محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبت اور ویلنٹائن ڈے دو متضاد پہلو
مولف/مصنف/مقرر : حافظ شبیر صدیق
محبت اور ویلنٹائن ڈے دو متضاد پہلو :
’’محبت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے دیا گیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’محبت‘‘ کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے۔ صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے حقیقی محبت کا اظہار کرنا چاہے تو وہ بھی تذبذب کا شکار رہتا ہے -
جبکہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جس سے محبت ہو اس سے محبت کا اظہار بھی کیا جائے۔
(سنن أبي داود: 5124)
اس تمام صورت حال کا سبب فقط اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں۔ جہاں محبت کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے وہیں ہمارے معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کا منایا جانا ہے۔ ہر سال 14 فروری کو یہ تہوار منایا جاتا ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے گفتگو کرنے سے پہلے ہم ’’محبت‘‘ کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں، اس لیے کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی حقیقت کو جاننے کے لیے اسلام کا ’’معیارِ محبت‘‘ اور اس کی ترتیب کو جاننا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت :
قرآن و حدیث میں محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں سر فہرست بندوں کا اپنے رب سے محبت کرنا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پر کسی اور شخص یا چیز کی محبت غالب نہیں آتی۔مومنوں کی اس محبت کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ}
’’اہل ایمان اللہ کے ساتھ محبت کرنے میں بہت سخت ہیں۔‘‘ (البقرۃ2:165)
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
ثَلَاثٌ مَّنْ کُنَّ فِیہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ: أَنْ یَّکُونَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إِلَیہِ مِمَّا سِوَاھُما…‘
’’تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرنے لگتا ہے: ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں…۔‘‘
(صحیح البخاري: 16)
یہ ایک طبعی امر ہے کہ آدمی کو جس سے محبت ہو وہ اس سے ملاقات کا مشتاق بھی بہت ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے اسی بات کو بیان فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ
’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم: 2683)
رسول اللہﷺ سے محبت :
سیدنا محمد رسول اللہﷺ سے بھی محبت ایمان کا حصہ ہے ۔ ایک مسلمان کی کامیابی کا انحصار آپﷺ کی محبت کو قرار دیا گیا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت کا ہونا لازم اور ضروری ہے ۔
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِِلَیہِ مِنْ وَّالِدِہِ وَوَلِدِہِ
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
(صحیح البخاري: 14)
ایک روایت میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے:
’وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ
’’جب تک تمام لوگوں سے بڑھ کر ان کے نزدیک محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
(صحیح البخاري: 15)
ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے قبولِ اسلام سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبیﷺ سے محبت کا اعتراف یوں کیا تھا:
’مَارَأَیتُ فِی النَّاسِ أَحَداً یُحِبُّ اَحَدًا کَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّداً
’’میں نے کسی کو کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت محمد (ﷺ) کے ساتھی اور شاگرد ان سے کرتے ہیں۔‘‘
(تاریخ الطبري: 216/2
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت :
صحابہ کرام سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد رکھنا کفر و نفاق اور الحاد کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان کو مسلمانوں کے لیے آئیڈیل قرار دیا ہے۔ نبیﷺ نے بار ہا صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے اور ان سے بغض رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے، خصوصاً انصار صحابہ کے بارے میں آپﷺ کا فرمان ہے:
أَلْاَنْصَارُ لَا یُحِبُّھُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُھُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّھُمْ أَحَبَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ أَبْغَضَھُمْ أَبْغَضَہُ اللّٰہُ
’’مومن شخص ہی انصار سے محبت رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔ جو ان سے محبت رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔‘‘
(صحیح البخاري: 3783)
جاری ہے ----