• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجھے اس حدیث کی شرح چاہیے

شمولیت
جولائی 22، 2011
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
125
پوائنٹ
73
اسلام اعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے اس حدیث کی شرح چاہیے کے ہمارے سلف نے اس کی کیا شرح کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَی أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّی يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ

سعید بن عفیر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عنایت فرماتا ہے اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے (یاد رکھو کہ) یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو شخص ان کا مخالف ہوگا ان کو نقصان پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 72

اس میں کن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ کیا اس سے مراد عام لوگ ہیں یہ علمہ؟
اس حدیث کے شرح سلف سے درکار ہے۔
جزاک اللہ خیر
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
اس حدیث یھی تو بتایا جاتا ھے کہ دین میں فقاھت اللہ تعالی کسی کو بھی دے سکتاھے اس کیلیے کچھ خاص لوگ نھی بلکہ جس کو بھی اللہ تعالی چاھے فقاھت دے دیتاھے البتہ جب اللہ تعالی فقاھت
جس کو دیدے تو اسی کو عالم اور فقیہ کھا جاتا ھے
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2011
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
65
اسلام علیکم !اہل علم حضرات سے سوال ہے یہ حدیث ""علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ""طلب العلم فریضہ علی کل مسلم"" صحیح ہے ؟؟؟ "" ضعیف اور موضوع روایات "" "" کتاب کی جلد ٣ صفحہ ٩٦، نمبر ٩٨ پر اس روایت کو ضعیف لکھا ہے ۔ جبکہ امام البانی نے اسے صحیح لکھا ہے ۔ کیا یہ روایت معناََ صحیح ہے ؟؟ رہنمائی فرمائیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اسلام اعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے اس حدیث کی شرح چاہیے کے ہمارے سلف نے اس کی کیا شرح کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَی أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّی يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ

سعید بن عفیر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عنایت فرماتا ہے اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے (یاد رکھو کہ) یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو شخص ان کا مخالف ہوگا ان کو نقصان پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 72

اس میں کن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ کیا اس سے مراد عام لوگ ہیں یہ علمہ؟
اس حدیث کے شرح سلف سے درکار ہے۔
جزاک اللہ خیر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس حدیث مبارکہ میں دین میں فقاہت کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ اس کی اہمیت دیگر علوم سے زیادہ ہے، دین کی فقاہت اسے ہی ملتی ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اور جسے دین کی فقاہت نہ ملے (یا جو دین کی فقاہت حاصل کرنا ہی نہ چاہے) گویا وہ ہر قسم کی خیر سے محروم کر دیا گیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک عام شخص کو (جو دین سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا) بھی اللہ تعالیٰ دین کی فقاہت عطا فرماتے دیتے ہیں، ہرگز نہیں!!
دُنیا تو بن مانگے مل سکتی ہے، لیکن دین بنا طلب، بن مانگے کبھی نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ حدیث مبارکہ انہیں طلبہ علم اور علماء کے متعلق ہے، جو خلوص اور محنت کے ساتھ دین سیکھنا چاہتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما کر انہیں دین میں فقاہت نصیب فرما دیتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
فرمانِ باری ہے:
﴿ مَّن كَانَ يُرِ‌يدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِ‌يدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورً‌ا (١٨) وَمَنْ أَرَ‌ادَ الْآخِرَ‌ةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورً‌ا ﴾ ۔۔۔ سورة الإسراء
کہ ’’جس کا اراده صرف اس جلدی والی دُنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کیلئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (18) اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه مخلص بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی۔‘‘
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اسلام علیکم !اہل علم حضرات سے سوال ہے یہ حدیث ""علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ""طلب العلم فریضہ علی کل مسلم"" صحیح ہے ؟؟؟ "" ضعیف اور موضوع روایات "" "" کتاب کی جلد ٣ صفحہ ٩٦، نمبر ٩٨ پر اس روایت کو ضعیف لکھا ہے ۔ جبکہ امام البانی نے اسے صحیح لکھا ہے ۔ کیا یہ روایت معناََ صحیح ہے ؟؟ رہنمائی فرمائیں ۔
طلب العلم فريضة على كل مسلم الراوي: - المحدث: الألبانی - المصدر: تخریج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 214
خلاصة حكم المحدث: صحیح وزیادة "ومسلمة" لا أصل لها البتة، وأما زیادة: "اطلبوا العلم ولو بالصين" فباطلة

الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا انس بھائی
آپ نے حدیث کے پہلے حصے پر وضاحت کی اس کے دوسرے حصے خاص کر (اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے) پر بھی صحیح فہم بیان کر دیں کیونکہ مکتبہ فکر بریلویت کے حضرات اس حدیث کے اس حصے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روزی دینے یا نہ دینے کے عقیدے کا جواز نکالتے ہیں (استغفراللہ، نعوذباللہ)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیرا انس بھائی
آپ نے حدیث کے پہلے حصے پر وضاحت کی اس کے دوسرے حصے خاص کر (اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے) پر بھی صحیح فہم بیان کر دیں کیونکہ مکتبہ فکر بریلویت کے حضرات اس حدیث کے اس حصے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روزی دینے یا نہ دینے کے عقیدے کا جواز نکالتے ہیں (استغفراللہ، نعوذباللہ)
صحیح بخاری ومسلم کی حدیث مبارکہ إنما أنا قاسم والله يعطي
کا معنیٰ یہ ہے کہ دینے والا تو اللہ ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔

یعنی جس طرح خالق صرف اللہ ہیں اسی طرح حقیقی رازق اور معطی (دینے والا) بھی اللہ رب العٰلمین ہی ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی نہیں۔ نبی کریمﷺ کا کام - اگر ان کے پاس اللہ کے حکم اور مدد سے مالِ غنیمت وغیرہ آئے - صرف اور صرف اسے تقسیم کرنا ہے اور وہ بھی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی منشا کے مطابق۔

بعض حضرات کا اس حدیث مبارکہ سے باطل استدلال
جہاں تک بریلوی حضرات کا اس حدیث سے یہ استدلال کہ نبی کریمﷺ تمام خزانوں کے مالک ہیں۔ جسے چاہیں رزق دیں جسے چاہیں نہ دیں، جسے چاہیں عطا کریں جسے چاہیں نہ کریں۔ اپنی مرضی سے جسے جو چاہیں تقسیم فرما دیں تو ان کا یہ استدلال بالکل مردود وباطل ہے۔

کیونکہ یہ حدیث مبارکہ مالِ غنیمت تقسیم کرنے کے متعلق ہے۔ پچھلی اُمتوں میں تو مالِ غنیمت مجاہدین کیلئے جائز نہیں ہوتا تھا۔ اُس امت کیلئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا لیکن شروع میں لوگوں کو مال کی حرص سے بچانے کیلئے مالِ غنیمت کی تقسیم اللہ کے حکم سے صرف نبی کریمﷺ کی صوابدید واجتہاد پر تھی۔ کسی کا کوئی مخصوص حصہ نہ تھا۔ اسی لئے جنگ بدر کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں: يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول(مالِ غنیمت صرف اللہ اور رسول کا ہے۔ وہ جیسے چاہیں تقسیم کریں، جسے چاہیں دیں۔) جب اس کی تربیت ہوگئی تو پھر بعد میں مجاہدین کیلئے پانچ میں چار حصے مقرر کر دئیے گئے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
معناه أن المعطي حقيقة هو الله تعالى ولست أنا معطياً وإنما أنا خازن على ما عندي ثم أقسم ما أمرت بقسمته على حسب ما أمرت به، فالأمور كلها بمشيئة الله تعالى وتقديره والإنسان مصرف مربوب
اس حدیث مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ حقیقی عطا کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ میں (محمدﷺ) عطا کرنے والا نہیں ہوں، میں تو جو مال میرے پاس آجائے اس کا خازن (حفاظت کرنے والا) ہوں، پھر جس کی مجھے تقسیم کا حکم ہوتا ہے اور جیسے ہوتا ہے اس کے مطابق تقسیم کر دیتا ہوں۔ تمام امور اللہ رب العٰلمین کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہیں ۔۔۔۔۔

اس کی مزید وضاحت سیدنا ابو ہریرہ کی اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
ما أعطيكم ولا أمنعكم إنما أنا قاسم أضع حيث أمرت ۔۔۔ صحيح البخاري
میں تمہیں نہ تو (اپنی مرضی سے) دیتا ہوں اور نہ ہی روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، اسی کو دیتا ہوں جس کے بارے مجھے حکم ہو۔

عطا کرنے والے، روزی دینے والے، خزانوں کے مالک صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین ہے۔ ان کا ان معاملات میں کوئی (نبی یا ولی وغیرہ) شریک نہیں۔ فرمانِ باری ہے:

قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّـهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ۚ أَفَلا تَتَفَكَّرونَ ٥٠ ۔۔۔ سورة الأنعام
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟ (50)

نیز فرمایا:
قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ أَمَّن يَملِكُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ وَمَن يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمرَ ۚ فَسَيَقولونَ اللَّـهُ ۚ فَقُل أَفَلا تَتَّقونَ ٣١ فَذٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمُ الحَقُّ ۖ فَماذا بَعدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلـٰلُ ۖ فَأَنّىٰ تُصرَفونَ ٣٢ كَذٰلِكَ حَقَّت كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذينَ فَسَقوا أَنَّهُم لا يُؤمِنونَ ٣٣ ۔۔۔ سورة يونس
آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے (31) سو یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب حقیقی ہے۔ پھر حق کے بعد اور کیا ره گیا بجز گمراہی کے، پھر کہاں پھرے جاتے ہو؟ (32) اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ یہ ایمان نہ ﻻئیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے (33)

اللہ کی رحمت کو اپنی مرضی سے تو کوئی تقسیم بھی نہیں کر سکتا، اللہ ہی ہیں جو اپنی رحمت کو تقسیم فرماتے ہیں:
أَهُم يَقسِمونَ رَحمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحنُ قَسَمنا بَينَهُم مَعيشَتَهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ۚ وَرَفَعنا بَعضَهُم فَوقَ بَعضٍ دَرَجـٰتٍ لِيَتَّخِذَ بَعضُهُم بَعضًا سُخرِيًّا ۗ وَرَحمَتُ رَبِّكَ خَيرٌ مِمّا يَجمَعونَ ٣٢ ۔۔۔ سورة الزخرف
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے (32)

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
صحیح بخاری ومسلم کی حدیث مبارکہ إنما أنا قاسم والله يعطي
کا معنیٰ یہ ہے کہ دینے والا تو اللہ ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔

یعنی جس طرح خالق صرف اللہ ہیں اسی طرح حقیقی رازق اور معطی (دینے والا) بھی اللہ رب العٰلمین ہی ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی نہیں۔ نبی کریمﷺ کا کام - اگر ان کے پاس اللہ کے حکم اور مدد سے مالِ غنیمت وغیرہ آئے - صرف اور صرف اسے تقسیم کرنا ہے اور وہ بھی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی منشا کے مطابق۔

بعض حضرات کا اس حدیث مبارکہ سے باطل استدلال
جہاں تک بریلوی حضرات کا اس حدیث سے یہ استدلال کہ نبی کریمﷺ تمام خزانوں کے مالک ہیں۔ جسے چاہیں رزق دیں جسے چاہیں نہ دیں، جسے چاہیں عطا کریں جسے چاہیں نہ کریں۔ اپنی مرضی سے جسے جو چاہیں تقسیم فرما دیں تو ان کا یہ استدلال بالکل مردود وباطل ہے۔

کیونکہ یہ حدیث مبارکہ مالِ غنیمت تقسیم کرنے کے متعلق ہے۔ پچھلی اُمتوں میں تو مالِ غنیمت مجاہدین کیلئے جائز نہیں ہوتا تھا۔ اُس امت کیلئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا لیکن شروع میں لوگوں کو مال کی حرص سے بچانے کیلئے مالِ غنیمت کی تقسیم اللہ کے حکم سے صرف نبی کریمﷺ کی صوابدید واجتہاد پر تھی۔ کسی کا کوئی مخصوص حصہ نہ تھا۔ اسی لئے جنگ بدر کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں: يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول(مالِ غنیمت صرف اللہ اور رسول کا ہے۔ وہ جیسے چاہیں تقسیم کریں، جسے چاہیں دیں۔) جب اس کی تربیت ہوگئی تو پھر بعد میں مجاہدین کیلئے پانچ میں چار حصے مقرر کر دئیے گئے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
معناه أن المعطي حقيقة هو الله تعالى ولست أنا معطياً وإنما أنا خازن على ما عندي ثم أقسم ما أمرت بقسمته على حسب ما أمرت به، فالأمور كلها بمشيئة الله تعالى وتقديره والإنسان مصرف مربوب
اس حدیث مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ حقیقی عطا کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ میں (محمدﷺ) عطا کرنے والا نہیں ہوں، میں تو جو مال میرے پاس آجائے اس کا خازن (حفاظت کرنے والا) ہوں، پھر جیسے مجھے حکم ہوتا ہے اس کے مطابق تقسیم کر دیتا ہوں۔ تمام امور اللہ رب العٰلمین کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہیں ۔۔۔۔۔

اس کی مزید وضاحت سیدنا ابو ہریرہ کی اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
ما أعطيكم ولا أمنعكم إنما أنا قاسم أضع حيث أمرت ۔۔۔ صحيح البخاري
میں تمہیں نہ تو (اپنی مرضی سے) دیتا ہوں اور نہ ہی روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، اسی کو دیتا ہوں جس کے بارے مجھے حکم ہو۔

عطا کرنے والے، روزی دینے والے، خزانوں کے مالک صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین ہے۔ ان کا ان معاملات میں کوئی (نبی یا ولی وغیرہ) شریک نہیں۔ فرمانِ باری ہے:

قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّـهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ۚ أَفَلا تَتَفَكَّرونَ ٥٠ ۔۔۔ سورة الأنعام
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟ (50)

نیز فرمایا:
قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ أَمَّن يَملِكُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ وَمَن يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمرَ ۚ فَسَيَقولونَ اللَّـهُ ۚ فَقُل أَفَلا تَتَّقونَ ٣١ فَذٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمُ الحَقُّ ۖ فَماذا بَعدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلـٰلُ ۖ فَأَنّىٰ تُصرَفونَ ٣٢ كَذٰلِكَ حَقَّت كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذينَ فَسَقوا أَنَّهُم لا يُؤمِنونَ ٣٣ ۔۔۔ سورة يونس
آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے (31) سو یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب حقیقی ہے۔ پھر حق کے بعد اور کیا ره گیا بجز گمراہی کے، پھر کہاں پھرے جاتے ہو؟ (32) اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ یہ ایمان نہ ﻻئیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے (33)

اللہ کی رحمت کو اپنی مرضی سے تو کوئی تقسیم بھی نہیں کر سکتا، اللہ ہی ہیں جو اپنی رحمت کو تقسیم فرماتے ہیں:
أَهُم يَقسِمونَ رَحمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحنُ قَسَمنا بَينَهُم مَعيشَتَهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ۚ وَرَفَعنا بَعضَهُم فَوقَ بَعضٍ دَرَجـٰتٍ لِيَتَّخِذَ بَعضُهُم بَعضًا سُخرِيًّا ۗ وَرَحمَتُ رَبِّكَ خَيرٌ مِمّا يَجمَعونَ ٣٢ ۔۔۔ سورة الزخرف
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے (32)
جزاک اللہ خیرا
بہت زبردست انس بھائی
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
صحیح بخاری ومسلم کی حدیث مبارکہ إنما أنا قاسم والله يعطي
کا معنیٰ یہ ہے کہ دینے والا تو اللہ ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔

یعنی جس طرح خالق صرف اللہ ہیں اسی طرح حقیقی رازق اور معطی (دینے والا) بھی اللہ رب العٰلمین ہی ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی نہیں۔ نبی کریمﷺ کا کام - اگر ان کے پاس اللہ کے حکم اور مدد سے مالِ غنیمت وغیرہ آئے - صرف اور صرف اسے تقسیم کرنا ہے اور وہ بھی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی منشا کے مطابق۔

بعض حضرات کا اس حدیث مبارکہ سے باطل استدلال
جہاں تک بریلوی حضرات کا اس حدیث سے یہ استدلال کہ نبی کریمﷺ تمام خزانوں کے مالک ہیں۔ جسے چاہیں رزق دیں جسے چاہیں نہ دیں، جسے چاہیں عطا کریں جسے چاہیں نہ کریں۔ اپنی مرضی سے جسے جو چاہیں تقسیم فرما دیں تو ان کا یہ استدلال بالکل مردود وباطل ہے۔

کیونکہ یہ حدیث مبارکہ مالِ غنیمت تقسیم کرنے کے متعلق ہے۔ پچھلی اُمتوں میں تو مالِ غنیمت مجاہدین کیلئے جائز نہیں ہوتا تھا۔ اُس امت کیلئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا لیکن شروع میں لوگوں کو مال کی حرص سے بچانے کیلئے مالِ غنیمت کی تقسیم اللہ کے حکم سے صرف نبی کریمﷺ کی صوابدید واجتہاد پر تھی۔ کسی کا کوئی مخصوص حصہ نہ تھا۔ اسی لئے جنگ بدر کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں: يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول(مالِ غنیمت صرف اللہ اور رسول کا ہے۔ وہ جیسے چاہیں تقسیم کریں، جسے چاہیں دیں۔) جب اس کی تربیت ہوگئی تو پھر بعد میں مجاہدین کیلئے پانچ میں چار حصے مقرر کر دئیے گئے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
معناه أن المعطي حقيقة هو الله تعالى ولست أنا معطياً وإنما أنا خازن على ما عندي ثم أقسم ما أمرت بقسمته على حسب ما أمرت به، فالأمور كلها بمشيئة الله تعالى وتقديره والإنسان مصرف مربوب
اس حدیث مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ حقیقی عطا کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ میں (محمدﷺ) عطا کرنے والا نہیں ہوں، میں تو جو مال میرے پاس آجائے اس کا خازن (حفاظت کرنے والا) ہوں، پھر جس کی مجھے تقسیم کا حکم ہوتا ہے اور جیسے ہوتا ہے اس کے مطابق تقسیم کر دیتا ہوں۔ تمام امور اللہ رب العٰلمین کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہیں ۔۔۔۔۔

اس کی مزید وضاحت سیدنا ابو ہریرہ کی اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
ما أعطيكم ولا أمنعكم إنما أنا قاسم أضع حيث أمرت ۔۔۔ صحيح البخاري
میں تمہیں نہ تو (اپنی مرضی سے) دیتا ہوں اور نہ ہی روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، اسی کو دیتا ہوں جس کے بارے مجھے حکم ہو۔

عطا کرنے والے، روزی دینے والے، خزانوں کے مالک صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین ہے۔ ان کا ان معاملات میں کوئی (نبی یا ولی وغیرہ) شریک نہیں۔ فرمانِ باری ہے:

قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّـهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ۚ أَفَلا تَتَفَكَّرونَ ٥٠ ۔۔۔ سورة الأنعام
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟ (50)

نیز فرمایا:
قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ أَمَّن يَملِكُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ وَمَن يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمرَ ۚ فَسَيَقولونَ اللَّـهُ ۚ فَقُل أَفَلا تَتَّقونَ ٣١ فَذٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمُ الحَقُّ ۖ فَماذا بَعدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلـٰلُ ۖ فَأَنّىٰ تُصرَفونَ ٣٢ كَذٰلِكَ حَقَّت كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذينَ فَسَقوا أَنَّهُم لا يُؤمِنونَ ٣٣ ۔۔۔ سورة يونس
آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے (31) سو یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب حقیقی ہے۔ پھر حق کے بعد اور کیا ره گیا بجز گمراہی کے، پھر کہاں پھرے جاتے ہو؟ (32) اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ یہ ایمان نہ ﻻئیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے (33)

اللہ کی رحمت کو اپنی مرضی سے تو کوئی تقسیم بھی نہیں کر سکتا، اللہ ہی ہیں جو اپنی رحمت کو تقسیم فرماتے ہیں:
أَهُم يَقسِمونَ رَحمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحنُ قَسَمنا بَينَهُم مَعيشَتَهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ۚ وَرَفَعنا بَعضَهُم فَوقَ بَعضٍ دَرَجـٰتٍ لِيَتَّخِذَ بَعضُهُم بَعضًا سُخرِيًّا ۗ وَرَحمَتُ رَبِّكَ خَيرٌ مِمّا يَجمَعونَ ٣٢ ۔۔۔ سورة الزخرف
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے (32)

واللہ تعالیٰ اعلم!
اس سے متعلق نسبتاً مفصل جواب کہیں دستیاب ہے ؟
 
Top