• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے تقاضے تحریر:جناب عبدالمالک مجاہد، ریاض

شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
مدینہ شریف کے ائرپورٹ سے اگر ہم شہر میں داخل ہونے لگیں تو ہماری دائیں جانب سرخ رنگ کا جبل اُحد ہے۔ کم و بیش 1077میٹر اونچا، سات کلومیٹر لمبا اور تین کلومیٹر چوڑا یہ پہاڑ مدینہ طیبہ کا سب سے بڑا اور اونچا پہاڑ ہے۔ مسجد نبوی یہاں سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس پہاڑ کی بڑی اہمیت ہے۔ بلاشبہ یہ سرخ رنگ کا پہاڑ ہے۔ مگر یہ عام پہاڑوں جیسا نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((أُحُد جَبَل یُحِبّنَا وَنُحِبُّہ)) ’’اُحدایک ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم، بلاشبہ حجرو شجر‘ حیوانات، انسان اور جنات بھی آپ سے محبت کرتے تھے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی شخص کو کوئی دیوار یا پتھر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یا اس کے قیمتی ہونے کی وجہ سے بہت پسند ہے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ پتھر یا دیوار پکار کر کہے: میں فلاں شخص کو پسند کرتا ہوں یا ا س سے محبت کرتا ہوںمگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جمادات و أشجار نے بھی اس انداز میں محبت کی کہ وہ آپ کی جدائی میں ہچکیاں لے لے کر روتے رہے اور آپ کو سلام کرتے رہے ۔
سن تین ہجری میں غزوہ اُحد ہوتاہے ۔ مسلمانوں کو اس غزوہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہو جاتے ہیں۔ ان کی قبریں جبل احد کے دامن میں بنائی جاتی ہیں۔ ان شہداء میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور دودھ شریک بھائی سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی شامل ہیں۔ وہ بھی اسی میدان میں مدفون ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق‘ سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان بن عفان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ اُحد پہاڑ کے اوپر تشریف لے جاتے ہیں۔ احد پہاڑ ہلنا شروع کر دیتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں ، اپنا قدم مبارک اٹھاتے ہیں اور پہاڑ پر اسے مارتے ہوئے فرماتے ہیں: ’اثْبُتْ أُحُدُ‘ ’’تھم جائو اُحد‘ ثابت قدم ہو جائو‘‘۔ احد پہاڑ کوجب احساس ہوتا ہے کہ حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک اس پر پڑے ہیں تو وہ ہلنے سے رک جاتا ہے۔ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا : احد تھم جائو ((مَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أوْ صِدِّیقٌ أوْ شَہِیدَان)) ’’تمہارے اوپر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہیدکے سوا کوئی نہیں‘‘۔
میں نے اوپر عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جمادات بھی محبت کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے جب آپ وادی’’ قرن‘‘ سے گزرے تو ارشاد فرمایا:
’’ میں تو جلد از جلد تیزی سے مدینہ جانے والا ہوں۔ جس کا دل چاہے وہ بھی میرے ساتھ تیز رفتاری سے چل پڑے، جو چاہے بے شک ٹھہر جائے‘‘۔ اس واقعہ کے راوی ابو حمید کہتے ہیں کہ ہم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑے۔ جب ہم مدینہ شریف کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:
((ہَذَا أُحُدٌ وَہُوَ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ)) ’’ یہ احد ہے یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ‘‘۔ ایک اور مرفوع حدیث میں ہے : ’’احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ ((وَہُوَ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّۃِ)) ’’ اوروہ جنت کے پہاڑوں میں سے ہے‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہمارے دین کی شرط اول ہے۔آئیے ایک منظر آپ کو دکھاتے ہیں:
بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر چل رہے ہیں کہ اچانک فاروق اعظم کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دریا موجزن ہونے لگتا ہے اور عرض کرتے ہیں:
((یَا رَسُولَ اللَّہِ! لأنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِی)) ’’ اللہ کے رسول! مجھے آپ اپنی جان کے علاوہ ہر شے سے بڑھ کر محبوب ہیں‘‘۔
آپ نے ارشاد فرمایا: ’لا وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ! حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْکِ مِنْ نَفْسِکَ‘ ’’نہیں عمر! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جب تک تم مجھ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہ کرو گے تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا‘‘۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلا تاخیر فورا عرض کی : اللہ کے رسول !اب تو آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’الآنَ یَا عُمَرُ‘ ’’عمر! اب تمہارا ایمان کامل اورمکمل ہے‘‘۔
صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :((إنِّي لأعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّۃَ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّي لأَعْرِفُہُ الآنَ)) ’’میں اس پتھر کو جانتا ہوں جو مجھے مبعوث کیے جانے سے پہلے سلام کیا کرتا تھا ۔ میں آج بھی اسے پہچانتا ہوں‘‘۔
قارئین کرام! اگر شجر اور حجر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے ‘ ان کو سلام کرتے اور آپ سے محبت کرتے تھے، تو ہمیں آپ کی محبت میںان سے کہیں آگے بڑھ کر ہونا چاہیے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے تقاضے کیا ہیں، آپ سے محبت کیسے کی جائے؟ اس بارے میں ہم آگے جا کر (ان شاء اللہ) پڑھیں گے، مگر اس سے پہلے ایک واقعہ پڑھتے ہیں، بڑا ہی خوبصورت واقعہ‘ جس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ کھجور کا بے جان تنا بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ شریف تشریف لاتے ہیں تو سب سے پہلے اللہ کا گھر تعمیر کرتے ہیں۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ نے خود حصہ لیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے تو کھجور کے ایک تنے کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن کسی انصاری مرد یا عورت نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے لیے ایک منبر نہ بنا دیں؟! ارشاد فرمایا: ’’اگر چاہو تو بنا دو‘‘ ۔ چنانچہ انصار کے لوگوں نے آپ کے لیے منبر بنا دیا۔
اس منبر کی تین سیڑھیاں تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے وقت اس کی آخری سیڑھی پر تشریف فرما ہوتے اور پائوں مبارک دوسری سیڑھی پر رکھتے تھے۔ اس طرح لوگ دور سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکتے تھے اور ان تک آپ کی آواز بھی واضح طور پر پہنچ جاتی تھی۔
وہ جمعۃالمبارک کا دن تھا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ اس تنے کے پاس سے گزر کر منبر پر تشریف فرما ہو گئے تو تنے سے ایک درد ناک آواز نکلی جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی چلی گئی۔ یہ آواز بڑی ہی دل ہلا دینے والی تھی۔ صحابہ کرامؓ اس آواز کی طرف متوجہ ہیں۔ ان کے لیے لکڑی کے ایک خشک تنے کا رونا اور اس میںسے آواز کا نکلنا باعث تعجب وحیرت تھا۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبر سے نیچے اترے، تنے کو اپنے مبارک سینے سے لگایا اور شفقت سے اس پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
صحابی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے اس پر ہاتھ پھیرنے سے گویا اسے قرار اور چین آگیا۔ اس کے رونے کی آواز اس طرح آہستہ ہوتی چلی گئی جیسے روتا ہوا بچہ آہستہ آہستہ ہچکیاں لے کر خاموش ہو جاتا ہے۔ کہاں وہ وقت تھا جب پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنا دست شفقت رکھ کر‘ اس پر دبائو ڈال کر کھڑے ہوتے اور وعظ فرماتے اور کہاں یہ فراق‘ یہ جدائی… اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ تنا اس وجہ سے رو رہا ہے کہ اس کے پاس اللہ کا ذکر ہوتا تھا اور یہ اسے سنتا تھا۔
وہ تنا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں روتا رہا اس کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اس ستون کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے گھر لے گئے۔ اسے پھر منبر کے نیچے دفن کر دیا گیا۔
امام حسن بصری جب تنے کے رونے والا واقعہ روایت کرتے تھے تو خود بھی آبدیدہ ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے : اللہ کے بندو! ایک بے جان تنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت رکھتا ہے تو تم پہ بدرجہ اولی لازم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق رکھو۔
آئیے! اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے تقاضے کیاہیں اور اس سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی مکمل اتباع کی جائے۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم قرآن کریم میں مقیم شخص کی نماز اور حالت جنگ کی نماز یعنی صلاۃ الخوف تو دیکھتے ہیں مگر مسافر کی نماز کا ذکر قرآن کریم میں کہیں نہیں پاتے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے بندو! دین اس چیز کانام ہے کہ ہم نے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر وحضر میں کرتے ہوئے دیکھا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کریں۔ اگر مسافر کی نماز قرآن کریم میں مذکور نہیں تو کیا ہوا۔ ہم نے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی بار سفر کیا ہے اور آپ کے ساتھ حالت سفر میں نماز قصر ادا کی ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی دلیل کی ضرورت کیا ہوگی؟۔ سیدنا عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سنتیں جاری فرمائی ہیں، ان پر عمل کرنے والا ہی ہدایت یافتہ ہے اور ان کی مخالفت کرنے والا گمراہ ،بے دین اور جہنمی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کا احترام اور ادب اسی طرح کیا جائے جس طرح آپ کی زندگی میں کیا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی موقع پر ذکر ہو تو آپ پر درود بھیجناآپ کی محبت کا لازمی تقاضا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کی ازواج مطہرات کا احترام و اکرام، آپ کے صحابہ کا احترام کرنا اور ان سے محبت رکھنا، آپ کے اہل بیت اور آپ کے تمام اہل ایمان رشتہ داروں کا ادب واحترام اور ان سے محبت ہر مسلمان پر واجب ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور آپ کے فرامین کو ادب واحترام سے سننا اور ان پر عمل کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے حالات زندگی کا تذکرہ محبت اور احترام سے سننا اور آپ کی سیرت کو عملی زندگی میں اختیار کرنا ہم سب کی دینی ذمہ داری ہے۔
شجاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’کَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ‘ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین انسان تھے‘‘۔ ’وَکَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ‘ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے‘‘۔ ’وَکَانَ أشْجَعَ النَّاسِ‘ ’’لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر آپ ہی تھے‘‘۔
ایک مرتبہ رات کے وقت مدینہ طیبہ میں لوگ سوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے کچھ آوازیں، کچھ شور شرابا سنا…سب گھبرا کر اٹھے۔ اندیشہ تھا کہیں مدینہ پر شب خون نہ مار دیا گیا ہو۔ کوئی دشمن حملہ آور نہ ہو گیا ہو۔ لوگوں کا رخ مدینے سے باہر کی طرف ہے تاکہ اس آواز کی حقیقت کا علم ہوسکے۔ایسا تو نہیں کہ دشمنان اسلام نے کوئی سازش کی ہو، لیکن صحابہ حیرانگی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بغیر زین ڈالے سوارہو کر مدینہ کے باہر سے تشریف لا رہے تھے۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ خوف و سراسیمگی کی حالت میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اطمینان سے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔میں اکیلا ہی مدینہ کی سرحدوں کا جائزہ لے آیا ہوں۔ دشمن بھاگ گیا ہے۔ میں دور دور تک دیکھ آیا ہوں‘‘۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ابوطلحہ کے گھوڑے کی تعریف بھی فرمارہے ہیں کہ یہ تو ہوا کی طرح ہے …بہت تیز دوڑتا ہے۔ لوگوں میں عمومی تاثر یہ تھا کہ ابوطلحہ کا گھوڑا بہت آہستہ چلتا ہے، مگر یہ بھی اللہ کے رسول کا معجزہ تھا کہ آپ اس گھوڑے پر سوار ہوئے تو یہ اتنا تیز دوڑنے لگتا ہے کہ اسے آپ ’’ بحر‘‘ کے لقب سے ملقب فرماتے ہیں۔
بدر کی لڑائی ’’یوم الفرقان ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دشمن کے مقابلہ میں نہ صرف عملاً لڑائی کی بلکہ لشکر اسلام کی بڑی جرأت وحکمت سے قیادت بھی فرمائی۔ وہ باقاعدہ میدان جنگ میں اتر ے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں: بدر کے روز ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ لے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے بالکل قریب تھے۔ اس روز آپ کا حال یہ تھا: ’وَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَأْسًا‘ ’’لڑائی کے شعلے جب بھڑک اٹھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سخت ترین لڑائی کرنے والے تھے‘‘۔
یوں تو مکہ مکرمہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے دشمن تھے مگر ان میں ابی بن خلف بد ترین دشمن تھا۔یہ وہ بد بخت تھا جس نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ قتل کرے گا۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ابی بن خلف کی یہ قسم اور یہ عہد پہنچا تو آپ نے ارشاد فرمایا: (( بَلْ أَنَا أَقْتُلُہُ إِنْ شَائَ اللَّہُ)) ’’بلکہ اللہ نے چاہا تو میں ہی اسے قتل کروں گا‘‘۔
غزوہ احد کے اختتام پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے دامن میں قدرے محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے تو ابی بن خلف گھوڑا دوڑاتا ہوا آپ کی طرف بڑھا۔ صحابہ کرام نے اسے دیکھا تو روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس بدقسمت کی موت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں لکھی ہوئی تھی۔یہ بہت متکبر اور خبیث انسان تھا۔ مکہ کے ایک بڑے رئیس امیہ بن خلف کا بھائی تھا،جو سیدنا بلال کا آقا رہاتھا اور غزوہ بدر میں واصل جہنم ہواتھا۔ اُبی کہہ رہاتھا : محمد کہاں ہیں… اگر وہ بچ گئے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو صحابہ کرام درمیان میں حائل ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو…اس کا راستہ نہ روکو… اسے میرے قریب آنے دو‘‘۔ ابی نے اس روز اپنے جسم کو لوہے کے لباس میں چھپا یا ہواتھا۔ یہ دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ صرف حلق کے قریب تھوڑی سی جگہ ننگی تھی۔ جیسے ہی اللہ کا یہ دشمن اللہ کے رسول کے قریب ہوتا ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک صحابی حارث بن صمعہ سے ان کا چھوٹا سا نیزہ لیتے ہیں۔عربی زبان میں چھوٹے نیزے کو ’’ حربہ‘‘ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں میں حربہ لیا اور ابی بن خلف کی گردن کا نشانہ لے کر اس کی طرف پھینک دیا۔ابی کو بڑی معمولی سی خراش آئی …مگر یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھاکہ نشانہ اپنی جگہ پر بالکل صحیح لگتا ہے … ابی کو اس معمولی خراش سے اس شدت کی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ دو تین مرتبہ اپنے گھوڑے سے لڑھکتا ہے۔ وہ بیل کی طرح ڈکارتاتھا … خوفناک آوازیں نکال رہاتھا۔ بڑی تیزی سے اپنی جان بچا کر واپس بھاگا۔
اپنے لشکر میں پہنچا تو اس کی حالت دیدنی تھی۔ یہ چیخ رہا تھا… چلا رہاتھا۔اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اس کی گردن پر معمولی سی خراش آئی ہے ۔ کہنے لگے: بہادر بنو یہ معمولی سا زخم ہے، تم اس قدر چیخ کیوں رہے ہو؟! انہوں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی…واللہ! تم نے ایسے ہی دل چھوڑ دیا ہے… تمہیں کوئی خاص زخم تو لگا نہیں۔ ابی بن خلف اپنے ساتھیوں سے ناراض ہورہاتھا، کہنے لگا: تمہیں کیا معلوم! مجھے کتنی سخت تکلیف ہورہی ہے۔ بالآخر اس کے منہ سے درست اور صحیح بات نکل ہی گئی۔ بڑی مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں کہنے لگا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مکہ میں مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھے قتل کریں گے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میری جان چلی جاتی۔
غزوہ احد کے اختتام پر ابی دوسرے لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے زخم سے خون تو بند تھا، مگر اس میں درد بہت شدت اور غضب کا تھا۔ جب مکہ کے قریب’’ سرف‘‘ کے مقام پر پہنچا تو یہ اسی زخم کے وجہ سے واصل جہنم ہوگیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ اپنے ہمراہیوں سے کہتا تھا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذو المجاز کے باشندوں کو ہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اعلی اخلاق کے مالک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بد ترین دشمنوں کے لیے بھی خیر چاہتے تھے، مگر ابی بن خلف وہ بدبخت اور بد خلق شخص تھا جو آپ کو مکہ میں دیکھتا تو کہتا: محمد! میرے پاس ’’عود‘‘ نامی ایک گھوڑا ہے میں اس کو روزانہ تین صاع یعنی سات آٹھ کلو دانہ کھلاتا ہوں۔تم دیکھنا، میں اس پر بیٹھ کر تمہیں قتل کروں گا۔اس کے جواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:’’ ان شاء اللہ میں ہی تمہیں قتل کروں گا‘‘۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ اس شخص پر اللہ کا غضب سب سے شدید ہوتا ہے جس کو اللہ کا رسول اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں قتل کردے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میںسے کسی اور کو بد بخت نہیں بناناچاہتے تھے۔ اس لیے آپ نے پوری زندگی میں سوائے ابی بن خلف کے کسی دوسرے شخص کو قتل نہیں کیا۔
قارئین کرام! ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہادر اور شجاع ہونے کی بات کررہے تھے۔ بنوہوازن عرب کا مانا ہوا بہادر قبیلہ تھا۔ یہ لوگ تیر اندازی میں ماہر تھے۔ فتح مکہ کے بعد بنو ہوازن اور بنو ثقیف ملکر مسلمانوں کے خلاف حنین کی وادی میں آتے ہیں۔ حنین کی وادی مکہ مکرمہ سے زیادہ دور نہیں۔مکہ سے جنوب کی طرف سفر کریں تو جلد ہی آپ حنین کی جگہ پہنچ جائیں گے۔ اس جنگ میں دشمن نے اتنی اچھی منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ انہوں نے اپنے تیر اندازوں کی ایک بڑی تعداد کو پہاڑوں اور گھاٹیوں میں چھپا رکھا تھا۔
جب مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا توانہوں نے اس زور سے تیر اندازی کی کہ مسلمانوں میں بھگڈر مچ گئی۔ مسلمانوں کی یہ حالت قرآن کریم کے الفاظ میں یوں بیان کی گئی ہے: {وَضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ} ’’ زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجودتم پر تنگ ہوچکی تھی‘‘، لیکن اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور جواں مردی کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ استقلال واستقامت کا پہاڑ بن کرڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ سفید رنگ کے خچر پر سوار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب بھاگ کر آگے بڑھتے ہیں اور خچر کی لگام پکڑ لیتے ہیں۔ ادھر چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب نے رکاب تھام لی ہے کہ کہیں خچر تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔ اس بھگڈر میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا رخ کفار کی طرف ہے ۔ آپ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اپنے خچر کو ایڑ لگارہے ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے اور اونچی آواز سے رجزیہ کلمات کہہ رہے ہیں:
’ أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ… أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ‘ ’’میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں سردارعبدالمطلب کا بیٹاہوں‘‘۔
قارئین کرام! مشکل کی اس گھڑی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت جو عظیم صحابہ ثابت قدم رہے، ان میں سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عباس بن عبدالمطلب، سیدنا فضل بن عباس اور سیدنا اسامہ بن زید شامل تھے۔ ایک نہایت بہادراو رحوصلہ مند خاتون ام سلیم بھی اسلام کے ان سپوتوں میں شامل تھیں جن کے قدم ثابت رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تھی:
یا رسول اللہ! ان طلقاء کو قتل کردیجیے جو میدان جنگ میں ثابت قدم نہ رہے۔ انہی کی وجہ سے شکست ہوئی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ ’’طلقائ‘‘ وہ نو مسلم تھے جو فتح مکہ کے موقع پر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ سیدہ ام سلیم، خادم رسول سیدنا انس بن مالک کی والدہ اور سیدنا ابوطلحہ کی زوجہ تھیں۔ یہ نہایت بہادر خاتون تھیں۔انہوں نے اپنی کمر میں خنجر باندھ رکھا تھا۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خنجر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ’’خالہ! اس خنجر کا کیا کرو گی‘‘؟ انہوں نے کہا:یا رسول اللہ! اگر کوئی کافر میرے نزدیک آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قدر بہادری اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں تو بھاگنے والوں کے قدم رک جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج میں شجاعت اور بہادری کی روح پھونک دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا مورال اس طرح بلند کرتے ہیں کہ جنگ پورے زوروں پر ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھاکر میدان جنگ کی طرف دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’ اب بھٹی گرم ہوگئی ہے‘‘ یعنی اب مقابلہ جم کر ہوگا۔آپ مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر دشمن کی طرف پھینکتے ہیں اور زبان اقدس سے نکلا: ’شَاہَتِ الْوُجُوہُ‘ ’’یہ چہرے بگڑ جائیں‘‘۔ یہ مٹی اس طرح پھیل گئی کہ دشمن کے ہر شخص کی آنکھوں میں پڑجاتی ہے۔ وہ آنکھیں ملتے رہ جاتے ہیں اور فرار پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اس سے قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سردار عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا تھا :’’چچا جان! بیعت رضوان والوں کو آواز دیجیے،انصار کو آواز دیجیے‘‘۔ سیدنا عباس کی آواز اتنی بلند تھی کہ پوری وادی میں سنائی دیتی تھی۔ انہوںنے بلند آواز سے پکارا: ’یَا مَعْشَرَ الأنْصَارِ! یَا أَصْحَابَ السّمُرَۃِ‘ ’’جماعت انصار، ارے بیعت رضوان میں شامل ہونے والو!‘‘ ادھر آؤ، یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ مجاہدین اور اللہ کے رسول کے سچے ساتھیوں کے کانوں میں جیسے ہی آواز پہنچتی ہے وہ فوراً بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔
قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے پلٹ کر آنے کا انداز کیسا تھا؟ سیرت نگاروں کے مطابق بالکل ایسے جیسے گائے اپنے بچوں کی طرف بھاگتے ہوئے پلٹتی ہے۔ تھوڑی دیر میں جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی شجاعت و بہادری اور ثبات قدم سے میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہتا ہے۔
آپ کی شجاعت اور بہادری کے کتنے ہی واقعات ہیں مگر میں اپنے قارئین کی توجہ ایک واقعہ کی طرف دلا کر آپ کی دیگر صفات کی طرف بڑھوں گا۔
غزوہ احد کے اختتام پر قریش بغیر کسی مسلمان کو گرفتار کیے، یا ما ل غنیمت حاصل کیے مکہ روانہ ہوجاتے ہیں۔اس زمانے میں دستور تھا کہ فاتح کی فوج دو یا تین دن وہاں قیام کرتی تھی ،مگر کفار نے فوراً واپسی کی راہ اختیارکرنے میں ہی عافیت جانی۔ یہاں دیکھیے! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور جنگی پلاننگ کہ باوجودیکہ مسلمان زخموں سے چور اور غم سے نڈھال تھے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زخمی تھے مگر آپ نے مدینہ میں ہنگامی حالت میں رات گزاری،صبح ہوتے ہی معرکہ احد کے دوسرے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان ہورہا ہے کہ جو لوگ جنگ میں شریک ہوئے تھے وہ دشمن کا پیچھا کرنے کے لیے ہمارے ساتھ چلیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نکلتے ہیں اور صحابہ کرام بھی بلا تردد تیار ہو جاتے ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے بارہ کلو میٹر دور حمراء الاسد پہنچ کر خیمہ زن ہوتے ہیں۔ یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے مدینہ سے 60 میل دور روحا کے مقام پر آرام کے لیے پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی کہ تم جنگ ادھوری چھوڑ آئے ہو، تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا۔ مسلمانوں کی شوکت وقوت کو توڑ نہیں سکے۔ ان کا پروگرام بھی بناکہ دوبارہ مدینہ پر حملہ کیا جائے، مگر ایک تو معبد خزاعی نے ان کی حوصلہ شکنی کی اور دوسرا جب دشمن کو یہ اطلاعات ملیں کہ مسلمان تعاقب میں نکلے ہوئے ہیں توان کے اعصاب جواب دے گئے اس لیے انہوں نے حملہ نہ کیا۔
 
Top