محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
ابھی دفتر آ رہا تھا تو میڈیا کی گاڑی پر لکھا دیکھا
" پاکستان کا سب سےبڑا میڈیا گروپ"
اس جملے سے پاکستان میں کسی بھی میڈیا گروپ کی سب سے بڑی رسوائی کے کئی مناظر ذہن میں تازہ ہوگئے. کیا جانئے یہی ایک بڑا بول اس میڈیا گروپ کی جڑ میں بیٹھ گیا ہو. وہ تو جو ہوا سو ہوا. آج بھی اس پر جو پیش ہو رہا ہے وہ اس رسوائی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں.
سیدنا موسی سے کسی نے پوچھا:
"سب سے بڑا عالم کون ہے؟"
فرمایا:
"میں"
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے غلط نہ کہا تھا کہ زمیں پر ایک نبی سے بڑا عالم اور جانکار کوئی دوسرا نہیں ہوتا. مگر اس میں چونکہ کوئی تخصیص اور استثنا نہ رکھا گیا تھا تو اللہ سبحان و تعالیٰ کو اپنے محبوب نبی کا یہ اسلوب پسند نہ آیا. چنانچہ نبی کا یہ concept clear کرنے کیلئے اور دوسری ضروری تربیت کے لئے انھیں خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لئے بھیجا گیا. خضر علیہ السلام تکوینی معاملات میں احکام الہی بجا لاتے تھے. اب صورتحال یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ اپنے سامنے مسکینوں کے روزگار کے واحد ذریعہ کشتی کا تختہ اکھڑتے، معصوم بچے کا بظاہر سفاکانہ قتل ہوتے اور بے مروت بستی والوں کے ہاں مفت مزدوری ہوتے...
دیکھ تو سکتے تھے مگر انھیں سوال تک اٹھانے کی اجازت نہ تھی.
اجازت نہ تھی مگر وہ تو آخر کو انسان تھے سو ان کا تجسس ضبط نہ کر سکا تھا،لہذا چپ رہنے کے ایگریمنٹ کے باوجود ہر بار بول اٹھتے تھے.
نتیجہ یہ کہ جب بھول تین دفعہ کی لمٹ تک پہنچی تو تینوں معاملات کی وضاحت سن کے الگ ہو رہے.
خود کو بڑا عالم کہنے والے کو اضافہ علم کے لئے سوال تک کی اجازت نہ ملنا. سمجھنے والوں کے بڑا سمجھنے کا سامان ہے.
دراصل بڑے اور بلند بول انسان کو بس چھوٹا اور نیچا ہی کیا کرتے ہیں.
دراصل تکبر اللہ کا ملبوس اور اس کی پوشاک ہے اور کوئی الہی ملبوس چھیننے کی جسارت کرے. یہ اللہ کو گوارا نہیں. ارشاد ہے ہر جھکنے والے کو رفعت ملتی ہے اور متکبرین روز حشر چیونٹیوں کے سائز میں اٹھائے جائیں گے.
تو کیا ہم اپنے زعم اور ذہن اور دہن اور دعوے کو ذرا سا معتدل نہیں کر سکتے؟
" پاکستان کا سب سےبڑا میڈیا گروپ"
اس جملے سے پاکستان میں کسی بھی میڈیا گروپ کی سب سے بڑی رسوائی کے کئی مناظر ذہن میں تازہ ہوگئے. کیا جانئے یہی ایک بڑا بول اس میڈیا گروپ کی جڑ میں بیٹھ گیا ہو. وہ تو جو ہوا سو ہوا. آج بھی اس پر جو پیش ہو رہا ہے وہ اس رسوائی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں.
سیدنا موسی سے کسی نے پوچھا:
"سب سے بڑا عالم کون ہے؟"
فرمایا:
"میں"
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے غلط نہ کہا تھا کہ زمیں پر ایک نبی سے بڑا عالم اور جانکار کوئی دوسرا نہیں ہوتا. مگر اس میں چونکہ کوئی تخصیص اور استثنا نہ رکھا گیا تھا تو اللہ سبحان و تعالیٰ کو اپنے محبوب نبی کا یہ اسلوب پسند نہ آیا. چنانچہ نبی کا یہ concept clear کرنے کیلئے اور دوسری ضروری تربیت کے لئے انھیں خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لئے بھیجا گیا. خضر علیہ السلام تکوینی معاملات میں احکام الہی بجا لاتے تھے. اب صورتحال یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ اپنے سامنے مسکینوں کے روزگار کے واحد ذریعہ کشتی کا تختہ اکھڑتے، معصوم بچے کا بظاہر سفاکانہ قتل ہوتے اور بے مروت بستی والوں کے ہاں مفت مزدوری ہوتے...
دیکھ تو سکتے تھے مگر انھیں سوال تک اٹھانے کی اجازت نہ تھی.
اجازت نہ تھی مگر وہ تو آخر کو انسان تھے سو ان کا تجسس ضبط نہ کر سکا تھا،لہذا چپ رہنے کے ایگریمنٹ کے باوجود ہر بار بول اٹھتے تھے.
نتیجہ یہ کہ جب بھول تین دفعہ کی لمٹ تک پہنچی تو تینوں معاملات کی وضاحت سن کے الگ ہو رہے.
خود کو بڑا عالم کہنے والے کو اضافہ علم کے لئے سوال تک کی اجازت نہ ملنا. سمجھنے والوں کے بڑا سمجھنے کا سامان ہے.
دراصل بڑے اور بلند بول انسان کو بس چھوٹا اور نیچا ہی کیا کرتے ہیں.
دراصل تکبر اللہ کا ملبوس اور اس کی پوشاک ہے اور کوئی الہی ملبوس چھیننے کی جسارت کرے. یہ اللہ کو گوارا نہیں. ارشاد ہے ہر جھکنے والے کو رفعت ملتی ہے اور متکبرین روز حشر چیونٹیوں کے سائز میں اٹھائے جائیں گے.
تو کیا ہم اپنے زعم اور ذہن اور دہن اور دعوے کو ذرا سا معتدل نہیں کر سکتے؟