• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجہول راوی کی روایت حسن لغیرہ کے باب میں حجت نہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’حسن لغیرہ‘‘ حجت ہے یا نہیں اس بارے میں مستقل کتابیں لکھی جاچکی ہے شائقین درج ذیل دھاگہ سے ان کتب کو ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں:
ضعیف + ضعیف = حسن لغیرہ کی حجیت پر ایک بہترین کتاب۔

ذیل میں ہم حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے کلام سے ایک اہم اقتباش پیش کررہے ہیں ، جس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ صراحت کی ہے کہ مجہول راوی والی روایت (ضعیف+ضعیف=حسن لغیرہ) کے اصول میں ناقابل حجت ہے۔
یعنی مجہول راویان کی روایات کو ملا جلا کر حسن لغیرہ نہیں بنایا جاسکتا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
أَخْرَجَهُ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الآجُرِّيُّ، فِي كِتَابِ الأَرْبَعِينَ لَهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْخَنْدَقِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّايحِ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ. وَلَيْسَ فِي رُوَاتِهِ مَنْ يُنْظَرُ فِي حَالِهِ إِلا السَّايِحَ، فَإِنَّهُ غَيْرُ مَعْرُوفٍ. وَعِنْدِي أَنَّ هَذِهِ الطَّرِيقَ أَجْوَدُ طُرُقِ هَذَا الْمَتْنِ مَعَ ضَعْفِهَا. وَرُوِيَ أَيْضًا مِنْ طَرِيقٍ ضَعِيفَةٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَنُوَيْرَةَ. وَلا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ.
قَالَ أَبُو عَلِيٍّ سَعِيدُ بْنُ السَّكَنِ الْحَافِظُ: لَيْسَ يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْ طَرِيقٍ يَثْبُتُ. وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: لا يَثْبُتُ مِنْ طُرُقِهِ شَيْءٌ. وَقَالَ الْبَيْهَقِيُّ: أَسَانِيدُهُ كُلُّهَا ضَعِيفَةٌ. وَقَالَ ابْنُ عَسَاكِرَ: أَسَانِيدُهُ كُلُّهَا فِيهَا مَقَالٌ، لَيْسَ فِيهَا لِلتَّصْحِيحِ مَجَالٌ. وَقَالَ عَبْدُ الْقَادِرِ الرَّهَاوِيُّ: طُرُقُهُ كُلُّهَا ضِعَافٌ إِذْ لا يَخْلُو طَرِيقٌ مِنْهَا أَنْ يَكُونَ فِيهَا مَجْهُولٌ لا يُعْرَفُ، أَوْ مَعْرُوفٌ مُضَعَّفٌ. وَقَالَ الْحَافِظَانِ: رَشِيدُ الدِّينَ الْعَطَّارُ، وَزَكِيُّ الدِّينِ الْمُنْذِرِيُّ نَحْوَ ذَلِكَ. فَاتِّفَاقُ هَؤُلاءِ الأَئِمَّةِ عَلَى تَضْعِيفِهِ أَوْلَى مِنْ إِشَارَةِ السَّلَفِيِّ إِلَى صِحَّتِهِ.
قَالَ الْمُنْذِرِيُّ: لَعَلَّ السَّلَفِيَّ كَانَ يَرَى أَنَّ مُطْلَقَ الأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ إِذَا انْضَمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً.

قُلْتُ:(الحافظ ابن حجر) لَكِنَّ تِلْكَ الْقُوَّةُ لا تُخْرِجُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَرْتَبَةِ الضَّعْفِ. وَلَكِنَّ الضَّعْفَ يَتَفَاوَتُ فَإِذَا كَثُرَتْ طُرُقُ حَدِيثٍ، رَجَحَ عَلَى حَدِيثٍ فَرْدٍ، فَيَكُونُ الضَّعِيفُ الَّذِي ضَعْفُهُ نَاشِئٌ عَنْ سُوءِ حِفْظِ رُوَاتِهِ إِذَا كَثُرَتْ طُرُقُهُ ارْتَقَى إِلَى مَرْتَبَةِ الْحَسَنِ(١). وَالَّذِي ضَعْفُهُ نَاشِئٌ عَنْ تُهْمَةٍ أَوْ جَهَالَةٍ إِذَا كَثُرَتْ طُرُقُهُ ارْتَقَى عَنْ مَرْتَبَةِ الْمَرْدُودِ وَالْمُنْكَرِ الَّذِي لا يَجُوزُ الْعَمَلُ بِهِ بِحَالٍ إِلَى رُتْبَةِ الضَّعِيفِ الَّذِي يَجُوزُ الْعَمَلُ بِهِ فِي فَضَائِلِ الأَعْمَالِ. وَعَلى ذَلِكَ يُحْمَلُ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ، أنا أَبُو الْفَرَجِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الْهَادِي، أنا شَيْخُ الإِسْلامِ أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ شَرَفٍ النُّورِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، فِي خُطْبَةِ كِتَابِ الأَرْبَعِينَ. لَهُ قَالَ: " وَقَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى جَوَازِ الْعَمَلِ بِالْحَدَيِثِ الضَّعِيفِ فِي فَضَائِلِ الأَعْمَالِ ".
وَقَالَ بَعْدَ أَنْ ذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ: " اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى أَنَّهُ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ، وَإِنْ كَثُرَتْ طُرُقُهُ
[الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع لابن حجر العسقلانى ص: ٢٩٩]۔

(١) یعنی الحسن لغیرہ

نوٹ: لال رنگ والےقوسین اوراس کے مابین کااضافہ میری طرف سے ہے۔

مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے نزدیک متعدد الطریق والی روایات کے ’’حسن لغیرہ‘‘ بننے میں تفصیل ہے ، یعنی حافظ ابن حجررحمہ اللہ ہرطرح کی مجموعہ روایات کو حسن لغیرہ نہیں قراردیتے ہیں بلکہ ان کے یہاں یوں تفصیل ہے۔
الف:
وہ مجموعہ روایات جن کا ضعف رواۃ کے سوء حفظ کی بناپرہو وہ حسن لغیرہ کے قابل ہیں۔
ب:
وہ مجموعہ روایات جن کا ضعف رواۃ پر تہمت یا جہالت کی بناپرہو ایسی روایات حسن لغیرہ کے قابل نہیں بلکہ یہ ضعیف ہی ہوتی ہیں ۔
اورجن محدثین نے بھی کہا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پرعمل ہوسکتا ہے اس سے مراد اسی قسم کی ’’ضعیف حدیث ‘‘ ہے۔


نوٹ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل سے مراد صرف یہ ہے کہ اس طرح کی احادیث محض بیان کی جاسکتی ہیں ، لیکن ان احادیث سے مستفاد فضیلت کو شریعت کی طرف سے ثابت شدہ نہیں مانا جاسکتا۔
اوراگرکوئی شخص فضائل میں ضعیف حدیث پرعمل سے مراد اس سے فضیلت کا شرعی اثبات مراد لیتا ہے تو پھر اس معنی میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک بھی فضائل اعمال میں ضعیف پرعمل جائز نہیں کیونکہ اعمال ہوں یا فضائل یہ دونوں ہی شریعت ہیںِ ،اس بات کو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا:

أن أهل العلم يتسامحون في إيراد الأحاديث في الفضائل وإن كان فيها ضعف، ما لم تكن موضوعة. وينبغي مع ذلك اشتراط أن يعتقد العامل كون ذلك الحديث ضعيفا، وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة.وقد صرح بمعنى ذلك الأستاذ أبو محمد بن عبد السلام وغيره. وليحذر المرء من دخوله تحت قوله صلى الله عليه وسلم: "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكذابين". فكيف بمن عمل به. ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع. [تبيين العجب ص: 2]۔
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
وہ مجموعہ روایات جن کا ضعف رواۃ پر تہمت یا جہالت کی بناپرہو ایسی روایات حسن لغیرہ کے قابل نہیں بلکہ یہ ضعیف ہی ہوتی ہیں ۔
اورجن محدثین نے بھی کہا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پرعمل ہوسکتا ہے اس سے مراد اسی قسم کی ’’ضعیف حدیث ‘‘ ہے۔
یعنی فضائل اعمال مؤلفہ مولانا زکریا کاندھلوی کا منھج حدیث صحیح ہے ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یعنی فضائل اعمال مؤلفہ مولانا زکریا کاندھلوی کا منھج حدیث صحیح ہے ؟
پہلے مولانا زکریا کاندھلوی کا منہج انہیں کے الفاظ میں بتائیں تو کچھ عرض کیا جائے۔
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ کتاب فضائل اعمال مولانا زکریا کاندھلوی میں فضائل بیان کرنے کے لیے ضعیف روایتیں بیان کی گئیں ہیں تو کیا کتاب لکھنے کا یہ منہج صحیح ہے ؟

باقی مولانا زکریا کاندھلوی کا ذاتی منہج حدیث کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
نوٹ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل سے مراد صرف یہ ہے کہ اس طرح کی احادیث محض بیان کی جاسکتی ہیں ، لیکن ان احادیث سے مستفاد فضیلت کو شریعت کی طرف سے ثابت شدہ نہیں مانا جاسکتا۔
اوراگرکوئی شخص فضائل میں ضعیف حدیث پرعمل سے مراد اس سے فضیلت کا شرعی اثبات مراد لیتا ہے تو پھر اس معنی میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک بھی فضائل اعمال میں ضعیف پرعمل جائز نہیں کیونکہ اعمال ہوں یا فضائل یہ دونوں ہی شریعت ہیںِ ،اس بات کو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا:

أن أهل العلم يتسامحون في إيراد الأحاديث في الفضائل وإن كان فيها ضعف، ما لم تكن موضوعة. وينبغي مع ذلك اشتراط أن يعتقد العامل كون ذلك الحديث ضعيفا، وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة.وقد صرح بمعنى ذلك الأستاذ أبو محمد بن عبد السلام وغيره. وليحذر المرء من دخوله تحت قوله صلى الله عليه وسلم: "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكذابين". فكيف بمن عمل به. ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع. [تبيين العجب ص: 2]۔
یہاں سے بات صاف ہو گئی
جزاک اللہ خیرا یا شیخ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مجہول راوی کی روایت حسن لغیرہ کے باب میں حجت نہیں اس سلسلے میں علامہ المحقق نذیر احمد املوی رحمہ اللہ بہترین وضاحت کرتے ہوئے رقمطرازہیں:


جب ضعف کے انجبار اورعدم انجبار کا معاملہ درجات ضعف کے فیصلے پرموقوف ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب راوی کے ترجمہ اورحالات کا علم ہو ۔ جس راوی کا کچھ حال ہی معلوم نہ ہو وہ ثقہ ہے یا ضعیف ؟ اگرضعیف ہے توکس درجہ کا ضعیف ہے اوروجہ ضعف کیاہے؟ اس کے متعلق یہ کیسے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ تعدد طرق سے اس کا ضعف دور ہوگیا ہے۔محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے ابکار المنن کے صفحہ ١٧٨ ، ١٧٩ میں جس روایت کی بابت یہ قائدہ پیش کیا ہے اس کا کوئی راوی مجہول الحال نہیں ہے اس لئے ان کے کلام کو اس موقع پر استشہادا پیش کرنا جیساکہ ’’علامہ‘‘ مئوی نے کیا ہے ، محض نادانی اورجہالت ہے۔[انوار مصابیح :ص ٢٢٦ ، ٢٢٧].
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مجہول راوی کی روایت حسن لغیرہ کے باب میں حجت نہیں اس سلسلے میں علامہ المحقق نذیر احمد املوی رحمہ اللہ بہترین وضاحت کرتے ہوئے رقمطرازہیں:
اور صحیح لغیرہ کے باب میں؟ اس تعلق سے علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف کیا ہے؟ اور دیگر محدثین کا کیا نقطہ نظر رہا ہے؟
 
Top