطح پر سوچنا، بلکہ کچھ کرنا ہو گا! ۔۔۔ یٰلیت قومی یعلمون!)
میں اپنی فکر اور نقد میں نہایت مثبت اور مخلص ہوں، لیکن جن دوستوں کو میری باتوں سے صرف "تکلیف" ہی ہوتی ہے، بہتر ہے وہ مجھے مزید نہ پڑھیں!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
دنیاےٗ اسلام کے دو عظیم "مولوی" ۔۔۔ طارق رمضان اور ہاشم کمالی

مبشر حسین امریکی
جی ہاں یہ دونوں "مولوی" ہیں بالکل اسی معنی میں جس میں ہمارے ہاں اسلام کی تشریح و تعبیر کا واحد حق دار کسی "مدرسہ" کے فاضل مولوی کو سمجھا جاتا ہے، مگر ہندی علما کے مقابلہ میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دونوں داڑھی مونڈ مولوی ہیں اور داڑھی سے متعلقہ روایات کو "سنن العادۃ" ہی کے باب سے سمجھتے ہیں!
جو لوگ داڑھی اور پتلون کی بحث کو کفر واسلام کی بحث بنا لیتے ہیں، یاد رکھیے وہ "ذاتی مفاد کی دکانوں" سے اونچا ہو کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مفلوج ہو چکے ہیں اور یقینا ایسے لوگ امت مسلمہ کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے، اس لیے کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ آج کی دنیا میں مسلمانوں کے اصل مسایل ہیں کیا!
ڈاکٹر انصاری مرحوم نے ایک مرتبہ کسی علمی مسٗلہ پر طارق رمضان اور ہاشم کمالی کی راےٗ مجھ سے پوچھی تو میں نے کہا کہ میں نے تو ان "علماء" کے نام ہی کبھی نہیں سنے، راےٗ کیا بتاؤں! (مجھے پیار سے ڈانٹا اور کہا "کبھی "اھل حدیثیت" سے بلند ہو کر بھی سوچو اور امت مسلمہ کے دوسرے مذہبی سکالروں کو بھی پڑھنے کی عادت ڈالو") چنانچہ پھر ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد انصاری صاحب کو اپنا "تجزیہ" پیش کر دیا۔
اس دوران واقعی مجھے انداذہ ہوا کہ یہ دونوں معمولی "مولوی" نہیں ہیں۔ طارق رمضان تو اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا مرحوم کے نواسے ہیں، مصر میں حالات خراب ہونے پر طارق کے والدین یورپ کے ایک ملک میں جا بسے اور وہی طارق پیدا ہوےٗ مگر اسلامیات کی تعلیم جامعہ ازہر میں آ کر مکمل کی۔ بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ دنیا کی عظیم یونیوریسٹی آکسفرڈ میں اسلام کے پروفیسر ہیں۔ سیرت رسول (ص) پر ان کی کتابیں دنیا میں سیرت پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ (یقینا ایمان تازہ کر دیتی ہیں اور ساتھ میں "شعور" بھی بیدار کرتی ہیں!)
طارق کی خوبی یہ ہے کہ اس نے وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ اسلام کی سیاسی روایتی تعبیر پر نظر ثانی کر کے نےٗ اور قابل عمل حل امت مسلمہ کے لیے پیش کیے ہیں اور آج انہیں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک "پل" کا کردار ادا کرنے کے لیے امید سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یوسف قرضاوی سمیت اس کے تمام اساتذہ بھی اس سے بہت "پیچھے" رہ گےٗ ہیں۔ ان کی بعض اجتہادی آراء پر حسب معمول انتہا پسند مولویوں نے کافی منفی پراپیگنڈہ بھی کیا ہے مگر ان کی تحریروں اور تقریروں کے بعد ان کے علمی قد کاٹھ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 2013 میں انہیں امریکہ میں استاد کی حیثیت سے بلایا گیا مگر ان کے بعض "اسلامی افکار" کی وجہ سے انہیں ویزا نہیں دیا گیا جس پر عدالتی کیس ہوا اور فیصلہ طارق کے حق میں ہوا، مگر انہوں نے استادی قبول نہ کی۔ پچھلے دنوں ہاروڈ اسلامی سوسایٹی کی دعوت پر انہوں نے ہمارے ہاں لیکچر بلکہ غیررسمی طویل نشست کی اور بہت کام کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ ان کا نام اور ذاتی ویب سایٹ کے لیے دیکھیے: http://tariqramadan.com/english/
ہاشم کمالی تو طارق کے بھی استاد ہیں۔ مغرب و مشرق کا حسین امتزاج۔ مغربی دنیا میں نہ صرف پڑھا بلکہ گہرے علمی اور اصولی نقد بھی کیے۔ بنیادی طور پر ملایشیا کے ہیں، اور اپنے ملک کی اسلامی یونی ورسٹی میں اسلامی قانون کے پروفیسر ہیں، بلکہ ملایشیا کے وزیر قانون بھی رہے ہیں۔ یعنی مذھبی اور سیاسی دونوں لحاظ سے نہایت مضبوط شخصیت۔ 2014 میں امریکہ کی ایک یونی ورسٹی میں جب امریکی قانون کی ایک خاتون پروفیسر پر اسلامی قانون میں عدم مہارت کے حوالے سے میں نے تنقید کی تو اس نے اپنے چار مآخذ بتاےٗ جن میں واحد مسلم ماخذ ہاشم کمالی تھے۔ (اس کے بعد کیا ہوا میرے بہت سے رفقا جانتے ہیں!)۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہاشم کمالی نے بعض چیزوں میں آپ کے شاعر مشرق سے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ میرے ایک رشتہ دار بچپن میں ملایشیا آباد ہو گےٗ تھے وہیں شادی کی اور ملایٗ زبان سیکھ لی۔ مہاتیر محمد کا دور اقتدار اپنے سامنے مشاہدہ کیا۔ وہاں کے شافعی اسلام اور کمالی جیسے پروفیسروں کے علمی و اجتہادی کارناموں کو وہ ملایشیا کے اسلام کی خوبصورتی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ملایشیا پاکستان سے بہت پیچھے تھا، ہر لحاظ سے، لیکن آج ہر لحاظ سے پاکستان سے آگے ہے، حتی کہ مسلمانوں کی مذہبی زندگی پاکستانی مذہبی زندگی سے اخلاقی و عملی لحاظ سے بہت بہتر ہے۔ اگر کمالی جیسے پروفیسروں کے داڑھی مونڈ ہونے کے "جرم" میں ان سے استفادہ نہ کیا جاتا تو ملایشیا کو یہ مقام کبھی نہ ملتا! (لمحہ فکریہ ہے میرے انتہا پسند "مولوی" دوستوں کے لیے!!)۔۔۔
دیکھیے ہاشم کمالی کی ویب سایٹ: http://www.hashimkamali.com/
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کنویں کا مینڈک کیا جانے سمندر کیا ہے! ۔۔۔ اپنے "ظاہریت زدہ" دوستوں کے لیے !
اس کہاوت کی معنویت تو میں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو ذرا "فقہی" نوعیت کی ہے جس پر بعض دوستوں نے کہا کہ آپ کے "اہل الظاھر" شاید اسے نہ سمجھ پاییں۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ ان کے لیے اس کا ظاہری مفہوم بیان کرنے کے لیے اپنے حالیہ سمندر کی سیر اور وہیل "مچھلی" کی کچھ تصاویر شیر کر دوں۔۔۔۔ شاید یہ انہیں سمجھانے میں مفید ثابت ہوں کہ سمندر کیا ہے! (اسے مزاح ہی سمجھا جاے!)
مبشر حسین امریکی
خود کو ’ فقیہ ‘ اور دوسروں کو ’ ظاہریت زدہ ‘ ثابت کرنے کی کوشش میں مبشر امریکی صاحب ’ فکاہت ‘ بکھیر رہے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق ہی جاحظ نے کہا تھا : بداتم تفقہون فظلتم تفکہون۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کافی واضح اور ’’ چشم کشا ‘‘ تعارف ہے ،
منہج و رجحان کی نمایاں جھلک دکھائی دی ،
پاک و ہند کے علماء کو ’’ دولے شاہ ‘‘ کی فولای ٹوپی پہناکر خود کو کوئی مجدد قسم کا (Creative ) رائیٹر
اور روایتی علماء کو ’’ کنویں کا مینڈک ‘‘ بناکر خود ۔۔ ایف سیون ٹین ۔۔ سمجھ لیا ہے ،


مجھے بارہا یاد دہانی کراتے تھے کہ ہمارے مختلف مکاتب بچوں کو "دولے شاہ کا چوہا" بنا دیتے ہیں، بس کبھی ایسی "فولادی" ٹوپی نہ پہننا
کنویں کا مینڈک کیا جانے سمندر کیا ہے! ۔۔۔ اپنے "ظاہریت زدہ" دوستوں کے لیے !
چودہ صدیوں کی علمی و اجتہادی روایت کو نہ صرف نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ اس کے مطالعہ کو بھی "فتنہ" قرار دینے لگتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اپنے محدود علم اور پس منظر میں کی جانے والی قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کو عین اسلام قرار دینے لگتے ہیں، بلکہ مزید اصرار یہ ہوتا ہے کہ ہمارے "فہم" کے علاوہ باقی سب (۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔) ہے۔ (خالی جگہ خود پُر کر لیں!)۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠کنویں کا مینڈک کیا جانے سمندر کیا ہے!
اس کہاوت کی معنویت کو جو اہل علم سمجھتے ہیں وہ پھر علوم و فنون کی اعلیٰ منزلوں کے حصول کے لیے محلہ، شہر اور ملک کی سرحدیں روندتے ہوے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری میں جو حسن و گیرایٗ مغربی تعلیم کے بعد پیدا ہویٗ ، پہلے قطعاً نہ تھی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم کی فکر میں حجاز کے تعلیمی قیام نے جو ارتقا و جامعیت پیدا کی، اس کا حصول ہند میں بیٹھ رہنے سے ممکن نہ تھا۔ میں نے پی ایچ ڈی کے بعد مزید علمی پیاس کی خاطر سب سے پہلے سعودی عرب کے ایک تعلیمی ادارے کا رخ کیا۔ بہت محبت اور شوق سے میں سعودی عرب گیا تھا مگر سخت مایوسی اٹھانا پڑی۔ اخلاقی تنزل کے مختلف مظاہر، فکری جمود کی انتہا، اجتہادی مسایل میں عدم برداشت کا رویہ۔۔۔اور بہت کچھ۔ حتی کہ مجھے مجبوراً تعلیمی پروگرام ادھورا چھوڑنا پڑا ،تاکہ میں اپنا قیمتی وقت مزید ضایع ہونے سے بچا سکوں۔(تفصیلات شاید کسی اور موقع پر زیر بحث آیٗیں)، لیکن بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اب علوم و فنون کے مراکز مغرب میں ہیں، لٹریچر ان کے پاس ہے، ذخایر ان کی دسترس میں ہیں۔ اخلاق، قانون اور انسانی حقوق کے تحفظ اور پاسداری کی مثالیں اب ادھر ہی پیدا ہوتی ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کریں۔ سعودی درس گاہ ، جو بنیادی طور پر اساتذہ کی تربیتی تعلیم گاہ تھی، میں ہماری لایبریری اور کلاس کے اوقات ایک ہی تھے، اس کے بعد لایبریری بھی بند اور کوی کتاب بھی آپ "ادھار" نہیں لے سکتے۔ سات سے آٹھ ماہ وہاں اسی موضوع پر بحث رہی مگر کویٗ حل نہیں نکالا گیا۔ امریکہ میں مجھے، یونیورسٹی کے معمول کے مطابق، اسلامی علوم پر تحقیقی مواد کے لیے ہارورڈ نے ہر تعلیمی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ دنیا کی کویٗ کتاب، مضمون،مواد، خواہ کسی بھی زبان میں ہو، ایسا نہیں جو ایک ہفتہ کے اندر مہیا نہ کیا جاے، حتی کہ آپ ای میل پیغام بھیج دیں وہ چیز سکین کر کے فورا آپ کو بھیج دی جاتی ہے۔ یہاں ہر علم اور فن کی بنیادی مجالس ہیں جو سال میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور ایک بڑا اجتماع منعقد کرتی ہیں اور اپنے اپنے موضوع پر دنیا بھر میں ہونے والی جدید مباحث و تحقیقات سے باخبر کرتی ہیں۔۔۔اور بھی بہت کچھ۔۔۔ اب آپ اس کو ذہنی مرعوبیت کہیں تو پھر "انگور کھٹے ہیں" والی بات ہے، یا پھر "کنویں " کا مینڈک بنے رہیں، بلکہ مزید کبوتر کی طرح آنکھیں بھی بند کر لیں کہ کہیں آپ بھی مرعوب نہ ہو جایٗیں!!
کچھ دوستوں نے میری راے سے اختلاف یقینا علمی سنجیدگی سے کیا ہو گا مگر بہت سے دوستوں کی پریشانی کچھ اور بھی ہے۔ کچھ تو "ذاتیات" پر اتر آےٗ اور بدگمانی، اور کذب بیانی جو ہماری قوم کا بدقسمتی سے دلچسپ مشغلہ بن چکا ہے، کا بھی انہوں نے بھرپور اظہار کیا ہے۔ بقدر ہمت، بقدر علم اور بقدر ظرف ہر کویٗ بات کرتا ہے۔ مجھے ہر طرح کی اخلاقی گرواٹ سے سخت نفرت ہے، اس لیے فضول باتوں کے جواب کی بھی توقع نہ رکھی جاےٗ۔
مجھے خدا نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک "استاد " کے منصب سے نوازا ہے۔ آج بھی سارا دن ہارورڈ کی ایک عالمی کانفرنس کی صدارت اور اس کے انتظامی امور میں مصروفیت رہی۔ پارٹ ٹایم ڈالر اکٹھے کرنے کی بجاے گوروں کو مسلمان بنانے کی کوشش کرتا ہوں اور دو کامیاب کوششیں کر چکا ہوں۔ ابھی بھی اپنے محلے کے چارغیر مسلموں کو "اسلامیات" پڑھا رہا ہوں اور ہمارے مذہبی انتہا پسندوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے جو نفرت مغربی معاشروں میں پیدا کر رکھی ہے اس کے ازالے کے لیے اپنی سی کوشش کر رہا ہوں۔ یہاں لوگ "خدا" کو نہیں مانتے، آپ اجتہادی مسایل میں کفر و الحاد کے فتوے لگانے چلے ہیں!
میں سنجیدہ علمی و فکری مکالمے کی روایت پر یقین کرتا اور اسی کو پروان چڑھانا چاہتا ہوں۔ میرے "احباب" جمع خاطر رکھیں پاکستان واپس آ کر کسی منظم شکل میں سنجیدہ بحث و مباحثہ کی روایت زندہ کروں گا۔ مذہبی انتہا پسندی، اخلاقی تنزلی اور علمی جمود پر تعمیری تنقید میرے خاص موضوع ہوں گے۔ لیکن "جاہلوں" اور "حاسدوں"کو بس دور سے "سلام"!
ایک گروپ میں اس پر ہونے والے تبصرے بلا تعیین اشخاص ارسال کرتا ہوں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر اس طرح کے لوگوں کو کہیں نہ کہیں کوئی ’ کرنٹ ‘ لگا ہوتا ہے ، مبشر امریکی صاحب کے ’ کرنٹ ‘ کے متعلق بھی کسی نے بتایا ہے (دروغ بر گردن راوی) کہ سعودیہ میں کسی ڈپلومے میں شریک ہونے کے لیے آئے تھے ، وہاں کسی وجہ سے انہیں دوران ڈپلومہ ہی نکال دیا گیا(ان کے بقول وہ خود اس ڈپلومے نکل گئے تھے) ...اس حادثے کو دل پر لے گئے ، آگے سے اللہ نے ’ اسباب ‘ بھی مہیا کردیے .. اوریوں دیار حرمین سے نکل کر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں وہ خود پاور ہاوس بننا چاہتے تھے یہاں ڈپلومہ میں کچھ دیر مجلس ہوئی تھی تو ان کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سعودی پیسہ پہ ان کو ہی بدو بنا رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہاں ان کے پاس سیکھنے کے لئے کچھ نہیں میں تو سیر وغیرہ کا مقصد رکھتا ہوں نتیجتا کلاس میں غیر حاضری کی وجہ سے سعودیہ نے ان کو سپلی دے کرکٹ واپس بھیج دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سعودیہ کی اس یونیورسٹی کا تو علم نہیں جس میں مبشر حسین صاحب علم کی پیاس بجھانے(کیا واقعی؟؟؟) بڑی مشکل سے پہنچے تھے
اسی طرح اس یونیورسٹی کے مکتبہ کے اوقات کا پتہ لگانا بھی تا حال میرے لئے آسان نہیں تآنکہ مبشر صاحب کسی اور فرصت میں اس کے نام پر سے پردہ اٹھائیں
حیرت ہے اسلامی معاشرہ تو اخلاقی تنزل اور فکری جمود کا شکار
اور اخلاق قانون اور انسانی حقوق کے محافظ انہیں مغرب و امریکہ میں ہی نظر آئے
امریکہ انکل سام نے تیسری دنیا میں بالخصوص مسلم ممالک عراق و افغان میں جو مختلف بم برسا کر خونریزی کی یہ سب تو انسانی حقوق کا تحفظ ہی ہے
اور شاید اخلاق سے عاری اور تحقیق سے نابلد مسلمان لوگ اب درجہ انسانیت پانے سے بھی (اس محقق صاحب کے ہاں) قاصر ہیں
اور اخلاقی تنزلی کے سبب بس اسی سلوک کے لائق تھے جس کا فریضہ امریکہ بجا لایا
اور شاید جدید ریسرچ میں یہی جہاد اور فرض عین کا درجہ پالے
معاف کیجیے گا دنیا اتنی بھی سادہ نہیں کہ حقائق سے چشم پوشی پر یوں ایمان لے آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل غرب سے مرعوب ديسيوں کی کمی نہیں۔

لیکن حيرت ہے کہ يہ موصوف كبھی اپنے سابق معلمين محسنين پر کیچڑ اچھالتے ہیں کبھی سلفیوں کے نمائندہ ملک پر، لگتا ہے اپنی شعبیت اور قارئین کی لسٹ بڑہانے کے آج کل یہ ہی سستے طريقے رہ گئے ہیں۔

علم کے پیاسے طلباء كو دین سیکھنے کے لیے مکہ مدینہ کی مبارک سرزمین کے بجائے امريكہ کا قبلہ دکھانا ان کی اس تحرير كا بنیادی مقصد معلوم ہوتا ہے۔

ویسے مجھے خوشی ہوگی اگر یہ اس سعودی یونیورسٹی کا نام بتا دیں جہاں یہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد علم کی پیاس بجھانے آئے تھے!

آخر میں عرض ہے کہ عملى طور پر كتب كا سمندر اب كمپیوٹر کی دنیا میں منتقل ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی جامعہ اسلامية مدينہ منورہ كى تمام کلیات کی اپنی الگ الگ لائبریریز صبح كے رسمی اوقات کے بعد بھی عصر تا عشاء روزانہ کھلتی ہیں، اور ہاں کتاب "ادھار" لینے کی سہولت بھی میسر ہے ۔

اور یہاں کے مکتبہ مرکزیہ آپ کو تمام علوم وفنون کی کتب اور ریسرچ پیپرز مل جائیں گے جن کو آپ خود اسکین بھی کر سکتے ہیں، ان کی پی ڈی اف طلب بھی کرسکتے ہیں، اور اگر کسی کو "ادھار" لی ہوی کتاب لوٹانے کا خیال رات 2 بجے بھی آجائے تو لائبریری کی کمپیوٹرائزڈ مشین اس کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہوی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁠⁠⁠⁠⁠دنیا کے لاکھوں لوگ سعودی یونیورسٹیوں سے ان کے خرچ پر علمی پیاس بجھانے پہنچے
اعلیٰ ڈگریاں پائیں اور آج خوب اسلامی خدمات بجا لا رہے ہیں
یہ سب مقفل مکتبات کے باہر بیٹھ کر اس کے در و دیوار سے علم حاصل کرتے رہے
کم از کم مجھ ناکارہ نے اپنے کسی ایسے استاذ بلکہ دوستوں سے بھی کسی یونیورسٹی کے مکتبہ کی ایسی شکایت نہیں کی
یہ ناکارہ جدید محقق کی تکذیب کی جسارت تو نہیں کر سکتا
لیکن انکل سام کی طرح سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں
جہاں اس قسم کا کوئی مکتبہ اگر ہے تو کئی تعاون کرنے والے مکتبات بھی موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ڈارمے بازی اور کچھ نہیں ۔
یہ صاحب اخلاقیات اور علم و تحقیق کے اس قدر دلدادہ ہیں .. ان کی داڑھی والی ایک پوسٹ کے نیچے ایک عالم دین نے سوال کیا :
یہ فکر آپ کو امریکہ جاکر ہی کیوں یاد آئی ہے ؟ یہ فکر کس محدث سے لی ہے ؟
امریکی محقق کا جواب تھا :
و أعرض عن الجاہلین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا سعودی مکتبات کے حوالے سے گزارش یہ ہے کہ ہوسکتا ہے ، کہ اس کی انتظامیہ اس قدر چست نہ ہو ، جس قدر امریکہ کی ہوتی ہے .. لیکن بہر صورت انہیں مکتبات سےفائدہ اٹھا کر لوگ علمی پیاس بجھا رہے ہیں . انہیں بند مکتبوں سے گھڑی ساز البانی ’ محدث و مجدد البانی ‘ بن گیاتھا ، کبھی انہیں کسی یورپی مکتبے میں جانے کی حاجت محسوس نہیں ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشايخ كرام.

كچھ متجدد حضرات كے حال پر رحم كرنا چاہیے۔
اب یہ اپنی سابقہ مسلکی اقدار اور "پابندیوں" کی زنجیر اپنے زعم میں توڑ چکے ہیں۔
دیگر مسالک کے لوگ ان کو قبول كرنے سے رہے۔
رہے آج کل کے "پرو غامدى" لبرل طبقات، جو مولوى كے نکاح اور جنازه كى حساس پوزیشنیں سانبھالنے سے ہر وقت حيران وپریشان رہتے ہیں اور رافضى طبقات جو ديار حرمين ميں چیونٹی کو ہاتھی دکہانے کے درپے رہتے ہیں۔
چناچہ اب ایسے گاہکوں کی تلاش شروع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب سے ہم سب پر لازم ہے کہ محقق مرعوب کی شان میں کسی قسم کی ادنی سے ادنی گستاخی کے مرتکب بھی نہ ہوں
ویسے ہی اسلامی معاشرہ اور خاص طور پر (ان کے خیال میں) تنگ نظر مولوی ملاں اخلاق و انسانیت سے کورے چٹے ہیں
تو ان کی تحقیق انہیں کہیں اس نتیجہ پر نہ لا کھڑے کہ اصل قصور تو بس اسلام ہی کا ہے
نعوذ باللہ من شرور انفسنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلکی اقدار کھو دینے پر اتنا افسوس نہیں
جتنا کہ اسلامی اقدار کھو کر مرعوبیت کا شکار ہو جانے پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہوری صاحب کی فیس بک وال پر بہت ہی عجیب و غریب چیزیں موجود ہیں ۔ ہر روایتی چیز کا مذاق اور استہزا اڑاتے ہیں حتیٰ کہ یہاں تک لکھا ہے کہ ابن تیمیہؒ کی تحریروں میں مجھے تکفیریت کی جھلک محسوس ہوئی !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک پہ مبشر صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس میں ان کی مغرب سے مرعوبیت کا اندازہ ہوتا ہے ایک دن میں نے ایک مشورہ دیا تھا اس دن سے انہوں نے ہمیں ان فرینڈ کیا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ ان کے زیر بحث کالم میں ایسی بچگانہ باتیں ہیں جن کا بہتیرا رد ہم اپنے بچپن میں سنتے کرتے آئے ہیں
اور لڑکپن میں ہی ایسی باتوں پر بیساختہ ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑتے تھے کہ
کس قدر سادہ ہیں میر.....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبشر امریکی دراصل اپنی تشہیر چاہتا ہے اسکو امر یکہ میں بے نامی کی موت مرنے دیں۔ اسکی ہفوات کو بالکل اہمیت نہ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی شیخ محترم
امام ابن تیمیہ رحمہ الله
نے دین مسیح بدل دینے والوں کا جو رد فرمایا
جب کہ موصوف محقق صاحب ان پر سو جان سے فدا و واری جاتے ہیں تو تکفیر کی بو تو آئے گی ہے
میری بات ہو تو میں انہیں بادب مشورہ دوں گا کہ حضرت اپنی ناک صاف کر لیجیے بو نہیں آئے گی
ان شاء الله۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل درست فرمایا اب انھیں مدارس اور علما کے بجاے متجدد اچھے لگتے ہیں چناں چہ ایک پوسٹ طارق رمضان اور اس کے کسی استاد کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں کہ اصل محقق ایسے ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں جس سے بھی بات ہوئی اس نے سخت افسوس کا اظہار کیا کہ یہ کیا ہو گیا موصوف کو ۔ ایسا نہیں کہ لوگ امریکا یورپ نہیں جاتے لیکن اپنے مسلمات سے دست برداری کی ایسی عبرت ناک مثالیں بھی بہ ہر حال موجود ہی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قمر بھائی! آپ جیسے زیرک دوستوں کو دلبرداشتہ نہیں ھونا چاھیے،،، کہتے رھیں وہ جسے حق سمجھتے ھیں,،، بحث ومباحثہ میں آخری خلاصہ وھی ذھن میں رھتا ھے جس میں تمام پہلوؤں جمع ھوتے ھیں،،، یہاں کسی با صلاحیت بھائی کی آواز زیرو اثر نہیں رکھتی ۔۔۔ آپ کی بات کی قوت آپ کی فکری دلیل میں پنہا ھوتی ھے ۔۔۔ اس لیے مبشر صاحب کے حوالہ سے اپنی مثبت بات کو ضرور پیش کرسکتے ھیں،،، اعانکم اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بالکل یہ ایک فطری بات ہے
ان کی بات کا جواب دینا آپ کا حق تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ شائد صرف جواب مقصد بھی نہ تھا،،، ایک مسئلہ جس کی نشاندھی انہوں نے کی تھی اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کی شئیرنگ بھی مقصود تھی،، کہ جو کمی ھے ھم اس کا ادراک کرکے اصلاح کی طرف مائل ھوں اور جہاں معاملہ مرعوبیت اور بے انصافی کا ھے اس بارے میں مبشر بھائی اور دیگر ایسے افراد کو سچ بتائیں تاکہ وہ حق کی اتباع کریں۔
باقی ھماری پوری کوشش اور خواھش ھے کہ ھماری دعوت کا اسلوب اتنا شستہ ھو کہ ھماری محنت ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم کی تصویر پیش کرے ۔
میری تمام بھائیو سے گزارش ھے کہ جنہوں نے موصوف پر تبصرہ بالاخلاص فرمایا ھے وہ ان کی اصلاح کیلیے درد دل کیساتھ دعا بھی فرما دیں ۔۔۔ اور بطور ترغیب بتا دوں کہ میں نے الحمد للہ اپنے بھائی کیلیے تنہائی کے لمحات میں صدق دل سے دعا بھی کی ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top