• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متفرقات ازدواجیات (ف ب پر میرے جوابات)

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ازدواجی حقوق و فرائض:
=================
۱۔ اسلامی نکاح یہ ہے کہ اسنکاح میں لڑکی اور لڑکی والوں کا کوئی خرچہ نہ ہو۔ مہر، ولیمہ اور بعد از نکاح بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ ہے

۲۔ شوہر کی آمدن، دولت میں بیوی کا حق ہے۔ لیکن بیوی کی دولت اور آمدن ( اگر کوئی ہو) میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔

۳۔ شادی کے بعد بیوی (اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے بعد) شوہر کے احکامات کی پابند ہے ۔ بیوی شوہر کے حکم کے برخلاف اپنی خواہش یا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی خواہش یا حکم کی پابند نہیں۔

۴۔ مرد بیوی کے حکم یا اس کی خواہش کا پابند نہیں۔ نہ ہی مرد کی کل آمدن یا کل وقت پر بیوی کا حق ہے۔ مرد شادی سے قبل اپنے تمام فرائض کا شادی کے بعد بھی ذمہ دار رہے گا۔ جیسے والدین اور بہن بھائیوں کی مالی مدد، ان کی دیکھ بھال جبکہ بیوی شادی کے بعد اپنے میکہ والوں کی دیکھ بھال اور خدمت کی پابند نہیں۔ البتہ اپنی ذاتی دولت یا آمدنی اپنے میکہ والوں پر خرچ کرسکتی ہے وہ بھی اپنے شوہر کو بتلا کر یا اس کی اجازت سے

۵۔ اگر بوقت نکاح، لڑکی یا اس کے گھر والوں نے گھریلو کام کاج کے سلسلہ میں کوئی بات طے نہ کرالی ہو تو لڑکی کو بعد از نکاح سسرال میں وہ تمام گھریلو کام کاج کرنے ہوں گے جو اس کے سسرال کی لڑکیاں عرفا کرتی ہیں۔

٦۔ افضل یہی ہے کہ لڑکا نکاح سے قبل لڑکی کے لئے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے الگ رہائش کا انتظام کرے۔ لڑکی نکاح سے قبل اس کا مطالبہ کرے تب نکاح کی صورت میں ایسا کرنا لڑکے پر فرض ہوگا۔ لیکن اگر بوقت نکاح لڑکی اور اس کے گھر والے علیحدہ گھر کا مطالبہ نہ کریں بلکہ مشترکہ گھرانے میں رہنے کو تیار ہو اور اس پر اعتراض نہ کرے تو ایسی صورت میں بعد از نکاح علیحدہ گھر کا مطالبہ نہیں کرسکتی، بالخصوص اس صورت میں جب لڑکا علیحدہ گھر مالی طور پر افورڈ نہ کرسکتا ہو یا وہ والدین کا گھر کسی بھی وجہ سے چھوڑنا نہ چاہتا ہو۔ البتہ مرد کے لئے ایسی صورت میں بھی بہتر و افضل یہی ہے کہ وہ بیوی بچوں کے لئے جیسے ہی ممکن ہو، علیحدہ رہائش کا بندوبست کرے۔

۷۔ شوہر کے لئے بہتر ہے کہ گھر کے کام کاج کے لئے ملازمہ یا لونڈی کا بندوبست کرے۔ اگر بوقت نکاح لڑکی نے یہ شرط رکھی ہو تب مرد کے لئے ایسا کرنا فرض ہوگا۔

۸۔ اگر بیوی ساس سسر کے مشترکہ گھر میں بخوشی یا شوہر کی مجبوری سے رہتی ہے تو اس گھر کا مالک اس کا سسر ہوگا، شوہر نہیں۔ اور اسے سسر کا حکم بھی ماننا ہوگا بشرطیکہ کہ سسر کا حکم اللہ، رسول ص اور اس کے شوہر کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اگر آپ کسی کے گھر میں بلا کرایہ رہتے ہوں تو گھریلو امور کے سلسلہ میں گھر کے مالک کا حکم بھی ماننا ہوگا۔ جیسے گھر کی صفائی، مشترکہ کھانا پکانا، گھر کے مالک کی مرضی سے گھر میں رہنا سہنا وغیرہ۔ اگر گھر کے مالک کا حکم پسند نہیں تو اس کے گھر میں نہ رہئے۔ سسر پر یہ لازم نہیں کہ وہ بہو کے لئے رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرے۔

۹۔ شوہر جب چاہے دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کرسکتا ہے ۔ بیوی اپنے شوہر کو ایسے کسی بھی کام سے نہیں روک سکتی۔ البتہ یہ ضرور مطالبہ کرسکتی ہے کہ دیگر بیویوں کے لئے الگ رہائش کا انتظام کیا جائے۔

۱۰۔ ازدواجی زندگی میں مرد کو ٹیم لیڈر یعنی سربراہ گھرانہ کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ بیوی شوہر کی ماتحت ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں باہمی رضامندی سے دونوں میں سے کوئی بھی فریق اپنا شرعی حق چھوڑ سکتا ہے۔ جیسے بیوی اپنا مہر معاف کرسکتی ہے۔ اپنی دولت یا آمدن اپنے شوہر کو خرچ کے لئے دے سکتی ہے۔ شوہر دوسری تیسری شادی نہ کرنے کا وعدہ کرسکتا ہے (ایک سے زیادہ شادی صرف جائز ہے، فرض یا افضل نہیں۔ فرض تو پہلی شادی بھی نہیں ہے۔ یہ سنت ہے۔ کئی صحابہ نے ایک شادی بھی نہیں کی)

واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اگر شوہر بیوی کو کما کر لانے کا حکم دے ؟؟؟​


بیوی بچوں کا نان نفقہ شوہر پر فرض ہے۔ لہذا کمانا بھی شوہر پر فرض ہے، بیوی پر نہیں۔ تاہم (حلال حدود میں رہتے ہوئے اور شوہر کی اجازت سے) بیوی کا نوکری یا کاروبار کرنا حرام نہیں ہے ۔

لیکن اس کے باوجود شریعت اسلامی کی رو سے شوہر بیوی کو جبرا کمانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شوہر ایسا کرتا ہے تو وہ شریعت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ اگر اسلامی ریاست موجود ہے خلیفہ ایسے شوہر کو ایسا کرنے سے روک بھی سکتا ہے اور تادیبی سزا بھی دے سکتا ہے۔

ایسی صورت میں بیوی کے پاس حسب ذیل آپشن موجود ہیں:

۱۔ وہ اپنی خواہش کے خلاف شوہر کی بات مانتے ہوئے نوکری یا کاروبار کرسکتی ہے کہ ایسا کرنا بہرحال حرام نہیں ہے۔

۲۔ وہ اپنے اور شوہر کے بڑوں کو ثالث بنا کر شوہر کو یہ حکم واپس لینے پر مجبور کرسکتی ہے۔

۳۔ شوہر کو صاف صاف منع کرسکتی ہے کہ کمانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان شاء اللہ اس منع کرنے پر اسے کوئی گناہ نہ ہوگا۔

۴۔ اگر بیوی کے کما کر لانے سے منع کرنے کے باوجود اور ثالثیوں کی کوششوں کے باوجود شوہر بیوی کے کمانے پر اصرار کرے تو بیوی ایسے شوہر سے خلع لے سکتی ہے۔ ان شاء اللہ، اللہ اسے کما کر کھلانے والا شوہر عطا کرے گا یا اس کے لئے رزق کا متبادل انتظام کرے گا۔لیکن اگر بیوی یہ سمجھتی ہے کہ خلع یا طلاق لینا اس کے لئے بہتر نہ ہوگا تو وہ مجبورا اپنے شوہر کی بات مانتے ہوئے اپنی خواہش کے خلاف کما کر لانے کا آپشن اختیار کرے گی تو ان شاء اللہ بہترین اخروی اجر کی مستحق ہوگی کہ یہ دنیا بہر حال دارالامتحان ہے، دارالجزا نہیں۔اور بیوی سے زبردستی کمائی کروانے والا شوہر بھی سزا کا مستحق ہوگا۔ خواہ اس دنیا میں ملے یا آخرت میں کہ وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کا مجرم ہے​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیا شوہر ایسی جگہ نوکری کرنے کا جہاں نامحرم نا ہوتے ہوں یا گھر بیٹھ کر بھی کمانے کا حکم نہیں دے سکتا ہے ؟؟؟ اور شوہر بیوی کو کمانے کا حکم کیوں نہیں دے سکتا ہے ۔ کیا صرف اس لیے کہ یہ بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ؟؟؟

جی ہاں! گھر کے نان نفقہ کے لئے کمانا، قرآن و سنت کی رو سے چونکہ مرد پر فرض ہے۔ بیوی پر نہیں۔ اور بیوی کی کمائی پر مرد کا کوئی حق بھی نہیں۔ اسی لئے مرد جائز حدود یا گھر میں رہتے ہوئے بھی بیوی کو کمانے کا شرعا حکم نہیں دے سکتا۔ البتہ درخواست کرسکتا ہے۔ اور باہمی رضامندی سے ہی بیوی کما بھی سکتی ہے اور اہل خانہ پر خرچ بھی کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں دوٹوک بات یاد رکھئے,شرعیت کی رو سے

۱۔ بیوی شوہر کی رضامندی اور اجازت کے بغیر کمانے کا فریضہ انجام نہیں سکتی۔

۲۔ شوہر بیوی کو جبرا کمانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ البتہ درخواست کرسکتا ہے۔ اب بیوی کی مرضی ہے کہ یہ درخواست قبول کرے یا نہ کرے

واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اس کا مطلب ہے کہ شوہر بیوی کو ہر اس کام کا حکم نہیں دے سکتا ہے جو بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے

جی نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ میں یہ وضاحت کرنے ہی لگا تھا

۱۔ شوہر بیوی کو ہر اس جائز کام کا حکم دے سکتا ہے جو بیوی پر ویسے تو فرض نہیں لیکن شوہر کے حکم کی اطاعت کی وجہ سے فرض ہوجاتا ہے۔

۲۔ بیوی پر کمانا فرض نہیں اور شوہر کے حکم پر بھی کمانا فرض نہیں۔ یہاں یہ استثنی اس لئے ہے کہ بیوی کی دولت اور کمائی صرف بیوی کی اپنی ذاتی ہوتی ہے۔ اس پر شوہر کا کوئی حق نہیں۔ لہذا شوہر کے حکم پر وہ کمائے گی تب بھی اس کی آمدنی پر شوہر یا اس کے گھر کا کوئی حق نہیں۔ یہ کلی طور پر بیوی کی مرضی ہے کہ وہ اپنی دولت یا آمدن شوہر یا اس کے بچوں پر خرچ کرے یا نہیں۔ شوہر بیوی کا کمانے کا حکم اسی لئے تو دیتا ہے کہ بیوی کی آمدنی سے وہ اپنے اوپر یا اپنے بچوں پر یا کہیں اور خرچ کرے۔ جب اس کے پاس یہ آپشن ہی نہیں ہے کہ بیوی کی کمائی سے فائدہ اٹھا سکے تو اسے بیوی کو کمانے کا حکم دینے کا بھی حق نہیں اور اس کے حکم سے بیوی پر کمانا فرض نہیں ہوجاتا۔ واضح رہے کہ اب تک ساری گفتگو شرعی قوانین کی رو سے ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں نہیں کہ شوہر کے حکم پر بیوی کو کمانا چاہئے یا نہیں کمانا چاہئے۔ یا اسے اپنی دولت اور آمدن شوہر پر خرچ کرنا چاہئے یا نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
امیر لڑکی سے شادی:
=============
کسی لڑکی سے اس نیت سے شادی کرنا تو یقینا معیوب ہی سمجھا جانا چاہئیے کہ اس کی دولت اور آمدن سے فائدہ اٹھاکر عیش کروں گا۔ کیونکہ بیوی کے نان نفقہ کی بائی ڈیفالٹ ذمہ داری شوہر پر ہے

لیکن اگر شادی کی وجہ دولت نہ ہو اور کسی غریب لڑکے کی شادی کسی امیر لڑکی سے ہو اور بیوی اپنی مرضی سے اپنی دولت شوہر اور بچوں پر خرچ کرے تو اس میں کوئی معیوب بات نہیں۔ مرد بیوی کے پیسوں سے کاروبار بھی کرسکتا ہے اور ویسے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی اور بعد از شادی حضرت خدیجہ رض کی دولت کا استعمال ہے ۔ ۔ ۔ تو یہ بات نوٹ کرنے کی ہے اس شادی کا پروپوزل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں بلکہ حضرت خدیجہ رض کی طرف سے گیا تھا۔ اور حضرت خدیجہ رض نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں جان کر شادی کی درخواست کی تھی۔ دوسری بات یہ کہ نبی کی ذاتی زندگیوں کے بیشتر فیصلے بھی من جانب اللہ ہوتے ہیں۔ جیسے آپ ص کے منہ بولے بیٹے زید بن حارث کی مطلقہ (جو آپ ص کی کزن تھیں) سے نبی کریم کی شادی۔ آپ ص یہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ کے فیصلہ کے آگے سر جھکا کر آپ ص نے یہ شادی کی۔ حضرت عائشہ رض سے بھی آپ ص کی شادی اللہ کے حکم سے ہوئی۔ عین ممکن ہے کہ قبل از نبوت کی اس شادی کا فیصلہ بھی اللہ نے ہی کیا ہو ۔ واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جہیز مانگنا اور بھیک مانگنا ایک ہی بات ہے
لیکن اگر شادی کے موقع پر لڑکی والے اپنی بیٹی اور داماد کو خوشی سے کچھ دیں تو اسے لینے میں کوئی عار نہیں۔
جہاں تک مہر کا تعلق ہے تو یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ سونے کا پہاڑ بھی ہوسکتا ہے اور قرآن کی چند آیات بھی جو شوہر بیوی کو سکھلائے۔

مہر کا تعین دو طرح سے ہوتا ہے۔ لڑکی والے ڈیمانڈ کریں اور لڑکا مان جائے یا لڑکا آفر کرے اور لڑکی والے مان جائیں۔ باہمی گفت و شنید سے مہر میں کچھ بھی طے کیا جاسکتا ہے
واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہترین ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مرد بمقابلہ عورت

یہ جنگ اگر ایک مرتبہ شروع ہوجائے تو "شیطان کی کرپا" سے کبھی ختم نہیں ہوتی۔ مردوں اور عورتوں کی الگ الگ صف بندی یوجاتی ہے اور ہر صف سے دوسری صف کی طرف الزامات کی گولہ باری شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ نے مرد وزن کو الگ الگ مخلوق کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہر دو کو چار خوبصورت رشتوں کے پیرہن میں پیدا کیا ہے۔ مرد باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے، بیٹا ہے تو عورت ماں ہے، بہن ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے۔

جب ہم ان خوبصورت رشتوں کو پامال کرکے صرف مرد اور عورت بن جاتے ہیں تو ہم دیگر جانوروں کی طرح کے نر و مادہ جانور بن جاتے ہیں ۔ عورت اور مرد جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے ہوں گے تو جو طاقتور فریق ہوگا وہ اپنی مرضی تو چلائے گا۔ اور حکم عدولی کی خود سزا بھی دے گا کہ حکمرانی تو طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم مرد صرف باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا بن کر عورت سے ڈیلنگ کریں اور ہر عورت صرف ماں، بہن، بیوی اور بیٹی بن کر ان چار اقسام کے مردوں سے ڈیلنگ کرے تو شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع کم ہی ملے گا۔ عورت کو اگر ان چار رشتوں میں سے کسی ایک یا دو رشتوں سے رنج ملے بھی تو وہ بقیہ رشتوں سے ملنے والی راحتوں کے سایہ تلے اسے خوشی خوشی جھیل سکتی ہے۔ دنیا نام ہی دکھ سکھ کے مجموعہ کا ہے۔ عورت کو زیادہ تر شکوہ شکایت شوہر سے ہوتا ہے ۔ لیکن وہ شوہر سے ملنے والے مبینہ دکھ کو اپنے اوپر اتنا حاوی کرلیتی ہے کہ باپ کی شفقت، بھائیوں کی دریا دلی اور بے غرض محبت، اور سب سے زیادہ بیٹوں کی غیر مشروط اطاعت اور خدمت تک کو نظر انداز کردیتی ہے۔ یہی اس کا ناشکرا پن ہے، جس کی طرف شریعت اسلامی نے بھی بار بار نشاندہی کی ہے۔

اب مرد ذات کو دیکھ لیجئے۔ وہ ماں نامی عورت کے زیر سایہ پل کر جوان ہوتا ہے۔ ماں کی ڈانٹ اور مار کھا کر بھی وہ کبھی بد مزہ نہیں ہوتا۔ اور جب وہ جسمانی اور مالی طور پر ماں سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے تب بھی وہ ماں سے اس کے "ظلم" کا بدلہ نہیں لیتا۔ اپنے ساتھ ساتھ پرورش پانے والی بہن یا بہنوں کی خاطر سو دکھ جھیلتا ہے۔ ان کی حفاظت کرتا ہے۔ خود پر ان کو ترجیح دیتا ہے۔ بیٹیاں تو بہنوں سے زیادہ باپ کا "خون چوستی" ہیں۔ مگر باپ کبھی اف تک نہیں کرتا۔ بیس پچیس سال تک پال پوس کر ایک اجنبی کے حوالہ اس طرح کرتا ہے کہ پھر کبھی اس اجنبی کو گرم نظروں سے بھی نہیں دیکھتا۔

ایک مرد، ماں بہنوں بیٹیوں پر مشتمل عورتوں کی ٹیم کے سامنے ساری عمر سر جھکائے رہتا ہے۔ تو کیا اس کا یہ "حق" نہیں بنتا کہ ایک یا دو عورتوں کو بیوی بنا کر اس پر مبینہ "حکمرانی" کرے۔ جب تین قسم کی عورتوں کے لئے مرد ساری عمر قربانی دے سکتا ہے تو کیا ایک قسم کی عورت اس کے لئے قربانی نہیں دے سکتی۔ تین قسم کے مردوں سے فائدہ اٹھانے بلکہ اٹھاتے رہنے کے بعد بھی کیا عورت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک شوہر نما مرد کے لئے خود کو وقف کردے۔ مرد تو بیک وقت کئی بہنوں، کئی بیٹیوں اور اپنی ماں و بیوی کے لئے خود کو وقف کیئے رہتا ہے

۔۔۔ کاش عورت شیطان اور شیطان صفت مردوں کے بہکاوے میں آکر نری عورت بن کر اپنی قدر و قیمت نہ گھٹائے۔اور بیٹی بہن بیوی اور ماں کے عظیم رشتوں میں خود ڈھالکو محصور کر لے تو اس کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے۔ اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔

کاش کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات ع
 
Top