• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجھے اب کسی بات کی فکر نہیں !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مجھے اب کسی بات کی فکر نہیں


ڈاکٹر شاہ فیض

آج سید نا خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پڑھا ویسے تو یہ مکمل واقعہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا چاہیے لیکن سید نا خبیب رضی اللہ عنہ کے اشعار قابل مطالعہ ہیں منھج سلف، عقیدہ، ایمان، توکل، صبر، محبت الہی اور محبت رسول اللہ ۔۔۔ سب کچھ ہی ان اشعار میں ہے لیں آپ بھی یہ اشعار پڑھیں لیکن رکیں پہلے فقیہ محدث صحابی سید نا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی خوبصورت تعبیر میں ان اشعار کا پس منظر جان لیں پھر یہ اشعار امید ہے کہ مدتوں آپ کے دل و دماغ میں بسے رہیں گے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 آدمیوں کی ایک جماعت کو جاسوسی کی غرض سے بھیجا، ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاریؓ کو بنایا۔ یہ لوگ جب مکہ اور عسفان کے درمیان ’’ھَدَّہ‘‘ نامی مقام پر پہنچے تو قبیلہ ھذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کے لوگوں کو ان کی اطلاع ہوگئی۔ ان کے ایک سو کے قریب تیر انداز ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ایک جگہ انہیں کھجوروں کی کچھ گٹھلیاں پڑی ہوئی ملیں۔ ان گٹھلیوں کو دیکھ کر انہوں نے کہا:

’’یہ تو یثرب کے کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں۔‘‘

چنانچہ اب انہوں نے ان صحابہ کرامؓ کے قدموں کے نشانات کو سامنے رکھ کر ان کا پیچھا شروع کردیا اور ٓعاصمؓ اور ان کے ساتھیوں کو جب ان مشرکین کا پتہ چلا تو وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئے، مشرکین نے اس ٹیلے کا گھراو کرلیا اور کہا: ٹیلے سے نیچے اتر آو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو، ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔

اس کے جواب میں ِعاصمؓ یوں گویا ہوئے: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر سے عہدو میثاق کرکے ٹیلے سے نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! اپنے نبی کو ہماری اطلاع فرمادیجئے۔‘‘

ان کا یہ اعلان سن کر مشرکین نے تیر برسانا شروع کردیئے، جس کے نتیجے میں عاصم سمیت سات صحابہ کرامؓ شہید ہوگئے۔ باقی تین ان سے معاہدہ کرکے نیچے اتر آئے، جن میں ایک خبیبؓ، دوسرے زیدؓ بن دَثِنہ اور ایک تیسرے صحابیؓ تھے۔ مشرکین نے جب ان پر قابوپا لیا تو فوراً انہیں باندھنے لگے، یہ دیکھ کر وہ تیسرے صحابی بولے:

’’ھٰذَا اَوَّلُ غَدرِِ، وَاللّٰہِ لَا اَصبَحُکُم، اِنَّ لِی بِھٰولآء لَأُسوَۃََ‘‘

یہ پہلا دھوکہ ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاوں گا، میرے لیے ان سات شہداء کے طرز عمل میں بہترین نمونہ ہے۔

مشرکین نے بڑا زور لگایا کہ کسی طرح آپؓ کو ساتھ لے جائیں، لیکن آپؓ نہ مانے، آخر تنگ آکر انہوں نے آپؓ کو شہید کردیا، باقی دو صحابہ خبیبؓ اور زید بن دثنہؓ کو وہ اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں مشرکین مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔

خبیبؓ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خریدا، کیونکہ حارث بن عامر کو غزوۂ بدر میں خبیبؓ ہی نے قتل کیا تھا کئی دن تک تو آپؓ ان کے پاس قید رہے، پھر بالآخر انہوں نے آپؓ کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فیصلے کے بعد خبیبؓ نے شہادت کے لیے تیاری شروع کردی، اسی دوران انہوں نے حارث بن عامر کی ایک بیٹی سے ’’اُسترا‘‘ لیا تاکہ صفائی وغیرہ کرلیں۔ اس عورت کا ایک چھوٹا بچہ چلتا چلتا خبیبؓ کے پاس آگیا۔ آپؓ نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا اور استرا بھی آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ بچے کی ماں کی جب اس منظر پر نظر پڑی تو اس کے ہوش اُڑ گئےاس کی یہ گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر خبیبؓ نے فرمایا:

کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ نہیں! میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ یہ گھٹیا کام کروں۔

بعد میں وہ عورت خبیبؓ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کرتی تھی:’’اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا، ایک دن میں نے ان کو دیکھا کہ وہ انگوروں کا گچھا لیے اس سے کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ لوہے میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں تو مکہ میں کھجوریں بھی نہیں تھیں بہر حال وہ انہیں ’’حرم‘‘ سے باہر لے گئے تاکہ انہیں ’’حل‘‘ میں لے کر جاکر قتل کریں، خبیبؓ نے انہیں کہا: مجھے ذرا چھوڑو تا کہ میں دو رکعت نماز پڑھ سکوں۔‘‘

انہوں نے چھوڑ دیا، آپؓ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میرے بارے میں یہ گمان کرو گے کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں تو مزید نماز پڑھتا۔ اے اللہ! ان کو شمار کرکے رکھنا اور ان سب کو قتل کردینا اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ چھوڑنا۔‘‘

اس کے بعد آپؓ نے کچھ اشعار پڑھے، جن میں سے دو اشعار تو بہت مشہور ہیں لیکن ہم آج آپ کو سارے اشعار سنائیں گے۔ لیجئے!

لَقَد جَمَعَ الاَحزَابُ حَولِی وَاَلَّبُوا
قَبَائِلَھُم وَاستَجمَعُوا کُلَّ مَجمَعِ

لشکر میرے ارد گرد جمع ہوچکے اور انہوں نے اپنے قبیلوں کو اور جس کسی کو جمع کرسکتے تھے جمع کرلیا۔

وَقَد قَرَّبُوا اَبنَائَ ھُم وَنِسَائَ ھُم
وَقُرِّبتُ مِن جِذعِِ طَوِیلِِ مُّمَنَّعِ

اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی قریب لے آئے اور مجھے بھی ایک مضبوط، لمبے کھجور کے تنے کے قریب کردیا گیا۔

وَکُلُّھُم یُبدِی العَدَاوَۃَ جَاھِداً
عَلیَّ، لِاَنِّی فِی وَثَاقِِ بِمَضیَعِ

سب کے سب میرے خلاف تگ ودو کررہے ہیں اور مجھ سے دشمنی کا اظہار کررہے ہیں، کیونکہ میں بندھنوں میں جکڑا، فناہونے والا ہوں۔

اِلیٰ اللّٰہِ اَشکُوغُر بَتِی بَعدَ کُربَتِی
وَمَا جَمَعَ الاَحزَابُ لِی عِندَ مَصرَعِی

اللہ ہی سے میں اپنی تکلیف اور غریب الوطنی کا شکوہ کرتا ہوں اور ان لشکروں کا جو میرے قتل کا تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

فَذَا العَرشِ صَبَّرنِی عَلٰی مَا اَصَابَنِی
فَقَد بَضَعُوا لَحمِی وَقَد ضَلَّ مَطمَعِی

عرش والے نے ہی مجھے میری تکلیف پر صبر کی توفیق دی ہے، ورنہ یہ لوگ تو میرا گوشت تک کاٹ چکے اور میری امید تک ختم ہوچکی۔

وَذَالِکَ فِی ذَاتِ الاِلٰہِ وَاِن یَّشَاء
یَُبَارِک عَلٰی اَوصَالِ شِلوٍ مُّمَزَّعِ

اور میری یہ قربانی ذات باری تعالیٰ کی خاطر ہے، اگر وہ چاہے تو جدا جدا کئے ہوئے اعضاء کے جوڑوں میں برکت ڈال دے۔

وَقَد عَرَضُوا بِالکُفرِ وَالمَوتُ دُونَہٗ
وَقَد ذَرَفَت عَینَایَ مِن غَیرِ مَدمَعِ

انہوں نے (مجھ پر) کفر پیش کیا، جبکہ موت اس سے بہتر ہے اور میری آنکھیں بغیر آنسوئوں کے بہہ رہی ہیں۔

وَمَابِی حَذَارُ المَوتِ، اِنِّی لَمَیِّتُٗ
وَلٰکِن حَذَارِی حَرُّنَارِِ تَلَفَّعُ

مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں، کیونکہ میں نے مرنا تو ہے ہی، لیکن مجھے شعلے اٹھاتی آگ کی تپش اور حرارت ڈرارہی ہے۔

فَلَستُ بِمُبدِِ لِلعَدُوِّ تَخَشُّعاً
وَلَا جَزَعاً، اِنِّی اِلیٰ اللّٰہِ مَرجَعِی

میں دشمن کے سامنے نہ جھکوں گا، نہ جزع فزع کروں گا، کیونکہ میں اپنے اللہ کی طرف جارہا ہوں۔

وَلَستُ اُبَالِی حِینَ اُقتَلُ مُسلِماً
عَلٰی اَیِّ جَنبِِ کَانِ لِلّٰہِ مَصرَعِی

اور جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کے نام پر میں کس پہلو کے بل قتل کیا جاتا ہوں۔

اس کے بعد حارث بن عامر کا بیٹا، ابو سروعہ عقبہ بن حارث آگے بڑھا اور اس نے آپؓ کو شہید کرڈالا۔

’’اناللّٰہ واناالیہ راجعون،اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ
رضی اللہ عنہ
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
مجھے اب کسی بات کی فکر نہیں

ڈاکٹر شاہ فیض

آج سید نا خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پڑھا ویسے تو یہ مکمل واقعہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا چاہیے لیکن سید نا خبیب رضی اللہ عنہ کے اشعار قابل مطالعہ ہیں منھج سلف، عقیدہ، ایمان، توکل، صبر، محبت الہی اور محبت رسول اللہ ۔۔۔ سب کچھ ہی ان اشعار میں ہے لیں آپ بھی یہ اشعار پڑھیں لیکن رکیں پہلے فقیہ محدث صحابی سید نا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی خوبصورت تعبیر میں ان اشعار کا پس منظر جان لیں پھر یہ اشعار امید ہے کہ مدتوں آپ کے دل و دماغ میں بسے رہیں گے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

عزیز بھائی! اگر آپ مجھے اِس واقعہ کا حوالہ بتا دیں تو نوازش ہو گی؟

جزاک اللہ خیراً کثیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

عزیز بھائی! اگر آپ مجھے اِس واقعہ کا حوالہ بتا دیں تو نوازش ہو گی؟
یہ ایمان افروز واقعہ صحیح بخاری میں اس طرح مروی ہے :
حدثنا ابو اليمان، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا شعيب، ‏‏‏‏‏‏عن الزهري، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اخبرني عمرو بن ابي سفيان بن اسيد بن جارية الثقفي وهو حليف لبني زهرة وكان من اصحاب ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏ان ابا هريرة رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهط سرية عينا، ‏‏‏‏‏‏وامر عليهم عاصم بن ثابت الانصاري جد عاصم بن عمر بن الخطاب فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهداة وهو بين عسفان ومكة ذكروا لحي من هذيل، ‏‏‏‏‏‏يقال لهم:‏‏‏‏ بنو لحيان فنفروا لهم قريبا من مائتي رجل كلهم رام فاقتصوا آثارهم حتى وجدوا ماكلهم تمرا تزودوه من المدينة، ‏‏‏‏‏‏فقالوا:‏‏‏‏ هذا تمر يثرب فاقتصوا آثارهم فلما رآهم عاصم واصحابه لجئوا إلى فدفد واحاط بهم القوم، ‏‏‏‏‏‏فقالوا لهم:‏‏‏‏ انزلوا واعطونا بايديكم ولكم العهد والميثاق ولا نقتل منكم احدا، ‏‏‏‏‏‏قال عاصم بن ثابت امير السرية:‏‏‏‏ اما انا فوالله لا انزل اليوم في ذمة كافر، ‏‏‏‏‏‏اللهم اخبر عنا نبيك فرموهم بالنبل فقتلوا عاصما في سبعة فنزل إليهم ثلاثة رهط بالعهد والميثاق منهم خبيب الانصاري وابن دثنة ورجل آخر، ‏‏‏‏‏‏فلما استمكنوا منهم اطلقوا اوتار قسيهم فاوثقوهم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ الرجل الثالث هذا اول الغدر والله لا اصحبكم إن لي في هؤلاء لاسوة يريد القتلى فجرروه وعالجوه على ان يصحبهم فابى فقتلوه، ‏‏‏‏‏‏فانطلقوا بخبيب وابن دثنة حتى باعوهما بمكة بعد وقعة بدر فابتاع خبيبا بنو الحارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف، ‏‏‏‏‏‏وكان خبيب هو قتل الحارث بن عامر يوم بدر فلبث خبيب عندهم اسيرا. فاخبرني عبيد الله بن عياض ان بنت الحارث اخبرته انهم حين اجتمعوا استعار منها موسى يستحد بها فاعارته، ‏‏‏‏‏‏فاخذ ابنا لي وانا غافلة حين اتاه، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ فوجدته مجلسه على فخذه والموسى بيده ففزعت فزعة عرفها خبيب في وجهي، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ تخشين ان اقتله ما كنت لافعل ذلك والله ما رايت اسيرا قط خيرا من خبيب والله لقد وجدته يوما ياكل من قطف عنب في يده، ‏‏‏‏‏‏وإنه لموثق في الحديد وما بمكة من ثمر وكانت تقول:‏‏‏‏ إنه لرزق من الله رزقه خبيبا فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه في الحل، ‏‏‏‏‏‏قال لهم:‏‏‏‏ خبيب ذروني اركع ركعتين فتركوه فركع ركعتين، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ لولا ان تظنوا ان ما بي جزع لطولتها اللهم احصهم عددا ولست ابالي حين اقتل مسلما على اي شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشا يبارك على اوصال شلو ممزع فقتله ابن الحارث فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرا فاستجاب الله لعاصم بن ثابت يوم اصيب، ‏‏‏‏‏‏فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه خبرهم وما اصيبوا وبعث ناس من كفار قريش إلى عاصم حين حدثوا انه قتل ليؤتوا بشيء منه يعرف، ‏‏‏‏‏‏وكان قد قتل رجلا من عظمائهم يوم بدر فبعث على عاصم مثل الظلة من الدبر، ‏‏‏‏‏‏فحمته من رسولهم فلم يقدروا على ان يقطع من لحمه شيئا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے، (زہری نے بیان کیا) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے خبر دی کہ جب (ان کو قتل کرنے کے لیے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، (زینب نے بیان کیا) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے) ”جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔ آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔
(صحیح البخاری ،کتاب الجہاد والسیر 3045 )
ـــــــــــــــــــــــــــ
مزید تفصیل کیلئے دیکھئے : امام ابو عمر ابن عبدالبرؒ کی کتاب
الاستيعاب في معرفة الأصحاب
اور امام ابن الاثیرؒ (المتوفی 630 ھ) کی کتاب
أسد الغابة في معرفة الصحابة
 
Last edited:
Top