• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محافل قراء ات … اعتراضات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر ۴
یہ مجلس رِیا اور غنا دو گناہوں پرمشتمل ہے۔ اس کی شرکت کی دعوت گناہ کی شرکت کی دعوت ہے۔
مجلس قراء ت میں شرکت کی دعوت کارِ ثواب ہے
اُوپرہم نے عرض کردیا ہے کہ ریا (دکھلاوے) کا تعلق نیت سے ہے اور نیت چارقسم کی ہوسکتی ہے جن میں سے صرف ایک ریا ہے وہ بھی اگر مخلوط( یعنی اس نیت کے ساتھ دوسری نیت بھی ملی ہوئی ہو) ہوتو محض ریانہیں۔ اس لیے ریا کا دعویٰ کرنابے دلیل ہے اور پھر اگر ریا ہو بھی تو اس کااَثر پڑھنے والے پر ہوتاہے سننے والے کا کام سننا ہے اس میں ریانہیں ہوسکتی۔ یہاں دعوت سننے کی دی جاتی ہے جس میں ریا ناممکن ہے۔
اور جن کو پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے ان کو دیگر نیتوں سے ہی دعوت ہوسکتی ہے ریاوالی نیت سے تو دعوت دینا ممکن ہی نہیں، کیونکہ وہ نیت دوسروں کی ہو ہی نہیں سکتی۔صرف پڑھنے والے کی ہوسکتی ہے۔
رہی دوسری بات گانا و غناکی تو ہم عرض کرچکے ہیں کہ اس کو گاناکہنا خطرناک بات ہے۔ اور اس کا بھی کافی وشافی جواب دیا جا چکا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر۵
دعوت دے کرجمع کرنافرض و واجب امور کے لیے تو درست ہے جیسا کہ تبلیغ احکام، وعظ اور تعلیم و تربیت کے لیے حضو رﷺجمع فرماتے تھے مگر اُمور مستحبہ کے لیے، جن کے اِجتماع کی خیر القرون ( بہترین زمانہ یعنی حضورﷺ، صحابہ﷢ اور تابعین﷭ کادور) میں اصل نہ ہو، دعوت دے دے کر جمع کرنا ممنوع و مکروہ ہے۔ اسی بنا پر نفلوں کی جماعت لیلۃ القدر ولیلۃ البراء (پندرہ شعبان) ولیلۃ العیدین میں اجتماع کرنے کو فقہائے احناف نے مکروہ و ممنوع قرار دیا ہے اور مجلس میلاد و سیرت میں ایک وجہ کراہت کی یہ بھی ہے۔ اس بنا پراگر اس مجلس میں کوئی اور خرابی نہ ہو تو نفس اجتماع ودعوت ہی ممنوع ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تجوید کے ساتھ قرآن پاک کا لوگوں تک پہنچانا واجب ہے
یہ تو بالکل صحیح ہے کہ ُامورِ مستحبہ کے لیے واجبات کا سا اِہتمام بے شک ممنوع و مکروہ ہے۔ لیکن آیت ’’یٰٓـــأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ إِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ‘‘ ( المائدۃ: ۶۷)
’’اے رسولﷺ جو کلام آپﷺ پر آپﷺکے رب کی طرف سے نازل کیاگیا اس کو لوگوں تک پہنچادیں۔ اگر آپ1 نے ایسا نہ کیا تو رسولﷺ ہونے کا حق اَدا نہیں کیا۔‘‘
اور حدیث ’’بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْاٰیـَۃً‘‘۔ (صحیح البخاری: ۳۴۶۱)
’’میری طرف سے پہنچا دو اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔‘‘ سے قرآن مجید کے ہر ہر جزو کی تبلیغ اور لوگوں تک پہنچا دینا حضورﷺپراور پھر تمام اَہل علم پر واجب ہے۔
قرآن مجید کے َاجزاء میں اس کے الفاظ، حرکتیں اور ان کی حقیقی کیفیات بھی داخل ہیں، کیونکہ بغیر الفاظ و حروف وحرکات اوران کی کیفیات کے کلام کا وجود ہی نہیں ہوسکتا۔ اور کلام کی تبلیغ فرض و واجب ہے اس لیے اس کابھی لوگوں تک پہنچانا اُمورِ واجب میں سے ہے۔اس کو فقط مستحب قرار نہیں دیا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پوری تجوید منزل من اللہ ہے
پھر تجوید کی یہ کیفیات بھی نازل شدہ ہیں کسی کی خود تصنیف کردہ نہیں ہیں۔ سورۃ قیامۃ میں حضورﷺ کو ارشاد ہوا: ’’ فَاِذَا قَرَأْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْئَانَہٗ ‘‘(قیامۃ:۱۸) ’’پھر جب ہم بواسطہ جبرئیل﷤ پڑھیں تو آپﷺاس پڑھنے کی پیروی کیجئے‘‘ حضورﷺ کو حکم تھا کہ جبرئیل﷤ کی طرح پڑھیں۔ آپﷺ نے اسی طرح پڑھا ، اسی طرح صحابہ﷢ کوسکھایا، صحابہ﷢ نے تابعین﷭ کو اورپھر اس طرح آگے صحیح سند کے ساتھ آج تک سلسلہ بہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔
اور ’’ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ‘‘ ( البقرہ:۱۲۱) ’’اللہ کی کتاب کوایسے تلاوت کرتے ہیں جیسے اس کا حق ہے۔‘‘ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود﷜سے روایت ہے کہ ایسے پڑھیں جیسے کہ نازل کیا گیا ہے۔ (تفسیر ابن جریر:۵ ؍۱۷۰)
علامہ علی قاری نے المنح فکریہ صفحہ۲۹ میں ابن خزیمہ کی صحیح سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایسے ہی پڑھا جائے جیسے وہ نازل ہوا ہے۔
لہٰذا تمام حروف و حرکات اور اَلفاظ کے طور طریق (اَلفاظ کے پڑھنے کا لہجہ و اَنداز)اپنی سندوں( پڑھنے والے سے لے کر حضورﷺ تک مستقل سلسلہ سند کے ساتھ کس نے کس سے سیکھا ہے) سے حضورﷺاور حضرت جبریل﷤ سے ثابت اورنازل شدہ ہیں۔ جس طرح اَلفاظ و معانی کو دوسروں تک پہنچانا واجب ہے ان کو پہنچانا بھی اور خود ان پر عمل کرنابھی واجب ہے ان کو دوسری چیزوں پر قیاس کرکے محض مستحب نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے ان کے لیے اجتماع وجلسہ کرنا ایسے ہی درست ہے جیسے تبلیغ اَحکام کے لیے درست ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت قرآن عملی تبلیغ ہے
بلکہ قراء ت قرآن کی تبلیغ علمی سے زیادہ عملی کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کاتعلق عمل سے ہی زیادہ ہے۔ علمی تبلیغ تو کتابیں پڑھانے سے اور عملی تبلیغ مشق کرانے اور کرکے دکھانے سے ہوتی ہے اور پھر تمام مسلمانوں کو شوق دلاناالگ ہے۔ حضورﷺ نے بھی فرمائش کرکے قراء ت سنی ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن ابوداؤد و سنن ترمذی کی حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کہتے ہیں کہ حضورﷺنے مجھ سے فرمایا:
’’تم مجھ کو قرآن مجید پڑھ کرسناؤ۔ میں نے عرض کیا کہ حضورﷺ میں سناؤں، حالانکہ آپﷺپر نازل ہوا ہے؟ آپﷺنے فرمایا: میں دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں۔‘‘ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری﷜ کی تلاوت سننے کا قصہ بھی اوپر پیش ہوچکا ہے۔(جمع الفوائد :۲؍۱۲۳ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضورﷺ کالوگوں کوجمع کرکے قرآن سنانا
آپﷺ نے خود بھی لوگوں کو جمع کرکے قرآن سنایا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ۷۵ پر مسلم و ترمذی کی حدیث ہے جس میں حضرت ابو ہریرۃ﷜ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’سب جمع ہوجاؤ میں تم کو ایک تہائی۳/۱ قرآن مجید سناؤں گا۔ جو جمع ہونے تھے ہوگئے۔‘‘
حضورﷺ تشریف لائے، سورۃ اخلاص کی تلاوت فرمائی اوراندر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی نے دوسرے سے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی آسمانی حکم آیا ہے اس لیے پھر اندر داخل ہوگئے ہیں۔ حضورﷺباہر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے تم سے کہاتھا کہ تم کو ایک تہائی قرآن مجید سناؤں گا تو سن لو یہ سورۃ ایک تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔ (اس سورۃ کے پڑھنے کاثواب ایک تہائی قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔)
لہٰذا ایسے اجتماعات کو غیراَہم قرار دینا اور یہ کہنا کہ غیر اَہم کو اَہم بنانا مکروہ وممنوع ہے، صحیح بات نہ ہوگی۔ یہ بھی اَدائے واجب کے لیے اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تبلیغی اِجلاسوں میں سے ایک اجلاس ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مقرر کرنا
قوتِ عمل سے محروم قومیں جذبۂ دینی کی تسکین کے لیے مذہب کے نام پر ایسے مظاہرے کیا کرتی ہیں اور ان مظاہر کوعمل کا نام دے کر ان کی غلام بن کر رہ جاتی ہیں۔ قرآن اس لیے نازل ہواتھا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کو مشعل راہ بنایا جائے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ قوالیوں، میلادوں اور دیگر شرک و بدعات کی رسوم کی طرح مجلس قراء ات کو بھی دینی شعار بنا لیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محافل قراء ات کو کھوکھلے مظاہرے کہنا غلط ہے
تعجب ہے کہ یسے لفظ ان لوگوں کے قلم سے نکلتے ہیں جو کچھ نہ کچھ دینی رجحان بھی رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں قطعاً خیال نہیں ہوتا کہ وہ بے اصل، بے بنیاد اور مخالف اِسلام باتوں کو منہ سے نکال رہے ہیں۔ جبکہ ان مجالس میں قراء ت کرنے والے قراء الفاظ و حروف و حرکات قراء ات اور ان کی صحت و عمدگی کو سناتے ہیں جس کے لیے قرآن و حدیث میں حکم موجود ہے، ترغیب و تحریص ( رغبت دلانے اور ابھارنے کا حکم ہے) موجود ہے۔
معلوم نہیں ایسا کہتے یالکھتے وقت ان کے دماغ پرکیاخیال مسلط ہو جاتا ہے۔ کھوکھلے مظاہرات ایک ایسی چیز کو کہاجارہا ہے جس کو حضورﷺ یوں فرماتے ہیں:’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ‘‘۔ (صحیح البخاري:۷۵۲۷)
’’وہ ہم میں سے نہیں جو قرآن کوخوش آوازسے نہ پڑھے۔‘‘
یہ عجیب منطق ہے کہ َالفاظ، حروف اور حرکات جو قرآن مجید کاجزء ہیں اور پھر ان سب کا صحیح صحیح اپنے مخارج وصفات اور قواعد عربیت و طریقہ نبویہ کے موافق ہونا ہی نازل شدہ ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔
اور عقلاً بھی نازل شدہ ہونا ہی ضروری ہے۔ کیونکہ حروف و حرکات اپنی صفات (حروف کی اَدائیگی کی کیفیت یعنی اس کا موٹا اور باریک ہونا اس میں آواز کاجاری رہنا یا بند ہونا وغیرہ) سے خالی ہوکر نازل ہو ہی نہیں سکتے لامحالہ مع صفات نازل ہوئے ہیں۔تو اس نازل شدہ طریقہ کے موافق اداکرنے کو کھوکھلے مظاہرات قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ جیسے قرآن کے مضامین کی حفاظت فرض ہے اسی طرح دوسرے اَجزاء مثلاًالفاظ، حروف ، حرکات اور کیفیات کی حفاظت بھی ہرمسلمان پر فرض ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے شمع ہدایت ہونے اور سنوار کر پڑھنے میں کوئی تعارض نہیں
رہی یہ بات کہ قرآن مجید بنی نوع اِنسان کے لیے شمع ہدایت ہے جبکہ ہم نے اسے زندگی سے خارج کررکھا ہے۔ تو بے شک اس کا اہتمام ہونا چاہیے اور ہر ممکن حد تک کوشش کی جانی چاہیے کہ ہماری کل زندگی اَحکام الٰہی کے مطابق گزرے۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا یا اس کے پڑھنے پڑھانے کاسلسلہ اور جذبہ وشوق پیدا کرنا آخر اس میں رکاوٹ کب پیداکرتا ہے؟ تجوید سے پڑھنے میں عمل کی بندش کب پیداہوتی ہے؟
اور اگر یہ خیال ہو کہ جب عمل نہیں ہورہا تو تجوید سے تلاوت بھی نہ ہو۔ تو یہ ایک بے جا بات ہوگی۔ ایک جرم کے اِرتکاب میں دوسرے جرم کا اِرتکاب قرین عقل نہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ اَحکامات قرآن کو بجا لایا جائے اور اس کی ادائیگی کے تمام طور طریقوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔
اور اگر پھر بھی ان اعتراضات کو دہرایا جائے تو یہ ایک طرح سے ان احادیث پربھی ( یعنی حضورﷺتو تجویدکے ساتھ قرآن پڑھنے کا حکم دیں اور ہم اس سے روکیں) اعتراض بن جائے گا جن میں اس کی اہمیت اور ترغیب بلکہ حکم وارد ہے۔ اس لیے ذرا سوچ سمجھ کر یہ بات کہنی چاہئے۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن شمع ہدایت ہے اور اس کااتباع برابر فرض ہے۔ الفاظ، حروف اور حرکات کی درستی اس کی اَہمیت کو کم نہیں کرے گی بلکہ اس شمع ہدایت پر مزیدچار چاند لگائے گی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر۸
وزیرخزانہ نے مشورہ دیا ہے کہ آرٹ کونسلیں حُسن قراء ت کو اپناناشروع کریں۔ اگر ایساہوا تو یہ قرآن مجید پرایک اور ظلم ہوگا اور یہ مجالس اس کاذریعہ بنیں گی۔
مجلس قراء ت کو لہو و لعب کا سبب قرار دینا درست نہیں
اگر وزیرخزانہ صاحب کا مقصود یہ ہو کہ تصویر کشی کے حرام فعل سے لوگ باز آجائیں اورصرف قرآن پر توجہ دیں تو اس میں ظلم کیوں کر ہے؟ ہاں قرآن مجید کو بطور لہو و لعب استعمال کرنا گناہ ہے اور اس کی بے حرمتی ہے۔ ہر عبادت کو لہو و لعب بنانا اس کی بے حرمتی ہے اور بجائے ثواب کے گناہ بن جاتا ہے۔ مگر اس وجہ سے، کہ کوئی کوئی ایسا ہی کرسکتا ہے، تمام عبادتوں کوبیک قلم منسوخ کردینا کوئی صحیح بات نہیں بن سکتی۔
خود قرآن مجید نے اپنے بارے میں کہا ہے ’’ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ‘‘ (البقرہ :۲۶)
’’بہت کو اس کے ذریعہ گمراہ کیا جاتاہے اور بہت کو ہدایت دی جاتی ہے‘۔‘
تو کیااس لیے کہ بعض لوگ قرآن مجید کاانکار اور ہنسی مذاق کرکرکے کافر و گمراہ ہو جاتے ہیں، نفس قرآن مجید کو ہی بند کرکے رکھ دیا جائے۔
یہ فعل تو ان لوگوں کا ہے، اس کے مجرم وہ ہوں گے اورکھیل بنانے کاگناہ ان کو ہوگا۔کیا قرآن مجید کو بہترین آواز اور لہجے میں پڑھنے والا ان کو مجبور کررہا ہے کہ وہ قرآن مجید کو کھیل بنالیں۔
 
Top