• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدثین نے بدعت کے دو طبقے رکھیں ہیں۔

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

بدعت کفریہ

(ا) اللہ رب العزت کی صفات کا انکار کرنا جیساکہ فرقہ جھمیہ کا عقیدہ ہے
(ب) یا قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھنا اور اصحاب رسول کو مرتد خیال کرنا جوکہ روافض کا نظریہ ہے۔
(د) اسلامی شعار کا مذاق اڑانا جیساکہ زنادقہ کا مسلک ہے وغیرہ ۔
بدعت فسق :۔

مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ ایمان لانے کے بعد کبیرہ گناہ سے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔جیساکہ مرجئہ(۴) یا اشیاء کی تخلیق سے قبل اس کی تقدیر کا انکار کرنا مثلا قدریہ( ۵)یاخوارج(۶) وغیرہ۔
___________________________________
(۱)جھمیہ :۔اس کا موجد جھم بن صفوان تھا اس کا اور اسکے معتقدین کا نظریہ تھا کہ اللہ قادر ہے بلا قدرت کے سمیع ہے بلا سماعت کے وغیرہ اورایک نظریہ یہ بھی تھا کہ ابراھیم کو خلیل اللہ نہیں بنایا وغیرہ ۔
(۲) روافض :۔یہ وہ فرقہ ہے جو اصحاب رسول کی ارتدادکا نظریہ رکھتا ہے اور حضرت علی کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں وغیرہ ۔
(۳)ذنادقہ :۔موجد دین فروزآبادی قاموس میں فرماتے ہیں کہ زندیق وہ لوگ ہیں جو آخرت اور ربویت پر ایمان نہیں رکھتے اپنا کفر چھپاتے ہیں اور ایمان ظاہر کرتے ہیں حلال وحرام کو مشترک سمجھتے ہیں ۔
(۴) مرجئہ :۔ سے مراد وہ فرقہ ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ ''الایمان لا یزید ولا ینقص
''کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ہے اور ایما ن کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ۔
(۵) قدریہ:۔ حافظ ابن حجر ھدی الساری میں فرماتے ہیں کہ'' القدریہ من یزعم ان الشر فعل العبدوحدہ ''۔
قدریہ
وہ ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل اسکی اپنی تخلیق ہے ۔اس کی نسبت اللہ کی طرف کرنا غلط ہے ۔
(۶) خوارج :۔یہ وہ گروہ ہے جس نے مسئلہ تحکیم میں حضرت علی کے خلاف خروج کیا اور ان کی تکفیر کی (الملل والنحل)
اول الذکر بدعت کے متعلق تو جمہور محدثین کا اتفاق ہے کہ ان سے روایت نہ لی جائے بلکہ ان کے نام آتے ہی حدیث پر موضوع کا حکم لگ جاتا ہے تفصیل کے لئے ملاحطہ کریں (الکفایہ۔تدریب الراوی )
اور رہی بات ثانی الذکر بدعتی فرقوں کی ۔تو محدثین نے ان سے روایت کا اہتمام کیا ہے اور اس کے لئے جو شروط لگائی ہیں وہ پیچھے گزر چکی ہیں مثلاً بدعت کفر تک نہ پہنچے ۔اگر ایک انسان اللہ تعالیٰ سے اعتقاد میں غلو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انسان کے برے اعمال خود اسکی تخلیق ہیں اللہ تعالیٰ انسان سے برائی کراتا ۔یا یہ نظریہ رکھتا ہے کہ ایمان برے اعمال کرنے سے کم نہیں ہوتا وغیرہ اور وہ شخس صدق عدالت اتقان میں انتہائی قوی ہو تو کیا ہم اس کو کا فر کہہ سکتے ہیں ہر گز نہیں بلکہ اس کے نظریہ کو ہم غلط کہہ سکتے ہیں اور اسکو بدعت پر محمول کرسکتے ہیں یہ نہیں کہ ہم اس پر فتوی بازی شروع کردیں ۔
ہاں اگر وہ راوی اپنی بدعت کا پرچار کرتا ہے یا ایسی روایت پیش کرتا ہے جو اسکی بدعت کی موافقت میں تو اس وقت اسکی روایت کو قبول نہیں کیا جائے وہ بھی صرف احتمال کی وجہ سے نہ کہ یقینی بنیاد پر کہ اس نے حدیث گھڑی وغیرہ ۔
اب یہاں اعتراض ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کا راوی (عمران بن حطان سدوس)یہ خارجی ہے اور اپنی بدعت کا داعی بھی ہے اس کے مختلف جوابات دئے گئے ہیں ۔
(۱) کہ روایات اس کی بدعت سے قبل کی ہیں۔
(۲) اس نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا تھا ۔
(۳) امام بخاری نے اس سے اصول کے بجائے متابعات میں احتجاج کیا ہے (ھدی الساری صفحہ ۶۰۵)
خوارج کے متعلق عرض ہے کہ ان کی روایت دوسرے رواۃ حدیث کے مقابل میں زیادہ قابل اعتماد ہے جس کی امام
ابن تیمیہ نے دس وجوہات ذکر فرمائی ہیں ۔

ان میں سب سے بڑی وجہ یہ کہ خوارج جھوٹ بولنے کو کفر سمجھتے ہیں اور ایسے شخص کو کافر گردانتے ہیں جو جھوٹا ہو تو کیسے ہوسکتا ہے کہ خوارج اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھے ۔
چوتھی شرط یہ تھی کہ بدعتی راوی اپنے مذھب کی تائید میں جھوٹ کو حلال نہ سمجھتا ہو اس شرط کے تحت محدثین نے صرف ان بدعتی رواۃ سے ہی احادیث لی ہیں کہ جن کا صدق واتقان معروف تھا۔
رہی بات زنادقہ جھمیہ روافض وغیرہ تو ان کا احادیث میں جھوٹ بولنا بالکل واضح ہے بلکہ بعض ذنادقہ نے خود اعتراف کیا کہ ہم نے چار ہزار سے زائد احادیث گھڑ کر عوام میں پھیلا دیں ۔روافض تو حدیث گھڑنے میں مشہور ومعروف ہیں تو محدثین نے ان کی بیان کردہ احادیث پر موضوع کا حکم لگایا ہے نہ کہ صحت حدیث کا اور ان کو کتب موضوعات میں جگہ دی ہے ۔
اور یہ اعتراض کہ صحیحین میں شیعہ رواۃ ہیں جو کہ احادیث گھڑتے تھے وغیرہ ۔یہ اعتراض بھی انتہائی غلط فہمی پر مبنی ہے۔
سلف صالحین کے نزدیک شعیہ اور رافضی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔

شیعان علی سے مراد وہ گروہ ہے جو حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ پر فضیلت دیا کرتے تھے جیساکہ حافظ ابن حجرنے التھذیب جلد۱صفحہ۹۴میں صراحت کی ہے امام ذھبی فرماتے ہیں سلف صالحین میں غالی شیعہ وہ لوگ جو حضرت عثمانؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، وغیرہ صحابہ کرام جنہوں نے حضرت علی کے ساتھ اختلاف کیا تھا کے بارے میں کلام کرتے اور معترض ہوتے تھے (المیزان جلد۱ صفحہ ۵)
جبکہ روافض سے مراد وہ فرقہ ہے جو تمام اصحاب رسول کے ارتداداور علیؓ کی الوھیت کے قائل اور تحریف قرآن کا نظریہ رکھتے ہے۔
اول الذکر گروہ کی روایت کو نہ صرف محدثین نے قبول کیا بلکہ ان پر صحت کا بھی حکم لگایا کیونکہ حضرت علی کو حضرت عثمان پر فضیلت دینے سے نہ تو کوئی کافر ہوجاتا ہے اور نہ اس سے عدالت ضبط واتقان پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی کو فضیلت دینے کی بناء پر ان سے روایت نہ کی جائے اور یہی محدثین نے کیا اس وجہ سے صحیحین کے اندر ایسے ہی شیعہ رواۃ ہیں جن سے شیخین احتجاج کیا ہے جو کہ قطعی حجت حدیث کے لئے مضرنہیں ہیں جبکہ ثانی الذکر فرقے کی روایات کو محدثین نے موضوع کا حکم لگا یا ہے اس لئے کہ روافض احادیث گھڑنے میں مشھور ومعروف ہیں لہٰذا یہ اعتراض کالعدم ہوجاتا ہے کہ صحیحین میں ایسے شیعہ رواۃ ہیں جو ضعیف ہیں اور احادیث گھڑنے میں مصروف ہیں ۔
 
Top