و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کسی محدث کی تصحیح سے اس کا موقف تو اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ چونکہ انہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، لہذا ان کے نزدیک اس کے راوی یا سند کسی سقم سے پاک ہے ۔
البتہ اس حوالے سے محدثین بلکہ ہر ہر محدث ، جس کے بھی ذمہ ہم ضمنی توثیق لگانا چاہتے ہیں ، ان کے منہج کو بالتفصیل جاننا بہت ضروری ہے ۔
تصحیح حدیث کے لیے استعمال کی جانے والی عبارات مختلف ہیں ، ان کا فرق بھی معلوم ہونا چاہیے ۔ بعض دفعہ کوئی محدث کسی سند یا حدیث کی تصحیح کرتے ہیں ، لیکن در حقیقت وہ حدیث ان کے نزدیک بھی ضعیف ہوتی ہے ، اور تصحیح کسی خاص نسبت سے کی جاتی ہے ، و کذا العکس ۔
پھر یہ چیزیں مسلمہ اصولوں کی بجائے قرائن کا درجہ رکھتی ہیں ، جونہی یہ کسی اصول یا اپنے سے قوی قرینے سے ٹکرائیں گی ، رد کردی جائیں گی ۔
امام بخاری و مسلم کو صحیحین میں یہ درجہ حاصل ہے ، کہ جس روایت کو انہوں نے اپنی کتابوں کے اندر ذکر کیا ہے ، محدثین نے ان روایات میں تدلیس ، اختلاط وغیرہ جیسی پائی جانے والی علتوں کو درخور اعتنا نہیں جانا ۔
وجہ یہ ہے کہ تدلیس اور اختلاط وغیرہ کی شکل میں متوقع وجہ ضعف جو ہوسکتی ہے ، ان دونوں اماموں نے خصوصی محنت اور توجہ سے ان احتمالات کی تحقیق کرنے کے بعد ہی روایات کو صحیح میں جگہ دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے جلیل القدر محدثین نے بھی ان کی تحقیق سے اتفاق کیا ہے ، سوائے چند ایک روایات کے ۔
و اللہ اعلم
التوثیق الضمنی کے عنوان سے عربی زبان میں بعض علمی مقالات بھی موجود ہیں ، جہاں ان باتوں کو تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے ۔
اردو زبان میں اس کے متعلق کچھ بحث و مباحثہ
رفع جہالت اور ضمنی توثیق