• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجھے ہند یا مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے؟

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم شیخ مجھے اس کی تحقیق درکار ہے!

أَطْيَبُ رِيحٍ فِي الْأَرْضِ الْهِنْدُ، أُهْبِطَ بِهَا آدَمُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَعَلَقَ شَجَرُهَا مِنْ رِيحِ الْجَنَّةِ

شیخ ایک اور روایت سنی ہے (جس میں رسولﷺ نے فرمایا: مجھے ہند یا مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے) اس کی بھی تفصیل بتادیں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ مجھے اس کی تحقیق درکار ہے!
أَطْيَبُ رِيحٍ فِي الْأَرْضِ الْهِنْدُ، أُهْبِطَ بِهَا آدَمُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَعَلَقَ شَجَرُهَا مِنْ رِيحِ الْجَنَّةِ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ روایت مستدرک حاکم میں ہے ؛
حدثنا محمد بن الحسن الكارزي، ثنا علي بن عبد العزيز، ثنا حجاج بن منهال، ثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن يوسف بن مهران، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال علي بن أبي طالب: «أطيب ريح في الأرض الهند، أهبط بها آدم عليه الصلاة والسلام فعلق شجرها من ريح الجنة» هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3995 - سكت عنه الذهبي في التلخيص

ترجمہ :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :سب سے بہترین ہوا سرزمین ہندوستان میں ہے ،سیدنا آدم وہیں پر اتارے گئے ،اور آپ نے وہاں جنت کا خوشبودار پودا لگایا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس اثر سے پہلے حاکم ؒ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ :
عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «إن أول ما أهبط الله آدم إلى أرض الهند» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3994 - صحيح
یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کو سے پہلے ارض ہند میں اتارا گیا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں موقوف اثر ہیں ،یعنی صحابہ کے اقوال ہیں ،

حدیث اور تفسیر کے ماہر امام ابن کثیرؒ ۔۔حضرت آدم کی جائے نزول کے متعلق اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
"وقد ذكر المفسرون الأماكن التي هبط فيها كل منهم، ويرجع حاصل تلك الأخبار إلى الإسرائيليات، والله أعلم بصحتها. ولو كان في تعيين تلك البقاع فائدة تعود على المكلفين في أمر دينهم، أو دنياهم، لذكرها الله تعالى في كتابه أو رسوله صلى الله عليه وسلم.
مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے ؟ شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن یا حدیث میں ضرور ہوتا ۔
تفسیر ابن کثیر ذیل آیت 24 سورۃ الاعراف
 
Top