محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
مجھے اب کسی بات کی فکر نہیں
ڈاکٹر شاہ فیض
آج سید نا خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پڑھا ویسے تو یہ مکمل واقعہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا چاہیے لیکن سید نا خبیب رضی اللہ عنہ کے اشعار قابل مطالعہ ہیں منھج سلف، عقیدہ، ایمان، توکل، صبر، محبت الہی اور محبت رسول اللہ ۔۔۔ سب کچھ ہی ان اشعار میں ہے لیں آپ بھی یہ اشعار پڑھیں لیکن رکیں پہلے فقیہ محدث صحابی سید نا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی خوبصورت تعبیر میں ان اشعار کا پس منظر جان لیں پھر یہ اشعار امید ہے کہ مدتوں آپ کے دل و دماغ میں بسے رہیں گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 آدمیوں کی ایک جماعت کو جاسوسی کی غرض سے بھیجا، ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاریؓ کو بنایا۔ یہ لوگ جب مکہ اور عسفان کے درمیان ’’ھَدَّہ‘‘ نامی مقام پر پہنچے تو قبیلہ ھذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کے لوگوں کو ان کی اطلاع ہوگئی۔ ان کے ایک سو کے قریب تیر انداز ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ایک جگہ انہیں کھجوروں کی کچھ گٹھلیاں پڑی ہوئی ملیں۔ ان گٹھلیوں کو دیکھ کر انہوں نے کہا:
’’یہ تو یثرب کے کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں۔‘‘
چنانچہ اب انہوں نے ان صحابہ کرامؓ کے قدموں کے نشانات کو سامنے رکھ کر ان کا پیچھا شروع کردیا اور ٓعاصمؓ اور ان کے ساتھیوں کو جب ان مشرکین کا پتہ چلا تو وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئے، مشرکین نے اس ٹیلے کا گھراو کرلیا اور کہا: ٹیلے سے نیچے اتر آو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو، ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔
اس کے جواب میں ِعاصمؓ یوں گویا ہوئے: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر سے عہدو میثاق کرکے ٹیلے سے نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! اپنے نبی کو ہماری اطلاع فرمادیجئے۔‘‘
ان کا یہ اعلان سن کر مشرکین نے تیر برسانا شروع کردیئے، جس کے نتیجے میں عاصم سمیت سات صحابہ کرامؓ شہید ہوگئے۔ باقی تین ان سے معاہدہ کرکے نیچے اتر آئے، جن میں ایک خبیبؓ، دوسرے زیدؓ بن دَثِنہ اور ایک تیسرے صحابیؓ تھے۔ مشرکین نے جب ان پر قابوپا لیا تو فوراً انہیں باندھنے لگے، یہ دیکھ کر وہ تیسرے صحابی بولے:
’’ھٰذَا اَوَّلُ غَدرِِ، وَاللّٰہِ لَا اَصبَحُکُم، اِنَّ لِی بِھٰولآء لَأُسوَۃََ‘‘
یہ پہلا دھوکہ ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاوں گا، میرے لیے ان سات شہداء کے طرز عمل میں بہترین نمونہ ہے۔
مشرکین نے بڑا زور لگایا کہ کسی طرح آپؓ کو ساتھ لے جائیں، لیکن آپؓ نہ مانے، آخر تنگ آکر انہوں نے آپؓ کو شہید کردیا، باقی دو صحابہ خبیبؓ اور زید بن دثنہؓ کو وہ اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں مشرکین مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔
خبیبؓ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خریدا، کیونکہ حارث بن عامر کو غزوۂ بدر میں خبیبؓ ہی نے قتل کیا تھا کئی دن تک تو آپؓ ان کے پاس قید رہے، پھر بالآخر انہوں نے آپؓ کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فیصلے کے بعد خبیبؓ نے شہادت کے لیے تیاری شروع کردی، اسی دوران انہوں نے حارث بن عامر کی ایک بیٹی سے ’’اُسترا‘‘ لیا تاکہ صفائی وغیرہ کرلیں۔ اس عورت کا ایک چھوٹا بچہ چلتا چلتا خبیبؓ کے پاس آگیا۔ آپؓ نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا اور استرا بھی آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ بچے کی ماں کی جب اس منظر پر نظر پڑی تو اس کے ہوش اُڑ گئےاس کی یہ گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر خبیبؓ نے فرمایا:
کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ نہیں! میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ یہ گھٹیا کام کروں۔
بعد میں وہ عورت خبیبؓ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کرتی تھی:’’اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا، ایک دن میں نے ان کو دیکھا کہ وہ انگوروں کا گچھا لیے اس سے کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ لوہے میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں تو مکہ میں کھجوریں بھی نہیں تھیں بہر حال وہ انہیں ’’حرم‘‘ سے باہر لے گئے تاکہ انہیں ’’حل‘‘ میں لے کر جاکر قتل کریں، خبیبؓ نے انہیں کہا: مجھے ذرا چھوڑو تا کہ میں دو رکعت نماز پڑھ سکوں۔‘‘
انہوں نے چھوڑ دیا، آپؓ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میرے بارے میں یہ گمان کرو گے کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں تو مزید نماز پڑھتا۔ اے اللہ! ان کو شمار کرکے رکھنا اور ان سب کو قتل کردینا اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ چھوڑنا۔‘‘
اس کے بعد آپؓ نے کچھ اشعار پڑھے، جن میں سے دو اشعار تو بہت مشہور ہیں لیکن ہم آج آپ کو سارے اشعار سنائیں گے۔ لیجئے!
لَقَد جَمَعَ الاَحزَابُ حَولِی وَاَلَّبُوا
قَبَائِلَھُم وَاستَجمَعُوا کُلَّ مَجمَعِ
قَبَائِلَھُم وَاستَجمَعُوا کُلَّ مَجمَعِ
لشکر میرے ارد گرد جمع ہوچکے اور انہوں نے اپنے قبیلوں کو اور جس کسی کو جمع کرسکتے تھے جمع کرلیا۔
وَقَد قَرَّبُوا اَبنَائَ ھُم وَنِسَائَ ھُم
وَقُرِّبتُ مِن جِذعِِ طَوِیلِِ مُّمَنَّعِ
وَقُرِّبتُ مِن جِذعِِ طَوِیلِِ مُّمَنَّعِ
اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی قریب لے آئے اور مجھے بھی ایک مضبوط، لمبے کھجور کے تنے کے قریب کردیا گیا۔
وَکُلُّھُم یُبدِی العَدَاوَۃَ جَاھِداً
عَلیَّ، لِاَنِّی فِی وَثَاقِِ بِمَضیَعِ
عَلیَّ، لِاَنِّی فِی وَثَاقِِ بِمَضیَعِ
سب کے سب میرے خلاف تگ ودو کررہے ہیں اور مجھ سے دشمنی کا اظہار کررہے ہیں، کیونکہ میں بندھنوں میں جکڑا، فناہونے والا ہوں۔
اِلیٰ اللّٰہِ اَشکُوغُر بَتِی بَعدَ کُربَتِی
وَمَا جَمَعَ الاَحزَابُ لِی عِندَ مَصرَعِی
وَمَا جَمَعَ الاَحزَابُ لِی عِندَ مَصرَعِی
اللہ ہی سے میں اپنی تکلیف اور غریب الوطنی کا شکوہ کرتا ہوں اور ان لشکروں کا جو میرے قتل کا تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
فَذَا العَرشِ صَبَّرنِی عَلٰی مَا اَصَابَنِی
فَقَد بَضَعُوا لَحمِی وَقَد ضَلَّ مَطمَعِی
فَقَد بَضَعُوا لَحمِی وَقَد ضَلَّ مَطمَعِی
عرش والے نے ہی مجھے میری تکلیف پر صبر کی توفیق دی ہے، ورنہ یہ لوگ تو میرا گوشت تک کاٹ چکے اور میری امید تک ختم ہوچکی۔
وَذَالِکَ فِی ذَاتِ الاِلٰہِ وَاِن یَّشَاء
یَُبَارِک عَلٰی اَوصَالِ شِلوٍ مُّمَزَّعِ
یَُبَارِک عَلٰی اَوصَالِ شِلوٍ مُّمَزَّعِ
اور میری یہ قربانی ذات باری تعالیٰ کی خاطر ہے، اگر وہ چاہے تو جدا جدا کئے ہوئے اعضاء کے جوڑوں میں برکت ڈال دے۔
وَقَد عَرَضُوا بِالکُفرِ وَالمَوتُ دُونَہٗ
وَقَد ذَرَفَت عَینَایَ مِن غَیرِ مَدمَعِ
وَقَد ذَرَفَت عَینَایَ مِن غَیرِ مَدمَعِ
انہوں نے (مجھ پر) کفر پیش کیا، جبکہ موت اس سے بہتر ہے اور میری آنکھیں بغیر آنسوئوں کے بہہ رہی ہیں۔
وَمَابِی حَذَارُ المَوتِ، اِنِّی لَمَیِّتُٗ
وَلٰکِن حَذَارِی حَرُّنَارِِ تَلَفَّعُ
وَلٰکِن حَذَارِی حَرُّنَارِِ تَلَفَّعُ
مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں، کیونکہ میں نے مرنا تو ہے ہی، لیکن مجھے شعلے اٹھاتی آگ کی تپش اور حرارت ڈرارہی ہے۔
فَلَستُ بِمُبدِِ لِلعَدُوِّ تَخَشُّعاً
وَلَا جَزَعاً، اِنِّی اِلیٰ اللّٰہِ مَرجَعِی
وَلَا جَزَعاً، اِنِّی اِلیٰ اللّٰہِ مَرجَعِی
میں دشمن کے سامنے نہ جھکوں گا، نہ جزع فزع کروں گا، کیونکہ میں اپنے اللہ کی طرف جارہا ہوں۔
وَلَستُ اُبَالِی حِینَ اُقتَلُ مُسلِماً
عَلٰی اَیِّ جَنبِِ کَانِ لِلّٰہِ مَصرَعِی
عَلٰی اَیِّ جَنبِِ کَانِ لِلّٰہِ مَصرَعِی
اور جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کے نام پر میں کس پہلو کے بل قتل کیا جاتا ہوں۔
اس کے بعد حارث بن عامر کا بیٹا، ابو سروعہ عقبہ بن حارث آگے بڑھا اور اس نے آپؓ کو شہید کرڈالا۔
’’اناللّٰہ واناالیہ راجعون،اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ
رضی اللہ عنہ