• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم زاہد صدیق مغل کی تحریریں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فرقہ وارانہ مذھبی جماعتیں بمقابلہ سیکولر سیاسی جماعتیں
ہمارے یہاں فرقہ وارانہ مذھبی جماعتوں کو ایک برائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر وہ سیاسی جماعتیں جنہیں مذھب سے سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں انہیں کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا، یہ بڑی ہی سادگی کا معاملہ ہے۔ اگر شدت پسندانہ مذھبی فرقہ پرستی ایک بیماری ہے تو مذھب سے دلچسپی نہ رکھنے والی سیکولر سیاسی جماعتوں کا معاشرتی غلبہ مسلم سماج کے لئے موت ہے۔ اور کہتے ہیں موت کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنی جن عظیم نعمتوں کا بطور خاص نام لے کر احسان جتلایا ہے ان میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو مبعوث فرما دینا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
18 سال سے قبل اسلام قبول کرنے کی ممانعت

سندھ اسمبلی کے حالیہ قانون پر یہ تبصرہ ہے کہ قبول اسلام کے لئے 18 سال کی شرط غیر ضروری ہے۔ مقصد اگر جبرا مذھب تبدیل کروانے کی روک تھام کرنا ہے تو اس میں 18 سال کی قید بے معنی ہے کیونکہ جبرا (یا کسی لالچ و استحصالی صورت کی بنا پر) کسی کا مذھب 18 سال کی عمر کے بعد بھی تبدیل کروایا جاسکتا ہے۔ لہذا عمر کی یہ قید غیر ضروری بات ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کسی کے ماں باپ کو لگتا ہے کہ اس کے بچے کا مذہب جبرا تبدیل کروا لیا گیا ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرلے۔ بھائی سوچئے کہ ایک بچے کا مذھب اگر کوئی مسلمان جبرا تبدیل کروالیتا ہے تو کیا وہ تبدیلی چلنے والی ہے؟ بچہ جونہی بڑا و خود مختار ہوگا یا عدالت کے سامنے جائے گا خود ہی اس مذھب سے رجوع کرلے گا۔ بھلا کونسا مبلغ اپنے مذہب کی اس طور پر تبلیغ کرنا چاہے گا؟
اصل معاملہ یہ ہے کہ سندھ کی ھندو آبادیوں میں مسلم مبلغین دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں نسبتا چھوٹی عمر (چودہ پندرہ سال) کے افراد اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ اب ان کے والدین جھگڑا کرنے لگتے ہیں کہ دیکھو مسلمان ہمارے بچوں کو زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں۔ اس معاملے کا حل عدالت نے یہ نکالا کہ 18 سال سے قبل کوئی مسلمان ہوہی نہیں سکتا۔ اس قسم کی شکایتیں تو مشرکین مکہ کو بھی تھیں کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے بچوں (نوجوانوں) کو ورغلا رہے ہیں۔ تو کیا اس جھگڑے کے جواب میں آپ علیہ السلام نے کوئی اس قسم کا قانون بنا دیا تھا کہ "اچھا فلاں عمر تک کوئی بھی مجھ پر ایمان نہیں لاسکتا؟" کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک بچہ جب آئن سٹائین و کانٹ بن جائے تو پھر اسے اسلام کی تبلیغ شروع کی جائے؟ دنیا کا عام اصول ہے کہ دعوت قبول کرنے والوں میں عام طور پر نوجوان ہی بوجوہ آگے ہوتے ہیں۔ لہذا اس پر اس قسم کی قانونی پابندی حکمت کے خلاف ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
"اعلی یونیورسٹیوں" کے نئے نسل کے طلباء کا المیہ یہ ہے کہ اردو نہ آنے میں یہ فخر محسوس کرتے ہیں اور انگریزی انہیں آتی نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اہل مسالک میں "فوری وابستگی" کا ایک غیر علمی اثر

بریلوی مسلک سے تعلق رکھے والے علامہ غلام رسول سعیدی (رح) نے "شرح صحیح مسلم" نامی اپنی ضخیم کتاب میں اسلامی تاریخ کے شاید درجنوں علماء و محققین کی آراء پر نقد کیا۔ ایک آیت (لیغفر لک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر) کے ترجمے کے مسئلے میں انہوں نے اعلی حضرت سے اختلاف کیا، وہ بھی نہایت علمی سطح پر، اور اس پر ان کے بعض ھم مسلک علماء نے طوفان کھڑا کردیا گویا اعلی حضرت سے اختلاف کرکے دین کی بنیاد ڈھا دی گئی ہو۔
مدارس کے طلباء فقہ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ فلاں مسئلے میں امام ابوحنیفہ نے یہ کہا مگر فتوی صاحبین کے قول پر ہے۔ اسی طرح یہ طلباء کتابوں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں امام نے یہ غلط بات کہی جس کا رد فلاں نے کیا وغیرہ۔ اور تو اور فقہ حنفی والے امام شافعی یا امام مالک کا جو رد کرتے ہیں اسے بڑے مزے لے لے کر پڑھتے ہیں۔ مگر جونہی انہیں کوئی یہ کہے کہ اعلی حضرت یا حکیم الامت نے فلاں مسئلے میں غلطی کی تو ان کی عصبیت کا رڈار یوں الرٹ ہوجاتا ہے جیسے اھانت انبیاء کا مسئلہ درپیش آگیا ہو، حالانکہ یہ خود مانتے ہیں کہ یہ سب علماء دیگر آئمہ دین کے مقابلے میں بہت کم درجے کے ہیں۔ علم نفسیات میں اسے immediate association effect (یعنی فوری وابستگی کے اثرات) کہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک جذباتی چیز ہے، علمی نہیں۔ اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک اشکال یہ لایا جاتا ہے کہ مولوی بی ایم ڈبلیو میں گھومتا ہے اور عبدالستار ایدھی سادہ کپڑوں میں رہتا ہے، تو پھر مولوی پر اعتراض کیوں نہ ہو؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ جو مولوی چندے کے پیسوں سے بی ایم ڈبلیو میں گھومتا ہے تو وہ اچھا کرتا ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ بی ایم ڈبلیو اور لمبی لمبی گاڑیوں والے مولوی و مہتمم کتنے ہیں اور عام سادے کتنے ان کی شرح (ریشو) نکال لیں۔ پھر اس شرح کا موازنہ کیجئے ان لوگوں کی شرح کے ساتھ جو "این جی او" سیکٹر میں خدمت خلق کا کام کرتے ہیں، ان شاء اللہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی جہاں "غربت کم کرنے" کا ہر پروگرام اور میٹنگ بھی فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد ہوتی ہے جس پر لاکھوں نہیں کروڑوں روپے خرچ کردئیے جاتے ہیں۔ "خدائی خدمت گاروں" کے اس سیکٹر کو ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ عبد الستار ایدھی جیسوں کو تو ان این جی او سیکٹر والوں نے فیس سیونگ کے لئے رکھا ہوا ہے ۔ یہ جو آج بڑے بڑے مدارس سمجھے جاتے ہیں ذرا وہاں جا کر ان کے رواد اولین و مہتممین کی تاریخ معلوم کیجئے، معلوم ہوگا کہ اس کام کو مشن بنانے والے کتنے ہی لوگ کتنی ہی سادگی سے زندگیاں بسر کرگئے اور کسی کو معلوم بھی نہ ہوا کیونکہ میڈیا نے انہیں "خدائی خدمت گار" کے طور پر دکھایا جو نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یہ مسئلہ چندے کا نہیں مابعد الطبعیات کا ہے

یہ بات کس قدر حیرت انگیز ہے کہ جو لوگ مولوی کو چندہ خور کہتے ہیں وہی لوگ ایدھی، چھیپا و عالمگیر ٹرسٹ والوں کے ھاتھ چومتے اور انہیں انسانیت کے محسن قرار دیتے ہیں۔ خدارا کچھ تو انصاف ہونا چاھئے۔ مولوی کو یہ طعنہ دینے والے دراصل اس علم کو علم ہی نہیں مانتے جس کے لئے مولوی چندہ مانگتا ہے، ہاں ایک خیراتی سکول چلانے والوں کو انسانیت کا خدمت گار قرار دینے میں یہ خوب رطب اللسان ہونگے۔ بھائیو یہ مسئلہ چندے کا نہیں مابعدالطبعیات و مقاصد کی تبدیلی کا ہے۔
اور اگر تم اس علم کو واقعی علم مانتے ہو تو یہ مولوی کو طعنہ دینے کی نہیں بلکہ ارباب حکومت کا گریبان پکڑنے کی جا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مدرسہ نظام تعلیم کا ایک زبردست کارنامہ

ہر معاشرے کے کچھ امور (اشیاء و سروسز) ایسے ہوتے ہیں جنکی فراہمی نجی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے اور انکا انتظام و انصرام بھی نظم اجتماعی کرتا ہے۔ ان میں سے ایک اہم چیز قیام عدل (قانون) کی فراہمی ہے اور دوسری اہم چیز علم (اس کا جو بھی تصور ہو) ہے۔ چنانچہ پوری اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ علم کو آلو پیاز کی طرح نجی نفع خوری کا ذریعہ بنا دیا گیا ہو۔ اسے ھمیشہ ریاست و حکومت کی سطح پر ہی منظم کیا و رکھا گیا کیونکہ یہ نظم اجتماعی کی چیز ہے، اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ "علم کے حق" (right to education) کو لوگوں کی "قیمت ادا کرسکنے کی صلاحیت" (ability to pay) یعنی انکی آمدن کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہو۔ یہ طریقہ کار جدید تہذیب کا تحفہ ہے۔ اسلامی تاریخ کی یہ جھلک آج بھی مدارس میں موجود ہے کہ سب کے لئے سب قسم کی تعلیم (وہ جو اور جیسی بھی ہے) مفت ہے۔ مدارس کا یہ کارنامہ نہایت حیرت انگیز ہے اور یہ اظہار ہے اس چودہ سو سالہ تہذیبی ورثے میں منتقل ہونے والی سوچ کا کہ "right to education is universal"، اس میں امیر غریب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہوگی۔ برصغیر پر تسلط کے بعد انگریز نے مدارس سے وقف کی زمینیں چھین کر انہیں سرکاری سرپرستی کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی بے یار و مددگار کردیا تھا مگر علماء نے اس کے باوجود اس علم کو "قیمت چکا سکنے کی صلاحیت" سے نہیں جوڑا بلکہ چند و زکوۃ اکٹھے کرکے اسکے انتظام کو اسکی اصل روح پر برقرار رکھا۔ انہوں نے زکوۃ کا حیلہ کرنا تو گوراہ کرلیا مگر علم کو نفع خوری کی شے نہ بننے دیا۔ بلاشبہ یہ ایک حیرت انگیز کام تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تجدد اور الحاد کا باہمی تعلق
زاہد صدیق مغل
عیسائیت کی شکست و ریخت اور جدید تنویری الحاد کے غلبے کی تاریخ بتاتی ہے کہ لوگ یک دم مذہب ترک کرکے الحاد قبول نہیں کرلیتے بلکہ یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا آغاز تجدد پسندی سے ہوتا ہے۔
اس کا مختصر نقشہ کچھ یوں ہے:
الف) پہلے (ایک مخصوص تناظر میں) مذہب کی تاریخی تشریح و تعبیر کو رد کر کے مذہب کی انفرادی تعبیرات اختیار کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا جاتا ہے.
ب) یہ مذہب کو اجتماعی زندگی سے بےدخل کرکے ذاتی زندگی تک محدود کرنے کی ابتداء ہوتی ہے کیونکہ تاریخی تناظر نظرانداز کردینے کے بعد محض الفاظ باقی رہ جاتے ہیں جن کی درجنوں تعبیرات ممکن ہوتی ہیں اور ان میں یہ طے کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہوتا کہ کون سی تشریح درست تشریح ہے، لہذا مذہب لازما ایک ذاتی شے بن جاتا ہے اور یہ اجتماعی زندگی سیکولرائز کرنے کا مذہبی جواز ہوتا ہے
ج) یہ جدید انفرادی تشریحات مذہب کی ایک معروضی (حاضروموجود) تناظر میں تفہیم وضع کرنے کی کوشش کرتی ییں۔ کیونکہ حاضر و موجود تناظر مذہب سے نہیں بلکہ اس سے ماوراء کسی دوسرے تاریخی تناظر (مثلا تنویری تناظر) سے برآمد ہوکر آتا ہے، لہذا اب مذہب کی تعبیر ایک دوسری تاریخ اور علمیت کے مطابق کی جانے لگتی ہے۔ گویا تجدد کے نتیجے میں فی الواقع جو تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ یہ نہیں کہ اب مذہب کی ماورائے تاریخ کوئی آفاقی عقلی تشریح پیش کردی جاتی ہے (جیسا کہ یہ متجدیدین دعوی کرتے پیں) بلکہ صرف اتنی تبدیلی آتی ہے کہ مذہب کا معتبر حوالہ خود اس کی اپنی تاریخ کے بجائے ایک غیر مذہبی تاریخ کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے، اور بس۔ یہ مذہب کو غیر معتبر بنانے کی ابتداء ہوتی ہے.
د) اس غیر مذہبی تاریخ اور علمیت میں جب مذہب کو سمونے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہاں مذہب کی حیثیت انتہائی کمزور ہوتی ہے، یہاں مذہب کو انفرادی شناخت کے حوالے سے تاریخی تقدس بھی حاصل نہیں ہوتا۔ لہذا مذہب یہاں کبھی قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک تابع مہمل بن کر رہتا ہے۔ ہر وہ مقام جہاں خدا کی بات (چاہے وہ کتنی ہی قطعی کیوں نہ ہو) معروضی تناظر کے خلاف ہو، لازما اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس معاملے میں خدا اپنی رائے تبدیل کرے، بصورت دیگر یہ بات رد کر دینے لائق ہے (اور جدید تناظر میں خدا کی ایسی بےشمار باتیں ہوتی ہیں)
ھ) اگر خدا کو بالآخر وہی کہنا اور ماننا پڑتا ہے جو معروضی تناظر طے کرتا ہے تو ایسے خدا سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہی کیا ہے، اس مقام پر پہنچ کر لوگ مذہب کا نفسیاتی قلادہ بھی اتار پھینکتے ہیں۔ یہ الحاد کی مذہبی تابوت میں آخری میخ ہوتی ہے۔
لہذا خوب یاد رہنا چاہیے کہ مذہب کو سمجھنے کا درست طریقہ اس کی تاریخیت (historicity) سے جڑے رہنا ہوتا ہے نہ کہ معروضی (objective) پیمانے اختیار کرتے چلے جانا، کیونکہ جنہیں معروضی حقائق سمجھ کر قبول کیا جارہا ہوتا ہے وہ درحقیقت غیر اقداری و نیوٹرل نہیں بلکہ ایک ماورائے مذہب تاریخ، تہذیب و علمیت سے برآمد ہو رہے ہوتے ہیں اور جن کے بذات خود ٹھیک ہونے کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ہوتی، چہ جائیکہ ان کی بنیاد پر مذہب کی مرمت شروع کر دی جائے۔ ایسی تقریبا ہر جدوجہد کا نتیجہ تجدد کے ذریعے الحاد کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ عیسائیت کی شکست چلا چلا کر یہ سبق سنا رہی ہے اور اسلامی دنیا کے معاملات بھی اس تاریخ سے کچھ مختلف عندیہ نہیں دے رہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
انھی معنی میں ہم کہتے ہیں کہ احیائے اسلام کا اصل مطلب خیرالقرون کی طرف مسلسل مراجعت ہے، اس کے علاوہ احیائے اسلام کا کوئی دوسرا معنی نہیں۔ جدید معروضی تناظر میں وضع کیا جانے والا احیائے اسلام کا ہر معنی اسلام کو تنویری تاریخ، علمیت و تہذیب میں ضم کر دینے کا ہم معنی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کفر کا اختیار "حق" نہیں "مہلت و مراعت" ہے

زاہد صدیق مغل
بعض لوگوں کو یہ دھوکہ لگ گیا ہے گویا اللہ تعالی نے "فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر" کے اعلان کے ذریعے انسانوں کو "کوئی سیکولرانہ حق کفر" تفویض کردیا ہے۔ حاشا و کلا۔ اس قسم کی باتوں کو ہم "سیکولر بخار" کا نتیجہ کہا کرتے ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ باطل اختیار کرنے کی اجازت کبھی "حق" کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت محض ایک "وقتی مہلت" یا "اضافی مراعت" (privilege) کی سی ہوتی ہے۔ خدا کے بنائی ہوئے اس دارالامتحان میں انسانوں کو کفر کا "اختیار" دینے کا یہی معاملہ ہے، یہ کوئی "حق" نہیں۔ اس دنیا میں کوئی ایک بیوقوف بھی ایسا نہیں کہ جسے وہ قطعی طور پر "باطل" کہتا ہو پھر اسے کسی کا "حق" بھی قرار دے، چہ جائیکہ خدا سے اس کی امید رکھی جائے۔ اس رویے کی امید صرف کسی ایسے ہی شخص سے رکھی جاسکتی ہے جسے اپنے بیان کردہ حق پر کوئی شک ہو یا وہ حق ہی کو اضافی معاملہ سمجھتا ہو۔ تو کیا خدا کو اپنے حق ہونے پر کوئی شک تھا اور یا وہ اپنی بات کے سواء کسی دوسرے معاملے کو بھی حق سمجھتا تھا کہ اپنی بات کے "کفر کا حق" دے کر ایمان و کفر کو مساوی سطح پر ایک ہی لڑی میں پرو دیا؟ کچھ تو عقل کی بات کرو۔ جو ہے ہی "باطل" اس کے "حق" ہونے کا کیا مطلب بھائی؟ یہ تو contradiction in term ہے۔ انسان کو "حق" اسی امر کا ہے جو "حق" ہے، ہاں اگر کہیں حق ہونا واضح ہی نہیں تو پھر بات الگ ہے۔ مگر خدا کے لئے اس امکان کا کیا مطلب؟ کیا اس پر بھی حق کا کچھ اخفا تھا کہ وہ "کفر کا حق" دیتا رہا؟ خدا کی نظر میں کفر جس قدر قبیح امر ہے اگر دنیا کو دارالامتحان بنانا مقصود نہ ہوتا تو لازم تھا کہ خدا بندوں کو زبردستی (by default) اسی طرح ایمان والا بنا دیتا جیسے دیگر مخلوقات کو اپنے ارادے کا پابند بنایا۔ تو جناب خدا کی طرف سے کفر کا اختیار محض ایک وقتی privilege و مہلت نما چیز ہے، یہ کسی کا کوئی "حق" نہیں۔ "حق" یہ ہے کہ کفر اختیار کرنے کی اس صلاحیت سے دستبردار ہوکر اس کی بات پر ایمان لایا جائے۔
 
Top