• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ڈاکٹر رضوان اسد خان صاحب کی تحریریں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
Value Clarification and Attitude Transformation

یہ ایک تربیتی ورکشاپ کا عنوان ہے جسکا اردو ترجمہ ہے:
"اقدار کی توضیح اور رویوں میں کایا پلٹ"

کچھ سمجھے؟
نہیں؟
چلیں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں:
فرض کریں کہ آپ منشیات کے عادی لوگوں کے معالج ہیں. اس مقصد کیلئے آپکو کبھی کبھی مریض کو ہیروئین بھی استعمال کروانا پڑتی ہے. اب آپکے پاس ایک نشئی آتا ہے اور آپ سے ہیروئین طلب کرتا ہے. آپکو پتہ ہے کہ یہ علاج کیلئے نہیں آیا بلکہ محض نشہ پورا کرنا چاہتا ہے.
سوال یہ ہے کہ کیا آپ اسکو نشہ فراہم کر دیں گے؟

آپکا جواب یقیناً نفی میں ہو گا.
اب ایک "ہیومنسٹ" آپکے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اسوقت شدید ضرورتمند ہے. اگر آپ نے اسے اپنی "خالص" ہیروئین نہ دی تو یہ کہیں سے گھٹیا کوالٹی کا نشہ لے لے گا اور ہو سکتا ہے اس سے اسکی موت بھی واقع ہو جائے.
آپ کچھ سوچتے ہیں. اسکی موت کی ذمہ داری کہیں آپ پر تو نہیں پڑے گی؟ لیکن پھر آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ، نہیں؛ میری طرف سے بھاڑ میں جائے. میں اسکے جرم میں شریک نہیں ہو سکتا.
اب وہ ہیومنسٹ آپ سے پوچھتا ہے کہ کبھی آپکی زندگی میں ایسا موقعہ آیا کہ جب آپ نے حالات کی شدت سے گھبرا کر دین یا قانون کے خلاف کوئی فیصلہ کیا ہو؟
اب آپ گہری سوچ میں کھو جاتے ہیں اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر میں اپنی کسی مجبوری کیلئے وقتی طور پر اللہ کے حکم یا اپنے کسی اصول کے خلاف چل سکتا ہوں تو اسکی "زندگی بچانے" کیلئے کیوں نہیں؟!!!
تو جناب،اب آپکو سمجھ آئی کہ
"اقدار کی توضیح اور رویوں میں کایا پلٹ"
کیسے ہوتی ہے؟
..............
اب آپکو ایک مجاہدہ کی کہانی سناتے ہیں:
شہر کے پانچ ستارہ ہوٹل میں، "سبز ستارہ" کی رفیق ایک تنظیم کے زیر اہتمام ایک تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہو رہا تھا اور شہر کی چنیدہ ماہرین امراض پوشیدہ و زچگی (گائناکالوجسٹس) حصہ لے رہی تھیں. ایک ڈاکٹر صاحبہ کو عین وقت پر کوئی ضروری کام پڑ گیا. انہوں نے ڈاکٹر عنبرین سے درخواست کی کہ انکی جگہ وہ اس ورکشاپ میں چلی جائیں. ڈاکٹر عنبرین نے حامی تو بھر لی پر بعد میں جب نیٹ پر تفصیلات چیک کیں تو چکرا کر رہ گئیں کہ یا اللہ، اس "لبرلانہ" ورکشاپ میں مجھ نقاب پوش "بنیاد پرست" کا کیا کام؟ یہ تو "اسقاط حمل کی اہمیت" بیان ہونا ہے...!!! لیکن چونکہ وعدہ کر چکی تھیں، تو مرتی کیا نا کرتی، جانے کی ٹھان لی.
ٹھیک وقت پر پہنچنا بھی پاکستانی دستور کے مطابق باعث عذاب ٹھہرا. غیر حاضر شرکاء کے انتظار میں ورکشاپ کی ٹرینر نے فرمایا کہ اس دوران ہم موسیقی سے لطف اندوز ہو لیتے ہیں تاکہ اعصاب کو سکون ملے. اور ساتھ ہی رسماً، "غلطی سے" پوچھ بیٹھی کہ کیا یہ کسی کی طبیعت پر گراں تو نہیں گزرے گا؟
جھٹ ایک ہاتھ کھڑا ہو گیا.
پر پورے ہال میں صرف ایک.
جی ہاں، ڈاکٹر عنبرین کا.
اب کھسیانے لہجے میں ٹرینر نے 'کھمبا نوچا' کہ، "دیکھیں ناں اکثریت کو تو کوئی اعتراض نہیں"... اور یہ کہہ کر میوزک جاری رکھا.
خیر بالآخر جب" تربیت" کا باقاعدہ آغاز ہوا تو ارشاد ہوا کہ جو لوگ اسقاط حمل کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں سمجھتے، وہ ایک طرف ہو جائیں اور باقی دوسری طرف.
20 میں سے 19 لوگ اس گروپ میں ہو گئے جو اسکے جواز کے کسی صورت قائل "نہیں" تھے.
اور دوسرے گروپ میں صرف ایک.
یہ واحد نمائندہ کون تھا؟
جی ہاں، ڈاکٹر عنبرین...!!!
سب کی حیرت دیدنی تھی...!!!
"اچھا جی آپ کیوں اسکو جائز سمجھتی ہیں؟"
"جی میں ان صورتوں میں اسے جائز سمجھتی ہوں جن صورتوں میں دین نے اسکی اجازت دی ہے، ورنہ نہیں."
اگلے مرحلے میں ٹرینر نے فرمایا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسقاط حمل ایک عورت کا ذاتی حق ہے وہ ایک گروپ میں ہو جائیں اور باقی دوسرے گروپ میں.
اس بار بھی "دوسرے گروپ" میں صرف ایک ممبر تھا.
جی ہاں، ڈاکٹر عنبرین.
"حیرت ہے ڈاکٹر صاحبہ، آپ کیوں اسے کسی عورت کا ذاتی حق نہیں سمجھتیں؟ کیا انسانی جسم اسکی ملکیت نہیں کہ اسکے ساتھ جو چاہے کرے؟"
ڈاکٹر عنبرین نے نہایت اطمینان سے جواب دیا،
"جی نہیں. ہمارا جسم ہمارے پاس ہمارے خالق کی امانت ہے. اور ہم اس میں اسکی مرضی کے خلاف کسی قسم کا تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے..."
اس سے زیادہ کی اجازت دینا مناسب نہ سمجھا گیا اور ٹرینر پھر سے گویا ہوئی:
"اچھا جی بہت خوب. اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی صورتیں ہیں جن میں ہمارا دین اسقاط حمل کے بظاہر ظالمانہ عمل تک کی اجازت دیتا ہے......"
پھر مختلف فتاوی کی روشنی میں دینی نکتہ نظر واضح کیا گیا.
اور پھر ٹرینر صاحبہ بولیں،
"تو دیکھا آپ نے؟ ہمارے دین میں کتنی آسانیاں ہیں. ماں کی جان خطرے میں ہو تو اللہ نے اسکی زندگی بچانے کیلئے ایک زندگی کو ختم کرنے تک کی اجازت دی ہے...!!!
تو دیکھیں ناں اب اگر کوئی عورت ریپ کا شکار ہو جائے یا کسی دھوکے باز کے فریب میں آ کر غلط کام کر بیٹھے اور آپ اسکا ابارشن کرنے سے انکار کر دیں؛ یعنی آپ، جو اس تکنیک کے ماہر ہیں. اور وہ مجبوراً کسی عطائی کے ہتھے چڑھ جائے جس سے اسکی جان چلی جائے، تو اسکی موت کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اگر آپ اسکا یہ کام کر دیتے تو کم از کم ایک زندگی تو بچ جاتی...!!!
میں بھی کسی دور میں بڑی شدت پسند ہوتی تھی اور اپنے آپ سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے، مجھے یہ کام نہیں کرنا. یوں ایک بار میرے پاس ایسی ہی ایک بچی آئی جو کسی کے بہکاوے میں آ گئی تھی. اس نے میری بڑی منتیں کیں کہ میں اسکا حمل ضائع کروا دوں پر میں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا. اسی رات مجھے ہسپتال سے کال آئی کہ ایک پیشنٹ بڑی تشویشناک حالت میں آئی ہے. میں فوراً ہسپتال پہنچی تو دیکھا کہ یہ وہی لڑکی تھی. وہ میرے بعد کسی عطائی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی جس نے اسکا پروسیجر تو کر دیا پر بلیڈنگ نہ روک سکی. اور اب وہ میرے سامنے ایک لاش کی صورت میں پڑی تھی...
تب سے میں نے اپنے اصول پر لعنت بھیجی اور طے کر لیا کہ میرا کام زندگی بچانا ہے نہ کہ خطرے میں ڈالنا...!!!"
بات مکمل ہوتے ہی ابھی تالیاں بھی نہ تھمی تھیں کہ شرکاء میں سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا.
جی ہاں، ڈاکٹر عنبرین کا.
مائیک ملتے ہی ڈاکٹر عنبرین بولیں،
"آپ نے فرمایا کہ اس سے کم از کم ایک جان تو بچائی جا سکتی ہے. جبکہ میں یہ کہتی ہوں کہ ایک جان کیوں؟ دونوں زندگیاں کیوں نہ بچائی جائیں؟ ٹھیک ہے ہمارا معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا. پر میرا سوال یہ ہے کہ جتنا پیسہ اور محنت آپ اسقاط حمل کے حق میں ورکشاپس اور سیمینارز کروانے پر خرچ کر رہے ہیں، وہ معاشرے کی تربیت پر کیوں نہیں کرتے؟
ایسی ماؤں کیلئے توبہ کا دروازہ کیوں نہیں کھلواتے؟
دوسری شادی کے خواہشمند حضرات کو ایسی لڑکیوں سے شادی پر اور انکے بچے کی کفالت پر آمادہ کیوں نہیں کرواتے؟
ایسے بچوں کو گالی بننے کی بجائے عام بچوں کا سٹیٹس کیوں نہیں دلواتے؟
اسقاط حمل کے قانون کو تبدیل کروانے کی بجائے موجود قانون کو استعمال کر کے عطائی ڈاکٹروں اور دائیوں کے غیر قانونی عمل کو سختی سے روک کر عبرت کا نشان ننانے پر حکومت کو مجبور کیوں نہیں کرتے؟"
جواب: آئیں بائیں شائیں...!!!
اور پھر یوں ہوا کہ آخری سوال آن پہنچا جس میں پوچھا گیا تھا کہ آپ مندرجہ ذیل میں سے کس صورت حال میں اسقاط حمل پر آمادہ ہو جائیں گے؟
اور اسکے جواب میں تمام شرکاء نے صرف ایک ہی آپشن پر نشان لگایا:
جی وہی آپشن جس میں واقعی شرعی اجازت موجود تھی....
شاید یہ پہلا موقع تھا کہ ورکشاپ کے منتظمین "اقدار" کی "توضیح" اور "رویوں" میں "کایا پلٹ" میں اس بری طرح ناکام رہے...!!!
یہ دیکھ کر اللہ کی بارگاہ میں اظہار تشکر کے ساتھ ایک آسودگی کا احساس لئیے ڈاکٹر عنبرین واپس آ گئیں.
..........
جی ہاں،
یہ سو فیصد سچا واقعہ آج ہی پیش آیا ہے اور مجھے اس مجاہدہ ڈاکٹر کا شوہر ہونے کا فخر حاصل ہے...!!!
الحمد للہ رب العالمین، حمداً، کثیراً، طیباً، مبارکاً فیہ...!!!
.............
لیکن ڈاکٹر عنبرین کا پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے خواتین ونگ سے بھی ایک سوال ہے:
"آپ لوگ کہاں ہیں؟!!!"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
انیسویں صدی کے وسط تک برطانیہ میں خدا، مسیح (علیہ السلام) اور عیسائیت کے خلاف توہین آمیز الفاظ و تحاریر قابل تعزیر جرم سمجھے جاتے تھے. بلکہ جرم کی سنگینی کے مطابق سزائے موت بھی دی جا سکتی تھی. ان قوانین کی توجیح یہ بیان کی جاتی کہ اس قسم کی تحریر و تقریر معاشرے کے نظام کو درہم برہم کر سکتی ہے، لہٰذا اسکی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی.

لیکن پھر صیہونیت نے اس عیسائی معاشرے کو کسی عفریت کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ لیا اور عیسی علیہ السلام کو گالی دینا "آزادی اظہار" کا حق ٹھہرا. حتی کہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ 1949 میں لارڈ ڈیننگ نے اپنی تقریر میں برملا کہا کہ، "توہین مذہب اب قصہ ماضی ہے. اب اس قسم کے الفاظ سے معاشرے کی اکائی کو کوئی خطرہ نہیں...!!!"

اسکے باوجود برطانوی پارلیمنٹ میں کچھ "غیرتمندانہ" آوازیں اس قانون کے ہنوز نافذ اور قابل عمل ہونے کے حق میں اٹھتی رہیں. لیکن انہیں دبا دیا گیا.
اور پھر 1998 میں "ہیومن رائٹس ایکٹ" کی منظوری توہین مذہب کے قانون کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی. اسکے بعد توہین آمیز مواد کی ہر شکایت کو اسی "انسانی حقوق" کے "ردی قانون" کی "ٹوکری" میں پھینک دیا گیا. اسکی سب سے بڑی مثال 2005 میں اسوقت سامنے آئی جب بی بی سی کا پروگرام، "جیری سپرنگر: دی اوپیرا" نشر ہوا. اس میں عیسی علیہ السلام کی سنگین گستاخی پر "بنیاد پرست" عیسائیوں میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور اسکے خلاف 63000 باقاعدہ شکایات حکومت اور انصاف سے متعلق اداروں کو موصول ہوئیں. لیکن تمام کی تمام ہیومن رائٹس ایکٹ کی شق نمبر 10 کی "دس نمبری" کی نذر ہو گئیں...!!!

غور فرمائیے گا کہ کہیں ہمارے ہاں بھی تو یہی تاریخ دہرائی نہیں جا رہی؟

ضروری نہیں کہ قانون توہین رسالت کو ختم کر دیا جائے. عین ممکن ہے کہ کسی نئے قانون کے ذریعے اسے عملاً غیر مؤثر کرنے کی پلید سازش پر شیطانی دماغ جتے ہوں.

آنکھیں اور کان کھلے رکھیں کیونکہ بقول شاعر:

نماز اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا، زکوۃ اچھی،
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا،
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی عزت پر،
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا،
محمد (صل اللہ علیہ و سلم) کی محبت دین حق کی شرط اول ہے،
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے.
 
Top