• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متنوع قراء ات کا ثبوت مصاحفِ عثمانیہ کی روشنی میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متنوع قراء ات کا ثبوت مصاحفِ عثمانیہ کی روشنی میں

قاری نجم الصّبیح تھانوی​
انکارِ قراء ات کے علمبرداروں کی عام ذہنیت کے مطابق قرآن کریم کی صرف وہی قراء ات منزل من اللہ ہے، جو کہ مصاحف میں ثبت ہے۔ مستشرقین کے غلط نظریات کے پیش نظر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکومتی سطح پر متفق علیہ مصحف لکھوا کر موجودہ قراء ات قرآنیہ کوتلف کردیا تھا۔ زیر نظر تحریر میں فاضل مضمون نگار نے قراء ات عشرہ کو مصاحف عثمانیہ میں موجود اختلاف کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ اہل فن اس بات پرمتفق ہیں کہ قراء ات قرآنیہ کے ہر اختلاف کو مصاحف عثمانی کے متون میں ملحوظ رکھ لیاگیاتھا۔ یاد رہے کہ یہ مضمون محترم مولف کی کتاب ’’تاریخ تجوید و قراء ات‘‘ سے ماخوذ ہے، جسے قراء ات اکیڈمی، لاہور نے شائع کیاہے اور اس مضمون کو ہم مولف وناشر کی اجازت کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ (ادارہ)
(١) جمہور علماء و اَئمہ متقدمین و متاخرین کہتے ہیں کہ عثمانی مصاحف میں وہ سات حروف ہیں جو نبی کریمﷺ کے اُس عرضۂ اَخیرہ میں موجود تھے جس میں آپ ہر سال حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ دورکیاکرتے تھے۔ ان میں سے ایک حرف بھی ترک نہیں ہوا، پس ان کے یہاں عثمانی مصاحف سات حروف میں سے صرف انہی وجوہ پر مشتمل ہیں جن کی رسم کی گنجائش ہے اور جو عرضۂ اَخیرہ کے موافق ہیں۔علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی حق ہے جیسا کہ صحیح اَحادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔
(٢) اسی طرح علامہ شاطبی رحمہ اللہ اپنے معروف قصیدہ عقیلۃ أتراب القصائد المعروف قصیدۃ رائیۃمیں فرماتے ہیں:
مِن کلّ أوجھہٖ حتّی استتمّ لہ
بالأحرف السّبعۃ العلیا کما اشتھَرا​
یعنی ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کا یہ جمع کرنا قرآن کی تمام وجوہ قراء ات کے ساتھ تھا، حتیٰ کہ یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا اور ساتوں معروف اَدائی طریقوں کے ساتھ ( یعنی سبعہ احرف) تکمیل پذیر ہوا۔چنانچہ تاریخی لحاظ سے یہ بات نہایت مشہور ہے۔
(٣) علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ، قاضی ابوبکررحمہ اللہ کاقول البرہان في علوم القرآن میں نقل کرتے ہیں:
’’والسابع اختارہ القاضي أبوبکر، وقال: الصّحیح إن ھذہ الأحرف السبعۃ ظھرت واستفاضت عن رسول اﷲ! وضبطھا عنہ الأئمۃ وأثبتھا عثمان والصّحابۃ في المصحف‘‘ (البرہان في علوم القرآن: ۱؍۲۲۳)
’’ساتواں قول قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ نے اختیارکیا ہے اور فرمایا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف رسول اللہﷺ سے شہرت کے ساتھ منقول ہیں،اَئمہ نے انہیں محفوظ رکھا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں مصاحف میں باقی رکھاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے حافظ ابن جریررحمہ اللہ کے قول کی بڑے سخت الفاظ میں تردید کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چھ حروف کے ختم کرنے کاقول بالکل غلط ہے اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرنا بھی چاہتے تو نہ کرسکتے، کیونکہ عالم اسلام کاچپہ چپہ ان حروف سبعہ کے حافظوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
وأما قول من قال: ’أبطل الأحرف الستۃ‘ فقد کذب من قال ذلک ولو فعل عثمان ذلک أو أرادہ لخرج عن الإسلام ولما مطل ساعۃ بل الأحرف السبعۃ کلھا موجودۃ عندنا قائمۃ کما کانت مثبوتۃ في القراء ات المشھورۃ المأثورۃ (الفصل في الملل والأھواء والنحل:۲؍۷۷،۷۸)
’’یہ قول کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو منسوخ کردیاتوجس نے یہ بات کہی ہے اس نے بالکل غلط کہا ہے۔ اگر حضرت عثمانt ایسا کرتے یا اس کا ارادہ کرتے تو ایک ساعت کے توقف کے بغیر اسلام سے خارج ہوجاتے۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساتوں کے ساتوں حروف ہمارے پاس بعینہٖ موجود ، مشہور اور قراء توں میں محفوظ ہیں۔‘‘
(٥) مشہور شارح مؤطا علامہ ابوالولید باجی مالکی رحمہ اللہ (م ۴۹۴ھ) ’سبعہ احرف‘کی تشریح سات وجوہ قراء ات سے کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فإن قیل: ھل تقولون أن جمیع ھذہ السبعۃ الأحرف ثابتۃ في المصحف فإن القراء ۃ بجمیعھا جائزۃ، قیل لھم: کذلک نقول، والدلیل علی صحۃ ذلک قولہ عز وجل: ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘، ولا یصح انفصال الذّکر المنزل من قراء تہٖ فیمکن حفظہ دونھا ومما یدل علیٰ صحۃ ما ذھبنا إلیہ أن ظاھر قول النبي ! یدل علی أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف تیسیرا علی من أراد قراء تہ لیقرأ کل رجل منھم بما تیسّر علیہ وبما ھو أخف علی طبعہ وأقرب إلی لغتہ لما یلحق من المشقّۃ بترک المألوف من العادۃ فی النطق ونحن الیوم مع عجمۃ ألسنتنا وبعدنا عن فصاحۃ العرب أحوج (المنتقٰی شرح الموطأ: ۱؍۳۴۷)
’’اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کا قول یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف مصحف میں آج بھی موجود ہیں اس لیے کہ ان سب کی قراء ت آپ کے نزدیک جائز ہے؟ تو ہم یہ کہیں گے کہ جی ہاں، ہمارا قول یہی ہے، اور اس کی صحت کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد ہے:’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘’’ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاطت کرنے والے ہیں۔‘‘ اور قرآن کریم کو اس کی قراء ات سے الگ نہیں کیاجاسکتاکہ قرآن تو محفوظ رہے اور اس کی قراء ات ختم ہوجائیں اور ہمارے قول کی صحت پرایک دلیل یہ بھی کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد کھلے طور پردلالت کرتا ہے کہ قرآن کو سات حروف پر اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اس کی قراء ت کرنے والے کوآسانی ہو، تاکہ ہر شخص اس طریقہ سے تلاوت کرسکے جو اس کے لیے آسان ہو اس کی طبیعت کے لحاظ سے زیادہ سہل اور اس کی لغت سے زیادہ قریب ہو، کیونکہ گفتگو میں جو عادت پڑ جاتی ہے، اُسے ترک کرنے میں مشقت ہوتی ہے اور آج ہم لوگ اپنی زبان کی عجمیت اور عربی فصاحت سے دور ہونے کی بناء پر اس سہولت کے زیادہ محتاج ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) حضرت امام غزالی رحمہ اللہ اُصول فقہ پراپنی مشہور کتاب المستصفی میں قرآن کریم کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
’’ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشہورۃ نقلًا متواترا‘‘ (المستصفی: ۱؍۶۵)
’’ وہ کلام جو مصحف کی دفتین میں مشہور سات حروف کے مطابق متواتر طریقہ پر ہم تک پہنچا ہے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام غزالی رحمہ اللہ بھی’سبعہ اَحرف‘ کے آج تک باقی رہنے کے قائل ہیں۔
(٧) اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کرکے صرف ایک حرف پر مصحف تیار کیاہوتا تو اس کی کہیں کوئی صراحت تو ملنی چاہئے تھی، حالانکہ نہ صرف اس کی کوئی صراحت نہیں ہے، بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصحف عثمانی میں ساتوں حروف موجود تھے، مثلاً روایات میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا مصحف حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے جمع فرمودہ صحیفوں کے مطابق لکھوایا تھا اور لکھنے کے بعد دونوں کامقابلہ بھی کیا گیا۔جس کے بارے میں خود حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’فعرضت المصحف علیھا فلم یختلفا في شيئ‘‘ (مشکل الآثار:۴؍۱۹۳)
’’میں نے مصحف کا مقابلہ ان صحیفوں سے کیا تو دونوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے صحیفوں میں قرآن کریم کو یقینا ان ساتوں حروف پر لکھا گیا تھا لہٰذا اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کر دیا ہوتا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد کیسے درست ہوسکتا ہے کہ:
’’دونوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔‘‘
(٨) علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس چیز میں اختلاف کیا گیا ہے کہ کیا مصاحف ِعثمانیہ سبعۂ احرف پرمشتمل تھے یا نہیں؟
فقہاء، قراء اور متکلمین میں سے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مصاحف عثمانیہ حروف سبعہ پر مشتمل نہیں ہیں۔جب کہ سلف سے خلف تک جمہور علماء اور مسلمانوں کے اَئمہ کا یہ قول ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ سبعۂ احرف میں سے صرف ان حروف پر مشتمل ہیں جن کا احتمال ان مصاحف کے رسم الخط سے ہوسکتا ہے او ریہ مصاحف اس ’عرضۂ اخیرہ‘ کے جامع ہیں جس کو آنحضرتﷺنے حضرت جبریل علیہ السلام سے فرمایا تھا او ریہ مصاحف اس ’عرضۂ اخیرہ‘ کے مکمل طور پر موافق ہیں حتیٰ کہ اس ’عرضۂ اخیرہ‘ کاایک حرف بھی اس میں کم نہیں کیاگیا ہے۔
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں او ریہی وہ قول ہے جس کا درُست ہونا واضح طور پر عیاں ہے۔ (الإتقان في علوم القرآن: ۱؍۱۳۱)
(٩) ابن ابی داؤد رحمہ اللہ صحیح سند کے ساتھ حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہم سے فرمایا: ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کی ترتیب میں جو کچھ بھی کیا وہ ہماری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کثیر جماعت کے مشورے سے کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہم سے کہا آپ لوگ قرآن کی قراء ات کے متعلق کیا کہتے ہیں؟کیونکہ مجھے خبر ملی ہے کہ بعض اشخاص ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری قراء ت سے بہتر ہے اوریہ بات کہنا تقریباً کفر ہے۔ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے عرض کیا پھر امیرالمؤمنین آپ کی اس مسئلہ میں کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا مجھے تو یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا جائے (اور اس کی نقول کروا کر تمام ممالک میں بھیج دی جائیں) تاکہ پھر کسی قسم کا افتراق اور اختلاف پیدا نہ ہوسکے تو ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے کہا اے امیرالمؤمنین! آپ کی رائے بہت مناسب ہے۔
(١٠) قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الانتصار میں تحریر فرماتے ہیں:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح صرف قرآن کو ’ما بین اللوحین‘ ہی جمع کردینے کا ارادہ نہیں کیابلکہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو ان معروف اور ثابت شدہ قراء ات پرجمع کرنے کا ارادہ کیا جو آنحضرتﷺسے منقول چلی آرہی تھیں اور اس کے ماسواء شاذ قراء ات کو ختم کردینے کاارادہ کیا نیز انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسا مصحف دیاجس میں کوئی تقدیم، تاخیر اور تاویل نہیں۔وہ تنزیل کے ساتھ ثبت کیا گیا۔ اس میں منسوخ (عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہونے والی آیات اور قراء ات) درج نہیں کی گئیں وہ مصحف رسم کے زبردست اور شاندار اُصولوں پر لکھا گیا اور اس کی قراء ات اور حفظ کااہتمام کیا گیا تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں کسی فساد اور شبہ میں نہ پڑسکیں اور یہ خدشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١١) ابن ابی داؤدرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ کل سات مصاحف لکھے گئے جن میں سے ایک ایک مصحف مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ اور کوفہ روانہ کئے گئے اور ایک مصحف مدینہ میں محفوظ رکھا گیا۔ میرے خیال سے یہ مصحف امام کے علاوہ کاشمار ہے اسے ملاکر کل آٹھ مصاحف بنتے ہیں۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مصحف قرآنی مرتب کرنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بنائی، تو ان سے فرمایا تھا:
’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم‘‘ (صحیح البخاري مع الفتح: باب جمع القرآن :۹؍۱۶)
’’جب تمہارے اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درمیان قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہو تو قریش کی زبان پر لکھنا کیونکہ قرآن انہی کی زبان پر نازل ہوا ہے۔‘‘
اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ساتوں حروف باقی رکھے تھے تو اس ارشاد کا کیا مطلب ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہی وہ جملہ ہے جس سے حافظ ابن جریررحمہ اللہ اور بعض دوسرے علماء نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف ختم کرکے صرف ایک حرف قریش کو مصحف میں باقی رکھا تھا، لیکن درحقیقت اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد پر اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ مطلب سمجھنا درست نہیں ہے کہ انہوں نے حرف قریش کے علاوہ باقی چھ حروف کو ختم فرمادیاتھا۔ بلکہ مجموعی روایات دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہ مطلب تھاکہ اگر قرآن کریم کی کتابت کے دوران رسم الخط کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو تو قریش کے رسم الخط کو اختیار کیا جائے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس ہدایت کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت نے جب کتابت قرآن کا کام شروع کیا تو پورے قرآن کریم میں ان کے درمیان صرف ایک اختلاف پیش آیا، جس کا ذکر امام زہری نے اس طرح فرمایا ہے۔
’’فاختلفوا یومئذ في التابوت والتابوۃ، فقال النفر القرشیون: التابوت، وقال زید بن ثابت: التابوۃ، فرفع اختلافھم إلی عثمان، فقال: اکتبوہ التابوت، فإنہ بلسان قریش نزل‘‘(کنز العمّال:۱؍۲۸۲، ابن سعد، فتح الباري:۹ ؍۱۶،سنن الترمذي)
’’چنانچہ اس موقع پر ان کے درمیان ’تابوت‘ اور’ تابوۃ‘ میں اختلاف ہوا، قریشی صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے تھے کہ تابوت (بڑی تاء سے لکھا جائے) اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ تابوۃ (گول تاء سے لکھا جائے) پس اس اختلاف کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا جس پر انہوں نے فرمایا کہ اسے التابوت لکھو، کیونکہ قرآن قریش کی زبان پر نازل ہوا ہے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ اور قریشی صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جس اختلاف کاذکر فرمایا اس سے مراد رسم الخط کااختلاف تھا نہ کہ لغات کا۔ (علوم القرآن ازمولانا محمدتقی عثمانی )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو تلف کیا، وہ کیا تھا؟
اب سوال پیداہوتاہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ختم کیا، وہ کیا تھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے اکٹھے کئے ہوئے صحائف جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، کو لے کر انہیں مصاحف میں نقل کیا، کیونکہ یہ عرضۂ اَخیرہ، یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ رسول اللہﷺکاجو آخری دور ہوا تھا، اس کے مطابق تھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ کو ہر سال قرآن کا دور کرواتے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’کان یعرض علی النبی! القرآن کل عام مرۃ فعرض علیہ مرتین في العام الذی قبض فیہ‘‘
’’نبیﷺ پر قرآن ہر سال پیش کیا جاتا۔ آپﷺکی وفات والے سال دو دفعہ آپ پرقرآن پیش کیاگیا۔‘‘ (صحیح البخاري:۸؍۴۹۹)
ابن سعدرحمہ اللہ نے مشہور تابعی علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کایہ قول نقل کیاہے:
’’فانا أرجو أن تکون قراء تنا العرضۃ الأخیرۃ‘‘ (الطبقات الکبری:۲؍۱۹۵)
’’پس مجھے امید ہے کہ ہماری موجودہ قراء ات اسی عرضہ اخیرہ کے مطابق ہیں۔‘‘
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضۂ اَخیرہ والے قرآن کو ہی نقل کیاتھا جب کہ عرضۂ اَخیرہ والا قرآن وہ قرآن تھاجس میں آخری اَحکام اور جو تبدیلی مقصود تھی، کردی گئی۔ اب یہ قرآن جو تبدیلیوں سے مبرا تھا، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف نقل کئے اور تبدیل شدہ چیزیں جن میں منسوخ آیات، شاذ قراء ات اور سبعہ احرف میں سے جزوی چیزیں بدلی جاچکی تھیں اور لوگوں میں شائع ہوچکی تھیں اور وہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس جمع شدہ قرآن کی اطلاع نہ پاسکے، نتیجتاً جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ تلاوت کرتارہا، جس سے اختلافات کاہونا لازمی امر تھا۔ اب جو مصاحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلف کئے تھے، ان میں یہ چیزیں شامل تھیں، مثلاً ایسی منسوخ آیات جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی مگر لوگ پڑھ رہے تھے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’فأنزلت ھذہ الآیۃ ’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْعَصْرِ‘‘ فقرأناھا ما شاء اﷲ ثم نزلت ’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ (فتح الباري:۸؍۱۹۸)
’’ پہلے یہ آیت نازل ہوئی ’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْعَصْرِ‘‘ تو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، ہم اسے پڑھتے رہے پھر یہ آیت نازل ہوئی ’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی‘‘
اوریہ منسوخ شدہ آیت عرضۂ اَخیرہ میں موجود نہیں تھی۔اسی طرح کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن لکھتے ہوئے تفسیری کلمات بھی ساتھ لکھ دیتے تھے جیسا کہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وکان لا یعتقد تحریم ذلک وکان یراہ کصحیفۃ یثبت فیھا ما یشاء وکان رأي عثمان والجماعۃ منع ذلک لئلا یتطاول الزمان ویظن ذلک قرآنا‘‘ (شرح النووی:۶؍۳۴۹)
’’وہ قرآن کے متن کے ساتھ اس کی تفسیر کو لکھنا حرام نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے مصحف کی بجائے ایک صحیفہ سمجھتے تھے اور اس میں جو چاہتے لکھ لیتے، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ اس کو ممنوع سمجھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لوگ اسے بھی قرآن سمجھ لیں۔‘‘
جمع صدیقی اور جمع عثمانی میں یہ تمام چیزیں نکالی گئی تھیں اور انہوں نے سات حروف میں سے چھ کو قطعاً ختم نہیں کیا تھابلکہ انہوں نے وہی کچھ نکالا تھا جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت اللہ کی طرف سے نکال دیا گیاتھا۔
قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الانتصارمیں فرماتے ہیں:
’’ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس کے لکھنے کا حکم فرمایا۔ اس کو منسوخ نہیں کیااور نہ اس کے نزول کے بعد اس کی تلاوت کو منسوخ کیا یہ وہی قرآن ہے جو ’ما بین الدفتین‘ پایا جاتا ہے اور جس کو مصاحف عثمانیہ میں ثبت کردیا گیاہے۔اس قرآن میں نہ کوئی کمی ہے او رنہ ہی کوئی زیادتی۔ اس کی ترتیب اور ضبط ٹھیک اسی انداز پر ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے لوح محفوظ میں ضبط فرمایا اور رسول اللہﷺنے اس کی سورتوں کی ترتیب (بحکم الٰہی) کی اور اس میں اپنی مرضی سے تغیر و تبدل نہیں کیاپھر اُمت نے اس مصحف کو اسی ترتیب کے مطابق یاد کیا۔‘‘ (الإتقان في علوم القرآن: ۱؍۶۵)
والد گرامی قدر فضیلۃ الشیخ القاری المقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں:
’’یہ خیال بہت سے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی بڑی مضبوطی سے قائم ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف اپنے دورِ خلافت میں لکھوائے تھے وہ اختلاف قراء ت کو ختم کرنے کے لیے تھے۔یہ غلط تخیل بالعموم کالجوں کے پروفیسروں اور بعض غیر محقق علماء میں، میں نے پایا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ جو اختلاف قراء ت منزل من السماء ہے اور جس کے لیے بار بار آنحضرتﷺنے دعائیں مانگی ہیں،جیسا کہ اَحادیث میں ہے اور جس کے متعلق مشہور حدیث (أنزل القرآن علیٰ سبعہ أحرف) شاہد ہے، اس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کیسے ختم کرسکتے ہیں۔‘‘ (نبیﷺکا قول حکم الٰہی کا مظہر ہوتا ہے اور شریعت کے اَحکام میں حجت ہوتا ہے اسے کوئی بھی اُمتی اپنی مرضی سے تبدیل یا منسوخ نہیں کرسکتا)‘‘ (تیسیر التجوید کے حواشی مفیدہ، ص۵۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک اِشکال کا ازالہ
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تمام لغات اور حروف کو منسوخ کردیا تھا اور صر ف ایک حرف اور لغت کو باقی رکھا اور وہ لغت قریش تھی اس لیے بس یہی ایک قراء ت ہے جو اس وقت پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔
جواب:اوّل تو یہ تسلیم ہی نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش کے علاوہ باقی تمام لغات کو ختم کردیا تھا۔ اس لیے کہ روایت حفص رحمہ اللہ ہی کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لغت قریش کے سوا بعض اور لغات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے مَجْریٰھَا (ہود) میں را اور اس کے بعد والے الف کا اِمالہ ہے۔ حالانکہ امالہ عام اہل نجدکا لغت ہے،اسی طرح فُعلٌ کے وزن میں عین کا ضمہ حجازی اور سکون تمیمی لغت ہے اور روایت حفص رحمہ اللہ میں دونوں ہی لغت موجود ہیں۔
اسی طرح ہمزۂ ساکنہ کی تحقیق تمیمی لغت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس معلوم ہوا کہ قریش کے علاوہ باقی سب لغت ہی ختم نہیں کردیئے گئے تھے۔بلکہ اُن لغات کو ختم کیا گیا تھا جو غیر فصیح تھے (ان کو عرضہ اخیرہ میں منسوخ کیا گیا تھا) اور قریش کے یہاں معتبر نہیں تھے مثلاً ہذیل کے یہاں حتّٰی کے بجائے عتّٰی اور اسد کے یہاں تَعْلَمُون، أعْھَد وغیرہ میں علامت مضارع کا کسرہ اور بنوتمیم کے یہاں رُدَّتْ،رُدُّوا میں را کاکسرہ اور غیر اسن کے بجائے غیر یاسن پڑھا جاتا تھا۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف میں رسم الخط قریشی ہی رکھا تھا۔ جس کی چند وجوہ ہیں:
(١) پہلے زمانہ میں وسعت و رخصت اور سہولت و آسانی کے لیے قرآن کو سات لغات میں پڑھنے کی اِجازت تھی اور ہرقبیلہ اپنے اپنے لغت میں تلاوت کرتا تھا۔ اس لیے مختلف قبائل کے عوام نے کم علمی کی وجہ سے ایک دوسرے کے لغت کی تردید و تنقیص شروع کردی۔
(٢) بعض حضرات نے تفسیری جملے و الفاظ اپنی قراء ت میں شامل کر لیے تھے۔
(٣) اسی طرح کچھ لوگوں نے ناواقفیت کی بنا پر منسوخ التلاوت آیات بھی اپنی قراء ت میں داخل کرلیں۔
ان حالات کی بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے کئی نسخے صرف لغت قریش ہی کے موافق اِعراب اور نقطوں کے بغیر لکھوا کر معلمین سمیت مختلف اَطراف و ممالک میں بھیجے جائیں تاکہ سب لوگ انہی کے موافق تلاوت کریں اور نظم و ضبط اور اَمن قائم ہوجائے۔
اور لغت قریش کا رسم الخط اس بنا پر اختیار کیا کہ قرآن کا اکثر و بیشتر حصہ اسی کے موافق اُترا تھا نیز قرآن سب سے پہلے اسی لغت کے موافق نازل ہوا تھا۔پھر آسانی اور رخصت کی غرض سے اورلغات میں پڑھنے کی اِجازت ہوگئی تھی اورمصاحف کو نقطوں اور حرکتوں سے خالی اس لیے رکھا کہ ایک ہی قرآن سے مختلف لغات وحروف سبعہ اور منقول قراء ات سب کی سب نکل سکیں، پس آپ نے آٹھ مصاحف لکھوائے او ران میں بعض اختلافی الفاظ و کلمات کو متفرق طور پر لکھوایا اور یہ مصاحف بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے لکھے گئے۔ پھر آپ نے ایک مصحف کو خاص اپنی تلاوت کے لیے رکھ لیا۔ جسے ’مصحف امام‘ کہا جاتا ہے اور ایک نسخہ اہل مدینہ کو عنایت کیا اور ایک ایک مصحف کوفہ، بصرہ، شام، بحرین، یمن کی طرف معلمین قراء ات سمیت روانہ فرمایا۔ (مدنی مصحف کے معلّم حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور کوفی کے حضرت ابوعبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ اور بصری کے حضرت عامر بن قیس رضی اللہ عنہ اور شامی کے حضرت مغیرہ بن ابی شہاب رضی اللہ عنہ اورمکی کے حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ تھے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگر لغات و قراء ات اور ’سبع احرف‘ کے نسخ کو تسلیم کرلیں تو لازم آئے گا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین،جملہ اَئمہ و مشائخ اور بعد کے سب لوگ آج تک ایک منسوخ چیز کی خدمت و تبلیغ اور تعلیم و اشاعت میں لگے رہے۔ حالانکہ جو چیز قرآن میں نہ ہو۔ اس کے پڑھنے، سننے اور لکھنے پر تو ادنیٰ درجہ کا مومن بھی صبر نہیں کرسکتا۔چہ جائیکہ ذمہ دار اکابر اور خصوصاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تو یہ بات بالکل ناممکن ہے۔
اور اَئمہ کے طبقات وحالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ۷۵ سال سے لے کر ۹۹ سال تک عمر پائی او رہر ایک نے قرآن مجید اور اس کی قراء ات کی خدمت میں ۶۰ برس سے زیادہ عرصہ صرف کیا۔ روزانہ بے شمار طلباء ان کے درس میں شریک ہوتے تھے۔
چنانچہ امام نافع رحمہ اللہ فجر سے پہلے تہجد کے وقت پڑھانا شروع کرتے اور عشاء تک برابر پڑھاتے رہتے تھے۔ امام ابوعمررحمہ اللہ کے گرد مجمع دیکھ کر ان کے شیخ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے تعجب سے کہا تھاکہ کیا علماء اَرباب بن گئے؟ امام عاصم رحمہ اللہ سے پڑھنے کا موقع مشکل سے ملتا تھا۔
اسی طرح اَئمہ قراء ات کے بعد ہر قرن و ہر زمانہ اور ہر زبان میں علماء قراء ات اور مشائخ اہل اَدا نے اس اشرف ترین علم کی خدمت کی۔ اس کی تعلیم و تبلیغ ،تصنیف و تالیف اور اشاعت میں کوئی دقیقہ بھی فروگذاشت نہیں کیا۔ ان حضرات نے اس علم کی ترویج اور نشرواحیاء کے لیے اپنی ذات کو ہر لحاظ سے فارغ کرلیا تھا او راس کی خاطر اپنی عزیز ترین عمریں اورپاکیزہ زندگیاں وقف کردی تھیں اور تعلیم و تالیف دونوں ہی طریقوں سے ’اختلافی وجوہ‘ اور ’اختلاف قراء ات‘ کی صیانت و حفاظت اور نشروتوضیح کا کام کیا اور اس فن میں قابل فخر تصانیف یادگار چھوڑیں۔
’وجوہ قراء ات‘ کے متعلق تیسری صدی سے آج تک صدہا کتابیں تالیف کی گئی ہیں او روہ سب اس فن کی معتبر اور نہایت صحیح تصانیف شمار ہوتی ہیں۔
(١) سب سے پہلے ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (م ۲۲۴ھ) نے کتاب القراء ت (۲۵ قراء توں میں) لکھیں۔
(٢) امام ابوحاتم سہل بن محمد بن عثمان سجستانی نحوی مقری بصری رحمہ اللہ (م۲۴۸ھ) شاگرد امام یعقوب رحمہ اللہ نے کتاب القراء ت لکھی جس میں ۲۵ قراء ات شامل تھیں۔
(٣) قاضی اسماعیل رحمہ اللہ (۲۸۲ھ)شاگرد قالون رحمہ اللہ نے کتاب القراء ت(۲۰ سے زیادہ قراء توں میں) لکھی۔
(٤) امام التاریخ طبری رحمہ اللہ(۳۱۰ھ) نے کتاب الجامع(۲۰ سے کچھ زائد قراء ات میں) تصنیف کی۔
(٥) ابوبکر داجونی رحمہ اللہ (۳۲۴ھ) نے بہت سی قراء توں کو ایک تالیف میں جمع کیا۔
(٦) ابن مجاہدرحمہ اللہ(۳۲۴ھ)نے کتاب السبعۃ تحریر کی۔
(٧) کتاب القراء ت تالیف احمد شذائی رحمہ اللہ (۳۷۰ھ)
(٨) کتاب الشامل اور
(٩) کتاب الغایۃ (دس قراء توں میں)یہ دونوں تالیف ابن مہران رحمہ اللہ (۳۸۱ھ) نے لکھیں۔
(١٠) کتاب المنتہی (بہت سی قراء توں میں)تالیف خزاعی رحمہ اللہ (۴۰۸ھ) ہے۔
نوٹ:اس موقع پر یہ بات یاد رکھیں کہ ہر مصنف نے اپنی تالیف میں وہی قراء تیں بیان کی ہیں جو اس کو متصل اور صحیح سند سے پہنچی تھیں اور وہ سبھی ’سبعہ احرف‘ کے مصداق میں شامل ہیں، لیکن اس وقت دس قراء ات متواترہ ہیں۔
(١١) تا (١٣) چوتھی صدی کے آخر میں اندلس اور مغربی شہروں میں کسی قراء ات کا رواج نہ تھا، پس ان شہروں سے سب سے پہلے ابوعمر طلمنکی رحمہ اللہ(۴۲۹ھ)نے پھر ابومحمدمکی رحمہ اللہ (۴۳۷ھ)او رامام ابوعمر ودانی رحمہ اللہ(۴۴۴ھ)نے قراء ات کی تحصیل کے لیے سفر کیا اور مصر وغیرہ سے پڑھ کر ان کو اندلس میں پہنچایا او ربیش بہا کتب علم قراء ات میں تحریر کیں۔
(١٤) پانچویں صدی میں ابوعلی اہوازی رحمہ اللہ (۴۴۶ھ) دمشق میں اُستاذ القراء ات تھے۔انہوں نے الوجیز (۸ قراء توں میں) اور ’إیجاز‘ اور ’إیضاح‘ وغیرہ کتب علم قراء ات میں لکھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٥) اسی عرصہ میں ابوالقاسم ہذلی رحمہ اللہ(۴۶۵ھ)نے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا اور بہت سے ملکوں اور شہروں میں پھرتے اور ائمہ قراء ات سے روایت کرتے رہے، حتیٰ کہ ماور اء النہر تک پہنچ گئے۔ نیز غزنی وغیرہ میں بھی قراء ات پڑھیں۔ پھرکتاب الکامل (۵۰ قراء توں اور ۱۴۵۹ روایات و طرق میں) تالیف کی۔ خود فرماتے ہیں کہ میں مغرب کے شہروں کے اخیر سے لے کر فرغانہ کے ابواب تک دائیں بائیں پہاڑ، ہموارزمین خشکی، تری غرض کہ ہرجگہ پھرا ہوں اور میں نے ۳۶۵ شیوخ سے ملاقات کی۔
(١٦) اسی زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عبدالکریم طبری رحمہ اللہ(۴۷۸ھ)استاذ القراء ات تھے۔ انہوں نے کتاب سوق العروس (۱۵۵۰ روایات و طرق میں) لکھی۔
(١٧) ابوالقاسم عیسیٰ اسکندری رحمہ اللہ (۶۲۹ھ)نے کتاب الجامع الأکبر والبحر الأذخر(۷۰۰۰ روایات و طرق میں) تالیف کی (النشر في القراء ات العشر)
کیا کوئی عقل سلیم اس بات کو باور کرسکتی ہے کہ یہ مقدس جماعتیں جن پر دین کا مدار ہے قرآن میں کوئی ایسی چیز پڑھیں یا لکھیں جو قرآن میں نہ ہو، نعوذ باﷲ من ھذہ العقیدۃ الباطلۃ غرض کہ اب اُمت کے پاس دس متواتر قراء تیں اور ان کی دو دو روایتیں باقی ہیں۔ حق تعالیٰ منکرین قراء ات کو توبہ کی اور ہمیں حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کریم میں دو طرح کے الفاظ ہیں:
(١) اتفاقی جن کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک ہی طرح روایت کیاہے۔
(٢) اِختلافی جن کو عرب کے لغات کے مختلف فیہ ہونے کی بنا پر حق تعالیٰ نے کئی کئی طرح نازل فرمایا ہے او رپھر انہی الفاظ سے ائمہ قراء ات نے قواعد اور شروط کی پابندی کرتے ہوئے مختلف تربیتیں اختیار کرلیں۔
جن کی بناء پر دورِ اوّل میں بے شمار قراء تیں پڑھی پڑھائی جاتی تھیں جن کی تعداد ابوعبیدرحمہ اللہ اور قاضی اسماعیل رحمہ اللہ نے پچیس لکھی ہے۔بعد میں جوں جوں لوگوں میں سستی پیداہوتی گئی۔ شوق اور ہمت گھٹتی چلی گئی اور قوت ضبط وحافظہ میں کمی ہوتی گئی تو ان قراء ات کی تعداد بھی کم ہوتے ہوتے دس قراء ات اور بیس روایات تک رہ گئی۔ پھر اس علم کی نسبت ان قراء ات و روایات کے اَئمہ ہی کی طرف ہونے لگی، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس علم کی خدمت و اِشاعت کے لیے فارغ و مخصوص کرلیاتھا۔ اسی لیے وہ اس میں مشہور ہوگئے او رعوام و خواص سب نے ان پراعتماد کرلیا۔اس وقت قراء ت سے یہ دس قراء ات دس ائمہ رحمہم اللہ کی طرف منسوب ہیں۔ پھران میں سے ہر ایک کے دو دو راوی ہیں اور انہی کی دو دو روایتیں مل کر ایک قراء ت بنتی ہے۔

٭_____٭_____٭
 
Top