• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محدثین کا فقہی مسلك
شریعت کی بنیاد وحی ہے ، وحی دو چیزوں کا نام ہے ، قرآن اور سنت ، چونکہ دو نوں کا تعلق خبر سے ہے ، اور خبر دوسرے تک پہنچانے کے لیے ناقلین کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے قرآن وسنت کی آئندہ نسلوں تک تبلیغ کے لیے ناقلین یعنی راویوں کا ہونا ضروری تھا ، قرآن مجید کے راوی قراء کہلائے ، سنت کے راوی محدثین کہلائے ، قرآن مجید کی روایات ’ قراءات ‘ اور سنت کی روایات ’ احادیث ‘ کہلائیں ۔
قرآن وسنت دونوں وحی ہیں ، لیکن پھر بھی ان میں کچھ فروق ہیں جو کتب اصول میں شرح و بسط سے بیان کیے گئے ہیں ، ان فروق کی وجہ سے سنت کی روایات یعنی احادیث کی حفاظت پر زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت تھی ، کیونکہ یہ نسبتا مشکل کام تھا ، اور محدثین نے اس سلسلے میں جو نمایاں جہود سر انجام دیں ، وہ بھی علم القراءات اور قراء کی نسبت زیادہ مشہور اور مہم گردانی گئیں ، حفظ سنت کے فریضے کی ادائیگی کو محدثین نے اس جانفشانی اور تندہی سے سرا نجام دیا کہ وہ اسی کے ساتھ مشہور ہوگئے ، اور بعض لوگوں کو یہاں تک غلط فہمی ہوئی کہ شاید فقہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، اور اس غلط تاثر کو تقویت چندراویوں کے طرز عمل سے بھی ملی ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے سنت کی نقل و روایت کو اوڑنا بچھونا بنایا ، اللہ تعالی نے انہیں فہم سنت سے بھی حظ وافر عطا کیا ، خود فن حدیث سے متعلقہ کچھ ایسے مباحث ہیں ، جنہیں وفورِ فہم و فراست کے بغیر سمجھنا امر محال ہے ۔
اور اس کا عملی ثبوت محدثین کی مرتب کردہ کتب حدیث ہیں ، ان مجموعات کو ایک طائرانہ نگاہ دیکھنے سے ہی ان کے مرتبین کی فقہی لیاقت کا اندازہ ہوجاتا ہے ، اور اگر غور و فکر اور تدبر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ محدثین کا اپنا ایک خاص منہج او رمسلک تھا ، محدثین کے اسی فقہی ذوق کو نمایاں کرنے کے لیے شیخ عبد المجید محمود نے ایک کتاب تصنیف کی ہے بعنوان :

الاتجاهات الفقهية عند أصحاب الحدیث فی القرن الثالث الهجري
تیسری صدی ہجری کے محدثین کے فقہی رجحانات
مصنف کے نزدیک محدثین کے مستقل فقہی رجحانات تھے ، اس دعوے کے ثبوت کے لیے انہوں نے تیسری صدی ہجری کےدس جلیل القدر محدثین کی کتب حدیث سے اس بات کو ثابت کرنے کی سعی کی ہے ، جن کے اسماء گرامی یوں ہیں :
احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابوبکر ابن ابی شیبہ ، دارمی ،بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ( رحمہم اللہ جمیعا )
مصنف کے بقول انہوں نے ائمہ کے فقہی اسالیب و مناہج کو سمجھنے کے لیے ان کی کتب احادیث کا بتکرار مطالعہ کیا ہے ، تاکہ مصنف کا موقف اس کی تصنیف سے سمجھنے کی کوشش کی جائے ، اس سلسلے میں انہوں نے ان کتب کی شروحات سے مدد نہ لینے کو ترجیح دی ہے ، تاکہ مصنف کی رائے تلاش کرنے میں شارح کے رجحانات اثر انداز نہ ہوں ، البتہ فقہ محدثین اور معروف مذاہب فقہیہ کے درمیان فروق اور خوبیوں خامیوں کی تلاش کے لیے کتب فقہ اور اس سے متعلقہ علوم فنون کے ذخیرہ کا مطالعہ کیا ہے ۔
کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ، اصطلاحات وغیرہ کے تعارف کے لیے شروع میں ’’ تمہید مباحث ‘‘ الگ ہیں ، جن میں حدیث اور سنت ، فقہ اور حدیث جیسی اصطلاحات کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے ۔
باب اول : محدثین کا فقہی مکتبہ فکر
فصل اول میں اہل حدیث اور اہل رائے کے درمیان اختلاف اور اس کے اسباب پر بحث کی گئی ہے ،
فصل دوم میں محدثین کی دیگر لوگوں سے مخاصمت اور اس کے اسباب و نتائج بیان کیے گئے ہیں ۔
تیسری فصل میں فقہاء محدثین اور اہل ہدیث کے فقہی مذہب کے متعلق ہے ، جس میں یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ شروع میں محدث اور فقیہ ایک ہی شے کے دو نام تھے ، پھر کچھ حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں ، جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ محدثین کا اپناایک مستقل فقہی مذہب تھا ۔
چوتھی فصل میں صحابہ کرام کے فقہ میں طرز استدلال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ، اور یہ کہ محدثین کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرز عمل سے متاثر ہوئے ۔
باب دوم : محدثین کا اثری رجحان
اس میں تین فصلیں ہیں ، قرآن اور سنت کا باہمی ربط کیا ہے ؟ پہلی فصل میں اس بات کی وضاحت ہے ، دوسری فصل میں اخبار آحاد ، مراسیل و مقاطیع کی حجیت کے متعلق گفتگو کی گئی ہے ۔ فصل سوم میں محدثین کے اس اثری رجحان کے نتائج بیا ن کیے گئے ہیں ۔
باب سوم : اہل ظاہر کی طرف میلان
یہاں بھی تین فصلیں ہیں ، پہلے اہل حدیث اور اہل ظاہر کا کیا تعلق ہے ، اس پر بات کی گئی ہے ، فصل دوم میں ظاہری مذہب کے اصول بیان کیے ہیں ، او رتیسری فصل میں ظاہریت کا دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے ۔
باب چہارم : اہل حدیث کا فطری میلان
پہلے تو اس عنوان کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس ’’ فطری میلان ‘‘ سے مراد کیا ہے ، پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اس میلان کا ان کے طرز استدلال پر کیا فرق پڑا ؟ اور محدثین کا طرز استدلال دیگر لوگون سے کس بنیاد پر مختلف تھا ؟ وغیرہ .
باب پنجم : اہل حدیث اور اہل رائے کے درمیان اختلافی مسائل
پہلی فصل میں امام ابو حنیفہ اور امام ابن ابی شیبہ کے درمیان مختلف فیہ مسائل پر بات کی گئی ہے ۔
دوسری فصل میں امام بخاری اور اہل رائے کے درمیان متنازع مسائل پر گفتگو کی گئی ہے ۔
اور آخر میں پوری کتاب کا خلاصہ اور اس علمی بحث اور جد و جہد سے حاصل ہونے والے نتائج کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
موقعہ ملا تو اس خلاصے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا . إن شاءاللہ .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
علامہ ابن حزم کی المحلی ، علامہ ابن عبد البر کی التمہید ، امام خطابی کی معالم السنن اور اعلام الحدیث ، اور حافظ ابن حجر کی فتح الباری ’’ فقہ الحدیث ‘‘ کے بہترین نمونے ہیں ۔ حالانکہ ابن حزم کے علاوہ باقی تینوں کسی نہ کسی مذہب کی نسبت سے مشہور تھے ۔
ابن حزم اپنی تمام تر ظاہریت اور تشدد میں شہرت کے باوجود تمہید ابن عبد البر کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ :
لا أعلم في الكلام على فقه الحديث مثله فكيف بأحسن منه
ابن عبد البر نے تمہید کے اندر فہم حدیث کے ضمن میں جو موتی بکھیرے ہیں ، میرے علم میں اس سے بہتر تو کجا ، اس جیسی کوئی کتاب نہیں ہے ۔
ان ائمہ عظام جیسے مذاہب کے بہی خواہ رہے اور نہ ہی قرآں وسنت کے جانثار ۔
منهج الاستدلال الفقهي عند ابن حزم و ابن عبد البر میں باحث نے جو داد تحقیق دی ہے ، اسے پڑھ کر اس دور کے اہل حدیث اور اہل مذاہب دونوں کے لیے عزت و احترام کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ صاحب! کیا اسکا اردو ترجمہ موجود ہے؟
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج تک دیکھا ، سنا تو نہیں ۔ بیس سے زائد جلدوں پر مشتمل یہ کتاب خالص علمی و تحقیقی قسم کی مباحث پر مشتمل ہے ، اس کا ترجمہ کرنے کے لیے بھی کسی ابن عبد البر کی ہی ضرورت ہے ۔ ابتسامہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قال الذهبي في ترجمة أحد الحفاظ :
"ولقد كان في هذا العصر( أواخرالقرن الثالث الهجري ) وما قاربه من أئمة الحديث النبوي خلق كثير وما ذكرنا عشرهم هنا وأكثرهم مذكورون في تاريخي، وكذلك كان في هذا الوقت خلق من أئمة أهل الرأي والفروع وعدد من أساطين المعتزلة والشيعة وأصحاب الكلام الذين مشوا وراء المعقول وأعرضوا عما عليه السلف من التمسك بالآثار النبوية وظهر في الفقهاء التقليد وتناقص الاجتهاد فسبحان من له الخلق والأمر فبالله عليك يا شيخ ارفق بنفسك والزم الإنصاف ولا تنظر إلى هؤلاء الحفاظ النظر الشزر ولا ترمقنهم بعين النقص ولا تعتقد فيهم أنهم من جنس محدثي زماننا حاشا وكلا فما في من سميت أحد ولله الحمد إلا وهو بصير بالدين عالم بسبيل النجاة وليس في كبار محدثي زماننا أحد يبلغ رتبة أولئك في المعرفة فإني أحسبك لفرط هواك تقول بلسان الحال إن أعوزك المقال: من أحمد ؟ وما ابن المديني ؟ وأي شيء أبو زرعة وأبو داود ؟ هؤلاء محدثون ولا يدرون ما الفقه ما أصوله ولا يفقهون الرأي ولا علم لهم بالبيان والمعاني والدقائق ولا خبرة لهم بالبرهان والمنطق ولا يعرفون الله تعالى بالدليل ولا هم من فقهاء الملة فاسكت بحلم أو انطق بعلم فالعلم النافع هو النافع ما جاء عن أمثال هؤلاء ولكن نسبتك إلى أئمة الفقه كنسبة محدثي عصرنا إلى أئة الحديث فلا نحن ولا أنت, وإنما يعرف الفضل لأهل الفضل ذو الفضل".

(تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي (2/ 150)
ایک محدث کے حالات زندگی ذکر کرنے کے بعد امام ذہبی فرماتے ہیں :
تیسری صدی ہجری کے اواخر زمانے میں ائمہ حدیث کی ایک کثیر تعداد تھی ،جن کا یہاں عشر عشیربھی ذکر نہیں کیا گیا ، البتہ تاریخ اسلام میں اکثریت کا ذکر موجود ہے ۔
دوسری طرف اسی زمانے میں معتزلہ ، شیعہ ، متکلمین کی بھی خاصی تعداد موجود تھی ، جنہوں نے عقلیات کے پیچھے لگ کر سلف صالحین کے تمسلک بالآثار والے منہج سے اعراض کیا ، اسی زمانے میں فقہا کے ہاں تقلید کا ظہور ہوا اور اجتہادی صلاحتیں ماند پڑنا شروع ہوگئیں ۔ اے شیخ آپ کو اللہ کا واسطہ ! خود پرترس کرو ، انصاف سے کام لو ، ان ’ حفاظ ‘ کو یوں تحقیر و تنقیص کی نگاہ سے نہ دیکھو ، جتنے علما کا ہم نے ذکر کیا ، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا ، سب دین کی بصیرت اور اخروی نجات کے اسباب کی معرفت رکھنے والے تھے ، آج کے محدثین کی طرح نہیں تھے ، یہ نہ سمجھیں کہ یہ خالی محدثین ہیں ، انہیں فقہ و اصول ، اجتہاد ، بیان ، معانی کا علم نہیں، ان کا برہان و منطق سے کوئی تعلق نہیں تھا ، انہیں معرفت الہی کے دلائل معلوم تھے، اور نہ ہی یہ فقہائے ملت میں شمار ہوتے ہیں ! حلم کاتقاضا ہے کہ خاموش رہا جائے ، علم ہو تو بولنا چاہیے ، علم نافع تو ہے ہی وہ جو ان علما کےطریق سے ملا ہے ، لیکن آپ کو فقہا سے وہی نسبت ہے ، جس طرح کا تعلق ہمیں ائمہ حدیث سے ہے ،لہذا ایسی باتیں کرنے کی ہما شما کی کوئی اوقات نہیں ، اہل علم کی فضیلت اہل فضل ہی جان سکتے ہیں ۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
قال الذهبي في ترجمة أحد الحفاظ :
"ولقد كان في هذا العصر( أواخرالقرن الثالث الهجري ) وما قاربه من أئمة الحديث النبوي خلق كثير وما ذكرنا عشرهم هنا وأكثرهم مذكورون في تاريخي، وكذلك كان في هذا الوقت خلق من أئمة أهل الرأي والفروع وعدد من أساطين المعتزلة والشيعة وأصحاب الكلام الذين مشوا وراء المعقول وأعرضوا عما عليه السلف من التمسك بالآثار النبوية وظهر في الفقهاء التقليد وتناقص الاجتهاد فسبحان من له الخلق والأمر فبالله عليك يا شيخ ارفق بنفسك والزم الإنصاف ولا تنظر إلى هؤلاء الحفاظ النظر الشزر ولا ترمقنهم بعين النقص ولا تعتقد فيهم أنهم من جنس محدثي زماننا حاشا وكلا فما في من سميت أحد ولله الحمد إلا وهو بصير بالدين عالم بسبيل النجاة وليس في كبار محدثي زماننا أحد يبلغ رتبة أولئك في المعرفة فإني أحسبك لفرط هواك تقول بلسان الحال إن أعوزك المقال: من أحمد ؟ وما ابن المديني ؟ وأي شيء أبو زرعة وأبو داود ؟ هؤلاء محدثون ولا يدرون ما الفقه ما أصوله ولا يفقهون الرأي ولا علم لهم بالبيان والمعاني والدقائق ولا خبرة لهم بالبرهان والمنطق ولا يعرفون الله تعالى بالدليل ولا هم من فقهاء الملة فاسكت بحلم أو انطق بعلم فالعلم النافع هو النافع ما جاء عن أمثال هؤلاء ولكن نسبتك إلى أئمة الفقه كنسبة محدثي عصرنا إلى أئة الحديث فلا نحن ولا أنت, وإنما يعرف الفضل لأهل الفضل ذو الفضل".

(تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي (2/ 150)
ایک محدث کے حالات زندگی ذکر کرنے کے بعد امام ذہبی فرماتے ہیں :
تیسری صدی ہجری کے اواخر زمانے میں ائمہ حدیث کی ایک کثیر تعداد تھی ،جن کا یہاں عشر عشیربھی ذکر نہیں کیا گیا ، البتہ تاریخ اسلام میں اکثریت کا ذکر موجود ہے ۔
دوسری طرف اسی زمانے میں معتزلہ ، شیعہ ، متکلمین کی بھی خاصی تعداد موجود تھی ، جنہوں نے عقلیات کے پیچھے لگ کر سلف صالحین کے تمسلک بالآثار والے منہج سے اعراض کیا ، اسی زمانے میں فقہا کے ہاں تقلید کا ظہور ہوا اور اجتہادی صلاحتیں ماند پڑنا شروع ہوگئیں ۔ اے شیخ آپ کو اللہ کا واسطہ ! خود پرترس کرو ، انصاف سے کام لو ، ان ’ حفاظ ‘ کو یوں تحقیر و تنقیص کی نگاہ سے نہ دیکھو ، جتنے علما کا ہم نے ذکر کیا ، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا ، سب دین کی بصیرت اور اخروی نجات کی معرفت رکھنے والے تھے ، آج کے محدثین کی طرح نہیں تھے ، یہ نہ سمجھیں کہ یہ خالی محدثین ہیں ، انہیں فقہ و اصول ، اجتہاد ، بیان ، معانی کا علم نہیں، ان کا برہان و منطق سے کوئی تعلق نہیں تھا ، انہیں معرفت الہی کے دلائل معلوم تھے، اور نہ ہی یہ فقہائے ملت میں شمار ہوتے ہیں ! حلم کاتقاضا ہے کہ خاموش رہا جائے ، علم ہو تو بولنا چاہیے ، علم نافع تو ہے ہی وہ جو ان علما کےطریق سے ملا ہے ، لیکن آپ کو فقہا سے وہی نسبت ہے ، جس طرح کا تعلق ہمیں ائمہ حدیث سے ہے ،لہذا ایسی باتیں کرنے کی ہما شما کی کوئی اوقات نہیں ، اہل علم کی فضیلت اہل فضل ہی جان سکتے ہیں ۔
خضر بھائی اگر ترجمے پر نظر ثانی کر لی جائے تو بہت مناسب ہوگا۔ یہ مفہوم تو ما شاء اللہ کامل ہے لیکن ذہبی کے اصل متن کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خضر بھائی اگر ترجمے پر نظر ثانی کر لی جائے تو بہت مناسب ہوگا۔ یہ مفہوم تو ما شاء اللہ کامل ہے لیکن ذہبی کے اصل متن کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
جی ، اسی لیے میں نے ساتھ عربی عبارت دے دی ہے ، باوجود کوشش کے میں عربی عبارت کا کامل تصور اردو میں منتقل نہیں کرسکا ۔ اگر کوئی اور ساتھی یہ کام کردیں تو زیادہ مناسب ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اور آخر میں پوری کتاب کا خلاصہ اور اس علمی بحث اور جد و جہد سے حاصل ہونے والے نتائج کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
موقعہ ملا تو اس خلاصے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا . إن شاءاللہ .
الحمدللہ آج یہ کام مکمل کرلیا ہے۔
’محدثین کا فقہی مسلک‘ کتاب کا خلاصہ اور نتائج
آخر میں پوری کتاب کا خلاصہ اور اس علمی بحث اور جد و جہد سے حاصل ہونے والے نتائج کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ جنہیں درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
· تیسری صدی ہجری کے ائمہ حدیث کو اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ حدیث و فقہ میں تالیف کا سب سے شاندار زمانہ ہے، اس لیے بطور نمونہ اسے اختیار کیا گیا، یقینا بعد کے فقہائے محدثین کی خدمات کا دراسہ بھی مستقل توجہ کا مستحق ہے ۔
· دس ائمہ محدثین کو جائزہ کے لیے اختیار کیا گیا تھا، جو اپنی فقہی اہلیتوں کے اعتبار سے تیں حصوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں، احمد، ابن راہویہ اور بخاری سب سے مقدم، پھر دوسرے نمبر پر ترمذی، ابوداود، نسائی، مسلم اور دارمی اور پھر تیسرے نمبر پر ابن ماجہ اور ابو بکر بن ابی شیبہ آتے ہیں۔
· یہاں محمد بن جریر الطبری کو بھی لانا چاہیے تھا، جو کہ خود صاحبِ آثار و مذہب رہے ہیں، لیکن افسوس ان کی خدمتِ حدیث کے خاطر خواہ نمونے ہم تک نہ پہنچ سکے۔
· بحث کا بنیادی محور ’ اہل حدیث اور اہل رائے‘ کے درمیان موازنہ تھا، مجھے یہ محسوس ہوا کہ صحابہ و تابعین کے زمانہ میں اس تقسیم کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں، لہذا ان دو صدیوں میں اہل حجاز کو اہل حدیث اور اہل عراق کو اہل رائے کہنا درست نہیں، کیونکہ دونوں طرف ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو رائے اور حدیث کے استعمال میں قلت و کثرت کا رویہ رکھتے تھے۔ ہاں بعد میں امام ابو حنیفہ اور ’جماعتِ محدثین‘ کے درمیان میں یہ خلیج نمایاں ہونا شروع ہوئی، لیکن پھر بھی کئی ایک شخصیات کے بارے میں اختلاف رہا کہ وہ ’اہل حدیث‘ میں سے ہیں، یا ’اہل رائے‘ میں سے، بلکہ ایک ہی مؤرخ بعض دفعہ ایک ہی شخصیت کے بارے میں تردد میں مبتلا نظر آتا ہے ۔
· محدثین کا ٹکراؤ صرف فقہاسے نہ تھا، بلکہ معتزلہ ان کے سب سے بڑے دشمن تھے، تینوں گروہوں میں آہستہ آہستہ فکری چپقلش عروج پر پہنچ گئی، وجہ یہ تھی کہ ہر گروہ خود کو غرور کی حد تک درست سمجھتا تھا، جب معتزلہ وغیرہ کا طعن وتشنیع حد سے بڑھنے لگا تو محدثین نے دو کام کیے، حدیث میں مخصوص تالیفات سامنے آئیں، جن میں معتزلہ کا رد تھا، اور اہل حدیث کی شان میں کتب تصنیف کیں، جن میں اہل حدیث کا دفاع اور ان پر اعتراضات کا جواب تھا، رامہرمزی کی علوم الحدیث، اور بغدادی کی شرف اصحاب الحدیث اور اس سے پہلے ابن قتیبہ کی تاویل مختلف الحدیث وغیرہ کا یہی پس منظر ہے ۔
· محدثین کے دیگر لوگوں کے ساتھ ٹکراؤ کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا اپنا ’مستقل فقہی مذہب‘ وجود میں آنا شروع ہوا، سب سے بڑا حادثہ جس کی وجہ سے محدثین کو اپنے رستے جدا کرنا پڑے، وہ ’فتنہ خلقِ قرآن میں محدثین کی آزمائشیں‘ تھیں، یہ فتنہ گو معتزلہ کا کھڑا کردہ تھا، لیکن اہل رائے بھی اس معاملے میں محدثین کی بجائے معتزلہ کی طرف تھے۔ احمد بن حنبل علم وفضل اور صبر و ثبات کی وہ چٹان تھی کہ وقت کا سب سے بڑا فتنہ اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا، لیکن دوسری طرف کئی لوگ ان کے ’علم وتفقہ‘ پر مطمئن نہ تھے، محدثین کے متعلق یہ ناروا رویے لازم تھا کہ اس اقدام کی حوصلہ افزائی کرتے، اور پھر یہ کام ہوا، اور ’محدثین کا فقہی مسلک‘ اپنی پوری آب و تاب سے سامنے آنا شروع ہوا۔
· پھر اس کے بعد مصنف نے صحابہ سے لیکر تیسری صدی ہجری تک اس ’فقہی مسلک‘ کے وجود ِ مسعود کی نشاندہی کی ہے۔ اور پھر فقہِ محدثین کی تین خصلتیں نوٹ کی ہیں:
o قیاس وغیرہ کی بجائے آثار پر اعتماد کرنا، اور آثار میں حدیث نبوی کے علاوہ اقوالِ صحابہ و تابعین سب شامل ہیں۔[1]
o نصوصِ شریعت کے ظاہر کا اہتمام والتزام کرنا۔ لیکن اس سے مراد نری ظاہریت بھی نہیں ہے، اسی لیے مصنف نے محدثین اور اہلِ ظاہر کے مابیں فرق کی نشاندہی کی ہے۔
o فقہِ محدثین کی تیسری خصلت کا مصنف نے عجیب وغریب بیان کیا ہے، جسے میں اوپر ’فطری میلان‘ کا نام دے چکا ہوں، مصنف نے یہاں فقہِ محدثین کو ایسا رخ دیا ہے کہ پڑھتے جائیں اور آنسو بہاتے جائیں۔ فرماتے ہیں محدثین ’تفقہ و اجتہاد‘ کو مجرد علمی پریکٹس یا ذہنی عیاشی نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اس باب میں قرآن و حدیث کی نصوص میں ادبی و اخلاقی تعلیمات بھی ہر وقت ان کے ذہن پر سوار رہتی تھیں۔ مسئلہ کے بیان میں زہد وروع، احتیاط اور ذمہ داری کا جو عالم ’فقہِ محدثین‘ میں ہے، وہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ فقہِ محدثین صرف مسئلہ نہیں بتاتی، بلکہ اس پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ بھی بیدار کرتی ہے۔ اللہ اکبر۔
کتاب کے مطالعہ کے بعد راقم کے تاثرات:
o محدثین کے فقہی مسلک پر عربی زبان میں پہلی کتاب دیکھنے کو ملی۔ اور اس میں ذکر کردہ دس ائمہ محدثین بالخصوص اور دیگر محدثین کے فقہی ذوق کا بالعموم تعارف ہوا۔
o معتزلہ، اہل رائے اور محدثین کے درمیان چپقلش کی نوعیت معلوم ہوئی۔ مصنف کا رویہ سب کے متعلق حد درجہ عدل و انصاف پر مبنی نظر آتا ہے، البتہ بعض جگہوں پر اعتدال حد سے بڑھا ہوا محسوس ہوا۔
o مصنفِ کتاب کئی ایک مقامات پر ’فنِ حدیث‘ کے مسلمہ قواعد سے ذرا نالاں نظر آتے ہیں، اور وہ شاید اس لیے کہ ان کی توجہ اور اہتمام زیادہ ’فقہِ حدیث‘ پر تھا، ’تحقیقِ حدیث‘ ان کا موضوع ہی نہیں تھا، ورنہ اس باب میں تحقیق کرتے تو یقینا وہ جس طرح ’فقہِ محدثین‘ میں رطب اللسان ہوئے، ان کے اصل فن اور تخصص میں بھی ان کے معترف ہوتے۔ واللہ اعلم۔
o انکارِ حدیث جیسی مصیبتیں آج ہی نہیں ہیں، بلکہ پہلے زمانوں میں بھی محدثین اور اہل حدیث کو بہت مشکلات کا سامنا تھا، معتزلہ وغیرہ نے ان کا جینا حرام کیا ہوا تھا، لیکن اس وقت کے محدثین نے ان سب فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
o معتزلہ اس وقت کے ’پڑھے لکھے‘اور ’روشن خیال‘ لوگ سمجھے جاتے تھے، بالمقابل وہ محدثین کو پھبتیاں کسا کرتے تھے، لیکن محدثین نے ہر فن میں کمال پیدا کرکے، ان کے منہ بند کیے۔
o گمراہ لوگوں نے محدثین کو نیچا دکھانے کے لیے وقت کے سلاطین و حکمرانوں سے بھی ساز باز کی، چنانچہ کئی ایک محدثین پر مشکلات آئیں، لیکن اس مقدس گروہ میں موجود جرات و ہمت سے لبریز ہستیوں نے عزیمتوں کی داستانیں رقم کرکے عقیدہ و منہج کو زندہ رکھا۔
o ہر گروہ میں کمیاں کوتاہیاں ہوتی ہیں، لہذا محدثین کا گروہ میں بعض غلطیوں اور کوتاہیوں سے مبرا نہیں تھا، لہذا ان پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کی ایک وجہ ان میں سے بعض لوگوں کے نامناسب رویے بھی تھے، ورحم الله الجميع.
o آج بھی محدثین کے جانشینوں کو اپنے اندر علم وفضل، زہد وورع اور جرات و بہادری کی صلاحتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، نام کے اہل حدیث کہلوانا اور مطلوبہ صلاحتیوں اور خصائل حمیدہ سے کورے رہنا، یہ حدیث یا اہل حدیث کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔ ابن ابی شیبہ نے ابو حنیفہ کا، بخاری نے اہل رائےکا، ابن قتیبہ وخطیب نے معتزلہ کا کیسے رد کیا تھا؟ آج رد کی نفسیات میں ڈوبے، اور اجتہاد کے زعم میں مبتلا ’لوگوں‘ میں یہ عالمانہ و محققانہ اور صبر آزما رویے موجود ہیں؟ کیا ہمارے اندر ایسے لوگ موجود نہیں جو علم وفقہ کی مبادیات سے واقف نہیں، لیکن وہ سب سے بڑا محدث سب سے بڑا فقیہ کے تانے بانے بُن کر ’امامِ وقت‘ بننے کی غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں!
خیر! کتاب بذات خود پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، چالیس پچاس سال پہلے کی طبع شدہ ہے، صفحات کی تعداد تقریبا (800) ہے،معلوم نہیں کہ دوبارہ طبع ہوئی یا نہیں ہوئی، بہر صورت اس کی سافٹ کاپی پی ڈی ایف کی شکل میں انٹرنیٹ پر بآسانی دستیاب ہے ، اور میرے پاس یہ کتاب شاملہ میں بھی موجود ہے ۔

وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
حافظ خضر حیات، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
اضافہ وتعدیل:یوم الاحد،2 محرم،1441ھ

[1] اقوال صحابہ و تابعین سے جان چھڑانے والا منہج اہل حدیث کا نہیں تھا، اقوال میں ترجیح و تطبیق یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن ان سے کلیتا اعراض یہ لاعلمی اور عجلت پسندی کی پیداوار محسوس ہوتا ہے۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اہل حدیث میں یہ بیماری موجود ہے ۔ اور یہ کوئی محققانہ رویہ نہیں جیسا کہ بعض لوگ کہتے نظر آتے ہیں، بلکہ یہ تساہل و استرواح ہے۔ محدثین کا تو امتیاز ہی یہ تھا کہ وہ اہل رائے کو کہتے تھے کہ تم اپنے ’قیاس‘ کو چھوڑو ہم تمہیں مسئلہ میں ’اثر‘ بیان کردیتے ہیں۔ اور آج کے بعض اہل حدیث کہتے ہیں اثر چھوڑو، خود قرآن وسنت میں تفقہ و اجتہاد کرو، بظاہر یہ الفاظ محترم ہیں، لیکن جس طرح کا ’تفقہ‘ آج کے لوگ کر رہے ہوتے ہیں، وہ اہل رائے کے ’قیاس‘ سے بھی گیا گزرا ہوتا ہے۔
 
Top