• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرم شخص سے سرزد ہونے والی غلطیاں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محرم شخص سے سرزد ہونے والی غلطیاں

ہم بذریعہ ہوائي جہاز جدہ آتے ہيں توکیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم جدہ پہنچنے تک حج کا احرام مؤخر کرلیں ؟

Published Date: 2012-10-18

الحمدللہ :

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

وہ غلطیاں جوبعض حجاج کرام سے احرام کے سلسلہ میں سرزد ہوتی ہیں:

پہلامعاملہ :

میقات سےاحرام نہ باندھنا ، بعض حجاج کرام اورخاص کرفضائي راستے سے آنے والے جدہ اترنے تک احرام نہیں باندھتے اورمیقات سے احرام باندھنا ترک کردیتے ہیں ،حالانکہ وہ میقات کے اوپرسے گزرتے بھی ہیں ،اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل میقات کےلیے میقات مقرر فرمادیے ہیں :

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( یہ اہل میقات کے لیے اوران کے لیے ہیں جویہاں سے گزریں ان کے لیے بھی میقات ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1524 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1181 ) ۔

اور صحیح بخاری میں عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب ان سے اہل عراق نے شکایت کی کہ اہل نجد کے لیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات مقرر کیا ہے وہ ان کے راستہ سے دود اور راستے سے ہٹ کر ہے تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا : تم اس کے محاذي اپنے راستے میں اس کے برابر دیکھ لو ( یعنی اس کی محاذات سے احرام باندھ لیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1531 ) ۔

تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ میقات کے برابر والی جگہ سے احرام باندھنا میقات سے ہی گزرنے کی مانند ہے ، لھذا جو کوئي بھی ہوائی جہاز کے ذریعہ میقات کے برابر سے گزر رہا ہو تو اسے مقیات کی محاذی جگہ سے ہی احرام باندھ لینا چاہیے ، اوراس کے لیے یہ جائز نہيں کہ وہ بغیر احرام باندھے ہی میقات سے گزرے اور جدہ اتر کر احرام باندھے ۔

اس غلطی کوصحیح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے گھر سےیا پھر ہوائي اڈے سے غسل کرلے اورہوائي جہاز میں تیار رہے اورمیقات سے پہلے اپنا عام لباس اتار کراحرام کی چادریں پہن لے اورعمرہ یا حج میں سے جوبھی کرنا ہواس کا تلبیہ کہ لے ، اوراس لیے بالکل یہ جائز نہيں کہ وہ جدہ پہنچنے تک احرام نہ باندھے کیونکہ ایسا کرنا غلط ہے ، اورجمہوراہل علم کے ہاں ایسا کرنے پراس کےذمہ دم لازم آتا ہے جومکہ میں ذبح کرکے حرم کے فقراء مساکین میں تقسیم کیا جائے گا ، کیونکہ اس نے ایک واجب ترک کیا ہے ۔

دوسرا معاملہ :

بعض لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ احرام کے وقت جوتے ہونا ضروری ہیں ، اور اگر احرام باندھتے وقت اس نے جوتے نہ پہنے ہوں تو پھر وہ جوتے نہيں پہن سکتا ، لیکن یہ اعتقاد خاطئی ہے کیونکہ جوتوں اورچپلوں میں احرام نہ تو شرط ہے اورنہ ہی واجب ، اس لیے چپلوں کےبغیر بھی احرام ہو جاتا ہے اور اس میں کوئي ممانعت نہيں کہ احرام باندھتے وقت اس نے جوتے نہيں پہنے تھے لھذا وہ بعد میں بھی نہيں پہن سکتا بلکہ اس کے لیے بعد میں بھی جوتے پہننا جائز ہیں اگرچہ اس نے احرام کے وقت نہ بھی پہنے ہوں اس میں کوئي حرج والی بات نہيں ۔

تیسرامعاملہ :

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہيں کہ احرام کا لباس ہی ضروری ہے اورحلال ہونے تک وہ اسی لباس میں رہے گا اوراحرام کا وہ لباس تبدیل نہیں کرسکتا ، لیکن یہ اعقتاد اور خیال بھی غلط ہے ، اس لیے کہ احرام والا اپنے احرام کی چادریں اورلباس تبدیل کرسکتا ہے اور ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے چاہے وہ لباس کسی سبب کی بنا پر تبدیل کیا جائے یا بغیر سبب کے ہی بدل لے ، لیکن صرف اتنا ہے کہ وہ اسے اسی لباس میں تبدیل کرے جواس کے لیے پہننا جائز ہے ( یعنی دوسری چادریں پہن لے )

اس میں مرد اورعورت کے مابین کوئي فرق نہيں لھذا جوکوئي بھی احرام باندھ لے اوراسے تبدیل کرنا چاہے وہ اسے تبدیل کرسکتا ہے ، لیکن بعض اوقات اس لباس کو تبدیل کرنا واجب بھی ہو جاتا ہے مثلا اگر اس لباس کو ایسی نجاست لگ جاتی ہے جسے اتارنے کے بغیردھونا ہی ممکن نہيں ، یا بعض اوقات اس کا اتارنا بہتر اور افضل ہوتا ہے مثلا اگر وہ نجاست کے بغیر ہی گندے ہوچکے ہوں تو اس حالت میں ضروری ہے کہ صاف ستھرا احرام پہن لیا جائے ۔

اور بعض اوقات تو یہ معاملہ بہت ہی وسیع ہوتا ہے چاہے تو احرام کا لباس تبدیل کرلے اور چاہے تو وہ پہنے رکھے ، اہم بات یہ ہے کہ ایسا اعتقاد رکھنا صحیح نہيں کہ حاجی جب احرام باندھے لے اس لیے احرام ختم ہونے تک اسے بدلنا جائز نہيں ، یہ اعتقاد غلط ہے ۔

چوتھا معاملہ :

بعض لوگ احرام باندھتے وقت ہی اضطباع کر لیتے ہيں یعنی جب احرام کی نیت کرتے ہیں تو وہ اضطباع کر لیتے ہیں ، اور اضطباع یہ ہے کہ انسان اپنے دائيں کندھے کے نیچے سے احرام کی چادر نکال کراپنے بائيں کندھے پر ڈالے اوردایاں کندھا ننگا رکھے ، لھذا ہم بہت سے حجاج کرام کو دیکھتے ہیں کہ وہ احرام باندھنے سے لیکر حلال ہونے تک اضبطاع کی حالت میں ہی رہتے ہیں ، جوکہ ایک غلط کام ہے کیونکہ اضطباع توصرف طواف قدوم میں ہی کیا جاتا ہے ، نہ تو طواف سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اور نہ سعی میں بلکہ صرف طواف قدوم میں ہی اضطباع کرنا ضروری ہے ۔

پانچواں معاملہ :

بعض لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ احرام باندھتے وقت دو رکعات ادا کرنا واجب ہے ، یہ اعتقاد بھی غلط ہے ، کیونکہ احرام کے وقت انسان پر دو رکعت کی ادائيگي واجب نہيں ، بلکہ اس میں راجح قول تو یہی ہے کہ احرام کے لیے خاص کوئي نماز نہيں ہے ، اسے شیخ الاسلام ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہيں ہے ۔

لھذا جب انسان غسل کرلے تو بغیر نماز کی ادائيگي کے ہی احرام کی چادریں پہنے ، لیکن اگر نماز کا وقت ہو یعنی فرضی نماز کا وقت قریب ہو یا وقت ہوچکا ہو اور وہ میقات پر نماز تک کے لیے رکنا چاہے تو پھر بہتر اور افضل یہی ہے کہ وہ فرضي نماز کے بعد احرام کی نیت کرے ، لیکن احرام کے لیے جان بوجھ کر نماز کی ادائيگي صحیح نہيں کیونکہ اس میں راجح اورصحیح قول یہی ہے کہ احرام کے ساتھ خاص نماز کوئي نہيں کہ احرام باندھتے وقت اس کی ادائيگي ضروری ہو ۔انتھی ۔ .

دلیل الاخطاء التی یقع فیھا الحاج ولمعتمر سےلیا گيا ۔

https://islamqa.info/ur/33738
 
Top