• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ڈاکٹر رضوان اسد خان صاحب کی تحریریں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مردانہ دماغ کی سیر...!!!


یہ جو کہتے ہیں کہ "گند" تو دیکھنے والے کے دماغ میں ہوتا ہے، یہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں...!!!
جی نہیں، میں لبرل نہیں ہو گیا...
پوری بات تو سن لیں...
مخالف جنس کو صرف دیکھنا یا نہ دیکھنا ہی ایک مرد کے اختیار میں ہوتا ہے؛ کیونکہ دیکھنے کے بعد جو "برقی رو" آنکھوں سے اپنا سفر شروع کر کے جہاں جہاں تک اپنا اثر دکھاتی ہے، اسکے لئیے پھر اسے اس "بیچارے" کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی. گویا ایک گولی ہے جو آپکے ٹرگر دبانے پر نکل گئی ہے اور اب اسے روکنا ناممکن ہے...
چلیں شروع سے بات شروع کرتے ہیں:
پیدائش سے بھی پہلے ایک مرد میں، اسکا مخصوص مردانہ ہارمون، "ٹیسٹوسٹیرون" اپنا "اثر دکھانے" کا آغاز کر دیتا ہے. یہ ہر اس راستے کی ہر اس چوکی کو الرٹ (یعنی "ایکٹیویٹ") کر دیتا ہے جو جنسی کشش کی طرف جاتا ہے. اور وہاں موجود اہلکار (نیوروٹرانسمٹرز) اسے پہچان لیتے ہیں اور یہ جان لیتے ہیں کہ "جنرل صاحب" کو کس قسم کا "مال" پسند ہے. تاکہ بعد ازاں جب بھی مخصوص بصری (بشمول سمعی یا لمس سے پیدا ہونے والی) تحریک و تحریص کے "ایجنٹ" وہاں سے گزریں تو فوراً "جنرل ٹیسٹوسٹیرون" کو جگا دیا جائے.
بلوغت کے وقت "جنرل صاحب" جب پوری قوت سے اٹھتے ہیں اور مردانہ جسم پر مارشل لاء نافذ کر دیتے ہیں تو یہ دور جسمانی تاریخ کا "نازک ترین" دور بن جاتا ہے. بڑی بڑی تبدیلیاں "جنرل صاحب" کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر رونما ہوتی ہیں.
اس دور میں بالخصوص اور بعد میں بالعموم "جنرل ٹیسٹوسٹیرون" کو جوش دلانے کا سب سے مؤثر ذریعہ وہ بصری "پیغام بر" لہریں ہوتی ہیں جو جنس مخالف پر نظر پڑنے سے جنم لیتی ہیں.
یہ لہریں آنکھ کے پردے سے "پیغام" وصول کر کے برق رفتاری سے اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور دماغ کے ہر اس حصے تک پہنچا دیتی ہیں جنکا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ جنرل صاحب سے ہوتا ہے. اور یوں جیسے ہی دماغ کے وہ علاقے سگنل بھیجتے ہیں، جنرل صاحب "بے چین" ہو کر اپنی "سپاہ" کے ہراول دستوں کو "متحرک" کر دیتے ہیں. پھر ایک پورا نیٹ ورک حرکت میں آتا ہے اور دماغ پر اپنے کنٹرول کے ذریعے جسم کے دیگر حصوں کو بھی "مناسب" طریقے سے استعمال میں لاکر جنس مخالف کو اپنے زیر نگیں کرنے کی جنگ میں جھونک دیتا ہے.
یہ تو ہے سیدھا سادہ "فطری" یا "جبلی" ماڈل. لیکن انسان چونکہ دیگر جانوروں سے "آگے" ہے، اسی لئیے اس جنگ میں "ہتھیاروں" کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کیلئے ایک زبردست "کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم" بھی نسب ہے. اس کا ہیڈ کوارٹر دماغ کے اگلے حصے میں ہے جسے "پری فرنٹل کارٹیکس" کہتے ہیں. یہ تحریکی مواد کے جسمانی ردعمل کو صورتحال کے مطابق کنٹرول کرتا ہے اور جہاں سخت جوابی کارروائی (یعنی جوتے پڑنے) کا خطرہ ہو، وہاں فوراً جنرل صاحب کو سپر سیڈ کر کے پسپائی اختیار کرنے کا حکم جاری کرتا ہے.
اس "کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم" کی افادیت کا انحصار اول تو دماغ کے دوسرے حصوں کی "تربیت" پر ہے. اور دوسرے نمبر پر ایک کیمیکل، "ڈوپامین" کی مقدار بھی ردعمل کی شدت کا تعین کرتی ہے.
مثلاً جس دماغ کو سکھایا گیا ہو گا کہ جائز اور ناجائز تعلقات کیا ہوتے ہیں، وہ ایک فلٹر لگا کر ناجائز سمت میں ہونے والی کارروائی کو روک دے گا. اور جس دماغ کی تربیت جتنی ناقص ہو گی وہ اتنا ہی جانوروں کے مماثل ہو گا.
اسی طرح مخصوص بصری سگنلز کے تحت ڈوپامین کی مخصوص مقدار نکلتی ہے جو کہ تلذذ کی کیفیت پیدا کرتی ہے. لیکن کسی دوا کی طرح رفتہ رفتہ دماغ اس سگنل کا عادی ہو جاتا ہے اور اسی سگنل کی موصولی پر ڈوپامین کی وہ مقدار خارج نہیں کروا پاتا جو تلذذ کی کیفیت کیلئے ضروری ہوتی ہے. پھر اسکے لئیے سگنل کی طاقت بڑھانی پڑتی ہے.
یہی وجہ ہے کہ مخلوط ماحول میں رہنے والے جنس مخالف کے "محض" چہرے کیلئے کشش کم ہو جاتی ہے اور پھر انہیں اس حسِ تلذذ کیلئے آہستہ آہستہ جسم کے دیگر اعضاء کا دکھائی دینا ضروری محسوس ہوتا ہے. اور یوں جنس مخالف کو کم سے کم اور تنگ سے تنگ اور بالآخر کپڑوں کے بغیر دیکھنے کے جتن کئیے جاتے ہیں اور اگلے مرحلے پر ڈوپامین کی اسی "نشہ آور" ڈوز کیلئے غیر فطری طریقے اختیار کئیے جاتے ہیں.
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایسا نہیں کہ زیادہ اختلاط کی عادت اور تربیت سے "ہلکے بصری سگنلز" (مثلاً بے پردہ پر ملبوس خاتون) کی تحریص بالکل ختم ہو جاتی ہو. یہ چونکہ ایک فطری نظام ہے، لہٰذا کسی بیماری کی عدم موجودگی میں ایسا ناممکن ہے. اسی لئیے سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ مرد ان کمزور سگنلز کو مقوی کرنے کی کوششوں کی طرف مائل ہو گا جس سے حیوانی جبلت جو جنرل ٹیسٹوسٹیرون کی تسکین چاہتی ہے، وہ تربیت پر حاوی ہو جائے گی جسکا بد ترین انجام ریپ کی صورت میں نکل سکتا ہے.
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ الکحل اور کچھ منشیات پری فرنٹل کارٹیکس کے ممانعتی رسوخ کو بری طرح متاثر کر کے حیوانی جبلت کو مذید ابھارتے ہیں. ایسے میں جنس مخالف خود سے ایسی "ناز و ادا" اور ہیجان خیزی اختیار کرے تو یہ چیز کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو مکمل طور پر مفلوج کر سکتی ہے.
حاصلِ کلام یہ کہ برے نتائج سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ "اختیار کی حدود" کو پہچانا جائے، اور وہیں پر استعمال کر لیا جائے جہاں یہ امکان کی سرحدوں کے اندر اندر ہو. یعنی کسی بھی خاتون کو دیکھتے ساتھ ہی نظر ہٹا لی جائے، کیونکہ اسکے بعد معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں. اور خواتین بھی مردوں کیلئے تحریصی بصری لہروں کی تقویت کا سبب نہ بنیں اور حجاب اختیار کریں، کیونکہ:
"گند تو مرد کے دماغ میں ہوتا ہے...!! "

بشکریہ @خان ساب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رواداری اور دل آزاری کا "سی-سا"...!!!


"اسلام رواداری سکھاتا ہے"
"اسلام کسی کی دل آزاری سے منع کرتا ہے"

یہ وہ جملے ہیں جن سے ایک احمق ہی انکار کرے گا. لیکن کیا کریں ابلیس کے کمال تلبیس کا انہی دو جملوں پر اس نے لبرل ازم کی ایک پوری فکر اور تہذیب کھڑی کر دی اور پھر انہی دو فقروں کی بنیاد پر اسے عین اسلامی بھی ثابت کروا دیا...!!! اگر آپکو جاننا ہو کہ آپکا یہ ازلی دشمن کیسے کسی کے (برے) اعمال کو خوشنما کر کے دکھاتا ہے تو کسی بھی لبرل مسلم سے مل لیں.

فارمولا یہ ہے کہ اصطلاح وہی رہنے دو، اسکا مفہوم بدل دو.

دہشتگردی کو کون پاگل جائز کہتا ہے. پر جب آپ کسی مقبوضہ علاقے کے حریت پسند کو دہشتگرد کہنا شروع کر دیں گے تو ایک فطری جذبہ قابل نفرت بن جائے گا.
کسی بھی نظام کے بنیادی اصولوں سے محبت اور انکی پابندی، اس نظام سے وابستگی کی پہلی شرط ہوتی ہے. پر آپ "بنیاد پرستی" کو شدت پسندی کا مترادف بنا دیں. اب اس سے مؤثر ذریعہ کسی بھی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا آپکو اور کہیں نہیں ملے گا.

بعینہ رواداری جیسے ایک پسندیدہ اور مطلوب وصف کو جب آپ حدود و قیود سے آزاد کر دیں گے تو قرآن پڑھنا بھی رواداری کے خلاف قرار پائے گا. اب آپ مجبور ہیں کہ اس کی آیات کو بدل تو سکتے نہیں، لہٰذا اب رواداری کی چھتری تان لیں اور عیسائیوں کے سامنے مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ کہنے کی مذمت میں اتری آیات پڑھنے سے اجتناب کریں. یہی رواداری ہے اور اس کے خلاف ہر عمل دل آزاری...!!!

اب "یا ایھا الکافرون" کو تو نکال نہیں سکتے. کوئی مسئلہ نہیں. "کافرون" کا مفہوم ہی بدل دیں. لو جی مسئلہ حل ہو گیا. اب غامدی صاحب نے جو مفہوم آپکو سکھا دیا ہے اسکے مطابق آج کی دنیا میں تو کافر کوئی ہے ہی نہیں. نہ کسی کو کافر کہیں، نہ قرآن اس کی دل آزاری کا باعث بنے...!!!

آپ جہاز میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں؟ ادھر ادھر دیکھ لیں. کہیں کسی کی دل آزاری ہو گئی تو اس نے دہشت گردانہ افعال کرنے پر آپکو جہاز سے اتروا دینا ہے.

اچھا آپ فرانس میں رہتی ہیں؟ آپکو پتہ ہے کہ آپکے حجاب سے انکی دل آزاری ہوتی ہے؟ وہ نقاب میں آپکے ساتھ "کمفرٹیبل" فیل نہیں کرتے، کیونکہ اس طرح سے آپ انکی نظروں کی "کمفرٹ" کے انکے پیدائشی حق سے انہیں محروم کر دیتی ہیں. دیکھیں ناں ایک سیکولر کا دین اسکے ملک کا قانون ہی تو ہوتا ہے. اب آپ اسکی خلاف ورزی کر کے رواداری کے خلاف عمل کر رہی ہیں اور انکی دل آزاری کا باعث بن رہی ہیں. اور یہ بات تو آپکے اپنے دین کے بھی خلاف ہے. اور پھر آپ نے انکے قانون کی پابندی کا حلف بھی تو اٹھا رکھا ہے. کیا فرق پڑتا ہے اگر بعد میں اس میں آپکی مرضی کے خلاف ترمیم ہو گئی تو. بھئی انکا ملک ہے، وہ جو مرضی کریں. کم از کم سعودی عرب کی طرح زبردستی نمازیں پڑھوا کر کسی کی دل آزاری تو نہیں کرتے ناں...!!!

اچھا تو آپ دین کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں. آپ امریکیوں کو زنا اور ہم جنس پرستی سے روکنا چاہتے ہیں؟ لیکن آپکو پتہ ہے کہ یہ انکا ذاتی معاملہ ہے اور ایسا کر کے آپ "ایل جی بی ٹی" کمیونٹی کے حقوق کی خلاف ورزی کر کے انکی دل آزاری کا باعث بنیں گے...!!!

تو آپ چاہتے ہیں کہ اپنی مسلم بہنوں کو ڈیٹنگ سے منع کریں کہ نامحرم سے خلوت میں ملنا حرام ہے. بھئ جب انکے والدین کو اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے ایک عاقل بالغ لڑکی کو؟ اور آپ جیسے کسی ملا کے حرام کہہ دینے سے کوئی چیز حرام تھوڑی ہو جاتی ہے؟ حدیثیں تو ویسے ہی ساری مشکوک ہیں جنہیں آپ ملا لوگ اپنی دکان داری کیلئے استعمال کرتے ہیں. آپ تو ویسے ہی عورت کے حقوق کے خلاف ہیں اور اسے اپنی جاگیر بنا کر رکھنا چاہتے ہیں. رواداری تو آپکو چھو کر نہیں گزری اور آپکو پتہ ہی نہیں کہ دین کی کسی بات کو "حکمت" سے نہ کرنا کسی کی دل آزاری کا باعث بن سکتا ہے.

تو جناب اگر آپ نے فسق، منافقت اور شرک پر قرآن کی جہنم کی وعید پر مشتمل آیات سنا کر دل آزاری اور رواداری کے "سی-سا" کا توازن خراب کیا، اور داروغہ جہنم اور ٹھیکیدارِ جنت بننے کی کوشش کی تو "تہذیب نو" میں آپکے لئیے کوئی جگہ نہیں اور آپ مزید اس جھولے کے مزے لینے کے قابل نہیں رہے. جائیں جا کر کسی سینڈ بیگ پر مکے برسا کر اپنا "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا غبار نکالیں...!!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر...!!!

کل کی 2 خبریں نہایت افسوسناک بھی ہیں اور شخصی آزادی، جمہوریت، سیکولرازم وغیرہ جیسے چورن اور چٹنیاں بیچنے والوں کیلئے سوالیہ نشان بھی.
پہلی خبر کے مطابق مراکش کی مسلم حکومت نے سکیورٹی کے نام پر عورتوں کے نقاب والے برقعوں/عبائیوں پر پابندی عائد کر دی ہے.
فنگر پرنٹس، ریٹینل سکین، قدم قدم پر سی سی ٹی وی کیمراز، موبائل فون ٹریکنگ، حتی کہ شناختی کارڈز پر بھی سم انسٹالیشن کے اس دور میں اس قسم کی پابندیوں کی یہ توجیہہ محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے.
یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ فرانس کے ساتھ مراکش کے تاریخی "دوستانہ" تعلقات ہیں اور آج بھی انکی معیشت کا بڑا انحصار فرانس پر ہے. مجھے تو یہ محض اپنے آقا کو خوش کرنے کی بھونڈی کوشش لگتی ہے. یہ بھی ممکن ہے کہ یہ "سکیورٹی خدشات" فرانس کے ہی ہوں جن سے اپنے طریقے سے نبٹنے کیلئے اس نے اپنی "کالونی" میں یہ قانون نافذ کروایا ہو.
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ چہرے کا پردہ مراکش کے شمالی سلفی علاقے میں زیادہ کیا جاتا ہے اور یہاں سے ہزاروں لوگ شام کی طرف ہجرت کر چکے ہیں وہاں کے عوام کی نصرت کیلئے.
...........
دوسری خبر کے ڈانڈے بھی فرانسیسی نحوست سے ملتے ہیں. سوٹزرلینڈ کے شہر بزیل (Basel) کے سکولوں میں پیراکی کی کلاسز لینا ہر طالب علم کیلئے ضروری ہے اور یہ کہنے کی حاجت نہیں کہ یہ کلاسز مخلوط ہوتی ہیں. 2012 میں ایک مسلمان جوڑے نے اپنی 2 بیٹیوں کو ان کلاسز میں شامل ہونے سے روک دیا جس پر سکول نے ان پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا. انہوں نے اسکے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جو وہ ہار گئے. سوٹزرلینڈ کی اعلی ترین عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ پابندی کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں....!!!
جوڑے نے ہمت نہ ہاری اور فرانس کے شہر سٹریس برگ میں یورپی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی جسکا فیصلہ اب سنایا گیا ہے.
اس مضحکہ خیز ترین فیصلے میں "فاضل" جج ساب فرماتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ یہ پابندی کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے(پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ) پر ہم "سوشل ایوینٹس" سے کسی بچے کو دور رکھنے کی کسی کوشش کی حمایت نہیں کر سکتے؛ اور اس لحاظ سے سکول انتظامیہ کا فیصلہ بالکل درست ہے...!!!
.............
گویا جسم کی نمائش پر مبنی "سوشل گیدرنگ" کے علاوہ اور کوئی گیدرنگ ہوتی ہی نہیں دنیا میں. اور اگر کسی بچی نے دوسروں کو اپنے جسم کے خدوخال اور نشیب و فراز سے متعارف نہ کروایا تو وہ "تربیت" کے ایک نہایت اہم پہلو سے محروم رہ جائے گی.....!!!
.............
اور ہم پھر یہی کہتے ہیں کہ لبرل ازم عورت کی آزادی کا نہیں، عورت تک پہنچنے کی آزادی کا نام ہے...!!!​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دین فطرت میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کی تعریف میں مبالغے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟
حالانکہ عام حالات میں نہ منہ پہ تعریف جائز ہے اور نہ مبالغہ۔!!!
انسان نفسیاتی طور پہ سراہے جانے کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اسکا ایک نقصان یہ ہے کہ اگر اس توصیف میں توازن نہ ہو تو یہ موصوف کو اپنی ذات کی اکملیت کے دھوکے میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ خوب تر کی جستجو سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ اسی لیئے یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔
لیکن زوجین کے معاملے میں اس اصول میں استثناء رکھا گیا ہے کیونکہ تعریف ایک ڈھال بھی ہے اور ایک ہتھیار بھی۔ اگر بیوی کی تعریف کی "ڈھال" شوہر کو میسر نہیں ہو گی تو وہ کسی اور کی تعریف کے "ہتھیار" سے گھائل ہو جائے گا۔ اور بیویوں کے لیے تو معاملہ اور بھی نازک ہے کہ عورت فطرتاً تعریف کو زیادہ پسند کرتی ہے اور اسکے کسی بد نیت و بد طینت معترف کے داؤ کا شکار ہونے کا مطلب پورے کنبے کی تباہی ہے۔
زوجین کی باہمی تحسین کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ انانیت کے خاتمے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ کسی کی تعریف میں سب سے بڑی رکاوٹ انا ہے۔ اور گھریلو ناچاقی کا سب سے بڑا سبب بھی یہی انا پرستی ہے۔
پر ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تعریف کا حقدار بننے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ محض مبالغے پہ انحصار "کاؤنٹر پروڈکٹِو" بھی ہو سکتا ہے۔
مثلا، بیگم شوہر کی آمد پر بھنگن بنی بیٹھی ہو اور وہ اسکو مس یونیورس سے تشبیہ دے رہا ہو تو صورتحال رومینٹک تو نہیں، مضحکہ خیز ضرور بن سکتی ہے۔
اسی طرح شوہر چھٹی والے دن بنیان، نیکر میں پریشان زلفوں اور بدبودار سانسوں اور بغلوں کے ساتھ نانا پاٹیکر بنا پھرتا رہے تو بیگم کا اسے ٹام کروز سے زیادہ سمارٹ کہنا بھی ایک لطیفہ ہی ہو گا۔!!!
سو کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے روزانہ ایک دوسرے کی کم از کم اتنی تعریف ضرور کریں کہ اس 'ضرورت' کی تکمیل کے لیے آپکے شریک حیات کو باہر سے "قرض" نہ لینا پڑے۔
کیونکہ قرض تو قرض ہے، اور اسے چکانا بھی پڑتا ہے۔!!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لبرل ازم اور ریڈیکل اسلام

ایک بار پھر ہمیں الجھی ہوئی اصطلاحات کا سامنا ہے. پر کاش معاملہ اتنا ہی سادہ اور محض اصطلاحات تک محدود ہوتا. لیکن یہاں تو ایک الجھا ہوا شخص ایک الجھی ہوئی ٹرم کو لیکر ایک الجھی ہوئی جنگ میں دنیا کو الجھانے چلا ہے.
ٹرمپ نے دنیا کا طاقتور ترین عہدہ سنبھالتے ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ وہ دنیا سے "ریڈیکل اسلام" کا خاتمہ کر کے دم لے گا.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ "ریڈیکل اسلام" دراصل ہے کیا؟ اور کس فرد یا ریاست کو "ریڈیکل" قرار دیکر اسکا صفایا کیا جائے گا؟
بیک وقت دلچسپ اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اس اصطلاح کی فی الحال کوئی بھی "متفق علیہ" تعریف نہیں ہے.
"ریڈیکل" کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ "ریڈکس" سے ماخوذ ہے جسکے معنی "جڑ" کے ہیں. اس لحاظ سے کچھ لوگ اسے "بنیاد پرست اسلام" اور کچھ "انتہا پسند اسلام" کے مترادف قرار دیتے ہیں. یہ دونوں پرانی اصطلاحات ہیں اور انہیں بھی ماضی میں اسلام کے خلاف جنگ میں انکے معنی اور تعریف میں ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی کے مطالب دیکر استعمال کیا گیا ہے. لیکن جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اپنے مذہب کی "بنیادوں پر" سختی سے عمل کرنے میں یا "انتہائی" جانفشانی سے دین کے احکامات پر عمل کرنے میں کیا برائی ہے تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا. اس لحاظ سے اگر "ریڈیکل" کا ترجمہ "بنیادی" یا "ضروری" کیا جائے تو یہ کہنا کہ امریکہ ریڈیکل اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور یہ کہنا کہ امریکہ اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، ایک ہی بات ہے کیونکہ اسلام کی "بنیاد" یا "ضرورت" کو نکال دیں تو پیچھے کیا بچتا ہے...!!!
لہذا اس بار "ریڈیکل اسلام" کا منجن ایک نئی پیکنگ میں متعارف کروایا جا رہا ہے اور اس شدت سے کہ اس اصطلاح کے عدم استعمال پر ٹرمپ نے اوبامہ اور ہلری کے نہ صرف یہ کہ خوب لتے لیے بلکہ انہیں اسلام کے اس ورژن سے مغلوب بھی قرار دیا (بعد میں اس دباؤ کے نتیجے میں ہلری نے بھی اپنی تقریر میں اسکا استعمال کیا).
البتہ اس بار نعمت غیر مترقبہ کے طور پر انہیں دنیا کو "ریڈیکل اسلام" کا عملی نمونہ دکھانے اور اس سے ڈرانے کیلئے داعش جیسی تنظیم بھی مل گئی. بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں شیخ محمد بن عبد الوہاب رح کی تحریک کو "وہاب ازم" کا نام دیکر اور بعد میں اسامہ بن لادن کی "القاعدہ" کو "بنیاد پرستی" اور "انتہا پسندی" کا استعارہ بنا کر مغربی عوام کو ڈرایا گیا تاکہ انکے ٹیکس کی دولت سے انکے خلاف جنگ مسلط کی جائے.

لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ اسکا مصداق کونسے مسلمان ہونگے اور کس بنیاد پر کسی کو ریڈیکل قرار دیا جائے گا؟ اس مخمصے کی شدت کا اندازہ آپکو اس ایک مثال سے بآسانی ہو سکتا ہے کہ جب سان برنارڈینو میں ہم جنس پرستوں پر قاتلانہ حملہ ہوا تو ٹرمپ نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ "ریڈیکل مسلمانوں" کو بین کر دو بلکہ اس نے کہا کہ "مسلمانوں" کو بین کر دو؛ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بصورت دیگر اسے یہ بتانا پڑے گا کہ کون سے مسلمان ریڈیکل ہیں اور کونسے نہیں، جو کہ تقریباً ناممکن تھا...!!!
اب اس ٹرم کا جو مطلب عموماً لیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو زبردستی منوانا اور نہ ماننے والوں کو سزا دینا. ان معنوں میں یہ لبرل ازم کی بالکل متضاد فکر کے طور پر سامنے آتا ہے جو کہ اسوقت مغرب میں رائج دین ہے.
اس نکتہ نظر سے دیکھیں تو جس طرح جمہوریت کے مقابلے میں کمیونزم کو ہوّا بنا کر پورے مغربی بلاک کو روس کے خلاف جنگ میں جھونکا گیا تھا؛ اور پھر جسطرح اسی چکی میں گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح ارجنٹینا، چلی، برازیل، چائنہ وغیرہ جیسے ممالک کو بھی کمیونزم کے "سہولت کار" کا الزام لگا کر پیس دیا گیا؛ بعینہ اسی طرح اب لبرل ازم کے مقابلے پر "ریڈیکل اسلام" کی اصطلاح کے پردے میں پورے اسلام پر اور داعش کے بہانے ہر قسم کی حریت پسند تنظیم یا حکومت پر جنگ مسلط کرنے اور انکا خاتمہ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے...!!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
"مثالی لبرلز" کا مکروہ چہرہ

ہالی ووڈ اداکارہ لنڈسے لوہن نے حال ہی میں ترکی کے شہر "عینتاب" میں شامی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے "غلطی سے" ایک ترک خاتون کے سکارف کے خوبصورت رنگوں کی تعریف کر دی۔ اس مہمان نواز ترک خاتون نے فوراً سر سے سکارف اتارا اور اپنی مہمان کے سر پر تحفتاً پہنا دیا۔ لنڈسے اس ادا سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ سکارف سر سے اتار کر میزبان خاتون کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہناچائیں گی۔ یہ انکی دوسری "بڑی غلطی" ثابت ہوئی۔ بس کیمروں کے سامنے آنا تھا کہ میڈیا کے خونخوار بھیڑئیے سب کچھ بھول کر انکے سکارف کے پیچھے پڑ گئے۔۔!!!
بھاڑ میں گیا لبرل ازم اور تیل لینے گئی شخصی آزادی۔۔۔!!!
ایک سلیبرٹی کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ "دہشتگردوں" کا "امتیازی نشان" اپنے سر پر سجائے؟!!!
اسے تو ہم نے پیروں تلے روندنا تھا۔۔!!!
اس پر مستزاد یہ کہ لندن میں انہیں انکے کسی سعودی دوست نے مطالعے کی غرض سے قرآن کا ایک نسخہ ہدیہ کر دیا۔ وہ اس سے اتنی متاثر ہوئیں کہ ہر جگہ اسے ساتھ لے جاتیں اور جب موقعہ ملتا اسکا مطالعہ کرتیں۔
(ویسے یہ مجھ جیسوں کے لیے شدید شرم کا مقام ہے۔۔۔!!!)
اور اسی عادت سے مجبور وہ اسے اپنے ساتھ امریکہ بھی لے گئیں۔ وہاں کسی "اینٹی لبرل" پاپارازی نے انہیں راہ چلتے قرآن کے ساتھ دیکھ لیا۔۔۔۔۔
بس پھر کیا تھا۔۔۔۔
وہ اگر شراب کے نشے میں دھت، نیم برہنہ حالت میں کسی اجنبی لوفر کے ساتھ دیکھی جاتیں تو شاید اتنا شور نہ مچتا۔۔۔!!!
مگر یہ کیا؟!!!
"دہشتگردی کا منشور" ہاتھ میں لے کر سرعام پھرنا؟!!!
یہ تو ناقانل معافی جرم ہے۔۔۔!!!
انکے اپنے الفاظ میں انہیں فوراً شیطان کا درجہ دے دیا گیا اور میڈیا میں وہ شور مچا کہ انہیں "اپنی جان بچا کر" واپس لندن بھاگنا پڑا۔ اور پھر اپنے انٹرویو میں وہ پھٹ ہی تو پڑیں۔۔۔!!!
"کسی ایرے غیرے کو کیا حق پہنچتا ہے انکی ذاتی زندگی میں مداخلت کا؟"
"وہ کیا پہنتی ہیں، کیا پڑھتی ہیں۔۔۔ کسی کو کیا تکلیف ہے؟"
جی یہ بالکل وہی بنیادی انسانی اور بالخصوص خواتین کے حقوق ہیں جو انہیں دلانے کے لیے امریکہ کسی ملک پر ہزاروں بم گرانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ پر اپنے سلیبرٹیز کو اصحاب الاخدود والے مثالی موحد لڑکے کے نقش قدم پر چلتے دیکھ کر وہ اسی ظالم بادشاہ اور جادوگر کا روپ دھار لیتا ہے جنہوں نے آگ کی خندقیں کھدوائیں اور اہل ایمان کو ان میں پھنکوا کر کنارے بیٹھ کر انکا تماشہ دیکھا۔۔۔!!!
اور پھر منافقت بھی دہری ۔۔۔!!!
جولیا رابرٹس ہندو دھرم قبول کر لے،ڈریو بیری مور، ازلا فشر، جیک بلیک اور
انتہا تو یہ ہے کہ ڈانلڈ ٹرمپ کی اپنی بیٹی یہودی مذہب قبول کر لیں تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔!!!
تکلیف ہوتی ہے کسی سٹار کے اذان کی تعریف کرنے سے، نماز کو پسند کرنے سے، قران پکڑنے سے، سکارف پہننے سے۔۔۔!!!
ہم تو اپنے یہاں والوں کو دہرے معیار کی وجہ سے "دیسی لبرل" اور "کالے انگریز" کہتے تھے،
یہ تو سالے اصلی انگریز بھی لنڈے کے نکلے۔۔۔۔ دو نمبر۔۔۔!!!​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ڈی این اے اور قومیت

پچھلے سال جون میں ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی. صرف فیسبک پر کچھ ہی دنوں میں 26 ملین لوگوں اسے دیکھ چکے تھے.
اس ویڈیو میں مختلف نسلوں اور قومیتوں کے لوگوں کو اکٹھا کر کے انکا فرداً فرداً انٹرویو کیا گیا جس میں سب نے اپنے اپنے نسلی اور قومی امتیازات پر روشنی ڈالی. پھر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی قوم کیلئے اپنے دل میں منفی جذبات رکھتے ہیں؟ تو بنگالی نے پاکستانی کے خلاف، کرد نے ترک کے خلاف، فرانسیسی نے برطانوی کے خلاف، برطانوی نے جرمن کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا.
اسکے بعد تمام شرکاء کے ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے انکے لعاب کا سیمپل لیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ انکے جینز یہ بتائیں گے کہ انکا تعلق تاریخی اور عمرانی حوالے سے کس علاقے سے ہے.

تین دن بعد جب نتائج انکے حوالے کئیے گئے تو رپورٹ پڑھتے ہی اکثر کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں.... کیونکہ ان میں سے کئی لوگوں کی اپنی نسلی جڑیں ان علاقوں سے نکلیں جنکے باسیوں سے وہ نفرت کرتے تھے.

آخر میں پیغام یہ دیا گیا کہ سب لوگ ایک دوسرے کے کزنز ہیں اور یہ کہ قومیت اور نسل کی بنیاد پر محبت اور نفرت ایک بے بنیاد سوچ ہے.
اور چونکہ یہ تجربہ ایک سیاحتی کمپنی (Momondo) کی جانب سے تھا، لہٰذا شرکاء کو ترغیب دی گئی کہ اب وہ ان علاقوں کے سفر پر نکلیں جن سے اب تک وہ کسی تعصب کے باعث کتراتے رہے تھے.

اس ویڈیو کو کمپنی نے حقیقی قرار دیا جبکہ معترضین نے اسے اداکاروں کی مدد سے ترتیب دیا گیا محض ایک اشتہار ثابت کرنے پر زور لگایا. اور کچھ سائنسدانوں نے اسکی سائینسی بنیادوں پر سوالات اٹھائے.

پر ان سب "تکنیکی" نکات سے قطع نظر، اگر اس کے مقصد اور پیغام پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر خطباتِ جمعہ اور ہر خطبہ نکاح میں نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم سورۃ النساء کی یہ آیت کیوں تلاوت فرماتے:

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفۡسٍ۬ وَٲحِدَةٍ۬ وَخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالاً۬ كَثِيرً۬ا وَنِسَآءً۬‌ۚ

"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں" (1)

اور سورۃ الحجرات کی یہ آیت:

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ۬ وَأُنثَىٰ وَجَعَلۡنَـٰكُمۡ شُعُوبً۬ا وَقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوٓاْ‌ۚ إِنَّ أَڪۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَٮٰكُمۡ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۬

"ا ے لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے. بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے" (۱۳)

اور پھر خطبہ حجۃ الوداع کا آفاقی پیغام.
یہ سب تعلیمات نسلی اور قومی تعصب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں.

بلکہ یہی نہیں، میرے نزدیک تو ان آیات اور اس ویڈیو میں آجکل کے ایک بہت بڑے فتنے، یعنی "نیشنل ازم" کا رد بھی ہے.

اگر آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارتی، بنگالی، افغانی، کشمیری، برمی، چیچن، یمنی، شامی، عراقی، فلسطینی مسلمان آپکے "دینی" بھائی ہیں تو کم از کم یہی سوچ لیں کہ ہو سکتا ہے آپکا ان سے خون کا رشتہ بھی ہو. عین ممکن ہے آپکے اور انکے جینز کا ماخذ چار پانچ نسلیں پیچھے جا کر ایک ہی نکل آئے....!!!

"سب سے پہلے میرا ملک"

جیسا نعرہ لگاتے ہوئے کہیں آپ اپنے کسی رشتے دار کو تو نہیں دھتکار رہے؟

کیوں کہ اوپر سورۃ النساء کی اسی پہلی ہی آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے:

وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلۡأَرۡحَامَ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيبً۬ا

"اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرےسے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو بے شک الله تم پر نگرانی کر رہا ہے"

یعنی پوری نسل انسانی کو ایک ہی باپ کی اولاد قرار دے کر ساتھ ہی قطع رحمی سے ڈرانا بے معنی نہیں ہو سکتا....!!!

(اور یہی بات اسکی خطبہ نکاح میں تلاوت کی حکمت بھی ہے کہ اس عمل کے بعد نئے رحمی رشتوں کا قیام ہونے جا رہا ہے جنکی حرمت کی پاسبانی ضروری ہے)

اور پھر اب جبکہ یہ نعرہ ٹرمپ جیسا مخبوط الحواس بھی لگا رہا ہے؛
تو کیا آپ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں؟
ویڈیو لنک
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لبرل ازم اور سیکولر ازم کے انفرادی سطح پر تباہ کن نتائج

ویسے تو سیکولرازم کا ذکر زیادہ تر ریاست کی سطح پر کیا جاتا ہے، لیکن انفرادی سطح پر بھی اسکے نتائج دین کے حوالے سے بھیانک ہیں.
جب ایک شخص یہ باور کر لیتا ہے کہ دین اسکا ذاتی معاملہ ہے تو اسکا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کسی بھی مسئلے میں نہ کسی کی مداخلت قبول کرے اور نہ ہی کسی معاملے کے دینی پہلو کیلئے اپنے آپ کو کسی کا محتاج خیال کرے. یوں اسکا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ میرے کمپیوٹر اور موبائل میں قران اور صحاح ستہ موجود ہیں. دنیا جہان کی تفاسیر اور ترجمے میرے ایک اشارے کے منتظر ہیں. میں خود ایک تعلیم یافتہ، باشعور شہری ہوں اور اس قسم کے مسائل خود حل کر سکتا ہوں. کسی مولوی کو یہ اختیار نہیں کہ مجھے رہنمائی دیتا پھرے.
میں مسجد جاتا ہوں تو مولوی کون ہوتا ہے جو مجھے بغیر بازو یا تصویر والی شرٹ پہننے سے منع کرے. یہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے.
زکوٰۃ میرا مسئلہ ہے. میں دوں، نہ دوں، کتنی دوں، یہ میرا اور خدا کا مسئلہ ہے. میں خود چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہوں؛ کسی مولوی کو یہ حق نہیں کہ میرے اثاثوں کا آڈٹ کر کے مجھے بتائے کہ کتنی زکوٰۃ نکالنی ہے.
میں روزہ رکھوں، نہ رکھوں، گھر میں کھاؤں، ریڑھی پر کھاؤں، فائیو سٹار ہوٹل میں کھاؤں، یہ مولویوں کو کیا تکلیف ہے کہ پولیس سے چھاپے مروا کے ریسٹورنٹ بند کروائے اور کھانے پینے جیسے انتہائی ذاتی فعل میں مداخلت کرے.
میں وراثت میں کسی کیلئے کتنا مال چھوڑ کے جاؤں، سارا چیرٹی میں دوں، کسی کو عاق کروں، یہ مولوی کون ہوتا ہے میرے وارثوں کو پٹیاں پڑھانے والا.
میں کسی کو نبی مانوں یا ولی، یہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے. یہ مولوی کو کس نے حق دیا میرے ایمان و کفر کے فیصلے کا. میں کیوں انہیں خدا مانوں.
و علی ھذا القیاس...
یعنی گیم یہ ہے کہ دین کو بھی ایک گیم بنا دیا جائے، جسکے پلئیرز کا تعین بھی "مائی لائف، مائی چوائس" کی بنیاد پر ہو گا نہ کہ کسی،​
"فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"
کی بنیاد پر...!!!​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خسرا کہیں کا...!!!

کوئی بتا رہا تھا کہ آجکل ایک ڈرامہ چل رہا ہے جس میں ایک درمیانی جنس کے بچے کو معاشرے میں پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے. بتانے والے نے ساتھ ہی اس معاملے میں خسروں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا.
میرا مؤقف اس سلسلے میں کافی مختلف ہے. ہو سکتا ہے آپکو اس سے اختلاف ہو اور یہ آپکا حق بھی ہے.
میرا کہنا یہ ہے کہ خسروں سے ہمدردی ضرور ہونی چاہئیے لیکن ایک خاص تناظر میں. اور وہ تناظر ہے انکا علاج کروا کے انہیں معاشرے کا ایک فعال فرد بنانا. آجکل کے دور میں یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں رہا. ہر پیدا ہونے والا بچہ جسکی جنس کا تعین ممکن نہ ہو اسکی مکمل تشخیص اور علاج ممکن ہے. لیکن چونکہ عوام میں اسکا شعور نہیں اور نہ ایسے علاج کی طلب ہے، اسلئیے اس مسئلے کے سپیشلسٹ بھی بہت کم ہیں اور اس فیلڈ میں بہت کام کی گنجائش ہے. ایسے ہی جو "حقیقی خسرے" بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہیں انکا علاج نفسیاتی پیچیدگیوں کے باعث مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں. باقی جو نفسیاتی مریض مخالف جنس کا حلیہ بنانے پر اپنے آپکو مجبور پاتے ہیں، انکا نفسیاتی علاج کروایا جائے.
لیکن ہر مسئلے کی طرح اس معاملے میں بھی ہم میڈیا کے زیر اثر مخالف سمت میں سرگرم ہونا چاہ رہے ہیں.
مغرب میں آجکل جس کمیونٹی کے حقوق پر انکا میڈیا اور اسکے پیروکار سب سے زیادہ زور دے رہے ہیں، وہ "ایل.جی.بی.ٹی.کیو" کمیونٹی ہے.
یہاں "ایل" سے مراد ہیں "لیزبینز"، یعنی زنانہ ہم جنس پرست.
" جی" سے مراد ہیں "گے"، یعنی مردانہ ہم جنس پرست.
"بی" سے مراد ہیں "بائی سیکشوول"، یعنی ایسا مرد یا عورت جو دونوں جنسوں سے ہمبستری کا قائل ہو.
"ٹی" سے مراد ہیں "ٹرانزجینڈر"، یعنی وہ لوگ جو پیدائشی طور پر اپنے آپ سے (غلط یا درست طور پر) منسوب جنس کو قبول نہ کرتے ہوں.
" ٹرانز جینڈر" ایک کثیر المعانی اصطلاح ہے جس میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو شروع سے ہی دونوں جنسوں کے اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں. انکو "انٹرسیکس" کہتے ہیں. انکا تناسب انتہائی کم ہے. ان میں وہ بھی ہیں جو کسی نفسیاتی یا جسمانی وجہ سے جنس تبدیل کروا لیں. انہیں "ٹرانز سیکشوول" کہتے ہیں. ان میں وہ بھی ہیں جن کو تبدیل جنس کی طبی نکتہ نظر سے ضرورت تو ہو پر وہ اس پہ راضی نہ ہوں.
اور ان میں وہ بھی ہیں جو مخالف جنس کے کپڑے پہن کر یا حلیہ اختیار کر کے جنسی تلذز حاصل کرتے ہوں.
"کیو" سے مراد ہیں "کوئیر"، یعنی وہ لوگ جو جنسی لحاظ سے کسی بھی قسم کی تقسیم کے قائل نہ ہوں. کوئیر کا لفظی مطلب ہے" عجیب". اس لحاظ یہ لوگ واقعی عجیب ترین ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کسی انسان کو مرد، عورت، خسرا، ہم جنس پرست، وغیرہ میں شمار کرنا بھی ایک قسم کا تعصب ہے...!!!
آج سے پچیس سال قبل یہ تمام لوگ میڈیکل فیلڈ میں ایسے ذہنی اور نفسیاتی مریض سمجھے جاتے تھے جنہیں علاج کی ضرورت ہو. پر اب انکی پچیس سالہ تحریک کے نتیجے میں کسی ڈاکٹر کا انہیں "مریض" یا "ایبنارمل" سمجھنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے...!!!
یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ پانچ مختلف تحقیقات کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ میڈیا میں ہم جنس پرستوں کو نمائیندگی دینے سے پبلک میں انکے منفی تاثر میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے...!!!
حاصل کلام یہ کہ مغربی معاشرے اور مغربی میڈیا کی اندھی تقلید میں ہمارے یہاں کے لبرلز بھی جنس کو ہر لحاظ سے ایک شخص کا ذاتی معاملہ بنا کر اسکا احترام کرنے کا درس دیتے پائے جاتے ہیں خواہ معاشرے پر اس طرز عمل کا کیسا ہی منفی اثر پڑتا ہو.
شادیوں پر مجرے کرتے، چوکوں پر بھیک مانگتے، جنسی بے راہ روی کو پروان چڑھاتے خسرے اب ایک پیشے کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس میں بہت سے "نارمل" مرد بھی مالی فائدے کیلئے شامل ہو رہے ہیں. لاہور میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے یہاں ایڈز کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ "ٹرانز ویسٹائیٹس" یعنی وہ مرد ہیں جو عورتوں کا حلیہ بنائے پھرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں یہ لوگ پیش پیش ہیں. پورن موویز میں بھی ان کی خصوصی کیٹیگری ہوتی ہے...!!!
خسروں کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں. لیکن بجائے اسکے کہ ہم گنگا کو الٹی سمت بہانے کی کوشش میں اٹھارہ کروڑ عوام کے انکے بارے میں تاریخی تاثر کو بدلنے کی کوشش کریں، ضرورت اس بات کی ہے کہ انکے علاج کی تحریک چلا کر انکا وجود ہی معاشرے سے ختم کر دیں....!!!
 
Top