• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محافل قراء ات … اعتراضات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محافل قراء ات … اعتراضات کا جائزہ

مفتی جمیل اَحمد تھانوی​
رُشد قراء ات نمبر اوّل میں آداب تلاوتِ قرآن کے ضمن میں ’قرآن مجید کو قواعد ِموسیقی پر پڑھنے کی شرعی حیثیت‘ کے عنوان سے قاری فہد اللہ مراد کی تحریر شائع کی گئی تھی۔ بعدازاں قراء ات نمبر دوم میں بعض دیگر عیوبِ تلاوت کے ذیل میں ’مروّجہ محافل قراء ات… ناقدانہ جائزہ‘ کے نام سے مضمون پیش کیا گیا۔ اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے شمارہ ہذا میں شیخ القراء قاری اَحمد میاں تھانوی﷾ کے والد ِگرامی حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی﷫ کا مضمون شائع ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے، جس میں حضرت مفتی صاحب نے مروّجہ ’محافل قراء ات‘ میں افراط و تفریط دونوں انتہاؤں کے مابین معتدل رائے کی نشاندہی فرمائی ہے۔ (ادارہ)
ماضی قریب میں، جامعہ قاسمیہ کراچی کی مساعی جمیلہ سے حجاز، عراق، مصر، شام، انڈونیشیا وغیرہ کے قاری صاحبان کی تشریف آوری پر پاکستان کے کئی شہروں میں عالمی مجالس قراء ت منعقد ہوچکی ہیں جن سے بہت سے لوگ براہ راست خوب محظوظ ہوئے ۔
ہمارے بعض تعلیم یافتہ صاحبان کی طرف سے اس پر کچھ اعتراضات سننے میں آئے ہیں۔ اب تک جو اعتراضات سامنے آئے ہیں ان کو مع جوابات پیش کیا جاتا ہے ممکن ہے ہم سب کو غور وفکر کرنے کے بعد اَصل حقیقت تک رسائی میسر آجائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر۱
قرآن کریم کا مقصود معانی و اَحکام ہیں۔ بغیر معانی کے صرف اَلفاظ کو اور پھر الفاظ کی بھی ایک صفت یعنی عمدہ ادائیگی کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے مجلس قراء ت کو یہ اہمیت دینا اِسلامی شان کا کام نہیں ہوسکتا۔
جواب: قرآن اَلفاظ اور معنی کے مجموعے کا نام ہے
یہ خیال کہ قرآن کریم کا مقصود معانی واحکام ہیں، صحیح نہیں۔ بلکہ قرآن مجید الفاظ اور معانی دونوں کانام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو قرآناً عربیاً(سورۃ یوسف:۲) ’’عربی قرآن‘‘ فرمایا ہے۔ یعنی عربی عبارت کے الفاظ بھی قرآن ہیں۔حضور اکرمﷺکے فرائض کے بارے میں اِرشاد ہے: ’’ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ئَایٰـتِہٖ ‘‘ اور ’’ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ ‘‘ ( آل عمران:۱۲۴) ’’لوگوں پر قرآن مجید کی آیتوں کو بھی تلاوت فرماتے ہیں‘‘ اور ’’ان کو کتاب کی تعلیم بھی دیتے ہیں‘‘ تلاوت الفاظ بھی حضورﷺکا ایک فریضہ ہے اور تعلیم اَحکام بھی۔ہر ہر حرف کے پڑھنے اور سننے پردس دس نیکیاں ملنا بلامعانی سمجھے بھی حدیث میں وارد ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَلفاظ قرآن بھی مقصود ہیں
لہٰذاقرآن مجید کا تو لفظ لفظ اور حرف حرف بھی مقصود ہی ہے جیسے معانی و اَحکام کی حفاظت اور ان پر عمل کرنا فرض ہے ایسے ہی لفظ لفظ، حرف حرف بلکہ حرکت حرکت تک کی حفاظت اور اس کی تلاوت فرض ہے۔اور پھر ہرہر حرف عربی ہے عربی طریقہ سے اس کے مخرج ( حرف کے نکلنے کی جگہ) سے اس کی صفتوں (حرف کی اَدائیگی کی کیفیت) کے ساتھ اَدا کرنا بھی فرض ہے۔ ورنہ پھر یہ حرف وہ حرف ہی نہ رہے گا دوسرا بن جائے گا ( اس لیے کہ صفت یا مخرج کے بدلنے کی وجہ سے حرف حرف سے بدل جاتا ہے) اور اس کوخدائی کلام کہنا خدا تعالیٰ پر نعوذباللہ تہمت باندھنے کے مترادف ہو جائے گا اور اس سے معانی ومفہوم میں خلل واقع ہوکر بعض دفعہ احکام میں تغیر و تبدل اور تحریف تک نوبت پہنچ جائے گی۔
مثلاً ’قال‘ ’کہا یا فرمایا‘ کی جگہ ’کال‘ ’ناپ کردیا‘ پڑھنے سے لفظ و مفہوم دونوں میں بڑی زبردست تبدیلی ہوگئی ہے۔ اَب اگر اس کوقرآن مجیدکالفظ اور اس کے معنی کو قرآن مجید کا مفہوم کہا جائے تو سوچئے کہ یہ خدا تعالیٰ پر تہمت اور اس کے کلام بے مثال کی تحریف نہیں تو اورکیا ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے اَلفاظ و حرکات کی صحیح اَدائیگی فرض ہے
بلکہ حرکت کے بدل جانے سے بھی سخت تبدیلی اور بعض دفعہ کفریہ کلمہ بن جاتا ہے۔ لفظ اﷲ أکبر میں تین زَبر ہیں اگر کسی کو کھینچ دیا گیا اور وہاں الف پیدا ہوگیا تو یہ کلمہ کفریہ بن جاتا ہے اور اس سے نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر پہلے الف کے زبر کو کھینچ دیا اور اﷲ پڑھ دیا تو معنی یہ ہوں گے کہ کیا اللہ سب سے بڑے ہیں؟ یہ استفہام اِنکاری یا شکیہ ہوکر کلمہ کفر بن گیا ۔گو اس مفہوم کا قصد نہ ہونے سے اس کو کافر نہیں کہاجائے گا۔
اس طرح أکبر کے الف کو بڑھانے سے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ کیا سب سے بڑے ہیں؟ اور ’ب‘ کے زبر کو بڑھانے سے معنی یہ ہوں گے کہ اﷲ إکبار ہیں اور إکبار شیطان کانام ہے یا کبر کی جمع بمعنی ڈھول۔
اس لیے قرآن مجید کے ہر حرف و حرکت کو صحیح طریقہ سے ادا کرنافرض ہے جو طریقہ سند کے ساتھ حضور1 سے ثابت شدہ ہے اس کو ہرگز ہرگز ہلکا نہیں سمجھا جاسکتا۔ صرف ترجمہ رٹ لینا اور لفظ غلط پڑھنا قرآن مجید نہیں ہوسکتا بلکہ الٹا گناہ کا سبب ہوسکتا ہے کیونکہ قرآنی الفاظ تو صحیح ہیں غلط ہم نے اَدا کیا( مطلب یہ ہے کہ قرآنی لفظ وہ ہے جو صحیح مخرج اور صحیح صفت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اس لیے جب صحیح مخرج اور صفت ادانہیں ہوگی تو لفظ لفظ سے بدل جائے گا جیسے ق، ک سے اور ط، ت سے بدل جاتی ہے اور جب ’ق‘ تھا ہم نے ’ک‘ پڑھا تو یہ قرآنی لفظ نہ ہوا)اور ترجمہ خدائی کلام نہیں بلکہ انسان کا سمجھا ہوامفہوم ہے وہ بھی اسی کے مطابقت سے درست ہوگا ورنہ غلط ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تلاوت میں خوش آوازی مطلوب ہے
پھر اَحادیث شریفہ میں قرآن شریف کو خوش آوازی سے پڑھنے کی بہت تاکید آئی ہے اور خوب عرب یعنی عربی لہجوں میں پڑھنے کی ہدایت اور عجمی لہجوں کی ممانعت ہے۔اس لیے حروف کومخارج صحیحہ سے پوری صفتوں کے ساتھ، صحیح حرکتوں سے، عربی لہجوں میں خوش آوازی سے اَداکرنا نہایت اَہم، دین کاجزو اور ایک اِسلامی فریضہ ہے اس کو ناقابل اہتمام قرار دینا بڑی زیادتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَلفاظ و معانی دونوں کی رعایت ضروری ہے
ہاں احکام الٰہی (قرآنی الفاظ سے اَحکام کو سمجھنا) کاحاصل کرنا اور پوری طرح حاصل کرنا، ظاہر و باطن ( آیت کے ظاہری اور پوشیدہ معنی کی تحقیق) مقدم، مؤخر (کون سی آیت پہلے نازل ہوئی کون سی بعد میں)، ناسخ و منسوخ (کس آیت نے کس آیت کے حکم کو منسوخ کیا ہے)، اشارات و صراحت سے حاصل کرنا تفسیرات نبویہ سے ان کو سمجھنا یہ الگ ایک فریضہ ہے ایک کی اَہمیت کے پیش نظر دوسرے کی اَہمیت کو نظر اَنداز کردینا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ نہ اوّل بغیر دوسرے کے کامل ہے نہ دوسرا بغیر اوّل کے کامل ہوسکتا ہے دونوں میں سے ہر ایک مقصود بھی ہے قابل قدر و حفاظت بھی ہے قابل اہتمام بھی ہے۔ ہر ایک مسلمان کا فریضہ بھی ہے۔
یہ ایک فریضہ ( یعنی قرآن کے اَلفاظ کی تلاوت) ہے اور فہم اَحکام دوسرا فریضہ ہے جس کو فقہ میں حل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس سے بھی بے پروائی برتنا ٹھیک نہیں جیسے احکام سے ٹھیک نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اَحکام کی تنفیذ اورعمل پر بے انتہا زور دینے کی ضرورت ہے مگر اس کا یہ مطلب قرار دینا صحیح نہ ہوگا کہ الفاظ و حروف اور حرکات کو غلط کرکے تلاوت کی گنجائش ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر۲
ایسی مجالس میں ہرقاری دوسرے سے بڑھ کر عمدہ پڑھنے کی کوشش کرتاہے، اس لیے یہ ایک ریا ہے جوگناہ ہے ثواب کاکام نہیں۔ بلکہ ریا کو حدیث شریف میں شرک خفی فرمایا گیا ہے۔ اس لیے یہ مجالس ریاکاری یعنی شرک خفی کی مجالس ہوئیں ان کو دین اور ثواب کے کام کی مجالس قرار دینا درست نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب: قاری کی تلاوت میں چار اِحتمال
رِیا اورنمود و نمائش کا مدار نیت پر ہے، اور نیت دل کی کیفیت ہے، جس کا علم دوسروں کو نہیں ہوسکتا، یہ تو خود پڑھنے والے کو دیکھنا ہے کہ اس کی نیت ثواب کی ہے یا کسی دینی خدمت کی ہے یا محض یہ ہے کہ لوگ اس کی تعریفیں کریں اور عزت و اِحترام سے پیش آئیں۔
(١) اگر اپنی تعریف و احترام کی خواہش سے ہی پڑھتا ہے تو یہ ریا ہے، گناہ ہے، خود اس کو ثواب نہیں ہوگا۔
(٢) اگر نیت ثواب کی اور قرآن مجید کی عظمت کے اظہار کی ہے تو ثواب کی بات ہے، ریا نہیں ہے۔
(٣) اور اگر دکھا کر ہی سہی مگرمسلمانوں کادل خوش کرنے کی نیت ہے تو یہ بھی کار ثواب ہے اور حدیث سے ایسے واقعات ثابت ہیں (جیساکہ اَ ئندہ صفحہ پر حضرت موسیٰ اشعری﷜ کاواقعہ آرہا ہے) یہ بھی ریا نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) اور اگر لوگوں کودکھانے، سنانے کے لیے بھی اس نیت سے پڑھتا ہے کہ سننے والوں کے دلوں میں قرآن شریف کی عظمت پیداہو، اس کی طرف رغبت و شوق اورجذبۂ خلوص و محبت متوجہ ہو، جس سے سب کو خوش آوازی کے ساتھ صحیح صحیح پڑھنے کا شوق پیدا ہو، جو شریعت میں پسندیدہ ہے تو اس نیت سے خو ش آوازی سے پڑھنا ریا نہیں، ایک دینی خدمت ہے۔
ان چار طرح کی نیتوں میں صرف ایک ریا ہے باقی تین کارِ ثواب ہیں۔ یہ نصیحت تو کی جاسکتی ہے کہ قاری صاحبان اوّل کی نیت ہرگز نہ رکھیں۔دوم، سوم، چہارم کی نیت رکھ لیں لیکن خود یوں طے کردینا کہ ان کی نیت ریا کاری کی ہی ہے یہ انتہائی سخت جملہ ہے اورمسلمان کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے خصوصاً جب اس کے علاوہ دیگر احتمالات موجود ہوں۔ ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک ناجائز احتمال کی تعیین کر لینا کسی طوربھی درست نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بدگمانی سے بچو
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ‘‘ ( الحجرات:۱۲) ’’بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘
ممکن ہے کہ کوئی صاحب قرائن پر مدار رکھے۔ تو عرض ہے کہ غیر یقینی قرائن دلیل نہیں ہوسکتے اس طرح تو دوسرے احتمالات کے بھی قرآئن موجود ہوتے ہیں تو ان سے ان کو رد ّکیوں نہیں کیاجاتا۔ بیش اَز بیش (زیادہ سے زیادہ) قرائن سے یہ ثابت ہوگا کہ ممکن ہے کہ وہ بھی خیال ہو، یہ بھی خیال ہو، تو یہ مخلوط نیت ( ملی جلی نیت ہے) ہے خالص ریا نہیں ثواب کا کام رہے گا گو خالص سے کم ہو۔
 
Top