• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم شیخ کفایت اللہ صاحب۔ ابوداؤد کی اس صحیح حدیث کا لازمی جواب دیں ۔۔۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

أبو القاسم

مبتدی
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
6
محترم شیخ کفایت اللہ صاحب۔ ابوداؤد کی اس صحیح حدیث کا لازمی جواب دیں۔مولانا عبد الولی حقانی کے لشکر قسطنطنیہ اور امارت یزید کا مسئلہ کے علاوہ آپ خودتفصیلی جواب لکھیں اور فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق کا ۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔ یزید رحمہ اللہ اس پہلے لشکرکے امیرتھے، اس پرسب کا اتفاق ہے۔ اس ترجمہ کو ثایت کریں۔ میری جان آپ پر قربان۔۔۔

aa.png
aa.png
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اور فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق کا ۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔ یزید رحمہ اللہ اس پہلے لشکرکے امیرتھے، اس پرسب کا اتفاق ہے۔ اس ترجمہ کو ثایت کریں۔ میری جان آپ پر قربان۔۔۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْقَبَةٌ لِمُعَاوِيَةَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ وَمَنْقَبَةٌ لِوَلَدِهِ يَزِيدَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِينَةَ قَيْصَرَ وَتعقبه بن التِّين وبن الْمُنِيرِ بِمَا حَاصِلُهُ أَنَّهُ لَا يَلْزَمُ مِنْ دُخُولِهِ فِي ذَلِكَ الْعُمُومِ أَنْ لَا يَخْرُجَ بِدَلِيلٍ خَاصٍّ إِذْ لَا يَخْتَلِفُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ قَوْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَغْفُورٌ لَهُمْ مَشْرُوطٌ بِأَنْ يَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الْمَغْفِرَةِ حَتَّى لَوِ ارْتَدَّ وَاحِدٌ مِمَّنْ غَزَاهَا بَعْدَ ذَلِكَ لَمْ يَدْخُلْ فِي ذَلِكَ الْعُمُومِ اتِّفَاقًا فَدَلَّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ مَغْفُورٌ لِمَنْ وُجِدَ شَرط الْمَغْفِرَة فِيهِ مِنْهُم وَأما قَول بن التِّينِ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ لَمْ يَحْضُرْ مَعَ الْجَيْشِ فَمَرْدُودٌ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ لَمْ يُبَاشِرِ الْقِتَالَفَيُمْكِنُ فَإِنَّهُ كَانَ أَمِيرَ ذَلِكَ الْجَيْشِ بِالِاتِّفَاقِ [فتح الباري لابن حجر: 6/ 102- 103]۔

اس پوری عبارت میں غور کریں ماقبل میں قسطنطنیہ پرسب سے پہلےحملہ کرنے والے لشکر کاذکر ہے۔
اس کے بعد حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یزید اس لشکر کے یعنی سب سے پہلے حملہ کرنے والے لشکر کےبالاتفاق امیر تھے۔

اگر آپ کو اس ترجمہ سے اتفاق نہیں ہے تو بتائیں ’’ذلک الجیش‘‘ کا مشار الیہ کیا ہے؟؟؟

ابوداؤد کی اس صحیح حدیث کا لازمی جواب دیں۔مولانا عبد الولی حقانی کے لشکر قسطنطنیہ اور امارت یزید کا مسئلہ کے علاوہ آپ خودتفصیلی جواب لکھیں
میری تحریر میں مولانا عبدالولی حقانی کے مقالہ کا حوالہ ہونا اور میرا اس سے احتجاج کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ مجھے مولانا عبدالولی حقانی کی تحقیق سے اتفاق ہے اس لئے میں اگ سے کوئی تحریر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ، کبھی موقع ملا تو دیکھا جائے گا فی الحال الگ سے کوئی تحریر لکھنے کا ارادہ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں اسی موضوع پر ایک اور مقالہ کا لنک بھی اوپر کے تھریڈ میں ہے اسے بھی دیکھیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اور برا نہ لگے تو ایک گذارش ہے کہ میرے نام سے تھریڈ نہ بنایا کریں ۔
اگر آپ کو میری کسی تحریر سے اختلاف ہے تو اپنا اختلاف پیش کریں اور زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ مجھے اس دھاگہ میں ٹیک کردیں ۔
لیکن باقاعدہ میرے نام سے تھریڈ نہ بنائیں نیز یہ لازمی مطالبہ نہ کریں کہ اس کا جواب دو ۔
کس بات کا جواب دینا ہے کس کا جواب نہیں دینا ہے یہ فیصلہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں ۔
المھم یہ کہ آپ صرف اپنا اختلاف پیش کردیں اور اس سے زیادہ یہ کہ مجھے اس کی اطلاع دے دیں لیکن اس سے آگے بڑھ کر مجھ سے جواب کا مطالبہ نہ کریں میں جس چیز کو جواب کے لائق سمجھوں گا اس کا جواب دوں بصورت دیگر اسے نظر انداز کردوں گا۔ اس لئے بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ کوئی لازمی مطالبہ نہ کریں۔
بارک اللہ فیک۔
 

أبو القاسم

مبتدی
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
6
Salam O Alyk !
Meri jan ap par qurban mery bae... mazrat, mai niya niya aaya hun idr, mujhai urdu likhna nehi aata. aur mujhai nehi pta k yahan kic trah post wegara karty hai. mai bul'kul bai'khabar hun yahan k mamlat say.
Mai ap say zra b ekhtilaf nehi karta. meri jan ap par qurban. apko pta nehi yeh q mehsus huva. mjy maf kar dain. mai janta hun " zalikal jaish " pehly lashkar par he dalalat karta hai. mai nay ic liya pucha k agar kci asooli qayidy k tehat icko sabit kar diya jata. bohat sary log ic par atiraz karty hai.
Woh mai nay ap say abu dawood ki hadees ka jawab manga tha. mujhai pta hai apka b wehi mokif hai jo MOLANA ABDUL WALI HAQQANI sahib ka hai. lekin woh bohat mukhtisir hai. ic ebarat ka pura jawab nehi jo mai nay bheji thei.
Baki meri jan ap par qurban, mai nay "lazmi" ka lafz ic niyat say nehi kaha tha. mujhai maf kar dain.
jazakallah khair.
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
اسلام و علیکم شیخ ـ اک سوال تھا کیا بخاری کی حدیث قسطنطنیہ کے راوی قدریہ فرقے کے اور ناصبی فرقے کے ہیں ـ اور کیا ناصبی یا قدری یا شعیہ ان سارے فرقے کے راویوں کی آحادیث ناقابل قبول ہے چاہے وہ بخاری ہی کی کیوں نا ہو ـ براے مهربانی رہنمایان فرماۓ ـ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اسلام و علیکم شیخ ـ اک سوال تھا کیا بخاری کی حدیث قسطنطنیہ کے راوی قدریہ فرقے کے اور ناصبی فرقے کے ہیں ـ اور کیا ناصبی یا قدری یا شعیہ ان سارے فرقے کے راویوں کی آحادیث ناقابل قبول ہے چاہے وہ بخاری ہی کی کیوں نا ہو ـ براے مهربانی رہنمایان فرماۓ ـ

جی اس کی سند میں ناصبی اور قدری ہیں لیکن اس روایت میں علی رضی الله عنہ کی کوئی برائی نہیں ہے اور قدری ہونا جرح نہیں
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم شیخ کفایت اللہ اس اعتراض کا جواب درکار ہے


جہاد قسطنطنیہ اور کفایت سنابلی پر رددد


سنابلی صاحب نے حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کی جہاد قسطنطنیہ والی روایت پر چند اعتراضات کیے ہیں, میں اپنے اس مضمون میں ان اعتراضات کا ردد کرونگا.. ان شاء اللہ

( یزید پر الزامات کا جائزہ صفحہ نمبر 583 سے 600)

میرا مضمون دو حصوں میں تقسیم ہوگا

1-حصہ اول : عبدالرحمن خالد بن ولید رضی اللہ کے جہاد قسطنطنیہ میں امیر لشکر کے بیان میں

2- حصہ دوم : جمہور ائمہ اور عبدالرحمن بن خالد کی صحیح تاریخ وفات کے بیان میں

حصہ اول

عبدالرحمن بن خالد بن ولید امیر لشکر تھے

سنن ابو داود 2512

جناب اسلم ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے, ہم قسطنطنیہ جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمن بن خالد ولید ہمارے امیر جماعت تھے رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے...... الخ

اس صحیح روایت کو رد کرنے کے لیے سنابلی نے سنن کبری نسائی10/28 کی روایت پیش کی

اسلم ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے اور اہل مصر کے امیر عقبہ بن عامر جہنی تھ اور اہل شام کے امیر فضالہ بن عبید انصاری تھے..... الخ

اور اپنی طرف سے نتیجہ نکالتے ہوئے فیصلہ کردیا کی اسی طرح عبدالرحمن بن خالد صرف مدینہ منورہ کی جماعت کے ہی امیر تھے.

( یزید پر الزامات کا جائزہ 584)

الجواب

سنن کبری نسائی میں حضرت عبدالرحمن بن خالد کا دور دور تک اتا پتہ نہی ہے پھر بھی سنابلی صرف شیطانی قیاس سے انہیں صرف اہل مدینہ کا امیر جماعت بنانے پر تلا ہوا ہے.

سنابلی کی تاویل کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا مدینہ منورہ کا امیر جماعت تمام لشکر کا امیر نہی بن سکتا؟؟؟

جس طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امیر شام کے عہدے پر رہتے ہوئے کئی جہاد میں امیر لشکر بھی تھے.

دوم حضرت عبدالرحمن بن خالد اپنی وفات تک "حمص کے امیر" تھے

( تاریخ طبری ، 4/325 , المنتظم ابن جوزی 5/59, )

اس سے ثابت ہوا کی حضرت عبدالرحمن بن خالد تمام لشکر کے امیر تھے.

سنابلی نے آگے یزید کو اس لشکر کا امیر بنانے کی کوشش کی ہے. حالانکہ خوردبین لگا کر بھی مذکورہ روایات میں یزید کو تلاش کرنا ایک ناممکن عمل ہے.

سنابلی مزید لکھتا ہے کی صحیح بخاری حدیث نمبر 1186 سے ثابت ہے کی مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات روم کے اس جہاد میں ہوئی تھی جسکا امیر یزید تھا.

اور اپنی طرف سے نتیجہ نکال لیا کی سنن ابودواد والی جہاد قسطنطنیہ اور یزید کی امارت والی جہاد ایک ہی ہے.

سنابلی یہ روایت دے کر خود پھنس گیا کیونکہ سنابلی بھی یہ تسلیم کرتا ہے کی ابو ایوب انصاری رضی اللہ کی وفات 50،51 ھجری ہے.

آگے سنابلی مزید لکھتا ہے کی ابو ایوب انصاری رضی اللہ صرف یزید کی امارت والے جہاد قسطنطنیہ میں ہی شامل تھے اور اس طرح ثابت کردیا کی عبدالرحمن بن خالد کے ساتھ بھی ابوایوب انصاری شامل تھے اور یہ جہاد قسطنطنیہ ایک ہی ہے جسکا امیر یزید تھا اور اپنی تائید کے لیے تاریخ ابن عساکر 16/62سے ایک ضعیف روایت اٹھا لایا. حالانکہ اس ضعیف روایت میں بھی ایسی کوئی وضاحت نہی ہے

حالانکہ اس سند میں ابن ليه ہے جنکا حافظہ خراب ہوگیا تھا یہ کثیرالغلط اور کثیرالوہم ہیں, اس کے ساتھ ساتھ ابن لیہہ اور ولید بن مسلم دونوں مدلس راوی ہیں اور انہوں نے یہ روایت "عن" سے نقل کی ہے.اور مدلس کا عنعنعہ ضعیف ہوتا ہے. ابن لیہہ اور ولید بن مسلم چوتھے طبقہ کے مدلس راوی ہیں. یہ روایت تو اس قابل ہی نہی کی اسے صحیح روایت کے مقابل ہیش کیا جا سکے.

سنابلی کو یہ بھی پتہ نہی کہ قسطنطنیہ پر 16 دفعہ حملہ ہوا ہے

( البدایہ ابن کثیر 8/133 ایضاً 127)

بلکہ ان تمام حملوں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملہ کا ثبوت ملتا ہے جس کے امیر خود امیر معاویہ رضی اللہ تھے اور یہ حملہ 32 ھجری کو ہوا.

( اس وقت یزید 6 سالہ بچہ تھا).

( طبری 4/304، البدایہ 7/159، 8/126، تاریخ اسلام ذہبی وغیرہ)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ان تمام حملوں میں جہاد و شہادت کی غرض سے شامل ہوئے اور آخر میں 51 ھجری میں جام شہادت نوش فرمائی

ہمارا استدلال سنن ابو داود کی صحیح روایت 2512سے ہے جس کے الفاظ یہ ہیں

ابو عمران کہتے ہیں کی چنانچہ ابو ایوب انصاری اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے حتی کی قسطنطنیہ میں ہی دفن ہوئے.

حصہ دوم

سنابلی نے یزید کو اول جیش کا سپہ سالار بنانے کے لیے حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کو 61 ھجری تک زندہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے. سنابلی نے 44،45،46،47 ھجری تاریخ وفات والی جو رایت نقل کی ہے اس کے بعد صرف اپنے قیاس سے 57، 61 ھجری والی روایت پیش کی ہے اور اسے راجح قرار دے دیا.

جبکہ اکثر مورخین نے نقل کیا ہے کی عبدالرحمن بن خالد 46 ھجری میں فوت ہوئے اور انہیں زہر دیا گیا تھا.

اس پر سنابلی نے ایک موضوع و من گھڑت روایت سے استدلال کیا کی امیر معاویہ کی وفات کے بعد خلافت کے لیے لوگوں نے عبدالرحمن بن خالد کا نام پیش کیا تو امیر معاویہ نے اثال نامی حکیم کے زریعہ سے عبدالرحمن بن خالد کو زہر پلا دیا جس وہ فوت ہوگئے

( الاغانی الابی الفرج اصبھانی 16/209)

اور اپنی طرف سے نتیجہ نکال لیا کی ولی عہدی کا معاملہ 57 ھجری کو مشہور ہے اس لیے انکی وفات بھی 57 ھجری میں ہوئی

سنابلی ناصبی کو شرم آنی چاہیے کی ایسے موضوع و من گھڑت روایت سے استدلال کر رہا ہے. یہ روایت تو نقل کے قابل بھی نہی کیوں کی اس روایت کے راوی کذاب ہیں.

سنابلی نے حاشیہ میں "اسنادہ مظالم" لکھ کر اس روایت کا من گھڑت ہونا خود ہی تسلیم کرلیا ہے.

آگے سنابلی 61 ھجری والی روایت قیاس سے کچھ اس طرح ثابت کرتا ہے

یزید بن الاصم سے مروی ہے کی میں میمونہ رضی اللہ کی تدفین کے وقت حاضر تھا, ان کی قبر میں عبداللہ بن عباس, عدالرحمن بن خالد بن ولید, میں اور عبیدالہہ الخولانی اترے اور انکی نمسز جنازہ ابن عباس رضی اللہ نے پڑھائی. محمد بن عمر نے کہا کی انکی وفات 61 ھجری ہے.

( طبقات الکبری 8/140)

سنابلی نے اس روایت کی مکمل سند تک زکر نہی کیا ہے, سند اس طرح ہے

اخبرنا محمد بن عمر حدثنا عبداللہ بن المحرر عن یزید ابن الاصم..... الخ

سند میں پہلا راوی محمد بن عمر واقدی جیسا راوی ہے جس پر بہت ہی شدید جروحات موجود ہیں

دوسرا راوی عبداللہ بن المحرر ہے جس کے بارے میں امام ذہبی رحمتہ اللہ میزان الاعتدال 2/500 میں نقل فرماتے ہیں

امام احمد نے فرمایا کی اس سے احادیث ترک کی گئی ہیں

امام دارقطنی اور ایک جماعت نے متروک کہا ہے

اب حبان نے کذاب کہا ہے

لہذا سنابلی صاحب کا یزید کی محبت میں ایسی من گھڑت روایت سے استدلال باطل ثابت ہوا

اب میں آخر میں جمہور محدثین و مورخین کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے بالاتفاق عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46،47 ھجری نقل فرمائی ہے

1- یعقوب بن سفیان الفسوی وفات 277 ھجری

مات عبدالرحمن بن خالد بن ولید سنہ ستہ و اربعین
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری کو ہوئی.

( المعرفتہ و التاریخ 3/319 یعقوب بن سفیان فسوی)

2- ابن حبان 354 ھجری

حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کی وفات 46 ھجری کو سعید بن ابی وقاص رضی اللہ سے قبل ہوئی

( ابن حبان کتاب الثقات. 3/250 راوی نمبر 819)

3-ابن حبان

عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری کو ہوئی

( ابن حبان - مشاھیر علماء الامصار)

4-ابو سلیمان الربعی المتوفی 379 ھجری

عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری کو ہوئی

( تاریخ مولدالعماء ووفاتھم 1/145)

5- حافظ ابن عساکر 571 ھجری

حافظ اب عساکر رحمتہ اللہ نے اپنی سند سے چار روایت نقل کرکے عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کی وفات 46 ھجری نقل فرمائی ہے اور واقدی کی کتاب الصوائف کے حوالے سے ایک روایت 47 ھجری نقل فرمائی ہے

( تاریخ دمشق 34/334)

6-حافظ ابن اثیر الجزری 630 ھجری

آپ نے بھی تاریخ وفات 47 ھجری نقل فرمائی ہے

( اسدالغابہ فی معرفتہ الصحابہ 3/436)

7- امام ذہبی 748 ھجری

امام ذہبی رحمتہ اللہ نے بھی تاریخ وفات 46 ھجری نقل فرمائی ہے

( تاریخ السلام ذہبی 2/419)

8- حافظ ابن حجر عسقلانی 852 ھجری

آپ اپنی مشہور تصنیف الاصابہ میں فرماتے ہیں کی عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری میں ہوئ.

( الاصابہ فی تمیز الصحابہ 5/28)

الغرض کسی ایک معتبر محدث و مورخ نے 57،61 ھجری تاریخ وفات نقل نہی کی ہے.

کتاب ایسے ہی دجل و فریب پر مبنی ہے اگر اسکی کتاب کا مکمل رددد کیا جائے تو 900 صفحات کے جواب میں 3000 صفحات کا بحر زخار تیار ہوجائے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top