• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محبت اور عشق میں فرق

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
آج سے کئی سو سال پہلے امام ابن قیم نے اس لفظ پر تردید کرتے ہوئے لکھا ہے:
ولما كانت المحبة جنسا تحته أنواع متفاوتة في القدر والوصف، كان أغلب ما يذكر فيها في حق الله تعالى ما يختص به ويليق به، كالعبادة والإنابة والإخبات، ولهذا لا يذكر فيها العشق والغرام والصبابة والشغف والهوى.. وقد يذكر لفظ المحبة كقوله تعالى: يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَه [المائدة: 54].
انھوں نے بھی اللہ کی محبت کے لیے اس لفظ کو نامناسب خیال کیا ہے، اور لفظ محبت کو ہی مناسب قرار دیا ہے (اغاثۃ اللہفان)
اسی طرح وہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں؛


العشق والشرك متلازمان ، وإنما حكاه الله عن المشركين من قوم لوط ، وعن امرأة العزيز .
وذكر الشيخ بكر أبو زيد رحمه الله عن أكثر أهل العلم المنع من إطلاقه على الله أو على رسوله
خلافا للصوفية ( راجع معجم المناهي اللفظية ) ،


وہ کہتے ہیں کہ عشق اور شرک دونوں لازم و ملزوم ہیں، اس لفظ کو اللہ نے صرف مشرکین سے یعنی قوم لوط سے نقل کیا ہے اور عزیز مصر کی بیوی سے بھی نقل کیا ہےاور شیخ بکر ابو زید نے اکثر اہل علم سے اس کا اللہ اور اس کے رسول کے لیے بولا جانا ممنوع قرار دیا ہے، صوفیا لوگ اس لفظ کو اللہ اور اس کے رسول کے لیے بولتے ہیں،لیکن علما اس معاملے میں صوفیا کے مخالف ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
امام ابن الجوزی نے بھی اس لفظ کے بارے تلبیس ابلیس کافی بحث کی ہے اور اسے اللہ کے لیے ناقابل استعمال قرار دیا ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
امام ابن الجوزی نے بھی اس لفظ کے بارے تلبیس ابلیس کافی بحث کی ہے اور اسے اللہ کے لیے ناقابل استعمال قرار دیا ہے
اللہ کے لئے اس لفظ کو استعمال کرنا تو میں بھی غلط سمجھتا ہوں، لیکن میرا سوال ہے کہ ابن قیم جوزی صاحب نے جو شرک اور عشق کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے، یہ کیسے ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
بھائی! ابن قیم جوزی صاحب کی یہ بات سمجھ نہیں آئی۔
اس مطلب یہ ہے کہ اس لفظ کو مشرکین ہی استعمال کرتے ہیں اور اللہ نے اس لفظ کو مشرکین سے بیان کیا ہے واللہ اعلم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
اللہ کے لئے اس لفظ کو استعمال کرنا تو میں بھی غلط سمجھتا ہوں، لیکن میرا سوال ہے کہ ابن قیم جوزی صاحب نے جو شرک اور عشق کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے، یہ کیسے ہے؟
عشق اندھا دھند محبت کا نام ھے۔اور آج کل اندھا دھند عشق کرنے والے کہاں کہاں تک نہیں پہنچے؟؟؟ اس کا ثبوت صوفیاء کا کلام پڑھنے سے بخوبی سمجھ آتا ھے۔
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
اس مطلب یہ ہے کہ اس لفظ کو مشرکین ہی استعمال کرتے ہیں اور اللہ نے اس لفظ کو مشرکین سے بیان کیا ہے واللہ اعلم
میرے بھائی یہ بڑی خطرناک بات کہی آپ نے۔۔ جانے انجانے میں بعض موحدین نے بھی ا س لفظ کو استعمال کیا ھے۔۔ ابن قیم نے جو صوفیاء سے اسکو منسوب کیا، ان صوفیاء کی کارستانیاں دیکھ کر اسکا مطلب باآسانی سمجھ میں آجاتا ھے۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791

العشق والشرك متلازمان ، وإنما حكاه الله عن المشركين من قوم لوط ، وعن امرأة العزيز .
وذكر الشيخ بكر أبو زيد رحمه الله عن أكثر أهل العلم المنع من إطلاقه على الله أو على رسوله
خلافا للصوفية ( راجع معجم المناهي اللفظية ) ،


وہ کہتے ہیں کہ عشق اور شرک دونوں لازم و ملزوم ہیں، اس لفظ کو اللہ نے صرف مشرکین سے یعنی قوم لوط سے نقل کیا ہے اور عزیز مصر کی بیوی سے بھی نقل کیا
علامہ ابن قیم ؒ کے اس قول کے سیاق و سباق کو اگر دیکھ جاتا ،تو اس قول کا مطلب و مراد سامنے آجاتی ،
علامہ ابن قیم ؒ نے اغاثۃ اللہفان کے باب نمبر 9 "فى طهارة القلب من أدرانه ونجاساته " قلب کا میل کچیل اور نجاستوں سے پاک ہونا"
کے عنوان سے قلب کی پاکیزگی اور ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہونے کی اہمیت واضح کی ہے ،
اور بتایا ہے کہ ظاہری نجاست اور آلائش کا دل پر بھی اثر ہوتا ہے
اور لباس کی آلودگی ،باطن پر رذیل اثرات چھوڑتی ہے،

اور اگر دل کی طلب ممنوع چیزیں ہوں تو یہ ثابت ہوگا کہ قلب بگڑ چکا ہے
وقد وسم الله سبحانه الشرك والزنا واللواطة بالنجاسة والخبث فى كتابه دون سائر الذنوب وإن كانت مشتملة على ذلك، لكن الذى وقع فى القرآن قوله تعالى:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا المُشْرِكُونَ نَجَسٌ} [التوبة: 28] وقوله تعالى فى حق اللوطية: {وَلُوطاً آتَيْنَاهُ حُكْماً وَعِلْماً وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الّتِى كانَتْ تَعْمَلُ الخبَائِثَ إِنّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِين} [الأنبياء: 74] ، وقالت اللوطية: {أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ} [النمل: 56] .

اللہ تعالی نے قرآن میں شرک ،زنا اور لواطت کو خاص طور پر نجاست و خباثت سے موسوم کیا ہے ، حالانکہ دیگر گناہ بھی (حسب درجہ ) نجاست پر مشتمل ہیں ،
مگر قرآن عزیز کا بیان ہے :اے ایمان والو! مشرک سراسر پلید ہیں ؛
اور قوم لوط کے متعلق وارد ہے کہ :ہم نے لوط کو حکم و علم سے نوازا،اور اس بستی سے نجات دلائی ،جس کے باسی خبائث پر عمل پیرا تھے ،بے شک وہ بڑے برے اور نافرمان لوگ تھے ۔
اور انہی کے بارے میں فرمایا کہ :قوم لوط کے (بے ایمان لوگ کہنے لگے ،کہ لوط اور اس پیروکاروں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بہر حال پاک رہنا چاھتے ہیں۔ ))
فأقروا مع شركهم وكفرهم أنهم هم الأخابث الأنجاس، وأن لوطا وآله مطهرون من ذلك باجتنابهم له، وقال تعالى فى حق الزناة:
{الخبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالَخبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ} [النور: 26]
یعنی وہ کفر و شرک کے ساتھ ساتھ خبیث و نجس بھی تھے ۔اورلوط اور انکے پیروکار انکے
اعمال خبیثہ سے اجتناب کے سبب " مطہرون " تھے ۔
اور اللہ تعالی نے زانیوں کے متعلق فرمایا :
(خبیث عورتیں ،خبیث مردوں کیلئے ہیں ،اور خبیث مرد،خبیث عورتوں کیلئے )
یعنی ایمان والوں سے ان کا ناطہ نہیں ہوسکتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ شرک اور زنا کا ارتکاب " صورتوں " سے عشق کے سبب ہوتا ہے اسلئے یہ قرین ہیں
اور اسی لئے اللہ اپنے پیاروں کو ان کی آلودگی سے محفوظ رکھتا ہے ،
فكلما كان الشرك فى العبد أغلب كانت هذه النجاسة والخبائث فيه أكثر، وكلما كان أعظم إخلاصا كان منها أبعد، كما قال تعالى عن يوسف الصديق عليه السلام.
{كَذلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا المخْلَصِينَ} [يوسف: 24] .
فإن عشق الصور المحرمة نوع تعبد لها، بل هو من أعلى أنواع التعبد، ولا سيما إذا استولى على القلب وتمكن منه صار تتيما، والتتيم التعبد، فيصير العاشق عابدا لمعشوقه، وكثيرا ما يغلب حبه وذكره والشوق إليه، والسعى فى مرضاته، وإيثار محابه على حب الله وذكره، والسعى فى مرضاته،
جناب یوسف علیہ السلام کو دیکھو ،کیسے اللہ نے انکی حفاظت فرمائی،
وہ توحید میں کامل تھے ۔شرک کی نجاست سے پاک تھے ،اللہ نے ان کو حسن غیر کے عشق اور زنا سے بچالیا ،
چونکہ حرام صورتوں کا عشق بھی ایک قسم کی انکی عبادت ہوتا ہے ،بلکہ تعبد کا اعلی درجہ ،
بالخصوص جب "صورتوں " کا عشق جب دل پر چھا کر اسے قبضے میں کرلے ،تو دل اس صورت و شکل کا دیوانہ اور وارفتہ ہو جاتا ہے ،اور یہی وارفتگی "تعبد و عبادت "ہے
پس عاشق اپنے معشوق کا عبادت کرنے والا بن جاتا ہے ۔۔
اسی پہلو سے علامہ ابن قیم نے (العشق والشرك متلازمان )شرک اور عشق کو ایک دوسرے کےلئے لازم کہا ہے۔
 
Last edited:
Top