محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۰ۭۛ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ۱۷۲ۚ اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۱۷۳ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۰ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۱۷۴
۲؎ بدر صغریٰ کا واقعہ ہے ۔ابوسفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا، تاکہ مدینہ میں جاکر مسلمانوں کو مرعوب کرے۔ اس نے آکر کہا۔مسلمانو! تم کیا غضب کررہے ہو۔ ابوسفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ۔ مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو، ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آ سکے گا مگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم و غانم واپس مدینہ لوٹے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت، سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لیے مرعوب کن نہیں ہو سکتی۔ اس سے تو اس کے دل میں اور قوت وتوانائی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ حسبنا اللہ کا نعرئہ مستانہ لگاکر میدان جنگ میں کود پڑتاہے۔
{ اِسْتَجَابُوْا }قبول کیا۔لبیک کہا{اَلْقَرْحُ} زخم{حَسْبُنَا} ہمیں بس ہے۔ ہمارے لیے کافی ہے {سؤٓءٌ} تکلیف۔
۱؎ مسلمان جب غزوہ احد سے واپس ہوئے ہیں۔ ابوسفیان کوخیال آیا کہ ہم نے کیوں نہ مسلمانوں کو بالکل مار ڈالا۔ اس نے ارادہ کیا کہ چل کر ایک دفعہ پھر مسلمانوں سے جنگ ہو اور جو بچے کھچے رہ گئے ہیں، انھیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ارادہ کی اطلاع ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند جانباز صحابہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: وہی لوگ میرے ساتھ نکلیں جو پہلے ثابت قدم رہے ہیں ۔ اس پر مسلمان باوجود یکہ مجروح تھے اورزخموں سے چور چور تھے۔اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ان کی شان منفعت نشان میں یہ آیت نازل ہوئی۔زخم کھانے کے بعد جن لوگوں نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا ۔ خصوصاً ان کے لیے جو ان میں نیکو کار اورپرہیز گا ر ہیں، بڑا ثواب ہے۔۱؎ (۱۷۲) جنھیں لوگوں نے کہا تھا کہ تمہارے لیے لوگوں نے لشکر جمع کیا ہے تو تم ان سے ڈرو۔ اس بات نے ان کا ایمان بڑھایا اور انھوں نے جواب دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے ۔۲؎ (۱۷۳) سو وہ خدا کے فضل اور نعمت کے ساتھ واپس آئے اور ان کو کسی طرح کی برائی نہ پہنچی اور وہ اللہ کی مرضی پر چلے اور اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔(۱۷۴)
مجاہدین کا نعرۂ مستانہ
۲؎ بدر صغریٰ کا واقعہ ہے ۔ابوسفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا، تاکہ مدینہ میں جاکر مسلمانوں کو مرعوب کرے۔ اس نے آکر کہا۔مسلمانو! تم کیا غضب کررہے ہو۔ ابوسفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ۔ مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو، ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آ سکے گا مگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم و غانم واپس مدینہ لوٹے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت، سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لیے مرعوب کن نہیں ہو سکتی۔ اس سے تو اس کے دل میں اور قوت وتوانائی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ حسبنا اللہ کا نعرئہ مستانہ لگاکر میدان جنگ میں کود پڑتاہے۔
حل لغات
{ اِسْتَجَابُوْا }قبول کیا۔لبیک کہا{اَلْقَرْحُ} زخم{حَسْبُنَا} ہمیں بس ہے۔ ہمارے لیے کافی ہے {سؤٓءٌ} تکلیف۔