• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث بک

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس دور میں کسی پر انتہا پسند، متشدد اور متطرف کی تہمت لگنا، میرے خیال میں اس کے لیے سعادت کی بات ہے۔
یہ القابات جنہوں نے ایجاد کیے ہیں، انہوں نے سب سے پہلے ان کا نشانہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جی ہاں ہمارا دین تو استنجا کرنے کا طریقہ بھی بتاتاہے۔
جنہیں یہ باتیں فضول لگتی ہیں، شاید انہیں استنجا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مصلحانہ رویے
۔۔۔۔۔
شدت کے خاتمے کے لیے شدت کی جاتی ہے۔
اخلاقیات سکھانے کے لیے بد اخلاقی کی جاتی ہے۔
آسانی کی بات کرتے ہوئے سختی گفتگو سے جھلک رہی ہوتی ہے۔
طنز و تعریض میں بجھے جملے بول کر اصلاح پر لیکچر دیا جاتا ہے۔
’فرقہ واریت ایک زہر ہے‘ یہ جملے فرقہ پرستوں کو سمجھانے کے لیے استعمال ہورہے ہوتےہیں۔
’مولوی صاحب آپ منبر پر کھڑے ہو کر نفرتیں بانٹ رہے ہیں، یہ بات جسے کہی جائے، وہ آگے سے یہی کہے گا کہ جناب آپ کو اگر ’منبر‘ نصیب نہیں ہوسکا تو اپنی یہ ’شیرینی‘ اور ’شربت صندل‘ کہیں اور جاکر ’صدقہ و خیرات‘ کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
علامہ ابتسام الہی ظہیر قوم کے دلوں کی آواز

یہ بات میں بہت دنوں سے عرض کرنا چاہ رہا تھا، ایک ویڈیو بھي بنائی ، لیکن پھر کسی وجہ سے اپلوڈ نہیں کی۔
کسی شخص کی اہلیت اور نا اہلی جانچنے کا ایک طریقہ الیکشن ہے، علامہ ابتسام الہی ظہیر جیسے لوگ جب اس ’نظام الیکشن‘ کی وجہ سے قوم کی خدمت کے لیے نااہل قرار دے دیے جائیں، تو ہمیں اس ’نظام جمہوریت‘ کے نااہل ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔
علامہ ابتسام صاحب جیسے اعلی تعلیم یافتہ، عالی اور شفاف کردار کے حامل شخص کے لیے قوم کے دل دھڑکتے ہیں، دنیا کی زندگی کو کل سمجھنے والے بہت سارے مادہ پرست علامہ جیسے مولویوں سے خفا ہوں گے، لیکن مملکت پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں تحفظ افکار و نظریات کے لیے فکر مند لوگوں کی ایک کثیر تعداد چاہتی ہے کہ علامہ ابتسام جیسے لوگ، حکومتی سیٹ اپ میں آئیں، جس طرح انہوں نے منبر و محراب اور میڈیا چینلز میں بیٹھ کر اسلام کی حقانیت بیان کی ہے، قوم قرآن وسنت سے مدلل اور حکمت و بصیرت سے مزین گفتگو پارلیمان کے اجلاسوں میں بھي سننا چاہتے ہیں۔
علامہ جس حلقے میں موجود تھے، نہ صرف وہاں کے مقامی لوگوں نے ان کی والہانہ تائید کی ، بلکہ پورے ملک کے اہل علم و فکر نے حسب استطاعت علامہ کو ووٹ دینے کی تلقین کی۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ فیصل آباد کے مضافات میں موجود ایک معروف مدرسے کے ناظم صاحب نے والد صاحب کو فون کیا کہ آپ نے ووٹ علامہ ابتسام صاحب کو دینا ہے ۔
اور بھی کئی کبار اہل علم اور مشائخ کو جانتا ہوں، جو علامہ صاحب کے حوالے سے بہت فکر مند تھے۔
یہ سب صورت حال دیکھ کر یقین ہوگیا کہ علامہ صاحب اب کی بار ضرور جیتیں گے، لیکن افسوس کہ نتائج خلاف توقع سامنے آئے۔
یہاں ایک بات کا اور اضافہ کرنا چاہوں گا، مرکزی جمیعت اور جماعۃ الدعوۃ ہردو کے لوگ علامہ صاحب کی حمایت کر رہے تھے۔ اور انہیں کرنی بھی چاہیے تھی۔ لیکن اگر یہ افواہ صحیح ہے کہ اندر سے ان میں سے کسی نے علامہ ابتسام کے مخالفین کو ووٹ کی تلقین کی کہ انہوں نےکون سا جیتتا ہے، تو ہم ایسے کسی بھی امیر یا قائد یا ذمہ دار کے لیے کم سے کم لفظ ’ منافق‘ استعمال کریں گے، کیونکہ ایسے لوگوں کا رویہ بعینہ وہی ہے، جو مدینہ میں منافقین کا ذکر ہوا ہے۔
ہم اللہ کو گواہ بناکر یہ عقیدہ رکھتے اور اس کا اظہار کرتے ہیں، کہ جس نظام میں علامہ ابتسام جیسے ’اسلام پسندوں‘ کی گنجائش نہیں، ہم اس نظام کو ’لادین‘ اور ’کافرانہ‘ سمجھتے ہیں، اور ہم ایک ایسے نظام کی اللہ سے التجا و خواہش رکھتے ہیں، جو واقعتا عدل و انصاف پر مبنی ہو، جہاں مسلمانوں کے لیے ان کے جذبات اور عقیدے کے مطابق سربراہ منتخب ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہت سارے لوگ ’پیرمافیا‘ کے ادب و احترام میں اپنی ’عزت‘ داؤ پر لگادیتےہیں۔
حالانکہ عزتوں کے لٹیرے احترام کے قابل نہیں رہتے۔
کسی بھی پیر ، عالم ، دانشور، ادارے کی عزت کا سب سے پہلے اسے پاس ہونا چاہیے، پھر دوسروں سے مطالبہ کرنا چاہیے۔
جس کا منصب اس کی غلط کاری کے سامنے رکاوٹ نہیں بنتا، اس منصب کی دہائی دے کر ادب و احترام کا تقاضا سراسر اخلاقی کرپشن ہے۔
من بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔
غلطیوں کے دفاع میں تقدیس و تعصیم اداروں کی ہو، جماعتوں یا افراد کی، ناانصافی و برائیوں کو جنم دیتی ہے۔​
 
شمولیت
اگست 02، 2018
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
22
بہت سارے لوگ ’پیرمافیا‘ کے ادب و احترام میں اپنی ’عزت‘ داؤ پر لگادیتےہیں۔
حالانکہ عزتوں کے لٹیرے احترام کے قابل نہیں رہتے۔
کسی بھی پیر ، عالم ، دانشور، ادارے کی عزت کا سب سے پہلے اسے پاس ہونا چاہیے، پھر دوسروں سے مطالبہ کرنا چاہیے۔
جس کا منصب اس کی غلط کاری کے سامنے رکاوٹ نہیں بنتا، اس منصب کی دہائی دے کر ادب و احترام کا تقاضا سراسر اخلاقی کرپشن ہے۔
من بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔
غلطیوں کے دفاع میں تقدیس و تعصیم اداروں کی ہو، جماعتوں یا افراد کی، ناانصافی و برائیوں کو جنم دیتی ہے۔​
مجھے اپنا مرید بنا لیجئے۔ ابتسامہ
آپ کے لکھنے انداز کو۔ ماشاءاللہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چودہ اگست پر باجا بجانے والے بچوں اور جوانوں کو دیکھ کر یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے انگریزوں اور ہندوؤں نے ان کے بڑوں پر محض باجا بجانے کی پابندی عائد کر رکھی تھی اور گویا کہ اب وہ آزاد ہیں.... ابتسامہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اپنے گھر یا خطہ زمین سے محبت الگ چیز ہے۔ لیکناگر مدنی ریاست میں فتح مکہ کا جشن نہیں منایاگیا تو پھر بعد میں بھی ایسے جشنوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جشن آزادی وغیرہ ان سب کی حیثیت وہی ہے جو کئی علما بیان کرچکے ہیں۔
سعودی عرب ہو یا پاکستان، جشن منانے کی روش تحقیقی نہیں تقلیدی ہے۔
 
Top