• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

شیعوں کے متعہ شریف میں بھی مدت طے کی جاتی ہے ۔
حنفیوں کے حلالہ شریف میں بھی مدت طے کی جاتی ہے ۔

دونوں کام ایک ہیں صرف نام کا فرق ہے ۔
کیا یہ صحیح ہیں ؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا آپ کو واقع ہی نہیں معلوم کہ یہ دونوں کام صحیح ہیں کہ نہیں؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

المحلل: وہ شخص ہے جو حلالہ كرتا ہے تا كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے حلال ہو جائے.
المحلل لہ: اس كا پہلا خاوند.

اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا آپ کو واقع ہی نہیں معلوم کہ یہ دونوں کام صحیح ہیں کہ نہیں؟


نکاح متعہ کا حکم

نکاح متعہ کاحکم کیا ہے ؟

الحمد للہ

نکاح متعہ یا اس کی صورت یہ ہے کہ :

کوئي شخص کسی مسلمان یا پھر کتابی عورت سے محدد مدت کے لیے شادی کرے ، وہ اس طرح کہ اس میں یہ شرط ہو کہ پانچ دن یا دو ماہ یا چھ ماہ یا کچھ سال مدت مقرر کی جائے جس کی ابتداء اورانتھاء دونوں معلوم ہوں ، اوراسے کچھ تھوڑا سامہر بھی ادا کرے ، اورجب مقرر کردہ مدت ختم ہوجائے تووہ اس شادی سے نکل جائے گی ۔
نکاح کی یہ قسم فتح مکہ کے سال تین دن کے لیے جائز کی گئي تھی ، پھر بعد میں اس سے منع کر دیا گيا اورقیامت تک حرام کر دی گئي ، اس کی دلیل مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے : دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1406 ) ۔

اوریہ حرام اس لیے بھی ہے کہ بیوی سے تو معاشرت اوربود وباش ایک لمبے عرصے تک ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوران عورتوں سے اچھے اوراحسن انداز میں بود وباش اختیار کرو } النساء ( 19 ) ۔

اورنکاح متعہ میں اس سے یہ معاشرت لمبی مدت تک نہیں ، اورپھر یہ بھی ہے کہ بیوی کوہی شرعی طور پر بیوی اورزوجہ کانام دیا جاتا ہے اور اس کی صحبت بھی ہمیشہ اورلمبی ہوتی ہے جس کا ذکر اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہوا ہے :
{ سوائے اپنی بیویوں کے اوریا پھر اپنی لونڈیوں کے } المؤمنون ( 6 ) ۔

اورنکاح متعہ والی عورت شرعی بیوی نہيں اس لیے کہ اس کا باقی رہنا مؤقت اورتھوڑی سی مدت کے لیے ہے ، پھر یہ بھی ہے کہ بیوی تو اپنے خاوند کی وراث ہے اورخاوند بیوی کا آّپس میں وراث ہونے کی دلیل مندرجہ ذیل فرمان ہے :
{ اورجو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑیں اگر ان کی اولاد نہ ہو توتمہارے لیے نصف ہو گا } النساء ( 12 ) ۔

اورنکاح متعہ والی عورت وارث نہيں بنتی کیونکہ مرد کے ساتھ تھوڑی سی مدت کی بنا پر یہ بیوی ہی نہیں بنی ۔

لھذا اس بنا پر نکاح متعہ زنا شمار ہوگا ، اگرچہ مرد اورعورت دونوں اس پر رضامند بھی ہوں اورمدت بھی لمبی ہوجائے اورمہر بھی ادا کردیا جائے ، اس نکاح کی اباحت شریعت اسلامیہ میں صرف فتح مکہ کے زمانہ کے علاوہ نہیں ملتی ، جہاں پر بہت سارے نئے نئے مسلمان بھی حاضر ہوئے تھے اوران کے ارتداد کا خوف تھا ، کیونکہ وہ جاہلیت میں زنا کے عادی تھے توان کے لیے صرف یہ نکاح تین دن تک کے لیے مباح کیا گیا اوراس کے بعد قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا گیا ،
جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث نمبر ( 1406 ) میں مذکور ہے ۔ .

دیکھیں کتاب : الؤلؤ المکین من فتاوی فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن جبرین ص ( 41 ) ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا حلالہ ایک شرعی حکم ہے ؟

حلالہ شرعی حکم ہے لیکن ''حلالہ سینٹرز'' تضحیک ہیں،کوکب نورانی
حلالہ شرعی حکم ہے لیکن ''حلالہ سینٹرز'' تضحیک ہیں،کوکب نورانی

کراچی(اسٹاف رپورٹر)مجدد اہل سنت علامہ محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے،ممتاز عالمِ دین اورسوادِ اعظم اہل سنت حقیقی کے سربراہ علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی نے کہاہے کہ قرآن وسنت کے واضح احکام کے مقابل اپنی رائے بیان کرنا یا کسی طرح ان کا تمسخر یا تضحیک شدید اور سنگین جرم ہے اورکوئی مسلمان کہلانے والااپنے قول و فعل میں درست نہ ہو یا کسی غلطی کا مرتکب ہو تو اُس کا یہ فعل دین کی خلاف ورزی ہے اور اُس شخص کے غلط قول و فعل کی وجہ سے ہرگز دین کے خلاف بات نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہاکہ میں میڈیا پر اکثر یہ واضح طور پرکہہ چکا ہوںکہ کسی عالم دین کا دین کی کسی بات کو پوری طرح یا صحیح طرح بیان نہ کرپانا اُس عالم کی کمزوری تو شمار ہوگا مگراُسے کسی طوردین کی کمزوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔کوکب نورانی اوکاڑوی نے کہا کہ پاکستان کے عائلی قوانین کے بارے میں علمائے اہل سنت برسوں سے یہ باآور کراتے رہے ہیںکہ وہ نہ صرف قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہیں بلکہ صریح خلاف ہیں لیکن کچھ لوگوں کی رضاجوئی اور چند اداروں سے رقمیں بٹورنے کے لیے حکومت ان غلط قوانین کودرست کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔ انھوں نے کہ''حلالہ'' ایک واضح قرآنی حکم ہے جو سور بقرہ کی آیت نمبر 230 میں بیان ہوا ہے اور آیت میں واضح ہے کہ تین طلاقوںکے بعد پہلے شوہرکی طرف رجوع سے پہلے صرف دوسرا نکاح کافی نہیں بلکہ دوسرے خاوندکی صحبت ضروری ہے جس کا واضح بیان بخاری شریف کی حدیث نمبر 5260 میں بھی موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ حلالہ ایک شرعی حکم ہے اور یہ ہرگز عصمت دری نہیں البتہ حلالہ سینٹرزکا قیام یا اُس کا غلط طریقہ یقیناً ناگوارہی نہیں بلکہ شریعت کی تضحیک کے مترادف ہے۔ اُ ن کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کے بنامِِِ علما غلط فعل کی وجہ سے واضح شرعی حکم کیخلاف بات کرنا نہایت سنگین ہے اور علمائے حق ہرگز ایسی بات نہیں کرتے جو قرآن وسنت سے متضاد یا اس کے خلاف ہواور ساتھ ساتھ غلط طریقے کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی۔ علامہ اوکاڑوی نے کہا کہ جو لوگ غلط ہیں اُن کا احتساب ضروری ہے تاکہ ان کی وجہ سے شریعت و سنت کے احکام کے خلاف بات نہ ہو۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=128829

کیا کوکب نورانی کو ان حدیث کا نہیں پتا !!!

نكاح حلالہ كى حرمت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح احاديث سے ثابت ہے.
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
المحلل: وہ شخص ہے جو حلالہ كرتا ہے تا كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے حلال ہو جائے.
المحلل لہ: اس كا پہلا خاوند.
اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
 
شمولیت
ستمبر 12، 2013
پیغامات
143
ری ایکشن اسکور
227
پوائنٹ
40
متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

شیعوں کے متعہ شریف میں بھی مدت طے کی جاتی ہے ۔
حنفیوں کے حلالہ شریف میں بھی مدت طے کی جاتی ہے ۔

دونوں کام ایک ہیں صرف نام کا فرق ہے ۔
کیا یہ صحیح ہیں ؟

جی ہاں یہ صحیح ہے کیوں کہ دونوں میں مدت طے ھوتی ہے اور دونوں ہی حرام ہے اور دونوں ہی زنا ہے

حلالہ کا ثبوت (مدت طے کرنا)

حلالہ کو حلال کرنے کا بریلوی حیلہ ....!
حلالہ کرنا اور کروانا دین اسلام میں حرام ہے ۔ لیکن اس حرام کو حلال بنانے کے لیے کیا کیا جتن کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
halalafatwa1 (1).jpg
halalafatwa2.jpg
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ان ہی حیلوں پر جو کتاب الحیل مرتب کی گئی تھی اللہ نے اس کو غارت کردیا۔۔۔
کسی سے سنا تھا کوئی لایعوفی۔۔۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
اناللہ وانا الیہ راجعون
جب اللہ رب العالمین کسی کو اپنی رحمت سےمحروم کردے ، اور جب اس کی عقل مسخ ہوجائےتو رحمٰن اور شیطان میں تمیز ختم ہوجا تی ہے۔
اللہ تعالی ایسی گمراہی سے بچائے۔
اب نکاح حلالہ شرعی کو کوئی شیعوں کے نجس متعہ کے مترادف سمجھے، یا اسے بے شرمی، بے حیائی کا نام دے، یا اسے بدکاری ، زنا کاری قرار دے کر اس قانون رحمت خداندی کا کھلا مذاق اڑائے، کیا فرق پڑتا ہے۔( العیاذ باللہ)
کیا کسی مسلمان کا ایمان اجازت دے گا؟؟؟ ہر گز نہیں۔
یہ وہی بات کہے گا جس کے دل میں ایمان و ایقان کی جگہ بے شرمی و بے حیائی نے لے لی ہوگی۔
متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

شیعوں کے متعہ شریف میں بھی مدت طے کی جاتی ہے ۔
حنفیوں کے حلالہ شریف میں بھی مدت طے کی جاتی ہے ۔

دونوں کام ایک ہیں صرف نام کا فرق ہے ۔
کیا یہ صحیح ہیں ؟
متعہ اور حلالہ شرعی میں فرق:
محترم متعہ اور ںنکاح حلالہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن اللہ تعالی جس کی عقل ہی چھین لے ، سوائے ماتم کے ان کے بچتا کیا ہے؟؟
اس فرق کو میں چند نکات میں بیان کروں گا لیکن پہلے آپ کے نقطہ مدت پر آپ کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ اہل تشیع کے ہاں متعہ کے دو رکن، مدت کا تعین اور اجرت کا تعین ہیں۔
چنانچہ شیعہ مصنف ابو جعفر محمد بن طوسی نے لکھا ہے کہ " ذرارہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا معتہ صرف دو چیزوں سے منعقد ہو تاہے مدت کا تعین اور زجرت کا تعین ہو"۔ تہذیب الاحکام جلد 7 صفحہ 462
یعنی مرد و عورت میں جو مدت متعین ہوگی اس کی انتہا متعہ کو ختم کردیتی ہے۔
یعنی متعہ مدت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیںہوتی جیسا کہ ابو جعفر نے لکھا ہے کہ" محمد بن اسماعیل کہتے ہیں میں نے ابو الحسن رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا اس سے بغیر طلاق علیحدگی ہوجاتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں"۔ الاستبصار جلد3 صفحہ 101
جبکہ حلالہ شرعی میں مدت کی کوئی صورت نہیں اصل اختیار شوہر کو طلاق کا ہے ، طلاق کے بعد ہی میاں بیوی میں علیحدگی، جب تک شوہر طلاق نہ دے اس وقت تک جدائی ممکن نہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر گھر بسانے کی کوشش کرتا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی راضی ہوتی ہے کہ ہم خود اپنا گھر بسالیں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی،
حلالہ میں جو مدت کا ذکر ہوتا ہے اس کا تعلق نیت سے ہے اور نکاح میں نیت کوئی معنی نہیں رکھتی ، طلاق اور اس کا قصد نکاح کو کو ختم کرتا ہے۔
لہذا شیعوں کے متعہ میں مدت اس کا رکن ہے، حلالہ میں مدت کا تعین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس مدت کا نکاح حلالہ میں کوئی اثر واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات ذہن نشین فرمالیں کہ متعہ میں مدت کا تعین اور اجرت متعین ہے، جبکہ نکاح حلالہ میں ایجاب وقبول ہوتا ہے۔
امید ہے آپ کی عقل شریف میں بات بیٹھ گئی ہوگی۔
2۔اہل تشیع کے ہاں متعہ کا انعقاد لفظ متعہ اور ہر اس لفظ سے ہوتا ہے جو مادہ متعہ کو شامل ہو، جیسا کہ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے روایت کیا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی! میں اتنے پیسوں کے عیوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں"۔ الفروع فی الکافی ، جلد 5، صفحہ 455
جبکہ نکاح حلالہ کا انعقاد لفظ نکاح ، لفظ تزویج اور ان الفاظ سے درست ہوتا ہے، جو فی الحال تملیک عین کے لئے موضوع ہوں۔
3۔نجس متعہ میں میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ " منصور بن صقیل سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ الاستبصار ،جلد 3، صفحہ 144
جبکہ نکاح حلالہ میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری ہے، مشرک عورت سے نکاح نہیں ہوتا۔
4۔ اہل تشیع کے نجس متعہ میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی،
اور حدیث شریف میں آتا ہے، زانیہ عورتیں وہ ہیں جو اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کریں۔ جامع ترمذی
جبکہ نکاح حلالہ بغیر گواہوں کے منعقد نہیں ہوتا۔
5۔شیعوں کی متعہ نجس میں عورتوں کی کوئی حد نہیں حتی کہ بیک وقت ستر یا اس سے زیادہ عوتوں سے بھی متعہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ" زرارہ کہتے ہیں ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا متعہ چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عیوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو"۔ الاستبصار ،جلد3، صفہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں بیک وقت صرف چار عوتوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
6۔متعہ نجس میں فریقین ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی۔الاستبصار، جلد3،صفحہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں فریقین ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
7۔ اہل تشیع کے نجس متعہ والی عورت خرچہ کا حق نہیں رکھتی جیسا کہ خمینی نے متعہ کے احکام میں لکھا ہے کہ " متعہ والی عورت اگر چہ حاملہ ہوجائے خرچہ کا حق نہیں رکھتی"۔ توضیح المسائل صفحہ 329
جبکہ نکاح حلالہ میں منکوحہ نفقہ کا حق رکھتی ہے۔
8۔ شیعوں کے متعہ میں جدائی کے بعد کوئی عدت نہیں ہوتی ، اسی دن دوسرے سے متعہ کرلے، ابو جعفر کلینی نے لکھا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے ( متعہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا) اس میں عدت نہیں ہے۔ الفروع فی الکافی ، جلد5، صفحہ 456
جبکہ نکاح حلالہ میں طلاق کے بعد مدخول بہا پر عدت لازم آتی ہے۔
محترم یہ اہل تشیع کے متعہ نجس اور نکاح حلالہ شرعی کے مابین فرق پر چند نکات بیان کئے ہیں،
محترم عامریونس صاحب ! آپ فرماتے ہیں کے متعہ اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
جس کے دل میں ذرا برابر ایمان ہو اور اللہ تعالی کا خوف دامن گیر ہو تو وہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہیں کرتا۔
اللہ تعالی آپ کو سمجھ دے، اور علم نافع عطا فرمائے۔
اس موضوع پر طویل گفتگو کرنے کا ارادہ تھا، لیکن ایسی جرح یا بحث یا دعوت فکر وہاں کار آمد ہوتی ہیں جہاں نزع اختلاف شبہات ومغالطات پر ہو، جہاں حکم شرعی کی کھلی مخالفت ہو وہاں یہ سب بیکار ہے، سوائے رحمت کی دعا کے۔
شکریہ
 
Top