• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"متضاد احادیث "

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
"متضاد احادیث "
جیسا کہ سلسلہ "متضاد احادیث" کے حوالے سے پہلے بیان کیا گیا کہ ایسی احادیث جو بقول منکرین حدیث "آپس میں تعارض رکھتی ہیں یا ایک دوسرے کہ مخالف ہیں اسلئے حدیث کو وحی کہنا درست نہیں ،کیوں کہ وحی میں غلطی کا احتمال نہیں" ، بیان کی جائینگی جو بظاھر ایک دوسرے سے متعارض ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہیں ،اس سلسلے میں پہلے ان احادیث پر جوابات کو بیان کیا جائیگا جو نہ صرف متعارض بلکہ بظاھر شان نبوت کے منافی بھی معلوم ہوتی ہیں ،یعنی منکرین حدیث ان احادیث کو اپنی کم علمی کی وجہ سے شان نبوت کی توہین پر بھی مامور کرتے ہیں، اس سلسلے ایسی احادیث ترتیب وار لکھی جائینگی جو پہلے توہین رسالت پر منطبق کی جاتی ہیں اس سلسلے کی پہلی حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
متعارض حدیث #١
"حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ جب نماز کہ لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے اور اذان کے بعد واپس آجاتا ہے اور اور واپس آکر نمازی پر مسلط ہوجاتا ہے اسے بھولی ہوئی باتیں یاد دلانا شروع کردیتا یہاں تک کہ نمازی بھول جاتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نمازیں پڑھیں"
(صحیحین)

#اعتراضات
اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے دو اعتراض کئے جاتے ہیں :
اعتراض #١
"شیطان کا اذان کی عربی عبارت سے گھبرانا ،لیکن دوران نماز ،قرآن کی تلاوت ،دعائیں اور دیگر چیزوں کی پرواہ کئے بغیر نمازی پے مسلط ہوجانا ،ایسی منطق ہے جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہے" ،
اعتراض #٢
"اگر نماز میں بھول شیطان کی طرف سے ہے تو ایسی بھی حدیث ہیں جس میں الله کے رسول بھول جایا کرتے تھے ،یعنی قصہ مختصر کہ رسول الله صلی الله یہ وسلم پے بھی شیطان قابض ہوجاتا تھا ،یعنی یہ بات سرا صرف نبوت کی شان کے منافی اسلئے ایسی احادیث رد ہیں" ،
جواب اعتراض #١

اذان شعائر اسلام میں سے ہے ،اعلائے کلمہ الحق ہے ،وحدہ لا شریک له کی توحید کا اعلان ہے اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت عام ہے ،یہ ہیں وجوہ جن کی بناہ پر شیطان اذان سے دور بھاگتا ہے ،یہ آواز اس کو بری لگتی ہے اس سے اس کو ڈر محسوس ہوتا ہے اور خوفزدہ ہوکر بھاگتا ہے اور نہیں چاہتا کہ توحید کا عام اعلان اس کے کان تک پوھچے، ،اسی طرح جب اقامت ہوتی ہے تو کیوں کہ اس میں بھی وہ ہی اعلان ہوتا ہے اسلئے شیطان دور ہوجاتا ہے ،
اس کے علاوہ بھی اس میں کوئی راز مخفی ہو تو ہمیں کیا علم ،ہم لوگ غیب پر ایمان لانے والے ہیں ،اور ہر حال میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کو بے چوں چراں تسلیم کرتے ہیں ،اس کہ کنہ اور رموز سے واقف ہونا ہمارے لئے ضروری نہیں ،اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات کو اس وقت تسلیم کیا جائے کہ جب وہ ہماری عقل پے پوری اترے تو پھر ہمارا ایمان عقل پے ہوا نہ کہ رسول الله پر ،بلکہ یہ تو تکذیب ہوئی رسول الله اور منصب رسالت کی کہ اگر کوئی بات ہماری سمجھ نہ آتی تو ہم یہ کہہ دیں کہ یہ بات تسلیم نہیں کی جائیگی گویا آپ نے جو ہمیں بات بتائی ہے وہ غلط ہے ،اگر معیار عقل ہی ہے تو قران مجید کی بہت ساری آیات اس اصول پو پوری نہیں اترتیں
جیسے:

" اِنَّ الَّـذِيْنَ تَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ ظَالِمِىٓ اَنْفُسِهِـمْ قَالُوْا فِيْـمَ كُنْتُـمْ ۖ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ قَالُـوٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّـٰهِ وَاسِعَةً فَـتُـهَاجِرُوْا فِيْـهَا ۚ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوَاهُـمْ جَهَنَّـمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا (النساء 97)
بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، سو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے"۔
کیا یہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات ہماری عقل پے اترتی ہیں؟ یعنی روح قبض کرتے وقت فرشتوں کا مرنے والوں سے باتیں کرنا اور مرنے والے کا جواب بھی دینا ؟؟
جب اس کو تسلیم کیا جاسکتا ہے عقل کو ایک طرف رکھ کر تو حدیث کو ایمان بالغیب تسلیم کرنے میں کیا امر کیا امر مانع ہے ؟

جواب اعتراض # ٢
بھول صرف شیطان کی طرف سے ہی نہیں ہوتی ،ایک بھول فطرت میں بھی ہوتی ہے ،اور ان دونوں بھول سے صرف الله کی ذات مبراء ہے :
" ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّىْ وَلَا يَنْسَى (52)
میرا رب نہ بھٹکتا ہے نہ بھولتا ہے"
شیطان کی طرف سے جو بھول ہوتی ہے وہ یہاں ذکر ہے :

"موسیٰ علیہ سلام کے ساتھی نے کہا کہ میں مچھلی بھول گیا ،اور آپ سے اس کا ذکر کرنا مجہے شیطان نے ہی بھلا دیا"
(الکہف – ٦٣ )
دوسری آیت میں ہے:

"موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر میری گرفت نہ کیجئے"
( الکھف – ٧٣ )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بھولتے تھے ، ان کے ساتھی کی بھول شیطان کی طرف سے تھی اور خود ان کی بھول فطرت واقع ہوئی ،لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھول کی دو قسمیں ہوئیں یعنی ایک بھول فطری اور ایک شیطان کی طرف سے .
اب ان دونوں آیاتوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بھول جس طرح پہلی بار شیطان کی طرف سے تھی اسی طرح دوسری بار بھی شیطان کی طرف سے ہوسکتی ہے؟؟
،یعنی موسیٰ علیہ السلام کی بھول بھی شیطان کی طرف سے تھی اور ان پے بھی شیطان تسلط پاسکتا ہے ؟؟؟
یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی اعتراض قرآن مجید پے بھی آسکتا ہے.
ہم ایسی سوچ اور ایسے نتیجہ اخذ کرنے سے الله کی پناہ طلب کرتے ہیں، اور یہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ سلام کی بھول بھی فطری تھی، جو انسانی تخلیق میں شامل ہے .
خلاصہ یہ کہ نماز میں بھول شیطان کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور فطرت کے مطابق بھی، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بھول فطرت کے مطابق تھی نہ کہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے ، اسی بھول والی حدیث میں رسول الله نے فرمایا تھا
"میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ، اسی طرح بھولتا ہوں جسے تم بھولتے ہو "
گویا رسول الله نے خود صراحت فرمادی کہ میری بھول انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق واقع ہوئی ہے ،
رسول الله کی بھول کا ذکر قران مجید میں بھی ہے:
"اور جب آپ بھول جایا کریں تو اپنے رب کا ذکر کیجئے "
(الکھف – ٢٤ )
اور مزید :
"اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے ،جب انھوں نے اپنے رب سے کہا ،کہ شیطان نے مجہے سخت تکلیف دی اور عذاب میں مبتلاءکردیا "
( س – ٤١)
کیا ایوب علیہ السلام رسول نہیں تھے ؟؟ان پر شیطان کا تسلط کیسے ہوسکتا ہے ؟؟بتائیں کیا کیا جائے ؟؟؟اس آیت کو قرآن مجید سے نکال دیں کہ شان نبوت پے ضرب ہے ؟؟؟؟مستشرقین کو کیا جواب دیا جائے آیت مذکور کا ؟؟؟
غلط فہمی اور کم علمی سے انسان کچھ کا کچھ سوچ لیتا ہے،اور یہ ہی حال منکرین حدیث کا نہ صرف کم علمی بلکہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے ،
یہاں واضح ہے کہ جو اعتراض حدیث پے ہیں وہ ہی قرآن مجید پے آسکتے ہیں ،اسلئے معیار ایمان ہونا ضروری ہے ،عقل نہیں ،

"کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا "

مزید احادیث اگلی تحریر میں ان شا الله
سیف علی
 

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
دوسرا حصہ
"متضاد احادیث "
#حدیث :
"الله کے رسول کے سامنے کسی شخص کا ذکر ہوا کہ فلاں شخص دن چڑھے تک سوتا رہا ،آپ نے فرمایا کہ شیطان اس کے کانوں میں موت گیا اس لئے سوتا رہا "
(بخاری)
#متعارض_حدیث :
"عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول الله کہ ہمسفر تھے ،پچھلی رات تک ہم چلتے رہے ،سحرکے قریب لیٹ گئے اور دیر تک سوتے رہے ..سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق بیدار ہوئے اور آپ نے رسول الله کے سرہانے کھڑے ہوکر تکبیر کہنا شروع کردی ،چناچہ آپ بیدار ہوئے اور نماز پڑھائی "
(بخاری)
اعتراض :
" اگر کوئی پوچ بیٹھے کہ حضور کہ دن چڑھے سونے کی وجہ بھی وہ ہی تھی تو پہلی حدیث میں بیان کی گئی تو سوائے استغفراللہ استغفراللہ کہ کیا کہہ سکتے ہیں ، جب کہ دوسری حدیث جو بخاری کی ہے اس کے مخالف،کون سی صحیح مانی جائے اس لئے یہ احادیث شان نبوت کے خلاف اور متعارض ہیں رد ہیں "
جواب :
اس حدیث کو منکرین حدیث شان نبوت کی توہین سمجھتے ہیں اور دونوں احادیث میں خود ساختہ تعا رض بنا دیتے ہیں کہ یہ حدیث رسول کی شان میں توہین ہے کیوں کہ دیر سے سونے تک ایسا ہوتا ہے تو نبی بھی دیر تک سوئے تو کیا شیطان نے ...معاذ الله ؟؟؟
در حقیقت ایسا ہرگز نہیں ہے ، دونوں احادیث صحیح ہیں مگر دونوں کا موقع محل علیحدہ علیحدہ ہے ، جس کو منکرین ایک سیاق و سباق میں پیش کرتے ہیں اور توہین رسالت کو جواز بنا کر صرف اعتراض کرتے ہیں جس کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ ہی کم علمی اور غلط فہمی ان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے،
پہلی حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
"رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ذکر ہوا کہ فلاں شخص دن چڑھے تک سوتا رہا ،نماز نہیں پڑھی ،آپ نے فرمایا اس شخص کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا "
( صحیح بخاری )
یہ بات ایسے شخص کہ لئے کہی گئی ہے جس کا متوا تر عمل ایسا ہو یعنی دیر سے اٹھنا ،نماز کی فکر نہیں کرنا ،نماز کا چھوڑدینا ،وغیرہ اور ایسے لوگوں پر شیطان کے تسلط کی دلیل تو خود قرآن مجید میں موجود ہے ،یعنی نماز اور ذکر الله سے غافل رہنے والا شیطان کے قبضے میں آجاتا ہے،
ملاحظہ ہو :
"اور جو الله کے ذکر سے غافل ہوجاۓ تو ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں ،پھر وہ ہی اس کا ساتھی ہوتا ہے "
(الزخرف – ٣٦ )
لیجئے اب تو ایسے لوگوں کا شیطان ساتھی ہوگیا ہے ،اب کیا کہیں گے ،یعنی خود قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ الله مسلط کردیتا ہے ،اگر نبی نے یہ بات بتا دی تو کیا اعتراض ؟؟؟؟
ایک آیت دیکھئے ،
"اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے ،جب انھوں نے اپنے رب سے کہا ،کہ شیطان نے مجہے سخت تکلیف دی اور عذاب میں مبتلاءکردیا "
( ص – ٤١)
مذکورہ بالا آیت دیکھئے ،اب اگر کوئی ان منکرین حدیث سے جو صرف قرآن مجید کے دعویدار ہیں پوچھ بیٹھے کہ کیا ایوب علیہ السلام جو کہ نبی ہی تھے پے جو شیطان کو تسلط دیا گیا کیا وہ بھی اسی قبیل (الزخرف - ٣٦ ) سے ہے ؟؟؟؟
تو کیا جواب دیں گے،کیا اس وقت بھی استغفراللہ استغفراللہ پڑھیں گے اور خاموش ہوجائیں گے یہ سوچ کر کہ ہم نہیں مانتے اس کو یہ نبی کی شان میں گستاخی ہے ؟؟؟
نہیں یقیناً ،قرآن کی اس جس میں ایوب علیہ السلام کا ذکر ہے اور بظاھر متعارض نظر آنے آیت کو قبول کریں گے اور ان آیات کے تناظر اور محل و موقع کو بیان کر کے تعارض کو رفع کریں گے ،تو ایسا معاملہ حدیث کہ لئے کیوں نہیں ہوسکتا ؟؟؟؟؟
رہا معاملہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دیر سے اٹھے ،تو اس کا سیدھا سا جواب یہ کہ آپ کو جو نیند آئی اور آپ دیر سے اٹھے وہ صرف ایک دن کا واقعہ تھا جو جہاد سے واپسی پے سفر میں پیش آیا ،کافی رات تک سفر جاری رہا ،تو اسلئے آپ اور صحابہ کرام آرام کرنے کہ لئے لیٹ گئے ،کیوں کہ ساری رات کے تھکے ہوئے تھے ،لہٰذا فطرتا آنکھ دیر سے کھلی ،اور ایسا صرف ایک ہی بار ہوا ، کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ فطرتا تھکن کی وجہ سے آنکھ دیر سے کھلنے کو ہم الله کے ذکر سے غفلت پے مامور کردیں ؟؟؟وہ بھی ایک نبی الله کے رسول کو جو صاحب وحی ہو ،جس کا کام الله کے ہی پیغام کو پوہچانا ہو ؟؟؟عقل سلیمہ تو یہ بات کسی ایسے عام شخص کی طرف بھی نہیں سوچ سکتی جو با شرح پنج وقتہ نمازی ہو اور کسی دن کسی وجہ سے اسکی آنکھ دیر سے کھلے تو کبھی بھی ہم اسے یہ نہیں سمجھیں گے کہ یہ غافل ہوگیا ،اس پے شیطان کا تسلط ہوگیا ،ہاں جب تک وہ اپنا عمل ہی ایسا نہ کرلے کہ نمازیں چھوڑنے لگے ...تو پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیسے ؟کیا یہ تکذیب رسول نہیں اپنے اعتراض کہ جواز کہ لئے ؟
جب دیر سے آنکھ کھلنا وجہ غفلت نہیں تو شیطان کا تسلط کیسا ،برخلاف اس کے جو شخص روزانہ خواب غفلت میں پڑا رہتا ہو ،الله کے ذکر سے جی چراتا ہو ،جاگتے ہوئے بھی نماز نہیں پڑھتا ہو ،یقینا ایسے شخص پے شیطان کا تسلط ازروئے قران ہے ،
خلاصہ یہ کہ تعارض کی وجہ صرف خود ساختہ سوچ ہوئی نہ کے حقیقت ،جب قرآن کی آیات جن سے ایسا تعارض نکالا جاسکتا ہے وہ قبول کرتے ہیں موقع محل کے حساب سے ،تو حدیث کو بھی اسی طرح تسلیم کرنے میں کون سا امر ما نع ہے ،؟
منکرین حدیث کی بھی عجیب و غریب منافقانہ منطق ہے ،جب بات ہو اطاعت رسول صلی الله علیہ وسلم کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کا رد یہ کہہ کر کردیتے ہیں کہ ایک بشر تھے ،ان کی اطاعت تاقیامت نہیں ،اور ان کا فہم قرآن متبدل ہوسکتا ہے ،اور وہ صرف اس دور کہ لئے تھا ،لیکن یہ ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا بشری تقاضہ اس وقت نظر نہیں آتا جب کوئی معاملہ درھیقت بشری تقاضوں کو پورا کرتا ہو،جسے بھول ،سونا ،وغیرہ اور ایسے امور میں بھی تو امت کہ لئے آسانی ہی ہے ،کیوں کہ قران مجید میں ہی آپ کی زندگی کو ہمارے لئے بہترین نمونہ کہا ہے ،یعنی جہاں مقصود اپنے خود ساختہ عزائم و اعتراضات ہوں وہاں شان رسالت اور منصب رسالت کی تکذیب و توہین کی فکر لگ جاتی ہے ،جب اسوہ رسول جو نمونہ ہے ہماری زندگیوں میں یاد نہیں رہتا ،یہ کسی منافقت ہے ؟؟؟
اگر اتنی ہی منصب رسالت کی فکر اور عظمت رسول کی اہمیت ہے تو کیوں نہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہی اطاعت کو تاقیامت تسلیم کرلیتے اور ختم کردیں اس بغض اور ہٹ دھرمی کو جن کا کوئی علمی معیار ہی نہیں صرف ذہن کی اختراع کہ ،
الله ان کو ہدایت دے ..
دیگر احادیث اگلی تحریر میں ان شا الله
سیف علی
 

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
تیسرا حصہ
"#متضاد_احادیث
"رحمت العالمین صلی الله علیہ وسلم اور بے رحمی"
#حدیث :.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘ پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)۔
صحیح البخاری
#متعارض_حدیث :
"حضرت انس سے روایت ہے کہ چند آدمی مدینہ میں آکر بیمار ہوگئے ،حضور نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ سرکاری اونٹنیوں کا دودھ پیئیں وغیرہ ،چناچہ انہونے ایسا ہی کیا ،جب وہ شفاء یاب ہوگئے اور تروتازہ ہوگئے تو انہونے رکھوالے مار ڈالے ،اور اونٹنیوں کو ہانک کر چل دئے،آپ نے کو گرفتار کر کے درجہ ذیل سزائیں دیں :
١ ) پہلے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوائے ،
٢ ) پھر لوہے کی سلاخیں گرم کر کے ان کی آنکھوں میں پھروائیں ،
٣ ) اس کے بعد انہیں گرم ریت پے پھینک دیا گیا اور وہ تڑپ تڑپ کر پانی مانگتے رہے ،لیکن کسی نے نہ دیا اور وہ ہلاک ہوگئے "
#اعتراض :
یہ بےرحمی رحمت العالمین کی شان سے بعید ہے ،جن کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ، بخاری کی حدیث میں ہی مذکور ہے کہ جلانا صرف الله کا کام اور پھر خود ہی وہ کام کریں ؟؟؟ یہ سرا سر شان نبوت کے خلاف ہے اس لئے یہ حدیث کیسے قبول کی جا سکتی ہے ،؟
#جواب :
منکرین حدیث اس حدیث کو تعارض اور شان نبوت کی توہین سمجھتے ہیں ان کے مطابق ان دونو احادث میں یہ تضاد ہے کہ ایک میں کہا گیا ہے کہ آگ سے نہیں جلاؤ اور دوسری میں خود الله کے رسول نے لوہے کی گرم سلاخیں آنکھوں میں پھیردیں ،.دیکھا جائے تو دونو ں احادیث میں فرق ضرور ہے لیکن تعارض نہیں، کیوں کہ دوسری حدیث میں آگ سے جلانے کا ذکر نہیں، لیکن منکرین حدیث اس کو اپنی تحریر میں جلانے پر ہی منطبق کرتے ہیں صرف اعتراض حدیث کی وجہ سے ورنہ کہاں آگ میں جلا کر مارنا اور کہاں گرم سلائی پھیرنا ،یہ تعارض خود ساختہ ہے ،اگر بالفرض محال تضاد ماں لیا جائے تو سنئے،
بیشک آگ میں جلانا صرف الله کاکام ہے،یہ ایک اسلامی قانون ہے کہ کسی شخص کو کسی سزا میں جلانے کا اختیار حکومت کو نہیں ہے ،یعنی جس حدیث میں آگ سے جلانے کی ممانعت کی گئی ہےاس میں کسی بھی حکومت کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی بھی سزا کے طور کسی مجرم کو جلادے ،یہ معاملہ سزا کا ہے جو عمومی جرم کے حوالے سے ہیں یعنی چوری ،قتل ،ڈاکہ ،وغیرہ ،
جبکہ
دوسری حدیث میں ایک قرانی قانون "قصاص "پے عمل کیا گیا ہے ،یعنی ازروئے قرآن مجید الله کے رسول نے قصاص کا قانون کو لاگو فرمایا،
ملاحظہ ہو قرآن کا قانون:
"جو شخص تم پر زیادتی کرے ،تم بھی اس جیسی ہی زیادتی کرو "
البقرہ ١٩٤ )
فرض کیجئے اگر کسی ظالم شخص نے کسی کو آگ میں جلا کر مارڈالا ہو تو اس ظالم کی سزا ازروئے قرآن مجید کیا ہونی چاہیے ؟
یقینا جو قانون الله نے قصاص کا دیا اسی پے عمل ہوگا .اب اگر کہا جائے کہ اس جلانے والے کو صرف تلوار سے ہی قتل کردیا جاتا ،تو سوال یہاں یہ پیدا ہوگا کیا یہ برابری کا قصاص ہوا؟ جب کہ قرآن مجید تو برابری کی بات کرہا ہے اور کیا اس سزا سے خوفناک مظالم کا انسداد ہوسکتا ہے ؟،حقیقت یہ ہے کہ خوفناک مظالم کہ انسداد کہ لئے سزا بھی ویسی ہی خوفناک ہونا چاہیے ،تشفی کا یہ ہی فطری تقاضہ ہے ، یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ ایک آدمی آگ میں جل کر جان دے کہ جبکہ دوسرا صرف تلوار کی ضرب یا بجلی کہ جھٹکے سے مرجائے ،کیا یہ قانون قصاص کا نقص نہیں؟ قانون قصاص تو کہتا ہے :
""آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑی جائے ،ناک ناک کے بدلے ناک ،کان کہ بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت توڑا جائے اور اسی طرح تمام قصاص لیا جائے "
(المائدہ – ٤٥ )
اگر یہ حکم قران مجید کا ہے تو کیا اس حکم قرانی حکم کی تعمیل فرض ہوئی یا نہیں ؟ اگر تھی تو یہ جلانے کا حکم الله کی طرف سے ہوا نہ کہ بندوں کی طرف سے ،بندوں نے تو صرف الله کے حکم کی تعمیل کی ،زیر بحث حدیث میں بھی الله کے رسول نے قرانی حکم کی تعمیل فرمائی جو حکم قران مجید میں بیان ہوا قصاص کہ لئے ،
کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ کیا یہ سزائیں بے رحمی کا مظاہرہ نہیں کرتیں جنھیں قرآن مجید میں قصاص کی مد میں بیان کیا ؟بیشک کرتیں ہیں .لیکن تمام بے رحمیوں کا انسداد ان ہی تمام سزاؤں کے نفاز میں ہے .اور یہ ہی وجہ ہے اس رحیم و کریم رب نے یہ قانون دیا یعنی
"جیسا کرو ویسا بھرو "اور یہ ہی انصاف کے تقاضوں کہ مطابق بھی ہے ،
اسلیے الله کہ رسول نے ان کے ساتھ ویسا ہی کیا جیسا انہونے چرواہوں کے ساتھ کیا ،
ملاحظہ ہو :

"رسول الله نے ان لوگوں کی آنکھوں میں گرم سلائی اس لئے پھر وائی کہ انہونے چرواہوں کی آنکھوں گرم سلائی پھیری تھی "
(صحیح مسلم باب ہحکم المحاربین)
ایک اور حدیث میں ہے :
"اے الله ان لوگوں کو پیاسا مار جن لوگوں نے آل محمّد کو پیاسا مارا "
(نسائی ج ٢ ص ١٥٠ کتاب المہاربہ )
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ان لوگوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیریں اور ان کو پیاسا مارا تھا ،اسلئے قران کے قانون کے مطابق الله کے رسول نے قصاص میں ان کو یہ سزائیں دیں ،
ملاحظہ ہو :
"جو لوگ الله تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں ،اور ملک میں فساد پیدا کرتے ہیں ،ان کی سزا یہ ہے کہ ،قتل کردئیے جائیں ،یا پھانسی دے دئیے جائیں ،یا ان کے مخالف سمت کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جائیں ،یا انہیں جلا وطن کردیا جائے "
(المائدہ - ٣٣ )
الغرض انہونے جو مظالم کئے وہ ہی ان پر دہرائے گئے اور یہ ہی قانون قران مجید بھی ہے ،لوٹ مار کی سزا میں قرآن مجید کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے ،قتل کی سزا میں قتل کئے گئے ،آنکھوں میں سلائی پھیرنے اورر دیگر زیادتیوں کی سزا میں بطور قصاص ان پر ویسی ہی سزائیں نافذ کی گئیں ،اور اس طرح قرآن مجید کہ ہر حکم پے عمل کیا گیا معلوم نہیں کہ اس پر اعتراض کی کیا وجہ ہے اگر وجہ بےرحمی کو جواز بنانا ہے تو خود قران مجید میں ایسی سزائیں بیان ہوئی ہیں جسے سو کوڑوں کی سزا ،آنکھ کہ بدلے آنکھ پھوڑنا ،چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنا ،کیا یہ سزائیں بے رحمی نہیں ؟کیا ان سزاؤں کو قرآن مجید سے نکل دیا جائے ؟ اگر نہیں تو پھر حدیث پے کیا اعتراض ،ان سزاؤں کے ساتھ حدیث پے بھی صبر کرنا چاہیے کیوں کہ رسول الله نے تو قران کے قانون کی ہی تعمیل فرمائی
اگر منکرین حدیث کو ان سزاؤں پے رحم آتا ہے تو قران کی اس آیات کا کیا کریں گے
"
"الله کی اس سزا کو نافذ کرتے وقت تم کو ان دونوں پے رحم نہیں آنا چاہیے ،اگر تم الله اپے ایمان رکھتے ہو"
(النور – ٢ )
بتائیں قران مجید تو کوڑوں تک کی سزا میں رحم کو منع فرمارہا ہے .اور اگر رحم ابھی جائے تو ترک کردو رحم کو ،یعنی رحم کی وجہ سے الله کی مقرر کردہ سزاؤں کو ترک نہیں کیا جسکتا ،
دین اسلام تو ایک ایسا قانون نظام دیتا ہے کہ جس کی متعین کردہ سزائیں وہ ہیں جو امن عالم کو برقرار رکھتی ہیں ان کے نفاز سے کسی کو جرت نہیں ہوتی کہ کسی پے مظالم ڈھائے ،یہ ایک سزا اپنے جیسے سینکڑوں واقعات کا انسداد کرتی ہے ،اگر ایک دفعہ کی بےرحمی سے متعدد بے رحمیوں کا استیصال ہوتا ہے تو یہ سودا بہت سستا ہے ،
خلاصہ یہ کہ اعتراض ہی خود ساختہ ہے نہ ہی کہیں کوئی تعارض ہے اور نہ ہی شان نبوت کی توہین ،الله کے رسول کا ہر عمل قران مجید کے حکم کے عین مطابق تھا ،ہمارا ایمان ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا ،جن کا ہر دینی عمل وحی ہو ،جن کی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہو جو رحمت العالمین بھیجے گئے ہوں انکے قول و فعل میں تعارض محال ہیں اور یہ ہی ایمان کا تقاضہ بھی ، در حقیقت آپ کہ لئے صرف اعتراض اور خود ساختہ علم کی بناہ پر ایسا سوچنا تکذیب رسول ہے اور تضاد در حقیقت منکرین کی سوچ میں ہے نہ کہ احادیث صحیحہ میں الحمدللہ
الله منکرین حدیث کو ہدایت دے ..
بقیہ احادیث اگلی تحریر میں ان شاء الله
سیف علی
 

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
چوتھا حصہ
#متضاد_احادیث
"حالت احرام اور متضاد احکام"
(١) #حدیث :
"صعب بن جثامہ رض کہتے ہے ہیں کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک گورخر بھیجا ،آپ نے لوٹا دیا ..اور فرمایا کہ میں حالت احرام میں ہوں یعنی میں نے احرام بندھا ہوا ہے ورنہ ضرور لے لیتا "
(مسلم )
#متعارض_حدیث :
"سال حدیبیہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہمراہ ابو قتادہ بھی تھے ان کہ علاوہ سب نے احرام بندھا ہوا تھا ،اثنائے سفر میں ایک گورخر نظر آیا .ابو قتادہ سوار ہوکر اس کے پیچھے دوڑے،اور آخر اسے برچھے سے مار لیا ،ذبح کر کے پکایا اور صحابہ کو پیش کیا ،صحابہ نے حضور سے پوچھا کہ ہم کھالیں فرمایا کھالو یہ حلال ہے "
اور یہ ہی حدیث آگے ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے :
اور کچھ گوشت ہم حضور کہ پاس لے گئے "آپ نے خود نہ کھایا "لیکن صحابہ کو اجازت دے دی ،
مزید :
"رسول الله نے پوچھا ،کچھ باقی بچا ہے ؟صحابہ نے کہا صرف ایک ٹانگ باقی ہے چناچہ آپ نے وہ ٹانگ کھائی "
(مسلم )
#اعتراض :
پہلی حدیث میں ہے کہ احرام کی حالت میں گوشت کھانا ناجائز ہوا ،جب کہ دوسری حدیث میں اجازت ہے ،کون سی صحیح ہے کس پے عمل کیا جائے ؟
#جواب :
منکرین حدیث کی طرف سے ان احادیث کو تعارض کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے،حالانکہ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے یہ صرف تحقیق کا فقدان ہے ،کم علمی ،ہٹ دھرمی کی وجہ سے منکرین حدیث پہلی حدیث سے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حالت احرام میں شکار کا گوشت کھانا جائز نہیں یہ بھی خود ساختہ سوچ ہے ،حالت احرام میں شکار کا گوشت کھانا کچھ شرائط پے جائز ہے جیسے :
١ شکار کہ سلسلہ میں کسی قسم کی مدد نہ کی ہو
٢ حتیٰ کہ شکار کی طرف اشارہ بھی نہ کیا ہو
٣ اور شکار کرنے والے نے محرم کی نیت سے شکار نہ کیا ہو
(صحیح بخاری )
ملاحظہ ہو :
حضرت جابر رض فرماتے ہیں کہ رسول الله نے فرمایا :
بری شکار کا گوشت حالت احرام میں تمھارے لئے حلال ہے ،بشرطیکہ تم نے خود شکار نہ کیا ہو ،یا شکار تمھارے لئے نہ کیا گیا ہو –
(ابو داود ،نیل الا اوطار )
درج بالا حدیث اس بات کی دلیل کہ کسی محرم کو پیش کرنے کہ لئے اگر شکار کیا جائے تو وہ شکار اس محرم کہ لئے حرام ہے،اسی لئے پہلی حدیث میں جو صعب بن جثامہ ا للیثی نے جو آپ کہ لئے بھیجا تھا وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کہ لئے ہی شکار کیا گیا تھا ،اسی لئے اس کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا سالم ہی آپ کی خدمت میں پیش کیا اور اسی لئے آپ نے قبول نہیں فرمایا ،جب کہ اس کہ برعکس ابو قتادہ کا کیا گیا شکار صرف آپ کہ لئے نہیں تھا اور نہ ہی آپ کی نیت سے کیا گیا تھا ،مذکورہ حدیث میں جو الفاظ ہیں "آپ نے خود نہیں کھایا "یہ صحیح مسلم میں کہیں نہیں ہیں اس لئے تضاد کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا
صحیح ترجمہ یہ ہے
"بعض صحابہ پہلے ہی کھاچکے تھے اور بعض نے کھانے سے انکار کردیا تھا پھر یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کہ پاس گئے ،صحابہ نے مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا کھالو،صحابہ نے کھایا کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا کچھ بچا ہے ،لوگو نے کہا ایک پنڈلی بچی ہے ،آپ نے وہ پنڈلی لے کر تناول فرمائی ،بتائیں اس میں کہاں اور کیا تضاد ہے ؟؟؟؟
خلاصہ یہ کہ حالت احرام میں بعض شرائط کے ساتھ شکار کا گوشت کھایا جا سکتا ہے ،
"#حالت_احرام_میں_خوشبو_لگانا "

(٢) #حدیث :
حضور کا فرمان ہے "احرام میں ایسے کپڑے نہ پہنو جن میں زعفران یا کوئی اور خوشبو لگائی گئی ہو "
#متعارض_حدیث :
"حضرت عایشہ فرماتی ہیں کہ احرام باندھتے اور توڑتے وقت میں حضور پر خوشبو چھڑکا کرتی تھی "
#اعتراض :
دونو احادیث کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احرام میں خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟
#جواب :
منکرین حدیث کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ خود ساختہ الزامات کے جواز میں من مانی ترجمہ کر دیتے ہیں ، ،چاہے قرآن مجید ہی کیوں نہ ہو درج بالا ترجمہ بھی ان ہی کا لکھا گیا ہے، اگر ایسا نہ کریں تو کوئی صورت ہی نہیں بچتی اعتراض کرنے کی اور جب کوئی اعتراض نہیں تو رد کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ،مذکورہ حدیث میں ایسا ہی کیا گیا ہے ،
ملاحظہ ہو حدیث :
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ محرم زعفران اور ورس میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ محرم عورت ورس یا زعفران میں رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے۔
(صحیح بخاری)
یہاں حدیث میں لفظ ورس استعمال ہوا ہے ورس ایک خوشبودار پیلی گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے۔ جب کہ منکرین اس حدیث میں ورس کا ترجمہ خوشبو کرتے ہیں ،یعنی پہلی حدیث میں خوشبو لگانے یا نہ لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس لیے تضاد کا سوال ہی کالعدم ہوگیا -
دوسری حدیث جو بطور تعارض پیش کی جاتی ہے اس میں خلوق کا ترجمہ بھی خوشبو ہی کیا گیا ہے ،یہ بھی صحیح نہیں ہے ، خلوق زعفران کی ایک مرکب خوشبو ہے اور کیونکہ حالت احرام میں زعفرانی کپڑے کی ممانعت ہے(یعنی رنگا ہوا ) جیسا کہ آپ نے ایسے شخص کو کپڑے اتارنے کا حکم دیا(نہ کہ دھونے کا ) اور بدن پر جو خلوق لگی ہوئی تھی اس کو دھونے کا حکم دیا تھا ،لیکن خوشبو کی وجہ سے نہیں بلکہ زعفرانی رنگ کی وجہ سے تھا اور اس چیز کی صراحت خود حدیث میں موجود ہے:
آپ فرماتے ہیں :
"اپنے بدن سے زردی کا اثر دھو ڈالو "
(صحیح مسلم )
اسی طرح جو دیگر احادیث ہیں جن میں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ آپ صلی الله علیہ وسلم کہ خوشبو لگاتی تھیں تو احرام کی حالت نہیں ہوتی تھی،
ملاحظہ ہو
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگایا کرتی تھی کہ احرام کی حالت میں کستوری کی چمک آپ کی مانگ میں نظر آتی تھی"
یہاں چمک سے مراد : کستوری کا رنگ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی مانگ میں احرام کی حالت میں نظر آتا تھا۔
لہٰذا جن احادیث میں ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم خوشبو لگایا کرتے تھے ان میں اور مذکورہ احادیث میں کوئی تعارض نہیں ،رسول الله احرام باندھنے کے بعد خوشبو نہیں لگاتے تھے بلکہ احرام سے پہلے خوشبو لگاتے تھے جیسا کہ حدیث صراحت ہے حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں :
"میں رسول الله کہ خوشبو لگایا کرتی تھی ،پھر اس کے بعد آپ اپنی بیویوں سے ملنے جایا کرتے تھے ،پھر صبح کو احرام باندھ لیا کرتے تھے اور خوشبو کی مہک آپ کے بدن مبارک سے آیا کرتی تھی "
(صحیح مسلم )
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ احرام سے پہلے اگر خوشبو لگائی جائے اور خوشبو کی مہک احرام باندھنے کے بعد بھی آتی رہے تو یہ جائز ہے بلکہ سنّت ہے ،
حالت احرام میں خوشبو لگانا اور احرام کی حالت میں پہلے سے لگی ہوئی خوشبو کا آنا تضاد نہیں ،دونوں الگ عمل ضرور ہیں ،لیکن متعارض نہیں ،
دیگر متضاد احادیث اگلی تحریر میں ان شاء الله..
سیف علی
 
Top