• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرم الحرام اور عاشوراء کے روزے

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
(1) محرم کے اکثرروزے کی فضیلت : محرم کے مہینے میں پورے مہینے کا روزہ رکھنا جائز ہے اور بعض فقہاء نے ذکر بھی کیا ہے پورے محرم کا روزہ رکھنا چاہئے، مگر نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ۔رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں اکثردن کا روزہ رکھتے تھے ۔
اس لئے تمام نصوص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گاکہ حدیث :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم وافضل الصلوۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل (اخرجہ مسلم ص ۳۶۸ ج۱، ایضا ابو داؤد، الترمذی، النسائی)
ترجمہ : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
محرم کے زیادہ تر روزہ رکھنے پہ محمول کی جائے گی نہ کہ پورے محرم کے روزے پہ ۔
٭شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس حدیث سے محرم کے ابتدائی دس روزے مراد لئے ہیں۔
٭ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا پورے محرم کا روزہ رکھنے والا بدعتی کہلائے ؟ توآپ نے کہا نہیں ، لیکن نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے اور شعبان کا اکثر و بیشتر روزہ رکھتے تھے ۔ (کلام کا اختصار)
٭ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ، لہذا یہ حدیث محرم میں بکثرت روزہ رکھنے پہ محمول ہوگی نہ پورے مہینے پہ ۔

(2) صرف دسویں محرم کے روزے کی فضیلت :نبی ﷺ نے دسویں محرم کا روزہ رکھا ہے ، آپ نے اس روزے کا برا اجر ذکرفرمایاہے ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کے متعلق سوال کیے گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:انی احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ۔ (صحیح مسلم:1162) .
ترجمہ :مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم)
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
اس لئے نبی ﷺ نے خود بھی دسویں محرم کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔

(3) صرف نومحرم کا روزہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں:
حين صام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ عاشوراءَ وأمرَ بصيامِه ، قالوا : يا رسولَ الله ! إنه يومٌ تُعظِمُه اليهودُ والنصارى . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : فإذا كان العامُ المُقبلُ إن شاءَ اللهُ ، صُمْنا اليومَ التاسعَ . قال : فلمْ يأتِ العامُ المُقبلُ ، حتى تُوفِّيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ .(صحيح مسلم:1134)
ترجمہ: جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یہودی اورعیسائي تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے , آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ۔

(4) نو اور دس یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا: بعض روایات میں عاشوراء کو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں ملانے کا ذکر ملتا ہے ۔ روایت دیکھیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عہنما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صوموا يومَ عاشوراءَ ، وخالفوا فيه اليهودَ ، صوموا قبلَه يومًا ، و بعدَه يومًا۔
ترجمہ: عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔
اس روایت کو شیخ البانی اور علامہ شوکانی وغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں (ضعيف الجامع: 3506، نيل الأوطار 4/330 )
ایک دوسری حدیث میں واء کی بجائے او کا ذکر ہے ۔
صوموا يومَ عاشوراءَ وخالِفوا اليَهودَ ، صوموا قبلَهُ يومًا أو بعدَهُ يومًا۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ( صحيح ابن خزيمة:2095)
اسی طرح ایک اور روایت اس طرح کی ملتی ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
لئن بقيتُ لآمُرَنَّ بصيامِ يومٍ قبلَه أو يومٍ بعدَه . يومِ عاشوراءَ۔
ترجمہ : اگر میں (اگلے سال ) زندہ رہا تو میں عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں روزہ رکھنے کا حکم دوں گا۔
اسے شیخ البانی نے منکر کہاہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:4297)
روزوں کے متعلق مذکورہ چارووں اقسام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محرم میں دو قسم کا روزہ رکھنا بڑے اجروثواب کا کام ہے ۔
ایک تو عمومی طور پر بکثرت روزہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس میں روزہ رکھنا رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔ دوسرا عاشوراء کا روزہ ۔ عاشوراء کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ کون سا روزہ رکھنا افضل ہے ؟
اس سلسلہ میں سب سے عمدہ قول یہ ہے کہ نومحرم اوریوم عاشوراء یعنی دس محرم دونوں کا روزہ رکھنا افضل ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اورنو محرم کا روزہ رکھنے کی نیت کی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جونومحرم کے روزے کا ارادہ اورقصد کیا اس کے معنی میں احتمال ہے کہ صرف نو پرہی منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ دس کا بھی اضافہ کیا جائے گا ، یا تو اس کی احتیاط کےلیے یا پھر یھود ونصاری کی مخالفت کی وجہ سے اوریہی راجح ہے جو مسلم کی بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ (فتح الباری: 4 / 245 ) ۔
تاہم اکیلے دس محرم یا اکیلے نو محرم کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے جیساکہ دلیل سے ثابت ہے ۔ رہا نو اور دس یا دس اور گیارہ یا نو ،دس اور گیارہ تو علماء نے ان صورتوں کو بھی جائز کہاہے کیونکہ اس مسئلہ کی روایات میں ضعف ہلکا ہے ۔ میری نظر میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھنا بہتر وافضل ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
یہ مضمون تو محترم شیخ @مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ کا ہے. اور پہلے سے ہی یہاں موجود ہے.
فرق صرف اتنا ہے کہ اس مضمون کو توڑ کر پیش کیا گیا ہے. آدھا حصہ کہیں اور آدھا کہیں. اور کچھ الفاظ بدل دۓ گئے ہیں
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
(1) محرم کے اکثرروزے کی فضیلت : محرم کے مہینے میں پورے مہینے کا روزہ رکھنا جائز ہے اور بعض فقہاء نے ذکر بھی کیا ہے پورے محرم کا روزہ رکھنا چاہئے، مگر نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ۔رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں اکثردن کا روزہ رکھتے تھے ۔
اس لئے تمام نصوص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گاکہ حدیث :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم وافضل الصلوۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل (اخرجہ مسلم ص ۳۶۸ ج۱، ایضا ابو داؤد، الترمذی، النسائی)
ترجمہ : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
محرم کے زیادہ تر روزہ رکھنے پہ محمول کی جائے گی نہ کہ پورے محرم کے روزے پہ ۔
٭شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس حدیث سے محرم کے ابتدائی دس روزے مراد لئے ہیں۔
٭ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا پورے محرم کا روزہ رکھنے والا بدعتی کہلائے ؟ توآپ نے کہا نہیں ، لیکن نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے اور شعبان کا اکثر و بیشتر روزہ رکھتے تھے ۔ (کلام کا اختصار)
٭ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ، لہذا یہ حدیث محرم میں بکثرت روزہ رکھنے پہ محمول ہوگی نہ پورے مہینے پہ ۔

(2) صرف دسویں محرم کے روزے کی فضیلت :نبی ﷺ نے دسویں محرم کا روزہ رکھا ہے ، آپ نے اس روزے کا برا اجر ذکرفرمایاہے ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کے متعلق سوال کیے گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:انی احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ۔ (صحیح مسلم:1162) .
ترجمہ :مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم)
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
اس لئے نبی ﷺ نے خود بھی دسویں محرم کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔

(3) صرف نومحرم کا روزہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں:
حين صام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ عاشوراءَ وأمرَ بصيامِه ، قالوا : يا رسولَ الله ! إنه يومٌ تُعظِمُه اليهودُ والنصارى . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : فإذا كان العامُ المُقبلُ إن شاءَ اللهُ ، صُمْنا اليومَ التاسعَ . قال : فلمْ يأتِ العامُ المُقبلُ ، حتى تُوفِّيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ .(صحيح مسلم:1134)
ترجمہ: جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یہودی اورعیسائي تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے , آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ۔

(4) نو اور دس یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا: بعض روایات میں عاشوراء کو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں ملانے کا ذکر ملتا ہے ۔ روایت دیکھیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عہنما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صوموا يومَ عاشوراءَ ، وخالفوا فيه اليهودَ ، صوموا قبلَه يومًا ، و بعدَه يومًا۔
ترجمہ: عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔
اس روایت کو شیخ البانی اور علامہ شوکانی وغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں (ضعيف الجامع: 3506، نيل الأوطار 4/330 )
ایک دوسری حدیث میں واء کی بجائے او کا ذکر ہے ۔
صوموا يومَ عاشوراءَ وخالِفوا اليَهودَ ، صوموا قبلَهُ يومًا أو بعدَهُ يومًا۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ( صحيح ابن خزيمة:2095)
اسی طرح ایک اور روایت اس طرح کی ملتی ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
لئن بقيتُ لآمُرَنَّ بصيامِ يومٍ قبلَه أو يومٍ بعدَه . يومِ عاشوراءَ۔
ترجمہ : اگر میں (اگلے سال ) زندہ رہا تو میں عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں روزہ رکھنے کا حکم دوں گا۔
اسے شیخ البانی نے منکر کہاہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:4297)
روزوں کے متعلق مذکورہ چارووں اقسام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محرم میں دو قسم کا روزہ رکھنا بڑے اجروثواب کا کام ہے ۔
ایک تو عمومی طور پر بکثرت روزہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس میں روزہ رکھنا رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔ دوسرا عاشوراء کا روزہ ۔ عاشوراء کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ کون سا روزہ رکھنا افضل ہے ؟
اس سلسلہ میں سب سے عمدہ قول یہ ہے کہ نومحرم اوریوم عاشوراء یعنی دس محرم دونوں کا روزہ رکھنا افضل ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اورنو محرم کا روزہ رکھنے کی نیت کی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جونومحرم کے روزے کا ارادہ اورقصد کیا اس کے معنی میں احتمال ہے کہ صرف نو پرہی منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ دس کا بھی اضافہ کیا جائے گا ، یا تو اس کی احتیاط کےلیے یا پھر یھود ونصاری کی مخالفت کی وجہ سے اوریہی راجح ہے جو مسلم کی بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ (فتح الباری: 4 / 245 ) ۔
تاہم اکیلے دس محرم یا اکیلے نو محرم کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے جیساکہ دلیل سے ثابت ہے ۔ رہا نو اور دس یا دس اور گیارہ یا نو ،دس اور گیارہ تو علماء نے ان صورتوں کو بھی جائز کہاہے کیونکہ اس مسئلہ کی روایات میں ضعف ہلکا ہے ۔ میری نظر میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھنا بہتر وافضل ہے ۔
فیاض ثاقب صاحب !

کہاں سے یہ مضمون لیا ہے ؟ اور اس مضمون کا بقیہ حصہ کہاں ہے ؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
یہ مضمون تو محترم شیخ @مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ کا ہے. اور پہلے سے ہی یہاں موجود ہے.
فرق صرف اتنا ہے کہ اس مضمون کو توڑ کر پیش کیا گیا ہے. آدھا حصہ کہیں اور آدھا کہیں. اور کچھ الفاظ بدل دۓ گئے ہیں
انہوں نے مضمون سے درمیان کا حصہ لیا ہے ، محرم کی مختصرفضیلت اور اس میں ہونے والی بدعت کو اوپر سے کاٹ دیا ہے ۔ پھر نیچے سے عاشوراء کے دیگر مسائل کو حذف کردیا ہے ۔
 
Top