• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجھے پولیو ویکسین کے متعلق تحقیق چاھیے

asghar ch76

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2018
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
٢٠١٠ء میں یہ مضمون لکھا تھا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کفار مل کر ہر سمت سے حملہ آور ہوچکے ہیں، وہ ثقافتی حملہ ہو یا زمینی حملہ، وہ مذہبی حملہ ہو یا دنیاوی حملہ،وہ

امریکہ کافی عرصہ سے اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کی ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی آبادی کو کنٹرول کیا جائے اس سلسلے میں اس نے کافی ایک اقدامات کیے ہیں ان میں کچھ تو فیملی کو کنٹرول کرنے والی ادویات ہیں اور ان ادویات میں بھی جہاں اور بہت سے مفاسد ہیں وہاں یہ بھی کہ یہ ادویات عورت کی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہیں جو عورتیں ان کا استعمال ہر مہینہ کرتی ہیں وہ اگر پانچ سال بعد بچہ حاصل کرنے کی کوشش کریں تو وہ یہ عمل ان کے لیے ناممکن ہو چکا ہوتا ہے حمل تو ٹھہر جاتا مگر وہ بہت کمزور ہوتا ہے کوئی بھی سخت کام کرنے سے ضائع ہوجاتا ہے اس طرح کے بےشمار کیسز سامنے آچکے ہیں مگر ان کو استعمال کرنے کی پھر بھی ترغیب دی جاتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب ادویات مانع حمل والی عورت کی دشمن ہیں یہ ایسا کام کرتی ہیں جو اللہ کے بنائے نظام کے کو خراب کرنے کا سبب بنتی ہیں اس پر بھی بہت بات کی جاسکتی ہے مگر ساتھ ساتھ کرتے رہیں گے ان شاءاللہ۔
پاکستان میں ایک ایسی بیماری بھی پائی جاتی ہے جو اپنے نقصان کے لحاظ سے۹۹فیصد ہے یعنی پاکستان میں وہ بیماری لاکھوں بچوں میں سے شاید کسی ایک کو ہوگی اس سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کے ۱۳ کیس سامنے آئے ہیں مگر اتنی کم مقدار کی بیماری کے لیے امریکہ کا پاکستان کی حکومت کو کروڑوں ڈالر دینا اچھنبے کی بات ہے اور صرف یہی نہیں اس کی ویکسین بھی امریکہ فری مہیا کرتا ہے اور پاکستان کی حکومت بھی اس ویکسین کو بچوں کو پلانے میں بہت سرگرم ہوتی ہے ہر گھر میں جاکر طاقت کے زور پر بھی اس ویکسین کو پلانے کی کوشش کی جاتی ہے اگر کوئی انکار کردے تو پولیس کی دھمکیاں ہی نہیں دی جاتی بلکہ باقائدہ پولیس آتی بھی ہے، اب مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک ایسی بیماری کہ جو اتنی کم مقدار میں پائی جاتی ہے اس کے لیے اتنا اہتمام آخرکیوں کیا جاتا ہے؟؟؟ اور جو بیماریاں پاکستان کی پہچان بن چکی ہیں ان کی ویکسین یا علاج ہزاروں لاکھوں میں کیا جاتا ہے آخر امریکہ حضور کو کیوں پاکستان کی عوام پر اتنا ترس آیا کہ وہ کروڑوں ڈالر بھی دیتا ہے اور دوائی بھی مفت دیتا ہے کہ پاکستان کی عوام صحت مند رہیں؟؟؟؟ نہیں بلکہ امریکہ جو مسلمانوں کا ابدی دشمن ہے وہ بیماری کو ختم کرنے کی آڑ لے کر اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ وہ پاکستان میں بیماریوں کا جال پھیلا رہا ہے اس ویکسین کے ذریعے، اس کی مثال یہاں سے آسانی سے سمجھ آئے گی کہ جب پاکستان میں ۷۰ء کی دہائی میں چیچک کا مرض پھیلا تھا تو امریکہ نے اس کی ویکسین پاکستان پہنچائی اور اس میں ایسی جراثیم تھے جو آج ہیپاٹائٹس کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ بات میں ہوائی نہیں کر رہا بلکہ اس ڈاکٹر صاحب کی تحقیق بتا رہا ہوں جو امریکہ سے ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگڑی لے کر آئے ہیں ان کی تحقیق کے مطابق اس مرض کے جراثیم اس ویکسین میں شامل کیے گے تھے اور یہ ان کفار کی مستقبل کی پلاننگ تھی کہ پھر بعد میں ہم ہی اس بیماری کی دوا پاکستان کی مارکیٹ میں فروخت کرسکیں اور اس بدلے کروڑوں ڈالر کماسکیں، آج امریکہ پاکستان کو ہیپاٹائٹس کی دوا مہیا تو کر رہا ہے مگر اس کی بہت زیادہ قیمت وصول کر رہا ہے یہ بات ہر کوئی جانتا ہوگا کہ ہئپاٹائٹس کے ٹیکوں کا کورس ہزاروں میں پورا ہوتا ہے اور پھر بھی کوئی گاڑنٹی نہیں دی جاتی، اب آتا ہوں اُس بیماری کی طرف جو پاکستان میں بہت کم پائی جاتی ہے مگر اس کے خاتمے کے لیے امریکہ کروڑوں ڈالر دے رہا ہے تو جناب وہ بیماری ہے پولیو جی بھائی اس بیماری کی آڑ میں یہ کفار پاکستان کے بچوں کو شروع سے ہی بےکار بنا رہے ہیں اس کی ویکسین میں ایسے جراثیم پائے گے ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے مادہ تولید کو نقصان پہنچانتے ہیں اورجب یہ نسل بڑی ہوگی تو اس کے نقصانات سامنے زیادہ واضح ہوکر آئیں گے فی الحال سبھی اس بات کا انکار کرتے نظر آتے ہین جن سے بات کرو وہی کہتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے مگر میرے ایک دوست جو کہ ایلو پیتھک ادویات بناتے ہیں انہوں نے اپنی فیکٹری میں بنی لیباٹری میں پولیو ویکسین کے قطروں کا ٹیسٹ کیا تو اس میں ایسے انہوں نے ایسے جراثیم پائے جو کہ مادہ تولید کے لیے نقصان دے تھے، ان کو بھی کسی اور دوست نے ہی بتایا تھا کہ یہ ایسا ظلم کر رہے ہیں تو انہوں نے تصدیق کے لیے خود بھی ٹیسٹ کیے، میں اس سال کی رپورٹ نقشے کے ساتھ بھی لگاوں گا تاکہ آپ لوگ خود اس بیماری کو جان سکیں کہ یہ کتنی کم مقدار میں پائی جاتی ہے اور اس کے خلاف کتنے اہتمام اور وسائل کے ساتھ میدان میں کودا جاتا ہے اور جو بیماریاں بہت زیادہ پاکستان کے باسیوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں ان کی قیمت منہہ مانگی وصول کی جارہی ہے کیا یہی ہے ان کفار کی ہمدردی پاکستان اور یہاں کی عوام کے ساتھ؟؟؟یہ ہمدردی نہیں ہے بلکہ دشمنی ہے اور دشمنی بھی مکارانہ اور اس ویکسین کے نام پر بیماریاں پھیلائی جارہی ہیں یہ کفار مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں یہ کبھی بھی مسلم کے وفادار یا کہہ لیں ہمدرد نہیں ہوسکتے، ان کفار کو ہمارے بچوں کی اتنی فکر کیوں ہونے لگی جو کفار ہمارے جوانوں کو قتل کر رہے ہیں وہ ہمارے بچوں کے ہمدرد کیسے ہوسکتے ہیں ؟؟؟یہ ہمدردی کےنام پر دشمنی کر رہے ہیں۔

ایک چھوٹا سا واقعہ جو ہمارے ساتھ پیش آیا نوٹ کرتا ہوں مَیں نے اپنی بیگم کو سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ پولیو ویکسین پلانے والی ٹیم آئے تو تم نے بچے کو یہ ویکسین نہیں پلانے دینی اور جس دن یہ ٹیم ہمارے گھر آئی تو ان کے پاس ریکارڈ تھا انہوں نے کہنا شروع کیا کہ عبداللہ کو بھی لائیں میری امی جان نے میری بیگم سے کہا کہ بچے کو لاو تو اس نے کہا کہ مجھے منع کیا گیا ہے اس لیے میں نہیں پلاوں گی تو اس پر جو نرس ساتھ آئی تھی اس نے پہلے اس ویکسین کے فوائد سنانے شروع کیے اور جب بات بنتی نظر نہ آئی تو دھمکیاں دیں کہ پولیس والے ہی اب خود آکر پلائیں گے میری بیگم نے بھی سخت رویہ اپنایا کہ آپ جو مرضی ہے کر لو ہم اپنے بچے کو یہ زہر نہیں پلائیں گے۔
تو دوسرے دن صبح ۹ بچے ہی محکمہ صحت کا ایریا انسپکٹر ہمارے گھر آگیا اس وقت میں گھر ہی تھا میں نے ان کو بیٹھک میں بیٹھایا اور ان سے بات چیت شروع کی، مَیں نے پہلا سوال یہ کیا کہ امریکہ اس مُد میں پاکستان کو کتنے ڈالر دیتا ہے اس نے کہا کہ یہ رقم کرڑوں میں ہے میں نے کہا ویکسین کیا یہ پاکستان میں تیار کی جاتی ہے یا کہ یہ بھی امریکہ مہیا کرتا ہے اس نے کہا کہ ویکسین یو۔این۔او والے دیتے ہیں، پھر سوال کیا کہ اس سال پاکستان میں پولیو کے کتنے کیسز سامنے آئے ہیں؟؟کہنے لگے کہ اس سال ٹوٹل تین۳ کیسز کا پتہ چلا ہے اور یہ بات ۲۰۰۶ء کی ہے، میں نے پھر کہا سرجی مجھے آپ یہ بتائیں کہ ایسا مرض جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے اس مرض کے خلاف اتنی بڑی مہم چلانا اور اس پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنا چہ معنی دارد؟؟؟کہنے لگے اس مرض کو مکمل ختم کرنے کا ارادہ ہے، میں نے کہا کہ پاکستان میں اور بھی تو اتنے زیادہ مرض پھیلے پوئے ہیں جو کہ جان لیوا بھی ہیں اس میں امریکہ اور یو۔این۔او والے کیا مدد کر رہے ہیں؟؟کہنے لگے مجھے نہیں علم کہ وہ اس کے علاوہ دوسری بیماروں کے خلاف مدد کیوں نہیں کرتے مگر یہ بیماری ایک انسان کی زندگی کو تباہ کردیتی ہے اس کو زندگی بڑھ کے لیے مفلوج کردیتی ہے اس لیے اس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہ ظلم نہ کریں کہ ان کو پولیو سے بچاو کے حفاظتی قطرے نہیں پلانے دے رہے، میں نے کہا کہ سرجی میں اپنے بچوں کو ظلم سے بچا رہا ہوں کیونکہ میرے علم کے مطابق یہ قطرے بچوں کے لیے نقصان دے ہیں اس میں ایسے جراثیم ہیں جو مادہ تولید کو نْقصان پہنچاتے ہیں ان قطروں کی لیباٹری رپورٹ یہی کہتی ہے اور دوسرا آپ نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو اس سلسلے میں کروڑوں ڈالر بھی مہیا کرتا ہے تو اس مسلم دشمن کو کیا ضرورت ہے ہمارے بچوں کی؟؟ کیا اس امریکہ نے ہی افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل نہیں کیا ہے؟؟کیا امریکہ اور برطانیہ کا پالتو کتا اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام نہیں کررہا؟؟آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ پولیو کے حفاظتی قطروں کے لیے ایک تو پیسہ بھی پاس سے دے اور دوسرا ویکسین بھی خود تیار کروا کر دے؟؟یہ مسلم کے اتنے مخلص کیسے ہوگے ہیں؟؟اور یہ بھی کہ پاکستان میں یہ ویکسین کیوں تیار نہیں کی جاتی؟؟ اسلام آباد میں کئی ایکڑ میں پھیلی سرچ لیباٹری کس مرض کے علاج کے لیے بنائی گئی تھی؟؟آج اس لیباٹری میں پڑی مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے اور اس لیباٹری میں ادویات کی تیاری کس کے حکم سے روکی گئی ہے؟؟جبکہ میری معلومات کے مطابق یہ لیباٹری جدید ترین مشینری رکھتی ہے اس کے باوجود اس میں کوئی دوائی تیار نہیں کی جارہی ہے صرف اسی لیے کہ کہیں پاکستان ادویات میں خود کفیل نہ ہوجائے اور یورپ اور امریکہ سے ادویات خریدنا چھوڑ نہ دے اسی لیے ایجنٹ حکمرانوں نے امریکہ کی یہ بات بھی مانی اور پاکستان میں ادویات کی تیاری روک دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں ادویات کے معاملے میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی من مانی چلتی ہے اور آئے روز جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں،اس طرح کے اور بھی کافی حقائق ان کے سامنے رکھے اور یہ بات چیت تقریباً ایک گھنٹہ چلتی رہی آخر انہوں نے جان چھڑائی اور چلے گے اس کے علاوہ بھی کافی باتیں ہوئیں جو یاد نہیں ہیں مگر وہ مجھے کوئی ایک بھی واضح دلائل نہ دے سکے کہ یہ قطرے نقصان دے نہیں ہیں اور پھر تیسرے دن ایک اور محکمہ صحت کا آفیسر آگیا مگر یہ صاحب بیٹھک میں بیٹھنے کے لیے تیار نہ ہوئے اور باہر کھڑے کھڑے چند منٹ بات کی اور چلے گے، تو بھائیو یہ محکمہ صحت کے افسران تھے جو پولیو کے قطروں کی افادیت ثابت نہ کرسکے اور آج میرے تین بچے ہیں الحمدللہ کہ تینوں صحت مند ہیں میں نے ان کو حفاظتی ٹیکے تو لگوائے ہیں مگر پولیو کے قطرے نہیں پلوائے، میں سمجھتا ہوں کہ جس کو اس بات کا علم ہوجائے کہ یہ قطرے ایسے نقصان دے ہیں وہ پھر بھی اپنے بچوں کو پلائے تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے، اس بات کا احساس اس کو تب ہوگا جب اس میں موجود جراثیم اپنا کام دیکھائیں گیں۔
تو یہ سب باتیں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ یہ چاہتا ہے اور یہ سب اسی کے حکم کے مطابق کیا جارہا ہے اب آپ یہ بات نہ مانو تو علیحدہ بات ہے حقیقت یہی ہے کہ سب کفار کا ایجنڈا یہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی آبادی کو کنٹرول کیا جائے اور یہودی قوم اتنی شاطر ہے کہ خود فیملی پلاننگ پر عمل نہیں کرتی ان کے ہاں ایک ایک کے گھر کم سے کم ۷ سے ۱۰ بچے ہوتے ہیں اور ہر سال بچہ لیتے پہیں وہ تو ایک سال کا بھی وقفہ نہیں دیتے اور ہمیں سبق سکھا رہے ہیں کہ
بیگم جب تک یہ بچہ سکول نہیں جائے گا
دوسرا بےبی نہیں آئے گا۔
اور خود یہودی اس کے خلاف چل رہے ہیں۔
آزاد ملک میں غلام لوگ
مجھے اپنے آزاد ملک میں غلامی کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے اپنے بچے کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا پولیو ٹیم کی عورتوں نے تو کچھ نہیں کہا لیکن مہینے میں دوبار پولیو کے قطرے پلانے والی عورتوں نے جو پندرہ ہزار تنخواہ لیتی ہیں اس کو حلال کرنے اور اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلیے اپنے آفس میں میری رپورٹ کردی اگلے دن وہ اپنے آفیسر کو جو ٹاؤن کا انچارج تھا اپنے ساتھ لیکر آگئیں اور مجھے کہا کہ ہمارے آفیسر سے بات کرو آفیسر نے پہلے تو مجھے ایک بار اوپر سے نیچے تک گھور کر میرا جائزہ لیا اور مسکرا کر کہا کہ آپ پولیو کے خلاف مہم میں تعاون کیوں نہیں کررہے میں نےکہا میں یہ کیسے مان لوں کہ یہ پولیو ویکسینیشن ہے اس نے کہا کہ WHO یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پوری دنیا سے پولیو کا وائرس ختم کرنے کیلیے کام کررہی ہے جو UN کا ایک ادارہ ہے میں نے کہا کہ WHO ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نہیں ہے بلکہ ورلڈ ہیبریو آرگنائزیشن ہے جو دنیا کو جانور بنا کر تمام انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے اور UN صرف یہودیوں کے مقاصد کیلیے کام کررہی ہے آفیسر نے پوچھا کہ یہ سب آپ کو کس نے کہا میں نےکہاکہ کوئی اندھا آدمی لاٹھی کے سہارے یا کسی دوسرے آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہاہو تو سب کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ اندھا ہے اس میں کسی سے پوچھنے یا کسی کے کہنے کی کیا ضرورت ہے اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بات کرتا میں اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی میں نے کہا کہ پولیو کے علاوہ اور کتنی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے روزانہ ہزاروں اموات ہورہی ہیں ایڈز ہے کینسر ہے ٹی بی ہے ہیپاٹائٹس سی ہے اور کئی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے ہوسپیٹل بھرے ہوے ہیں پولیو کے پوری دنیا میں صرف سات سو کیسز ہیں ایک پولیو کو ہی کیوں دنیا کیلیے خطرہ سمجھا جارہا ہے جس کیلیے UN اربوں ڈالر خرچ کررہی ہے اور وہ بھی صرف پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں ایک طرف مسلمانوں کو پوری دنیا میں دہشتگرد بتا کر بیگناہ لوگوں کا قتل عام کیا جارہا ہے پھر ان دہشتگرد مسلمانوں کے بچوں کی UN کو اتنی فکر کس لیے عراق کے اندر چھ لاکھ بچے صرف اس لیے موت کے منہ میں چلے گئے کیونکہ UN نے عراق کو دوائیاں دینے پر پابندی لگائی ہوئی تھی اسرائیل اسلحہ بنائے تو اس کو UN سپورٹ کرتی ہے پاکستان بنائے تو اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں انڈیا نہتے کشمیریوں کا خون بہائے تو UN خاموش رہتی ہے کشمیری اپنی آزادی کیلیے لڑیں تو ان کو دیشتگرد بنادیا جاتا ہے اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرے تو اسرائیل کا حق ہے اور فلسطینی مزاہمت کریں تو دہشت گرد ابھی میں اور بھی بہت ساری دلیلیں دینا چاہتا تھا لیکن وہ پوری بات سنے بغیر ہی چل دیا میں نے سوچا چلو شکر ہے جان چھوٹی اب یہ دوبارہ نہیں آئیں گے میری خوش فہمی اس وقت دور ہوگئی جب مالک مکان نے مجھے بلا لیا اور کہنے لگا کہ تھوڑی دیر پہلے میرے پاس کونسلر آیا تھا اور کیہ کر گیا ہے کہ اپنے کرائےدار کو پولیو مہم میں تعاون کرنے کیلیے کہو نہیں تو اس سے اپنا مکان خالی کرواؤ تو مالک مکان نے اس کو یہ کیہ کرٹال دیا کہ میں نےاس سے ایک سال کا ایگریمنٹ سائن کیا ہوا ہے اس سے پہلے میں مکان خالی نہیں کرواسکتا میں نے سوچا کہ چلو اب جان چھوٹی لیکن یہ خوش فہمی بھی اگلے دن دور ہوگئی جب دو پولیس والے آگئے اور قطرے نہ پلانے پر گرفتار کرنے کی وارننگ دے دی میں نے سوچا میں نےکوئی جرم تو کیا نہیں یہ مجھے بند کس جرم میں کریں گے میں نےکہا ٹھیک ہے آپ مجھے گرفتار کرلو پر میں اپنے بچوں کو یہ زہر نہیں پلانے دوں گا اور انہوں نے مجھے لیجاکر لاک اپ میں بند کردیا اب جو بھی میرے پیچھے میری ضمانت کیلیے آتا ہے اسکو یہی کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں چھوڑ سکتے ہمیں اوپر سے آرڈر ہے صرف قطرے پلانے کی شرط پر چھوڑ سکتے ہیں تو پھر مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ہم آزاد ملک کے غلام لوگ ہیں
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


پاکستانی فورمز اور بلاگز پر اکثر ايسی سازشی کہانياں پڑھنے کو ملتی ہیں جو محض افواہوں اور تاثر پر مبنی ہوتی ہیں۔

اس تھريڈ ميں امريکہ پر يہ الزام لگايا گيا ہے کہ پاکستان ميں دانستہ خطرناک وائرس پھيلاۓ جا رہے ہيں تا کہ پوليو کو ختم کرنے کی مہم کی آڑ ميں ملک بھر ميں بيماريوں کو عام کيا جا سکے۔ ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ يہ حکومت پاکستان کی اپنی مہم اور بيان شدہ ايجنڈہ ہے کہ ملک سے اس بيماری کا خاتمہ کيا جاۓ۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ آصفہ بٹھو زرداری وہ پہلی پاکستانی بچی تھيں جنھيں ان کی والدہ اور اس وقت کی وزيراعظم بے نظير بھٹو نے خود اپنے ہاتھوں سے اپريل 1994 ميں پوليو سے بچاؤ کے ليے شروع کی جانے والے مہم کے دوران اس بيماری سے بچاؤ کے حوالے سے قطرے پلاۓ تھے۔ اسی بنياد پر حکومت پاکستان کی جانب سے آصفہ بھٹو زرداری کو پاکستان ميں پوليو کے خاتمے کا سفير بھی نامزد کيا گيا۔

https://www.dawn.com/news/495807

امريکی حکومت محض پاکستان کی منتخب جمہوری حکومتوں کی مدد اور سپورٹ يو ايس ايڈ اور ديگر نجی اين جی اوز اور ايجنسيز کے ذريعے کر رہی ہے۔

جہاں تک کچھ افراد کی جانب سے دانستہ ايک واضح سياسی مقصد کے حصول کے ليے بے بنياد خوف اور خدشات کے پرچار کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کچھ پريشان کن حقائق پيش ہيں

سال 2010 کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آۓ ہیں۔

ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آۓ ہيں جہاں گزشتہ برس ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔

مغربی ممالک سے پوليو کا خاتمہ کئ دہائيوں پہلے ہو چکا ہے ليکن پاکستان میں يہ اب بھی ايک وبا کی حیثيت رکھتا ہے۔ ايک مہلک اور اکثر وبائ نوعيت کی اس بيماری کا خاتمہ محض بچے کی زبان پر چند قطرے کڑوی دوائ کے رکھنے سے کیا جا سکتا ہے۔

دسمبر 2017 ميں پوليو کے عالمی سطح پر خاتمے کے ليے کام کرنے والی تنظيم جی پی ای آئ کی ايک رپورٹ سامنے آئ جس ميں اس بات پر زور ديا گيا کہ پاکستان کو پوليو کے خاتمے کے ضمن ميں مزيد کاوشوں کی ضرورت ہے۔
https://nation.com.pk/08-Dec-2017/ibm-report-stresses-pakistan-to-do-more-against-poliovirus

يہ امر توجہ طلب ہے کہ سال 2003 ميں پوليو سے ويکسينيشن کے لیے اسی نوعيت کی ايک مہم کا آغاز کيا گيا تھا جس کے ردعمل ميں نائيجيريا ميں کچھ امام حضرات کی جانب سے اس مہم کے بائيکاٹ کا اعلان اس بنياد پر کيا گيا تھا کہ يہ مسلمانوں ميں ايڈز پھيلانے يا انھيں بانجھ کرنے کی مغربی سازش ہے۔ اس کے نتيجے ميں اگلے سال پوليو کا شکار ہو کر اپاہج ہونے والے بچوں کی تعداد ميں دگنا اضافہ ہو گيا جس کے بعد يہ خدشہ بھی پيدا ہو گيا کہ يہ بيماری آس پاس کے درجنوں ممالک ميں بھی پھيل جاۓ گی۔

سال 2008 تک جب پوليو کا شکار ہونے والے بچوں کی شرع ميں تين گنا اضافہ ہو گيا تو افريقہ کے اس گنجان آباد ملک ميں پوليو کے خلاف ايک نئ مہم کا آغاز کيا گيا اور اس مرتبہ کچھ مسلم علماء نے مسلۓ کے حل کا ساتھ دينے کا فيصلہ کيا اور مقامی کميونٹی قائدين اور صحت عامہ کے ماہرين کے ساتھ مل کر اس جدوجہد ميں شامل ہونے کا فيصلہ کيا۔ ليکن اس وقت تک ہزاروں کی تعداد ميں معصوم بچے اس بيماری کا شکار ہو کر زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو چکے تھے۔

يہ حقائق ان افراد کی آنکھيں کھول دينے کے لیے کافی ہيں جو امريکہ کی ہر کوشش پر تنقيد ضروری سمجھتے ہيں چاہے اس کے نتيجے ميں پاکستان ميں پوليو کے خاتمے اور مستقبل کی نسلوں کے بچاؤ کی کوششوں کو ہی نقصان کيوں نہ پہنچے۔

وقت کی ضرورت ہے ايک نفرت انگيز نظريے کے پرچار ميں اندھا ہونے کی بجاۓ پاکستان کے بچوں کی مدد کو مقدم رکھا جاۓ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
پولیو: ایک حقیقت سو افسانے - ڈاکٹر رضوان اسد خان


پولیو کیا ہے؟
پولیو وائرس کی 3 اقسام ہیں جو انسانی جسم میں میں منہ کے راستے داخل ہوتے ہیں، آنتوں میں جا کر اپنی تعداد بڑھانے کے بعد خون کے ذریعے پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے اعصابی خلیوں (neurons) میں پہنچ کر ان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں . اس طرح ان اعصاب کے زیر کنٹرول پٹھے بےکار ہو جاتے ہیں، یعنی اس حصے کا فالج ہو جاتا ہے. بیشتر کیسز میں یہ ٹانگوں کے اعصاب کو متاثر کرتے ہیں اور مریض چلنے سے معذور ہو جاتا ہے. عموماً کسی ایک طرف کی ٹانگ متاثر ہوتی ہے. آنتوں سے یہ وائرس پاخانے کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے اور استنجا کے بعد ہاتھ نہ دھونے کی صورت میں یا پانی کے ناقص نظام نکاس کی وجہ سے بہت تیزی سے دوسرے افراد تک پہنچ جاتا ہے.​
ابتدائی علامات تیز بخار، پٹھوں کا درد، سردرد، سستی اور گردن کا تناؤ ہیں. اکثر کیسز میں جسم کی قوت مدافعت اسی سٹیج پر اس کا خاتمہ کر دیتی ہے اور 0.5 فیصد کیسز میں ہی فالج تک نوبت پہنچتی ہے.​
یہ بیماری کسی بھی عمر میں لگ سکتی ہے، البتہ 3 سال سے کم عمر کے بچوں میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے.
امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ بھی 1921ء میں اسی بیماری کی وجہ سے فالج کا شکار ہو گئے تھے.
یہ بیماری تاحال لاعلاج ہے.​
ویکسین کیا ہوتی ہے:
ویکسین وہ ذریعہ ہے جس میں بیماری پیدا کرنے والے جراثیم (وائرسز یا بیکٹیریا) ہی مردہ یا انتہائی کمزور حالت میں جسم میں داخل کیے جاتے ہیں . یوں وہ جسم کی قوت مدافعت کو اس بیماری کے خلاف متحرک کر دیتے ہیں . ہمارا مدافعتی نظام انہیں ”پہچان“ لیتا ہے اور ”یاد“ رکھتا ہے. بعد میں جب ماحول سے اس بیماری کے جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں تو مدافعتی نظام پہلے سے تیار ہوتا ہے اور فوری جوابی حملہ کر کے جسم سے ان کا صفایا کر دیتا ہے.​
پولیو اور اس کی ویکسین کی تاریخ:
1950 کی دہائی میں امریکہ میں پولیو کے اوسطاً 2000 کیسز سالانہ منظر عام پر آتے تھے اور وبا کی صورت میں یہ تعداد 58000 سالانہ تک بھی ریکارڈ پر موجود ہے.
پولیو سے بچاؤ کی پہلی ویکسین جوناز سالک (Jonas Salk) نے بنائی جو 1955ء میں امریکہ میں صدر روزویلٹ کی دسویں برسی کے موقع پر لانچ کی گئی. یہ پولیو کی تینوں اقسام کے مردہ وائرسز پر مشتمل تھی. اسے بندر کے گردوں میں تیار کیا جاتا تھا. یہ انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے. اس کے استعمال سے پولیو کیسز کی سالانہ تعداد 1953ء میں 35000 سے گر کر 1957ء میں 5600 تک رہ گئی. اور 1961ء میں محض 161 کیسز رپورٹ ہوئے. اسی سال (1961ء) امریکہ ہی میں پولیو کی دوسری ویکسین تجرباتی مراحل سے گزر کر سامنے آئی. یہ کمزور وائرسز پر مشتمل تھی اور اسے البرٹ سیبن (Albert Sabin) اور ہلری کاپروسکی (Hillary Koprowsky) نے علیحدہ علیحدہ ٹیموں کے ساتھ تیار کیا تھا. اس میں وائرس کو چوہوں سے بار بار گزار کر کمزور کیا جاتا تھا. آج کل یہ ویکسین لیب میں انسانی خلیوں سے گزار کر تیار ہوتی ہے. پاکستان میں دستیاب ویکسین اقوام متحدہ فراہم کرتی ہے جو کہ نووارٹس کمپنی بیلجیم میں تیار کرتی ہے، جبکہ بھارت میں کئی ایک کمپنیاں اسے خود تیار کرتی ہیں . ابتدا میں اس میں تینوں اقسام کے وائرس تھے. لیکن پاکستان میں اب ٹائپ 2 کے خاتمے کے بعد موجودہ ویکسین ٹائپ 1 اور 3 کے خلاف بنائی جاتی ہے.​
اس وقت کیونکہ امریکہ کی مکمل توجہ سالک ویکسین پر تھی لہٰذا سیبن نے اپنی ویکسین روس میں اور کاپروسکی نے جنوبی افریقہ اور میکسیکو میں لانچ کی. ہر جگہ اس کے بہترین نتائج سامنے آئے. سیبن پولش نژاد امریکی شہری تھا لیکن سرد جنگ کے باوجود روس نے اسے اپنے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا. 1963ء میں امریکہ میں بھی اسے استعمال کی منظوری مل گئی اور 1965ء تک تقریباً 100 ملین امریکیوں کو اس ویکسین کے قطرے پلائے گئے. یوں نتیجتاً شمالی امریکہ میں پولیو کا آخری کیس 1979ء میں رپورٹ ہوا اور 1994ء تک جنوبی امریکہ سے بھی اس کا خاتمہ ہو چکا تھا.​
2002ء تک تمام مغربی اور ترقی یافتہ ممالک سے اس ویکسین کی بدولت پولیو کے مرض کا خاتمہ ہو چکا تھا. بھارت کو 2014ء میں پولیو فری قرار دے دیا گیا. اس کے بعد نائجیریا جیسے ملک نے بھی پولیو سے نجات حاصل کر لی ہے.​
اس ویکسین کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آنتوں سے خارج ہو کر پانی کے ذریعے کمیونٹی میں پھیل جاتی ہے اور ان لوگوں کو بھی بالواسطہ طور پر فائدہ پہنچاتی ہے جنہوں نے خود یہ قطرے نہیں پیے ہوتے. یہی وجہ ہے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے انجکشن والی ویکسین کے بجائے اسے خاص اہمیت دی جاتی ہے. اور پھر انجکشن کی نسبت اسے دینا بھی آسان ہے.​
ہم کہاں کھڑے ہیں :
آج دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو کی بیماری باقی ہے. حکومت کی پوری کوشش تھی کہ 2016ء تک اس پر قابو پا لیا جائے لیکن 2017ء میں بھی تا دم تحریر 2 کیسز کنفرم ہو چکے ہیں. زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک کیس لودھراں، پنجاب میں سامنے آیا ہے، (دوسرا گلگت میں) جبکہ 2016ء میں پنجاب میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا.​
خدشات و تحفظات:
پولیو سے متعلق ہمارے ہاں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے. کچھ سازشی تھیوریوں نے، کچھ سی آئی اے نے اور کچھ ہماری اپنی نااہلی نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے.​
اس مفصل مضمون میں ہم باری باری ان تمام عوامل کا جائزہ لیں گے:​
الف... سی آئی اے کا کردار:
اگر سی آئی اے، اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے لیے اس علاقے میں مصنوعی پولیو مہم شروع نہ کرتی تو پولیو پروگرام کو شک کی نظر سے دیکھنے کا موقع نہ ملتا اور نہ ہی دہشت گردوں کے ہاتھوں پولیو افسران کی ہلاکت کے افسوسناک واقعات وقوع پذیر ہوتے.
کچھ ایسی رپورٹس بھی منظرعام پر آئیں جن میں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں پولیو ٹیمز کے ڈبوں میں جی پی ایس ڈیوائسز لگانے کا اعتراف کیا گیا. بعد میں وہاں ڈرون حملے ہوئے تو مقامی طالبان بھڑک اٹھے اور اندھا دھند پولیو ٹیمز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا. بہرحال 2013ء میں افغان طالبان کے اعلامیے کے بعد کم از کم اس ”شک“ والی وجہ کا تو خاتمہ ہو جانا چاہیے؛ جس میں طالبان نے اعلان کیا کہ اگر اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت طالبان کے اعتماد یافتہ ورکرز کو استعمال کرنے پر راضی ہوں تو وہ خود پولیو کے خاتمے کی مہم کا حصہ بننے کو تیار ہیں .
(حوالہ: http://polioeradication.org/news-post/afghanistan-talibans-declaration-regarding-polio-eradication/)
اسی طرح جماعت الاحرار کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی پچھلے سال ڈان کو انٹرویو میں بتایا کہ ”اب“ ہم پولیو ٹیمز کو فوکس نہیں کریں گے.​
ب... ہماری اپنی نااہلی:
کرپشن نے یہاں بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا. ویکسین کو ٹھنڈا رکھنے کا بندوبست نہ کرنا، پولیو ورکرز کو مناسب اجرت اور سکیورٹی مہیا نہ کرنا، ورکرز کا ویکسین پلائے بغیر خانہ پری کرنا، پولیو کیسز کی رپورٹنگ میں بےضابطگیاں، مذہبی عناصر کا بلا ثبوت اس سے متعلق شکوک و شبہات پھیلانا... وغیرہ وغیرہ.... یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے اور اس معاملے میں پوری دنیا سے پیچھے رہ کر رسوا ہو رہے ہیں.​
ج... سازشی تھیوریاں /شکوک و شبہات/تحفظات/خدشات:
1.. جب اس بیماری سے ”محض“ 0.5 فیصد مریضوں کو فالج ہوتا ہے اور ان میں سے بھی ”محض“ 5 سے 10 فیصد ہلاک ہوتے ہیں، تو دیگر کہیں زیادہ خطرناک بیماریوں کے مقابلے میں اس پر پوری دنیا مل کر اپنی توانائیاں کیوں خرچ کر رہی ہے؟
ج. اس لیے کہ یہ وہ بیماری ہے جس کا پوری دنیا سے مکمل صفایا ممکن ہے جبکہ دیگر بیماریوں میں فی الحال ایسا ممکن نہیں .
دوسرا یہ کہ یہ ”محض 0.5 فیصد“ کوئی چھوٹی فگر نہیں. اوپر بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں 1950ء کی دہائی میں ایک وبا کے نتیجے میں ایک سال میں 58000 لوگ اس بیماری سے مستقل طور پر معذور ہوئے.​
2.. پاکستان میں یہ ویکسین مفت بھیجی جاتی ہے اور زبردستی پلائی جاتی ہے. دیگر بیماریوں اور آفات سے بے تحاشا اموات ہوتی ہیں لیکن اس پر دنیا کو ترس نہیں آتا. کیا وجہ ہے کہ ساری ہمدردی پولیو سے ہی متعلق ہے؟
ج. پہلی بات یہ کہ مفت ویکسین صرف پولیو کے لیے نہیں بلکہ 9 دیگر بیماریوں کے لیے بھی مہیا کی جاتی ہے.
دوسرا یہ کہ پولیو کے سلسلے میں یہ کوئی ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کا اپنا مفاد ہے. جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ اسکا وائرس انتہائی سرعت سے پھیلتا ہے. لہٰذا تمام ممالک کو یہ خطرہ ہے کہ اگر پاکستان سے اسکا خاتمہ نہ ہوا تو یہاں سے کسی کیرئیر مریض کے ذریعے دوبارہ ان کے ہاں پہنچنے کا خطرہ برقرار رہے گا. اور یہ وہ کسی صورت نہیں چاہتے.​
3. اس کی ویکسین میں مانع حمل ادویات شامل ہیں جو بلوغت پر مردوں /عورتوں کو بانجھ کر دیتی ہیں.
ج. ویکسین کے ذریعے مانع حمل ادویات کی تیاری ابھی محض تجرباتی مراحل میں ہے. اگر ایسی کوئی دوا بن چکی ہوتی تو کم از کم چائنہ والے ضرور اسے استعمال کر رہے ہوتے اور دنیا فیملی پلاننگ کے دیگر مہنگے اور کسی حد تک غیر مؤثر ذرائع پر سرمایہ نہ کھپاتی.
دوسرا یہ کہ یہ ویکسین دنیا میں 50 سال سے استعمال ہو رہی ہے. کس ملک میں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے؟ اگر یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تو مسلم ممالک کے اعداد و شمار کس حد تک اس مفروضے کو سپورٹ کرتے ہیں ؟ پاکستان میں کم از کم بھی دو نسلیں یہ قطرے پی چکی ہیں . کیا موجودہ تیسری نسل کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ نہیں ہے؟​
4. اس ویکسین کے ذریعے بندر سے کینسر پیدا کرنے والا وائرس SV-40 پھیلا.
ج. پہلی بات یہ کہ ایس وی 40 کی آمیزش انجکشن والی سالک ویکسین میں پائی گئی تھی، قطروں والی میں نہیں .
دوسرا یہ کہ صرف امریکہ میں 1963ء تک ملاوٹ والی ویکسین 10 سے 30 ملین امریکیوں کو لگائی گئی. اس کے علاوہ روس اور دیگر ممالک میں جہاں اس میں ایس وی 40 کے شواہد ملے، کل ملا کے کروڑوں افراد کو یہ ویکسین لگی. ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک فاش غلطی تھی اور اس کی وکالت کسی طرح بھی درست نہیں . لیکن جتنا شور مچایا جا رہا ہے، اس کی بھی کوئی منطق نہیں بنتی. اول تو 1980ء کے بعد سے اب تک اس ”ملاوٹ“ کا خاتمہ ہو چکا ہے. دوسرا یہ کہ 1998ء میں ایک عالمی لیول کی تحقیق میں ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد کا معائنہ کیا گیا جنہوں نے مبینہ طور پر یہ آمیزش زدہ ویکسین لگوائی تھی. نتائج سے ثابت کیا گیا کہ ان تمام لوگوں میں عام لوگوں کی نسبت کسی بھی قسم کے کینسر کی شرح زیادہ نہیں پائی گئی.
مزید یہ کہ ایس وی 40 کا کینسر کا باعث ہونا بھی کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا.​
5. جنوبی افریقہ میں اس ویکسین کے ذریعے ایڈز کو پھیلائے جانے کے ”شواہد“ موجود ہیں . لہٰذا اب بھی اس کا امکان ہے.
ج. ایک برطانوی صحافی نے یہ خبر پھیلائی کہ کاپروسکی کی ویکسین کے استعمال کے بعد افریقہ کے ان علاقوں میں ایڈز کی شرح میں اضافہ ہوا ہے. لہٰذا اس ویکسین میں ایڈز کا وائرس شامل ہے. بعد میں ثابت ہوا کہ ان علاقوں میں ایڈز کا وائرس ویکسین کے آغاز سے 30 سال قبل سے موجود چلا آ رہا ہے. کورٹ میں کیس چلنے کے بعد دعوٰی کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور میگزین نے کاپروسکی کو ہرجانہ ادا کیا.​
6. ترقی یافتہ ممالک میں پولیو ڈراپس بین ہیں اور وہاں صرف ٹیکوں والی ویکسین استعمال ہوتی ہے. کیوں ؟
ج. یہ بات مکمل درست نہیں . شروع میں تمام ممالک بشمول امریکہ میں یہی ویکسین استعمال کی گئی جس کا حوالہ اوپر گزر چکا. جب پولیو کا مکمل خاتمہ ہو گیا تو پھر اسے مردہ وائرس والی ویکسین سے بدل دیا گیا اور قطرے بین کر دیے گئے. اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آزاد وائرس کا مکمل خاتمہ ہو جائے تو اس ویکسین میں موجود کمزور وائرس کو بھی اس کمیونٹی میں پھرتے رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی. کیونکہ یہ اپنی ہئیت تبدیل کر کے پولیو کی بیماری دوبارہ سے پھیلانے کی صلاحیت بہرحال رکھتا ہے (تفصیل آگے آ رہی ہے). لہٰذا کوئی بھی ملک یہ رسک لینے کو تیار نہیں. پاکستان میں بھی جب پولیو کے کیسز صفر تک پہنچ جائیں گے تو یہاں بھی قطرے بین اور ٹیکے شروع کر دیے جائیں گے. اس کے پہلے مرحلے میں 14 ہفتے کی عمر میں قطروں کے ساتھ پولیو کے ٹیکے کی ایک اضافی ڈوز دینے کا آغاز ہو گیا ہے.​
7. ویکسین بذات خود فالج کا باعث بنتی ہے.
ج. حقیقت یہ ہے کہ تمام اعتراضات میں سے سب سے جاندار یہی ہے.
یہ درست ہے کہ پولیو کے قطروں میں کمزور وائرس استعمال ہوتا ہے جو بیماری پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا. لیکن اپنے سفر کے دوران یہ اپنی ہئیت تبدیل کر کے فالج کا باعث بننے والے وائرس کا روپ دھار سکتا ہے. لیکن اس صورت میں بھی یہ ان بچوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے جنہوں نے پولیو ڈراپس کا کورس مکمل نہیں کیا ہوتا اور اس وجہ سے پولیو کے خلاف انکی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے. یا پھر وہ بچے اسکا نشانہ بنتے ہیں جو پہلے سے ہی نظام مدافعت کی کسی بیماری کا شکار ہوں. ایسے بچوں کی تشخیص پہلے سے ہو چکی ہو تو انہیں یہ قطرے نہیں پلائے جاتے. اور پھر اس قسم کے فالج کی شرح بہت ہی کم ہے، یعنی 2.4 ملین خوراکوں میں سے ایک میں ایسا کیس سامنے آتا ہے.
2000ء سے 2011ء تک پوری دنیا میں پولیو ڈراپس کی 10 ارب خوراکیں پلائی گئیں اور ویکسین سے ہونے والے فالج کے اس دوران 580 کیسز سامنے آئے. ایک اندازے کے مطابق اگر یہ ویکسین نہ پلائی گئی ہوتی تو اس دوران پولیو سے فالج زدہ بچوں کی تعداد پوری دنیا میں 6 ملین سے زیادہ ہوتی.​
8. جب پیدائشی کورس مکمل ہو چکا ہو تو پولیو ڈیز پر اضافی خوراکوں کا کیا جواز ہے؟
ج. یہ بھی اہم سوال ہے خاص طور پر اس تناظر میں کہ ویکسین سے بھی پولیو کا رسک خواہ چھوٹا ہی سہی، لیکن بہرحال موجود ہے.
دراصل حکومت کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی بچہ کسی بھی صورت میں پولیو ویکسین کی مقررہ خوراکوں سے محروم نہ رہے. اس لیے اس کے پاس اس کے سوا کوئی عملی طریقہ نہیں کہ وقتاً فوقتاً پولیو ڈیز مقرر کر کے ”ہر بچہ، ہر بار“ کے نعرے کے تحت یہ مہم چلائی جائے. اس میں ان لوگوں کو مستثنٰی کیا جا سکتا ہے جنہوں نے روٹین کی ویکسینیشن کروا رکھی ہو. لیکن چونکہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ اوپر بیان کردہ خدشات کی وجہ سے کسی صورت یہ قطرے پلانے کو تیار نہیں، لہٰذا حکومت بھی کسی پر اعتبار کر کے اسے رعایت دینے کا رسک نہیں لے سکتی.​
حکومت پر اس وقت پوری دنیا کا بے تحاشا دباؤ ہے اور اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستانیوں کے بیرون ملک سفر پر مکمل پابندی لگ سکتی ہے. لہٰذا حکومت ویکسین کے ذریعے ہونے والے فالج کے چھوٹے رسک کو برداشت کر سکتی ہے مگر زبردستی قطرے نہ پلا کر پولیو کے امکانات کو زندہ رکھنے کے بہت بڑے رسک کو نہیں .​
 
Top