• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرم بدعات کےگھیرے میں کیوں؟

شمولیت
مارچ 03، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
محرم بدعات کے گھیرے میں کیوں؟

تحریر : محمد نعمان سلفی

جب سے زمین کی سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیار ہوئی تبھی سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ " إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض منها أربعة حرم ذالك الدين القيم، (التوبة :36) مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے اس دن سے جب سے اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ان میں سے چار مہینے ادب و احترام والے ہیں یہی سیدھا اور درست دین ہے.
اس آیت میں چار مہینے کی حرمت کا ذکر ہے جس کی تشریح و توضیح درج ذیل حدیث نبوی میں ہے آپ نے فرمایا " إن الزمان قد استدار كهيئة يوم خلق السموات والأرض السنة اثنا عشر شهراً منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذوالقعدة وذوالحجة والمحرم ورجب "(بخاری :3197 ) زمین و آسماں کے پیدائش کے دن ہی سے زمانہ گردش میں ہے سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مسلسل ہیں ذوالقعدة ذوالحجہ اور محرم جبکہ ایک مہینہ رجب کا ہے
تو پتہ چلا کہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ محرم کا بھی ہے جوکہ میرا موضوع بحث ہے تو ایئے جانتے ہیں کہ محرم کیا ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل کیا ہے -
محرم کا معنی ہے، ممنوع. حرام کیا گیا. عظمت والا. اور لائق و احترام کے،
اور اس مہینے میں عاشورا کے دن یعنی محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم ہے چونکہ یہ وہ دن ہے جس میں موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور ان کی قوم سے نجات ملی تھی اور اس خوشی میں موسی علیہ السلام نے 10؟محرم کا روزہ رکھا تھا اور اسی خوشی میں یہودی بھی روزہ رکھتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی خود اس کا اہتمام کیا اور ساتھ ہی ساتھ قبائل و اطراف میں اس روزہ کے سلسلے میں اعلان بھی کروایا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ": ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما هذا اليوم الذي تصومونه فقالوا هذا يوم عظيم انجي الله فيه موسى وقومه وغرق فرعون و قومه فصامه موسى شكراً فنحن نصومه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحن أحق و اؤلي بموسي منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بصيامه ": (مسلم، كتاب الصيام -باب صوم يوم عاشوراء :1130 )ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم لوگ روزہ رکھتے ہو تو ان لوگوں نے کہا یہ ایک اچھا دن ہے اس روز اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دلائی تھی اور فرعون اور ان کی قوم کو غرقاب کیا تھا تو موسی نے اس دن کا روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں موسی کے (شریک مسرت ہونے میں )تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کا حکم دیا ،
اسی طرح ایک اور حدیث جو کہ عاشورا کے روزے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ " افضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم "(مسلم :1163 ) رمضان کے بعد سب مہینے سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں -اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس روزے کی فضیلت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا " يكفر السنة الماضية "(ترمزي :752 )
البتہ یہ اور ان کے علاوہ بہت ساری احادیث ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سابقہ تمام شریعتوں میں عاشورا کے دن کی اہمیت اور تعظیم موجود تھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی شروع ہی سے اس کی تعظیم کرتے تھے اور صحابہ کو اس کا حکم بھی دیتے تھے،
اور چونکہ یہود بھی 10 محرم کو روزہ رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی موافقت اچھی نہ لگی تو آپ نے فرمایا " لءن بقيت إلي قابل لاصومن التاسع "(مسلم )کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہوں تو یقیناً 9 محرم کا بھی روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے-
تو اس حدیث سے مخالفت کا ثبوت ملتا ہے ،
ہاں البتہ یہ واضح رہے کہ آپ نے جو یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا اسی طرح کافروں کی مشابہت سے روکا اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو امور دین شریعت موسوی شریعت عیسوی یا دیگر انبیاء کی شریعتوں میں جائز اور جاری تھے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ترک کر دیا. کیوں کہ مخالفت کا مقصد انبیاء کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ ان کی نافرمان امتوں کی مخالفت کرنا تھا جنہوں نے جہالت ضد اور نفس پرستی کے تحت احکام شریعت میں من مانی تبدیلیاں کر لی تھیں، لہذا جب آپ کو یہ احساس ہوا کہ عاشورا کا روزہ رکھنے سے کہیں یہودیوں کی موافقت کا شبہ نہ ہو تو آپ نے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی اعلان کر دیا "(دیکھئے مسلم :1134 )
مگر افسوس دنیا کے نام نہاد مسلمانوں نے اس مہینے کی حرمت کو پامال کر دیا اس کی تاریخی حیثیت کو فراموش کر دیا اور اس کی شرعی حیثیت کو زنگ آلود کر کے نوحہ و ماتم. ڈھول تاشہ بین و باجہ اور دیگر منکرات میں پڑ گئے،
اور ساتھ ہی ساتھ 61ھجری میں کربلا کے میدان میں نواسۂ رسول حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا جو المناک سانحہ پیش آیا ہم بھی انہیں مانتے ہیں، لیکن حقائق کیا تھے؟ قصور وار کوئی تھا یا نہیں؟ یہاں یہ بحث مقصود نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ماہ محرم کو شیعہ حضرات نے خاص طور سے اس (شہادت کے )واقعہ کو جو رنگ دے رکھا ہے اور اسے منانے کا جو ڈھنگ اختیار کر رکھا ہے وہ بہت ہی بھونڈا خرافات کا گڑھ اور بدعات کا ملغوبہ ہے، کوئی بھی صاحب دین اور صاحب عقل ان بدعات و خرافات کی تائید نہیں کر سکتا -غور کیجئے ؛
جب کسی کی وفات ہوتی ہے تو فوری طور پر غم ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چند گھنٹے یا بہت تو چند دن گزرنے کے بعد غم خود بخود ہلکا ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوجاتا ہے -اور ان ماتم کرنے والوں کا غم نہ معلوم کیسا ہے جو سارا سال کہیں کھویا رہتا ہے ماتم کرنے والے شادیاں کرتے خوب کھاتے پیتے کاروبار کرتے ان کی عورتیں بنتیں سنورتی، غرض تمام کام دنیا جہاں کے کرتے ہیں جیسے ہی محرم کا چاند نظر آتا ہے حسین کی شہادت کا غم آکر ان کے سینوں پر لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے،
اور جب کہ ماتم کرنے والوں کو حسین سے زیادہ افضل زیادہ محبوب ہستی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا غم تو اس قدر نہیں تڑپاتا نہ ہی انہیں یکم محرم میں شہید ہونے والے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم جاگتا ہے نہ انہیں شہادت کی تڑپ اٹھتی ہے اور نہ ان کے دل حمزہ خبیب زید بن دثنہ رضی اللہ عنہم کی شہادتوں پر تڑپتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ انہیں غم ماتم کرنے پر نہیں اکساتا بلکہ انہیں شیطان ماتم کرنے رخسار پیٹنے گریباں چاک کرنے پر اکساتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے "ليس منا من لطم الخدود و شق الجيوب و دعا بدعوي الجاهلية "(بخاری )کہ جس نے نوحہ کیا اپنے رخسار اور منہ پیٹا اور گریباں چاک کیا وہ ہم میں سے نہیں،
اسی طرح ایک اور روایت کہ جب رسول کو خبر دی گئی کہ عورتیں جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رو رہی ہیں اور روک نے کے باوجود نہیں رک رہیں تو آپ نے فرمایا جاؤ جا کر ان کے سروں پر راکھ ڈال دو، (مسلم :کتاب الجنائز )
کیا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان حسین کے ماتم کرنے والوں کے لئے نہیں؟
نوحہ کرنا تو ایک طرف خود کو زنجیر مار مار کر زخمی کرنا بھلا یہ محبت کا کون سا اظہار ہے یا ماتم کرنے کا کون سا طریقہ ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ کسی مسلمان کے لئے تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ منانا جائز نہیں البتہ کسی عورت کا شوہر مرجاے تو وہ چار ماہ دس دن سوگ منا سکتی ہے، مگر افسوس ہے ہزارہا سال گزرنے کے بعد بھی نوحہ و ماتم کی یہ رسم ختم نہ ہو سکی حالانکہ یہ ایک کھلی گمراہی اور صریح بدعت ہے،
اسی طرح ایک اور خطرناک بدعت جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے . اور حق پرست لوگوں کے لئے ایک ناسور بنا ہوا ہے وہ بدعت ہے تعزیت کا -
تعزیت : تعزیہ تعزیت ہی کا عربی زبان میں تلفظ ہے اس کا مطلب ہے کسی مصیبت زدہ کو صبر کی تلقین کرنا اور اسلام میں ہر مسلمان پر یہ فرض ہے ہے کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھن بھائی کی تسلی کرے تاکہ اس کا غم ہلکا ہو؟،
لیکن دور حاضر میں تعزیہ سے مراد ہے' حسین کے مزار کی نقل بنا کر اسے سجانا سنوارنا اس کی تعظیم کرنا اس سے دعائیں کرنا اس پر چڑھاوے چڑھانا نذر و نیاز دینا اس پر منتیں ماننا یکم محرم سے 10 محرم تک اس بناوٹی مزار کے سامنے ماتمی لباس پہن کر خود کو زنجیریں مارنا سینہ کوبی کرنا یا حسین کا نعرہ لگانا مرثیے گانا شہادت حسین کے غلط مبالغہ آمیز اور بے سروپا واقعات بیان کرنا صحابہ کو لعن طعن کرنا فرضی حسین کا گھوڑا نکالنا اسکے بعد اس فرضی گھوڑے اور فرضی مزار کو دفن کرنا یا گھروں میں برکت کے لئے چھوڑنا وغیرہ،
تعزیے کی ابتدا کب ہوئی اس سلسلے میں مورخین رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ 341 ھجری میں ایک بدبخت نوجوان نے دعویٰ کیا کہ اس کے اندر علی رضی اللہ عنہ کی اور اس کی بیوی کے اندر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح حلول کر آئی ہے مصر کے فاطمی خلیفہ معز باللہ نے اس کی خوب پزیرائی کی -اور ساتھ ہی ساتھ مختار عبید ثقفی نے جس نے بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا اس نے اسی زمانے میں علی رضی اللہ عنہ کی(فرضی )کرسی کہیں سے ڈھونڈ نکالی اس کرسی کو سجایا اور اس پر منت ماننے اور چڑھاوے چڑھانے کا کام شروع کر دیا،
اس طرح(فرضی )علی اور فاطمہ اور مختار عبید ثقفی نے شیعی رسومات کی ابتدا کی اور معز باللہ نے سرکاری سطح پر انہیں عام کیا اس نے دس محرم کو دکانیں بند کرنے ماتمی لباس پہن کر ماتم کرنے حسین کا فرضی گھوڑا فرضی قبر بنانے کا کام شروع کر دیا ہوتے ہوتے یہ رسم دنیا بھر کے شیعہ مسلک رکھنے والوں میں پھیل گئی. کوفہ عراق ایران اور ان کے بعد پاکستان میں ان کے اثرات زیادہ پھیلے ہندوستان میں مغل بادشاہوں سے یہ رسم آئی، رامپور اودھ لکھنؤ وغیرہ کی ریاستوں کے نوابوں نے بھی تعزیے کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،
دراصل یہ رسم یہود کی سازش ہندو کی نقل اور روافض کے مکر کا نتیجہ ہے،اس مہینے کی خوشی اس کا روزہ اس کی تاریخی اور شرعی حیثیت فتح خیبر اور دوسرے عظیم تاريخ ساز معرکوں اور فتوحات کے اس مہینہ کو یہود نے ایک مکر کے ذریعہ ماتم حسین میں تبدیل کر دیا ہے،
چونکہ ہند و پاک کے مسلمانوں میں بہت سی رسمیں ہندوؤں سے گھس آئی ہیں' دیوالی کے مقابلہ میں شب برات دان کے مقابلہ میں نذر و نیاز مندروں کے مقابلہ میں درگاہیں اوتار کے مقابلہ میں اولیاء اسی طرح دسہرہ کے مقابلہ میں تعزیہ کی یہ رسم ہے،دسہرہ ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جس میں ہندو اپنے رام کی مورتی بناتا ہے اور دس دن تک اس مورتی کے آگے گانے اور اشعار پڑھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میرے رام آئیں گے اور دنیا سے ظلم کا خاتمہ کریں گے. پھر دسویں دن اس مورتی کو کسی ندی یا تالاب میں ایک جلوس کے ساتھ بہا دیتا ہے،یہی کام ایک مسلمان محرم الحرام میں کرتا ہے اور تعزیہ بناکر دس دن تک نوحہ و ماتم کرتا ہے تعزیتی جلسے کرتا ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا دم بھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے حسین آئیں گے اور دنیا سے ظلم کا خاتمہ کریں گے اور دسویں دن اس تعزیہ کو ایک جلوس کے ساتھ کسی قریبی ندی یا تالاب میں لے جا کر پھینک دیتا ہے، فرق یہ ہے کہ ہندو اپنے رام کو بلاتا ہے اور مسلمان اپنے حسین کو حالانکہ دونوں عمل شرک ہیں"
شاعر نے کیا ہی خوب فرمایا "
دیکھا جو تعزیہ کو تو پنڈت نے یہ کہا
تو نے میرے مندر کا نقشہ چرالیا
کاغذ میں جب حسین کو تو نے بلا لیا
پتھر کی مورتی میں خدا کیوں نہ آئے گا؟
ہندوستان میں یہ رسم امیر تیمور لنگ مغلیہ بادشاہ کے زمانہ میں اس کے ایک شیعہ وزیر معز الدولہ شیعی نے ایجاد کی تھی، افسوس تو یہ ہے کہ اس ماتم کے آڑ میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو برا بھلا کہا جاتا ہے انہیں گالیاں دی جاتی ہیں اور ان صحابہ کرام پر بھی تیر و نشتر چلائے جاتے ہیں جن کا اس واقعہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اس وقت وہ دنیا میں موجود ہی نہ تھے،
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ایک مکر وچال ہے یہی وجہ ہے کہ کربلا کا واقعہ بیان کرتے وقت حسین کے اصل قاتلوں کا نام بھی نہیں لیتے اس لئے ہمیں اس یہودی اور شیعی مکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،
الی تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس مہینے کی تاریخی و شرعی حیثیت کو پہچاننے اور اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہود و نصاریٰ کے مکر سے محفوظ رکھے، آمین
(طالب دعا، محمد نعمان سلفی )
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
محرم بدعات کے گھیرے میں کیوں؟

تحریر : محمد نعمان سلفی

جب سے زمین کی سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیار ہوئی تبھی سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ " إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض منها أربعة حرم ذالك الدين القيم، (التوبة :36) مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے اس دن سے جب سے اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ان میں سے چار مہینے ادب و احترام والے ہیں یہی سیدھا اور درست دین ہے.
اس آیت میں چار مہینے کی حرمت کا ذکر ہے جس کی تشریح و توضیح درج ذیل حدیث نبوی میں ہے آپ نے فرمایا " إن الزمان قد استدار كهيئة يوم خلق السموات والأرض السنة اثنا عشر شهراً منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذوالقعدة وذوالحجة والمحرم ورجب "(بخاری :3197 ) زمین و آسماں کے پیدائش کے دن ہی سے زمانہ گردش میں ہے سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مسلسل ہیں ذوالقعدة ذوالحجہ اور محرم جبکہ ایک مہینہ رجب کا ہے
تو پتہ چلا کہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ محرم کا بھی ہے جوکہ میرا موضوع بحث ہے تو ایئے جانتے ہیں کہ محرم کیا ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل کیا ہے -
محرم کا معنی ہے، ممنوع. حرام کیا گیا. عظمت والا. اور لائق و احترام کے،
اور اس مہینے میں عاشورا کے دن یعنی محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم ہے چونکہ یہ وہ دن ہے جس میں موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور ان کی قوم سے نجات ملی تھی اور اس خوشی میں موسی علیہ السلام نے 10؟محرم کا روزہ رکھا تھا اور اسی خوشی میں یہودی بھی روزہ رکھتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی خود اس کا اہتمام کیا اور ساتھ ہی ساتھ قبائل و اطراف میں اس روزہ کے سلسلے میں اعلان بھی کروایا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ": ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما هذا اليوم الذي تصومونه فقالوا هذا يوم عظيم انجي الله فيه موسى وقومه وغرق فرعون و قومه فصامه موسى شكراً فنحن نصومه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحن أحق و اؤلي بموسي منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بصيامه ": (مسلم، كتاب الصيام -باب صوم يوم عاشوراء :1130 )ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم لوگ روزہ رکھتے ہو تو ان لوگوں نے کہا یہ ایک اچھا دن ہے اس روز اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دلائی تھی اور فرعون اور ان کی قوم کو غرقاب کیا تھا تو موسی نے اس دن کا روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں موسی کے (شریک مسرت ہونے میں )تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کا حکم دیا ،
اسی طرح ایک اور حدیث جو کہ عاشورا کے روزے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ " افضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم "(مسلم :1163 ) رمضان کے بعد سب مہینے سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں -اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس روزے کی فضیلت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا " يكفر السنة الماضية "(ترمزي :752 )
البتہ یہ اور ان کے علاوہ بہت ساری احادیث ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سابقہ تمام شریعتوں میں عاشورا کے دن کی اہمیت اور تعظیم موجود تھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی شروع ہی سے اس کی تعظیم کرتے تھے اور صحابہ کو اس کا حکم بھی دیتے تھے،
اور چونکہ یہود بھی 10 محرم کو روزہ رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی موافقت اچھی نہ لگی تو آپ نے فرمایا " لءن بقيت إلي قابل لاصومن التاسع "(مسلم )کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہوں تو یقیناً 9 محرم کا بھی روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے-
تو اس حدیث سے مخالفت کا ثبوت ملتا ہے ،
ہاں البتہ یہ واضح رہے کہ آپ نے جو یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا اسی طرح کافروں کی مشابہت سے روکا اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو امور دین شریعت موسوی شریعت عیسوی یا دیگر انبیاء کی شریعتوں میں جائز اور جاری تھے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ترک کر دیا. کیوں کہ مخالفت کا مقصد انبیاء کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ ان کی نافرمان امتوں کی مخالفت کرنا تھا جنہوں نے جہالت ضد اور نفس پرستی کے تحت احکام شریعت میں من مانی تبدیلیاں کر لی تھیں، لہذا جب آپ کو یہ احساس ہوا کہ عاشورا کا روزہ رکھنے سے کہیں یہودیوں کی موافقت کا شبہ نہ ہو تو آپ نے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی اعلان کر دیا "(دیکھئے مسلم :1134 )
مگر افسوس دنیا کے نام نہاد مسلمانوں نے اس مہینے کی حرمت کو پامال کر دیا اس کی تاریخی حیثیت کو فراموش کر دیا اور اس کی شرعی حیثیت کو زنگ آلود کر کے نوحہ و ماتم. ڈھول تاشہ بین و باجہ اور دیگر منکرات میں پڑ گئے،
اور ساتھ ہی ساتھ 61ھجری میں کربلا کے میدان میں نواسۂ رسول حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا جو المناک سانحہ پیش آیا ہم بھی انہیں مانتے ہیں، لیکن حقائق کیا تھے؟ قصور وار کوئی تھا یا نہیں؟ یہاں یہ بحث مقصود نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ماہ محرم کو شیعہ حضرات نے خاص طور سے اس (شہادت کے )واقعہ کو جو رنگ دے رکھا ہے اور اسے منانے کا جو ڈھنگ اختیار کر رکھا ہے وہ بہت ہی بھونڈا خرافات کا گڑھ اور بدعات کا ملغوبہ ہے، کوئی بھی صاحب دین اور صاحب عقل ان بدعات و خرافات کی تائید نہیں کر سکتا -غور کیجئے ؛
جب کسی کی وفات ہوتی ہے تو فوری طور پر غم ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چند گھنٹے یا بہت تو چند دن گزرنے کے بعد غم خود بخود ہلکا ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوجاتا ہے -اور ان ماتم کرنے والوں کا غم نہ معلوم کیسا ہے جو سارا سال کہیں کھویا رہتا ہے ماتم کرنے والے شادیاں کرتے خوب کھاتے پیتے کاروبار کرتے ان کی عورتیں بنتیں سنورتی، غرض تمام کام دنیا جہاں کے کرتے ہیں جیسے ہی محرم کا چاند نظر آتا ہے حسین کی شہادت کا غم آکر ان کے سینوں پر لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے،
اور جب کہ ماتم کرنے والوں کو حسین سے زیادہ افضل زیادہ محبوب ہستی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا غم تو اس قدر نہیں تڑپاتا نہ ہی انہیں یکم محرم میں شہید ہونے والے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم جاگتا ہے نہ انہیں شہادت کی تڑپ اٹھتی ہے اور نہ ان کے دل حمزہ خبیب زید بن دثنہ رضی اللہ عنہم کی شہادتوں پر تڑپتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ انہیں غم ماتم کرنے پر نہیں اکساتا بلکہ انہیں شیطان ماتم کرنے رخسار پیٹنے گریباں چاک کرنے پر اکساتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے "ليس منا من لطم الخدود و شق الجيوب و دعا بدعوي الجاهلية "(بخاری )کہ جس نے نوحہ کیا اپنے رخسار اور منہ پیٹا اور گریباں چاک کیا وہ ہم میں سے نہیں،
اسی طرح ایک اور روایت کہ جب رسول کو خبر دی گئی کہ عورتیں جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رو رہی ہیں اور روک نے کے باوجود نہیں رک رہیں تو آپ نے فرمایا جاؤ جا کر ان کے سروں پر راکھ ڈال دو، (مسلم :کتاب الجنائز )
کیا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان حسین کے ماتم کرنے والوں کے لئے نہیں؟
نوحہ کرنا تو ایک طرف خود کو زنجیر مار مار کر زخمی کرنا بھلا یہ محبت کا کون سا اظہار ہے یا ماتم کرنے کا کون سا طریقہ ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ کسی مسلمان کے لئے تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ منانا جائز نہیں البتہ کسی عورت کا شوہر مرجاے تو وہ چار ماہ دس دن سوگ منا سکتی ہے، مگر افسوس ہے ہزارہا سال گزرنے کے بعد بھی نوحہ و ماتم کی یہ رسم ختم نہ ہو سکی حالانکہ یہ ایک کھلی گمراہی اور صریح بدعت ہے،
اسی طرح ایک اور خطرناک بدعت جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے . اور حق پرست لوگوں کے لئے ایک ناسور بنا ہوا ہے وہ بدعت ہے تعزیت کا -
تعزیت : تعزیہ تعزیت ہی کا عربی زبان میں تلفظ ہے اس کا مطلب ہے کسی مصیبت زدہ کو صبر کی تلقین کرنا اور اسلام میں ہر مسلمان پر یہ فرض ہے ہے کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھن بھائی کی تسلی کرے تاکہ اس کا غم ہلکا ہو؟،
لیکن دور حاضر میں تعزیہ سے مراد ہے' حسین کے مزار کی نقل بنا کر اسے سجانا سنوارنا اس کی تعظیم کرنا اس سے دعائیں کرنا اس پر چڑھاوے چڑھانا نذر و نیاز دینا اس پر منتیں ماننا یکم محرم سے 10 محرم تک اس بناوٹی مزار کے سامنے ماتمی لباس پہن کر خود کو زنجیریں مارنا سینہ کوبی کرنا یا حسین کا نعرہ لگانا مرثیے گانا شہادت حسین کے غلط مبالغہ آمیز اور بے سروپا واقعات بیان کرنا صحابہ کو لعن طعن کرنا فرضی حسین کا گھوڑا نکالنا اسکے بعد اس فرضی گھوڑے اور فرضی مزار کو دفن کرنا یا گھروں میں برکت کے لئے چھوڑنا وغیرہ،
تعزیے کی ابتدا کب ہوئی اس سلسلے میں مورخین رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ 341 ھجری میں ایک بدبخت نوجوان نے دعویٰ کیا کہ اس کے اندر علی رضی اللہ عنہ کی اور اس کی بیوی کے اندر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح حلول کر آئی ہے مصر کے فاطمی خلیفہ معز باللہ نے اس کی خوب پزیرائی کی -اور ساتھ ہی ساتھ مختار عبید ثقفی نے جس نے بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا اس نے اسی زمانے میں علی رضی اللہ عنہ کی(فرضی )کرسی کہیں سے ڈھونڈ نکالی اس کرسی کو سجایا اور اس پر منت ماننے اور چڑھاوے چڑھانے کا کام شروع کر دیا،
اس طرح(فرضی )علی اور فاطمہ اور مختار عبید ثقفی نے شیعی رسومات کی ابتدا کی اور معز باللہ نے سرکاری سطح پر انہیں عام کیا اس نے دس محرم کو دکانیں بند کرنے ماتمی لباس پہن کر ماتم کرنے حسین کا فرضی گھوڑا فرضی قبر بنانے کا کام شروع کر دیا ہوتے ہوتے یہ رسم دنیا بھر کے شیعہ مسلک رکھنے والوں میں پھیل گئی. کوفہ عراق ایران اور ان کے بعد پاکستان میں ان کے اثرات زیادہ پھیلے ہندوستان میں مغل بادشاہوں سے یہ رسم آئی، رامپور اودھ لکھنؤ وغیرہ کی ریاستوں کے نوابوں نے بھی تعزیے کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،
دراصل یہ رسم یہود کی سازش ہندو کی نقل اور روافض کے مکر کا نتیجہ ہے،اس مہینے کی خوشی اس کا روزہ اس کی تاریخی اور شرعی حیثیت فتح خیبر اور دوسرے عظیم تاريخ ساز معرکوں اور فتوحات کے اس مہینہ کو یہود نے ایک مکر کے ذریعہ ماتم حسین میں تبدیل کر دیا ہے،
چونکہ ہند و پاک کے مسلمانوں میں بہت سی رسمیں ہندوؤں سے گھس آئی ہیں' دیوالی کے مقابلہ میں شب برات دان کے مقابلہ میں نذر و نیاز مندروں کے مقابلہ میں درگاہیں اوتار کے مقابلہ میں اولیاء اسی طرح دسہرہ کے مقابلہ میں تعزیہ کی یہ رسم ہے،دسہرہ ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جس میں ہندو اپنے رام کی مورتی بناتا ہے اور دس دن تک اس مورتی کے آگے گانے اور اشعار پڑھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میرے رام آئیں گے اور دنیا سے ظلم کا خاتمہ کریں گے. پھر دسویں دن اس مورتی کو کسی ندی یا تالاب میں ایک جلوس کے ساتھ بہا دیتا ہے،یہی کام ایک مسلمان محرم الحرام میں کرتا ہے اور تعزیہ بناکر دس دن تک نوحہ و ماتم کرتا ہے تعزیتی جلسے کرتا ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا دم بھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے حسین آئیں گے اور دنیا سے ظلم کا خاتمہ کریں گے اور دسویں دن اس تعزیہ کو ایک جلوس کے ساتھ کسی قریبی ندی یا تالاب میں لے جا کر پھینک دیتا ہے، فرق یہ ہے کہ ہندو اپنے رام کو بلاتا ہے اور مسلمان اپنے حسین کو حالانکہ دونوں عمل شرک ہیں"
شاعر نے کیا ہی خوب فرمایا "
دیکھا جو تعزیہ کو تو پنڈت نے یہ کہا
تو نے میرے مندر کا نقشہ چرالیا
کاغذ میں جب حسین کو تو نے بلا لیا
پتھر کی مورتی میں خدا کیوں نہ آئے گا؟
ہندوستان میں یہ رسم امیر تیمور لنگ مغلیہ بادشاہ کے زمانہ میں اس کے ایک شیعہ وزیر معز الدولہ شیعی نے ایجاد کی تھی، افسوس تو یہ ہے کہ اس ماتم کے آڑ میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو برا بھلا کہا جاتا ہے انہیں گالیاں دی جاتی ہیں اور ان صحابہ کرام پر بھی تیر و نشتر چلائے جاتے ہیں جن کا اس واقعہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اس وقت وہ دنیا میں موجود ہی نہ تھے،
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ایک مکر وچال ہے یہی وجہ ہے کہ کربلا کا واقعہ بیان کرتے وقت حسین کے اصل قاتلوں کا نام بھی نہیں لیتے اس لئے ہمیں اس یہودی اور شیعی مکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،
الی تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس مہینے کی تاریخی و شرعی حیثیت کو پہچاننے اور اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہود و نصاریٰ کے مکر سے محفوظ رکھے، آمین
(طالب دعا، محمد نعمان سلفی )
عمدہ ما شاء الله
 
Top